دنیا خواھشات کی تکمیل کی جگہ نھیں ھے


اللہ تعالی نے حضرت انسان کو کچھ صلاحیتوں اور خواھشات کے ساتھ اس دنیا میں بیجھا اور اسے یہ بھی بتا دیا گیا کہ یہ خواھشات اس دنیا میں مکمل ھونا ممکن نہیں ھیں بلکہ یہ اگر اللہ تعالی  کی رضا کے مطابق زندگی گزار کر عالم آخرت میں آئے گا تو وھاں پر اس کی  ھر قسم کی خواھشات پوری کی جائیں گی سو انسان کتنی ھی کوشش کیوں نہ کر لے اس دنیا میں اس کی ھر خواھش پوری نہیں ھوسکتی اور خواھشات کو ادھورا چھوڑ کر اس کو بالآخر اس دنیا کو چھوڑنا ھی ھے

حدیث مبارکہ ھے

عبد الله بن عباس وأنس بن مالك وعبد الله بن الزبير وأبي موسى الأشعري -رضي الله عنهم- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «لو أن لابنِ آدمَ واديًا من ذَهَبٍ أَحَبَّ أن يكونَ له واديانِ، ولَنْ يملأَ فَاهُ إلا الترابُ، ويَتُوبُ اللهُ عَلَى مَنْ تَابَ».   

[صحيح.] - [حديث عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما-: متفق عليه. حديث أنس بن مالك -رضي الله عنه-: متفق عليه. حديث عبد الله بن الزبير -رضي الله عنهما-: رواه البخاري. حديث أبي موسى الأشعري -رضي الله عنه-: رواه مسلم.] 

عبد اللہ بن عباس، انس بن مالک، عبد اللہ بن زبیر اور ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر ابنِ آدم کے پاس سونے کی ایک وادی ہو، تو چاہے گا کہ اس کے پاس دو وادیاں ہوں اور اس کے منہ کو مٹی کے سوا کوئی چیز نہیں بھر سکتی اور اللہ توبہ کرنے والے کی توبہ کو قبول کرتا ہے“۔   

نبی ﷺ بتا رہے ہیں کہ اگر ابن آدم کو سونے سے بھری ایک وادی مل جائے تو اپنی طبعی لالچ کی بنا پر وہ خواہش کرے گا کہ اس کے پاس دو اور وادیاں ہوں اور یہ کہ تا دم موت وہ دنیا کی چاہت میں گرفتار رہتا ہے یہاں تک کہ مر جاتا ہے اور اس کا پیٹ اس کی قبر کی مٹی سے بھر جاتا ہے۔

ایک دوسری حدیث مبارکہ ھے 

حَدَّثَنَا أَبُومَرْوَانَ الْعُثْمَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنِ الْعَلاءِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " لَوْ أَنَّ لابْنِ آدَمَ وَادِيَيْنِ مِنْ مَالٍ، لأحَبَّ أَنْ يَكُونَ مَعَهُمَا ثَالِثٌ، وَلا يَمْلأُ نَفْسَهُ إِلا التُّرَابُ، وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ تَابَ "۔

* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، 

- ابو ہریرہ رضی اللہ  تعالی عنہ روایت کرتے ھیں کہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' اگر ابن آدم (انسان) کے پاس مال کی دو وادیاں ہوں تو وہ یہ تمنا کرے گا کہ ایک تیسری وادی اور ہو، مٹی کے علاوہ اس کے نفس کو کوئی چیز نہیں بھر سکتی ، اور اللہ تعالی جس کو چاہتا ہے اس کی توبہ قبول کرتا ہے ''۔


انسان کی آرزو اور عمر کے متعلق ایک حدیث مبارکہ میں ھے

حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ وَأَبُو بَكْرِ بْنُ خَلادٍ الْبَاهِلِيُّ، قَالا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَبِي يَعْلَى، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ خَطَّ خَطًّا مُرَبَّعًا، وَخَطًّا وَسَطَ الْخَطِّ الْمُرَبَّعِ، وَخُطُوطًا إِلَى جَانِبِ الْخَطِّ الَّذِي وَسَطَ الْخَطِّ الْمُرَبَّعِ، وَخَطًّا خَارِجًا مِنَ الْخَطِّ الْمُرَبَّعِ فَقَالَ: " أَتَدْرُونَ مَا هَذَا؟ " قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: " هَذَا الإِنْسَانُ الْخَطُّ الأَوْسَطُ، وَهَذِهِ الْخُطُوطُ إِلَى جَنْبِهِ الأَعْرَاضُ تَنْهَشُهُ أَوْ تَنْهَسُهُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ، فَإِنْ أَخْطَأَهُ هَذَا، أَصَابَهُ هَذَا، وَالْخَطُّ الْمُرَبَّعُ الأَجَلُ الْمُحِيطُ، وَالْخَطُّ الْخَارِجُ الأَمَلُ "۔

* تخريج: خ/الرقاق ۴ (۶۴۱۷)، ت/صفۃ القیامۃ ۲۲ (۲۴۵۴)، (تحفۃ الأشراف ۹۲۰۰)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۸۵)، دي/الرقاق ۲۰ (۲۷۷۱) (صحیح)

- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک چوکور لکیر کھینچی، اور اس کے بیچ میں ایک لکیر کھینچی ، اور اس بیچ والی لکیر کے دونوں طرف بہت سی لکیریں کھینچیں ، ایک لکیر چوکور لکیر سے باہر کھینچی اور فرمایا:'' کیا تم جانتے ہو یہ کیا ہے '' ؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں ،آپ ﷺ نے فرمایا: ''یہ درمیانی لکیر انسان ہے، اور اس کے چاروں طرف جو لکیریں ہیں وہ عوارض (بیماریاں ) ہیں، جو اس کو ہر طرف سے ڈستی یانوچتی اور کاٹتی رہتی ہیں، اگرایک سے بچتا ہے تو دوسری میں مبتلا ہو جاتا ہے، چوکور لکیر اس کی عمر ہے ، جس نے احاطہ کر رکھا ہے اور باہر والی لکیر اس کی آرزو ہے '' ۱؎ ۔

یعنی آدمی اپنی عمر سے زیادہ آرزو کرتا ہے، اور ایسے انتظامات  کرتا اور ایسی عمارت بنا تا ہے جن کے مکمل ہو نے سے پہلے ہی اس کی عمر گزر جاتی ہے۔


انسان کے جسم میں  اللہ تعالی نے خصوصی طور پر پانچ ممتاز صلاحیتیں رکھی ہیں- اللہ تعالی کی ودیعت کی ھوئی ان صلاحیتوں کو حواسِ خمسہ کہا جاتا ہے- 

یہ پانچ ممتاز صلاحیتیں یہ ہیں:

اول   :   دیکهنا

دوئم  :  چهونا

سوئم :  چکهنا

چہارم : سونگهنا 

پنجم  :  سننا


یہ پانچ حواس، دراصل پانچ مقاماتِ لذت ہیں- ان میں سے ہر ایک صلاحیت کے اندر خالق و مالک  نے بے پناه لذت رکهی ہے- انسان کے لیے دیکهنا بهی ایک انتہائی لذیذ تجربہ ہے،

چهونا بهی ایک لذیذ تجربہ ہے، چکھنا بهی ایک لذیذ تجربہ ہے، سونگهنا بهی ایک لذیذ تجربہ ہے،

اور سننا بهی ایک لذیذ تجربہ ہے- 


اس کائنات میں کسی بهی دوسری مخلوق کے اندر، بشمول حیوانات، ان لذتوں سے انجوائے کرنے کی صلاحیت موجود نہیں ھے یہ صرف انسان کی ھی استثنائی صفت ہے کہ وه کسی چیز سے انتہائی لطیف قسم کی محظوظیت حاصل کر سکتا ہے-


اسی کے ساتهہ انسان کے اندر چهٹی حس بهی موجود ہے- یہ چهٹی حس سوچنے کی صلاحیت ہے- یہ چهٹی حس، انسان کے لیے سب سے زیاده اعلی لذت کے حصول کا ذریعہ ہے- یہ ایک حقیقت ہے کہ سوچنا، انسان کی ایک انوکهی صفت ہے- سوچنا، انسان کے لیے اتهاه لذت کا خزانہ ہے- سوچنے کا فعل بظاہر دکهائی نہیں دیتا، مگر وه انسان کو ایسی سپر لذت دیتا ہے جس کا حصول کسی بهی دوسری چیز کے ذریعے ممکن نہیں-


اسی کی ساتھ یہ بھی ایک امر واقعہ ہے کہ انسان ان لذتوں کو محسوس  تو کرتا ہے، لیکن وه موجوده دنیا میں ان لذتوں کی تسکین وتکمیل  کا سامان نہیں پاتا- ہر آدمی بے پناه لذتوں کے ساتهہ پیدا هوتا ہے اور پهر تهوڑی مدت کے بعد ہر عورت اور ہر مرد غیر تکمیل شده خواہشات کے ساتهہ مر جاتے ہیں-


اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں انسان  کے پاس خواہشیں ہیں، لیکن یہاں اس کے لیے خواہشات کی تکمیل کا سامان موجود نہیں- یہ حقیقت اس بات کا حتمی اشاره ہے کہ اس خالق و مالک کے تخلیقی پلان کے مطابق، ان خواہشات کی تکمیل کا سامان، قبل از موت مرحلہ حیات میں نہیں رکها گیا، بلکہ وه بعد از موت مرحلہ حیات میں رکها گیا ہے-یہ خواہشیں انسان کو  اس زندگی میں اس لیے دی گئی ہیں کہ وه حقیقتِ حیات کو سمجهے اور اس کے مطابق وه اپنی زندگی کی منصوبہ بندی  اس طرح کرے کہ اس کا رب اس سے راضی ھو جائے تاکہ پھر مرنے کے بعد کی ھمیشہ ھمیشہ کی زندگی میں ان تمام خواھشات کی تکمیل کا اسے موقعہ مل سکے  جہاں اس کی ھر خواھش کو پورا کیا جائے گا حدیث مبارکہ کا مفھوم ھے کہ ایک صہابی رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے گھوڑوں کا بہت شوق ھے کیا جنت میں گھوڑے ملیں گے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر تو جنت میں چلا جائے اور تو چاھے کہ تجھے ایسا گھوڑا ملے جو اُڑ کر تمام جنت کی سیر کروا دے تو یہ بھی ممکن ھو گا

تو  ضرورت اس امر کی ھے کہ ھم اس دنیا کی مختصر زندگی میں  اللہ تعالی کی دی ھوئی صلاحیتوں کو اللہ تعالی کی رضا کے مطابق استعمال کرلیں تو مرنے کے بعد ھمیشہ ھمیشہ کی زندگی میں ھم ھر قسم کی خواھشات کو پورا کرنے کے حقدار بن جائیں گے

اللہ پاک ھم سب کو مرنے سے پہلے  پہلے مرنے کے بعد کی زندگی کی صحیح تیاری کرنے کی توفیق عنایت فرمائے

آمین یا رب العالمین

Share: