وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْمُفْلِحُوْنَO
اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا جائے پس وہی لوگ کامیاب ہیں
ازل سے ھی “نفس” اور “شیطان” انسان کے دو بڑے اور مکار دشمن ھیں ۔ دونوں کے کام کرنے کا طریقہ کار تو الگ الگ ھے لیکن مقصد دونوں کا قریب قریب ایک ھی ھے کہ انسان کو گمراھی کے گڑھے میں دھکیل دیا جائے تاکہ وہ اپنی اُخروی اور ابدی زندگی میں ناکام ھو جائے ۔ نفس اندر سے اور شیطان باہر سے وار کرتا ھے دونوں وسوسہ ڈالتے ہیں جس سے انسانی دماغ میں ایک سوچ پیدا ہوتی ھے جو انسان کو بدعملی پر ابھارتی ھے مگر شیطان اور نفس کے وسوسے میں بڑا واضح فرق یہ ہوتا ھے کہ شیطان انسان کو دھیرے دھیرے ورغلاتا ھے براہ راست گناہ میں مبتلا نہیں کرتا آہستہ آہستہ مستقل مزاجی سے لگا رھتا ھے شیطان کا کام گناہ ، خطا اور رب کی نافرمانی کو پرلطف بنا کر پیش کرنا ھوتا ھے وہ اس میں انسان کو مزہ اور لطف دکھاتا ھے اور اپنی اس ڈیوٹی کو انتھک اور مستقل مزاجی سے سرانجام دیتا ھے ۔دائیں ، بائیں ، آگے ، پیچھے ھر سمت سے ذھن میں وسوسے ڈالتا رہتا ھے ۔ ایک گناہ میں مبتلا کرتا ھے پھر دوسرے میں پھر تیسرے میں اور یہ سلسلہ انسان کی آخری سانس تک چلتا ہی رہتا ھے ۔ شیطان کا کام تو صرف ورغلانا ھوتا ھے جو اللہ کی طرف سے شیطان کو اپنے بندوں کے امتحان کے طور پر دی گئی ایک ڈیوٹی ھے جسے وہ بخوبی نبھا رہا ھے آجکل اس کو اپنا کام کرنے میں زیادہ دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا کیونکہ حضرت انسان نے خود ھی اُس کے لئے بہت آسانیاں پیدا کی ھوئی ھیں ۔ اکثر انسان خود کہتے ھیں کہ آؤ اور ھمیں وہ رستہ بتاؤ جس پر چل کر ھمیں دولت ،شہرت اور انسانوں پر حکمرانی کا اختیار مل جائے۔
اب رھا نفس کا معاملہ تو اس کا کام بھی انسان میں خفیہ طور پر وسوسے پیدا کرنا ھے مگر اس کا انداز شیطان سے بہت مختلف ہوتا ھے بہت سے ایسے لوگ جو شیطان کے وسوسوں سے تو اپنے آپ کو بچا لیتے ھیں لیکن نفس کے وسوسوں میں قابو آجاتے ھیں ۔ نفس کے بارے ایک اہم بات ذہن نشین کر لینی چاھیے کہ یہ آپ کا اپنا ھے بھی اور نہیں بھی یعنی بیک وقت یہ آپ کا قلبی دوست بھی ھے اور مکار دشمن بھی۔ اس میں ایک ضدی بچے سے لے کر ظالم دشمن تک کی تمام صفات بدرجۂ اتم موجود ہیں جنہیں یہ مختلف حالات میں الگ الگ روپ میں بخوبی نبھاتا رہتا ھے ۔ اس کا مقصد آپ کو نیچا دکھانا نہیں بلکہ اپنا آپ منوانا ھوتا ھے ، یہ بہت ضروری ھے کہ اسے اسکی رضا کو فوقیت دیے جانے کا احساس دلایا جائے ورنہ آپ پر فتح پانے کی کوشش کا نتیجہ آپ کے لیے ضرررساں ثابت ھوسکتا لہذا اپنی عقلمندی اور سمجھ داری سے اس کی چھوٹی چھوٹی باتیں مان کر اور اپنی باتوں سے بہلا کر اپنی ھر بات منواتے رہیں
ارسطو کا قول ھے کہ زندگی کی سب سے بڑی فتح نفس پر قابو پانا ہے۔ اگر نفس نے دل پر فتح پا لی تو سمجھو دل مردہ ہے۔
زندگی کی بڑی فتح اللہ کی خاطر اپنے نفس پر قابو پا لینا ہے- ہم اکثر اپنے نفس کی شرارتوں کو پہچانتے ہیں لیکن اس پر قابو نہیں پا سکتے ، اس کے شر سے خود کو بچا نہیں سکتے ، اُس کے سامنے خود کو کمزور پاتے ہیں ، اس کے خلاف کچھ نہیں کر پاتے ، اور اگر کبھی کبھار اگر کچھ حرکت کر بھی لیتے ہیں تو معمولی سی جدو جہد ہمیں تھکا کر اس کے سامنے ہرا دیتی ہے اور ہم اس کی تابع فرمانی میں لگ جاتے ہیں.
نفس کے خلاف جہاد ، نفس خواھشات کی خلاف ورزی کا نام ہے ، ان خواھشات کا خاتمہ کرنا ہے ، یعنی لذات و شہوات ، ان لذات و شہوات میں سے کچھ تو حرام ہیں ، جن پر عمل کرنا حلال نہیں ، مثلاً نشہ کرنا ، نماز ترک کرنا ، غیر محرم کی طرف نظر کرنا ، حرام آوازیں سننا جن میں موسیقی گانے اور شرکیہ کلام شامل ہیں ، غیبت اور چغل خوری وغیرہ اور کچھ ایسی ہیں جو مکروہ ہیں ، جنہیں حاصل کرنے سے ، ان پر عمل کرنے سے حرام کا گناہ تو نہیں ہوتا لیکن ان کی کثرت انسان کو حرام میں داخل کر دینے کاسبب ہو جاتی ہے ، مثلاً نماز با جماعت میں تاخیر کرنا، بلا ضرورت اور بلا حجاب غیر محرموں سے بات چیت کرنا ، وغیرہ ، اللہ تعالیٰ نے نفس کی مخالفت کا حکم دیا ہے اور ان لوگوں کی تعریف کی ہے جو اپنے نفس کے خلاف چلتے ہیں۔
وہ نفس جو برائی پر ابھارتا ہے۔ ترک نفس یا ترک خواہش بندے کو امیر بنادیتی ہے اور خواہش کی پیروی امیر کو اسیر بنادیتی ہے۔ جس طرح زلیخا نے اپنے نفس کی پیروی کی، امیر تھی لیکن اسیر (قیدی) ہوگئی اور حضرت یوسف علیہ السلام نے خواہش کو ترک کیا اسیر تھے، امیر ہوگئے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو حیوانیت کا نام دیا ہے کیونکہ یہ نفس انسان کو جانوروں والی حیوانیت اور سفاکیت پر ابھارتا ہے۔ یعنی جب نفس حیوانی کا قوت روحانی پر غلبہ ہوجائے تو اس کو نفس امارہ کہتے ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ
وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَویٰ فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ہِیَ الْمَاْویٰ
اور جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا، اس کا ٹھکانہ جنت ہے۔
خودی (نفس) کی اصلاح اور اس کو مرتبہ کمال پر پہنچانے کے لیے خود (نفس) کو بری صفات سے پاک کرکے اور اپنی (نفس کی)حالت (صفات و اخلاقیات) کو بہتر سے بہتر بنا کر ہی انسان اشرف المخلوقات ہونے کا درجہ حاصل کر سکتا ہے بقول علامہ اقبال؛
خودی کا سر نہاں لَا اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰہ
خودی ہے تیغ فساں لَا اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰہ
خود (نفس) کی اصلاح اور اس کی حالت (صلاحیتوں) کو مرتبہ کمال تک پہنچانے کا راز توحید میں ہے۔ تمام غیر خداوں کی نفی کر کے صرف ایک اللہ کے احکامات کی پیروی کی جائے۔ وہ احکامات جو اللہ نے اپنے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانوں کی ہدایت اور تزکیہ نفس کے لئے دیئے۔ بس خود کی اصلاح (پہچان، تزکیہ نفس) کے لئے رسول اللہ ﷺ کی پیروی کی جائے۔ جو شخص جتنا زیادہ خود (نفس) کو رسول اللہ ﷺ کی سنت کے رنگ میں ڈالے گا وہ اتنی زیادہ اللہ کی محبت اور معرفت (قرب) حاصل کرے گا۔
جیسا کہ مشہور عربی قول ہے۔ ’’مَنْ عَرَفَ نَفْسَهُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ‘‘ (جس نے خود کو پہچان لیا اُس نے اپنے رب کو پہچان لیا)۔ مطلب جس نے خود (نفس) کو بری خواہشات سے پاک کر لیا اچھی اخلاقیات اپنا لی اس نے اللہ کا قرب (معرفت) حاصل کر لیا اور خود کو کامیاب کر لیا۔
علامہ اقبال نے بھی اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو اُن کی ذات کی تکمیل کے لیے، تزکیہ نفس (خود کو پاک) کرنے اور بہترین صفات و اخلاقیات سے آراستہ کرنے کا درس دیا ہے تاکہ وہ انسان کے بلند ترین درجہ اشرف المخلوقات کو حاصل کر کے اللہ تعالی کی محبت کے حق دار بن سکیں اور دنیا و آخرت میں کامیابی و سرفرازی حاصل کرسکیں۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے
آپ ؒ نے تزکیہ نفس کے لیے، خود کو بلند کرنے، اپنی ذات کی تکمیل کے لئے، اشرف المخلوقات کے درجے کو حاصل کرنے کے لیے صرف ایک ہی رستہ بتایا ہے اور وہ یہ کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور ان کی سیرت کی مکمل پیروی کرکے اپنی صفات و اخلاقیات کو بہتر اور بلند کیا جائے۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہی
قرآن پاک میں کامیابی کا رستہ خود (نفس) کو پاک کرنے کا ارشاد فرمایا گیا ہے۔
’’قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰہا ‘‘ (الشمس: ۹)
’’بیشک جس نے نفس (خود) کو برائیوں سے پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگیا۔‘‘
’’قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى‘‘ (اعلٰی: ۱۴)
بیشک جس نے خود کو پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ نفس (خود) کو برائیوں سے پاک کرنا کامیابی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ نفس کو مذموم صفات جیسے تکبر و ریاکاری، بغض وحسد، لالچ وحرص اور دنیا کی محبت وغیرہ سے پاک کرنا اُخروی کامیابی حاصل ہونے کا ذریعہ ہے۔ نفس برائیوں سے اسی وقت پاک ہو سکتا ہے جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کی جائے۔
’’وَمَن يُطِعِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَيَخۡشَ ٱللَّهَ وَيَتَّقۡهِ فَأُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡفَآئِزُونَ‘‘ (النور: ٥٢)
’’اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور اللہ سے ڈرے اوراس (کی نافرمانی) سے ڈرے تو یہی لوگ کامیاب ہیں۔‘‘
وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا‘‘ (الحزب: ۷۱)
’’اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے اس نے بڑی کامیابی پائی۔‘‘
رسول اللہ ﷺ کا حکم اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور نبی کریم ﷺ کے مقابلے میں کوئی مسلمان اپنے نفس کی خواہش کی پیروی کا بھی خود مختار نہیں چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے؛
مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْؕ-وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًاؕ(الاحزاب: ۳۶)
”اور کسی مسلمان مرد اور عورت کیلئے یہ نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی بات کا فیصلہ فرما دیں تو انہیں اپنے معاملے کا کچھ اختیار باقی رہے اور جو اللہ اور اس کے رسول کاحکم نہ مانے تووہ بیشک صر یح گمراہی میں بھٹک گیا۔
تزکیہ نفس کے لیے سیرت رسول اللہ ﷺ بہترين نمونہ ہے: ارشاد باری تعالی ھے
’’لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِیْرًاؕ‘‘(الاحزاب: ۲۱)
’’بیشک تمہارے لئےاللہ کے رسول میں بہترین نمونہ موجود ہے اس کے لیے جو الله اور آخرت کے دن کی امید رکھتا ہے اور الله کو بہت یاد کرتا ہے۔‘‘
قرآن ہاک میں تزکیہ نفس کے لیے، خود کو بلند کرنے، اپنی ذات کی تکمیل کے لئے سیرت رسول اللہ ﷺ کی پیروی واطاعت کا حکم دیا گیا ھے چنانچہ ارشادِ باری تعالی ھے
’’قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘ (ال عمران: ۳۱)
اے حبیب! فرما دو کہ اے لوگو! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ اللہ تم سے محبت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
’’وَ مَاۤ اٰتٰيكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۚ-وَ مَا نَهٰيكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاۚ‘‘ (الحشر: ٧)
’’اوررسول جو کچھ تمہیں عطا فرمائیں وہ لے لو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں تو تم باز رہو‘‘
اگر کوئی بھی کام کرتے وقت یہ سوچ لیا جائے کہ اللہ دیکھ رہا ھے اور ھم اپنے ھر عمل پر اللہ پاک کے سامنے جواب دہ ھیں تو اس سے نفس پر کامیابی پائی جاسکتی ھے اور یاد رکھیں کہ کسی بھی کام کا اللہ پاک نے بدلہ ضرور دینا ھے اچھائی کا بدلہ اچھائی اور برائی کا بدلہ ھمشہ برائی کی صورت ھی ملے گا کسی بھی انسان کا دوسروں کے لئے کیا گیا براعمل درحقیقت اس کے اپنے حق میں نقصان دہ ھوتا ھے جو اس کے نامہ اعمال کی تاریکی میں اضافہ کا باعث بنتا ھے ۔ اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ھے اور اس کو گمراہ کرنے کے لئے شیطان کو بھی پیدا فرمایا ھے لیکن حقیقت یہ ھے کہ گمراھی کے لئے شیطان سے بھی زیادہ اس کا اپنا نفس ذمہ دار ھوتا ھے ۔ نفس کی نفاست اس چیز کی متقاضی ھے کہ اسے غلاظت بھرے وسوسوں سے پاک رکھا جائے اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ھوکر خواہشات نفسانی پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا ھے اگر کوئی غلط کام ھو بھی جائے تو پلٹ کر توبہ کا دروازہ کھٹکھٹایا جاسکتا ھے اللہ ھم سب کو خواہشات نفس کی پیروی کرنے سے بچا کر رشد و ھدایت کا راستہ اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
بہرحال انسان جتنی بھی برائیوں کا مرتکب ھوتاھے ان کا محرک یا تو شیطان کا مکر وفریب ھوتا ھے یا پھر اس کے اپنے ھی نفس کا دھوکہ ھوتا ھے انسان کے لئے اس کا نفس ابلیس یعنی شیطان سے بھی بڑا دشمن ھے کیونکہ انسان برائیوں کا ایک بڑا حصہ نفس کے مکر وفریب کی وجہ سے اور اس کو راضی کرنے کے لئے ھی کرتا ھے اگر نفس کی صحیح اصلاح ھو جائے تو انسان بہت سی برائیوں سے محفوظ ھو سکتا ھے اور شیطان کے مکر و فریب سے بھی بچ سکتا ھے نفس کی اصلاح کی کوشش کرنا ھر ایک مسلمان کے لئے لازمی ھے
کیا آپ نے کبھی تنہائی میں اپنے نفس کی اصلاح کے بارے میں سوچا ھے؟ کبھی آپ نے اپنے ضمیر کو مخاطب کر کے اُس سے کچھ باتیں بھی کی ہیں کہ میری اِس زندگی کا مقصد کیا ھے؟میرا اپنے پیارے الله سے کتنی حد تک تعلق اور مُحبت ھے؟
بنیادی سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ نفس کی اصلاح کیسے کی جائے؟ سو اس کے لئے مختلف طریقے اختیار کیے جاتے ھیں سلسلۂ تصوف میں بھی اس کے بہت سے طریقے موجود ھیں لیکن اس سلسلہ میں آج کل ایک تو اللہ والوں کے روپ میں شیطان کے چیلوں یعنی علم وعمل سے بے بہرہ شہرت اور دولت کے طالب بہروپیوں کی بہتات ھے دوسرا ان میں بعض طریقوں میں نفس کی اصلاح کے لئے سخت قسم کے مجاھدے کروائے جاتے ھیں لیکن آجکل چونکہ ھمتیں بہت ھی کمزور ھو چکی ھیں دنیا پوری طرح ھمارے اعصاب پر سوار ھے اس لئے بہت ھی کم لوگ ایسے ھیں جو یہ مجاھدے کر پاتے ھیں چونکہ نفس کی اصلاح بہت ضروری ھے تو ضرورت اس امر کی ھے کہ کوئی ایسا طریقہ ھو جس میں مجاھدہ بھی سخت نہ ھو اور نفس کی اصلاح کا کام بھی ھو جائے
اپنے نفس کی اصلاح کا ایک آسان نسخہ
دو رکعت نفل نماز توبہ کی نیت کرکے مکروہ اوقات کے علاوہ کسی بھی وقت میں پورے خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھ کر یہ دعا مانگیں
اے اللہ! میں آپ کا سخت نافرمان بندہ ہوں ۔ میں فرماں برداری کا ارادہ کرتا ھوں مگر میرے ارادے سے کچھ نہیں ہوتا اور آپ کے ارادے سے سب کچھ ھو سکتا ھے
میں چاہتا ھوں کہ میری اصلاح ھو جائے اور گناہ چُھوٹ جائیں مگر ہمت نہیں ہوتی آپ ہی کے اختیار میں میری اصلاح ھے
اے اللہ! میں سخت نالائق ہوں، سخت گناہ گار ھوں میں تو عاجز ھو رہا ھوں آپ ہی میری مدد فرمائیے
یا اللہ ؛ میرا دل ضعیف ہے گناہوں سے بچنے کی قوت نہیں ہے آپ ہی قوت دیجیئے میرے پاس کوئی سامان نجات نہیں آپ ہی غیب سے میری نجات کا سامان پیدا کر دیجئیے
اے اللہ! جو گناہ میں نے اب تک کیے ہیں صغیرہ ھیں یا کبیرہ انہیں آپ اپنی رحمت سے معاف فرما دیجیے
یا اللہ : میں یہ نہیں کہتا کہ میں بذات خود بہت باھمت ھوں میں ہر طرح سے خود سے اپنی حفاظت کر سکتا ھوں
*نہیں ایسا ھرگز نہیں ھے*
بلکہ آپ ہی کی مدد کا طلبگار ھوں
یا اللہ : میں آپ سے تعلق توڑنا نہیں چاہتا لیکن میں بہت کمزور ھوں نفس مجھ پر غالب آ چکا ھے اے اللہ : مجھے نفس کے دھوکہ سے بچائیں میں اس دنیا کے ھیر پھیر اور رونق پر دھوکہ کھا چکا ھوں گناہوں کے دلدل میں پھنس چکا ھوں
اے اللہ: مجھے اس دلدل سے نکال دیں
غرض اسی طرح سے روزانہ اپنے گناہوں کی معافی اور عجز کا اقرار اپنی اصلاح کی دعا اور اپنی نالائقی کو خوب اپنی زبان سے کہہ لیا کریں۔ آپ صرف 10 منٹ روزانہ یہ عمل کر لیا کریں آپ دیکھیں گے کہ کچھ دنوں بعد غیب سے ایسا انتظام ھو جائے گا کہ ہمت بھی مضبوط اور طاقت ور بن جائے گی اور دشواریاں بھی پیش نہ آئیں گی غرض غیب سے ایسا سامان ھو جائے گا جو آپ کے ذہن میں بھی نہیں ہے اور آپکا اپنے پیارے الله سے تعلق بنتا رھے گا اور مضبوط ھوتا رھےگا بس صرف دل سے ندامت و پشیمانی ظاہر کرنے اور روزانہ تنہائی میں 10 منٹ وقت دینے کا ابھی سے عزم کر لیں ان شاء اللہ آپ کو اس کےبہت آچھے نتائج حاصل ھوں گے
اللہ تعالی ھم سب کو عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔
آمین یا رب العالمین