ام معبد رضی اللہ تعالی عنھا وہ خوش نصیب صہابیہ ھیں جنہیں براہ راست انوار نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور برکات نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مشاھدہ کرنے کا موقعہ ملا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں برکت کہ دعا دی اُم معبد رضی اللہ تعالی عنھا کا خیمہ ھی وہ جگہ تھی جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ منورہ منورہ ہجرت کے وقت سوکھی اور مریل بکری سے دودہ دھونے والا معجزہ ظاہر ہوا اور پھر ام معبد رضی اللہ تعالی عنھا نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا حلیہ مبارک جن عظیم الفاظ میں بیان کیا اہل علم آج بھی اس پر انگشت بدنداں ہیں-
جس زمانے میں آفتاب اسلام فاران کی چوٹیوں سے طلوع ہو رہاتھا مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ جانے والے راستے پر قدید نام کی ایک چھوٹی سی بستی صحرا کے متصل واقع تھی۔ اس میں ایک مختصر سا غریب خاندان اپنی زندگی کے دن بڑی عجیب انداز میں گزار رہا تھا۔ اس گھرانے کی ساری متاع لے دے کے ایک خیمے، بکریوں کے ایک ریوڑ، گنتی کے چند برتنوں اور مشکیزوں پر مشتمل تھی۔ خاندان کا سربراہ ایک جفاکش بدوی تمیم بن عبدالعزّیٰ خزاعی تھا۔ اس کا بیشتر وقت بکریاں چرانے میں گزرتا تھا۔ تمیم کی اہلیہ اسکی بنتِ عم عاتکہ بنت خالد(بن خلیف بن منقذ بن ربیعہ بن احرم بن خبیس بن حرام بن حبیثہ بن سلول بن کعب بن عمرو) تھی۔ دونوں کا تعلق بنو خزاعہ کی شاخ بنی کعب سے تھا۔ عاتکہ ایک پاک دامن، باوقار اور بلند حوصلہ خاتون تھیں اور اپنی کنیت ’’امّ معبد‘‘ سے مشہور تھیں وہ عربوں کی روایتی مہمانداری سے خاص طور پر متّصف تھیں اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں ایثار اور خدمت خلق کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھر دیا تھا۔ افلاس اور تنگدستی کے باوجود وہ قدید سے گزرنے والے مسافروں کی نہایت خوشدلی سے میزبانی کیا کرتی تھیں اور ان کی خدمت اور تواضع میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتی تھیں پانی، دودھ، کھجوریں، گوشت جو کچھ میسر ہوتا مہمانوں کی خدمت میں پیش کر دیتی تھیں۔ جب کوئی مسافر اسکے خیمے میں سستا کر آگے روانہ ہوتا تو اسکی زبان پر امّ معبد رضی اللہ تعالی عنھا کیلئے تعریف و تحسین اور دعائیں ہی ہوتی تھیں اس طرح امّ معبد رضی اللہ تعالی عنھا کا نام مسافروں کی بے لوث خبر گیری اور خدمت و تواضع کی بدولت دور دور تک مشہور ہو گیا تھا اور لوگ اسکی عالی حوصلگی اور شرافت کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے۔
بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تیرہویں سال تک امّ معبد رضی اللہ تعالی عنھا کو خلقِ خدا کی خدمت کرتے سالہا سال گزر چکے تھے اور وہ جوانی کی منزلوں سے گزر کر پختہ عمر کو پہنچ چکی تھی۔ اس وقت رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم عرب کے صحرا نشینوں میں ’’صاحب قریش‘‘ کے لقب سے مشہور تھے۔ تمیم اور امّ معبد رضی اللہ تعالی عنھما کے کانوں میں بھی ’’صاحب قریش‘‘ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی بھنک پڑ چکی تھی، تاہم وہ زندگی کی ڈگر پر اپنے معمول کے مطابق چلتے رہے۔ ان غریب اور سادہ مزاج بدویوں کیلیے یہ بڑا کٹھن کام تھا کہ ایسی باتوں کی تحقیق کیلئے دور دراز کی خاک چھانتے پھریں۔ ۔ لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ ایک دن انکی صحرائی قیام گاہ صاحب قریش صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طلعت اقدس سے جگمگا اٹھے گی اور کائنات ارضی اور سماوی کا ذرہ ذرہ اس کے مکینوں کی خوش بختی پر رشک کرے گا۔
ربیع الاوّل سنہ 13 بعثت میں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارضِ مکہ کو الوداع کہا اور تین راتیں غار ثور میں گزار کر عازم مدینہ منورہ ہوئے۔ اس وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ آپ کے ہم رکاب تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک اونٹنی پر سوار تھے اور وہ دونوں دوسری اونٹنی پر۔ اس مقدس قافلے کے آگے آگے عبداللہ بن اریقط لیثی پیدل چل رہا تھا۔ وہ غیر مسلم ہونے کے باوجود ایک قابل اعتماد شخص تھا اور مکہ سے مدینے جانے والے تمام راستوں سے واقف تھا۔ اسلیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے راستہ بتانے کیلیے اسے اجرت پر اپنے ساتھ لے لیا تھا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک سانڈنی پر سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سوار تھے اور دوسری پر حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن قریقط۔ یہ مختصر قافلہ قدید کے مقام پر پہنچا تو حضرت اسما رضی اللہ عنہا(ذات النطاقین) بنت صدیق اکبر نے غار سے روانگی کے وقت جو کھانا ساتھ کیا تھا وہ ختم ہو چکا تھا اور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو بھوک اور پیاس محسوس ہو رہی تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت امّ معبد رضی اللہ عنہا کی شہرت سن رکھی تھی اور انہیں یقین تھا کہ اسکی قیام گاہ پر کھانے پینے کا کچھ انتظام ہو جائیگا۔ چنانچہ یہ مقدس قافلہ امّ معبد رضی اللہ تعالی عنھا کے خیمے پر جا کر رکا۔
وہ اس وقت اپنے خیمے کے آگے صحن میں بیٹھی ہوئی تھیں ان دنوں خشک سالی نے سارے علاقے پر قیامت ڈھا رکھی تھی اس وجہ سے امّ معبد رضی اللہ تعالی عنھا کے گھرانے پر بھی بہت مشکل وقت آن پڑا تھا۔ بڑی تنگی ترشی سے گزر بسر ہو رہی تھی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امّ معبد رضی اللہ تعالی عنھا سے فرمایا: ’’دودھ، گوشت، کھجوریں، کھانے کی کوئی چیز تمہارے پاس ہو تو ہمیں دو، ہم اسکی قیمت ادا کرینگے۔‘‘
امّ معبد رضی اللہ تعالی عنھا نے بصد حسرت جواب دیا۔: خدا کی قسم اس وقت کوئی چیز ہمارے گھر میں آپ حضرات کو پیش کرنے کیلئے موجود نہیں ہے۔ اگر ہوتی تو فوراً حاضر کر دیتی۔‘‘
اتنے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ایک مریل سی بکری پر پڑی جو خیمے میں ایک طرف بندھی کھڑی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’معبد کی ماں اگر اجازت ہو تو اس بکری کا دودھ دوہ لیں۔‘‘
امّ معبد رضی اللہ تعالی عنھا نے کہا۔:’’ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بڑے شوق سے دودھ دوہ لیں مگر مجھے امید نہیں کہ یہ دودھ کا ایک قطرہ بھی دے۔‘‘
اب وہ بکری حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لائی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکے پاؤں باندھے اور اسکی پیٹھ پر ہاتھ پھیر کر دعا کی۔: ’’الٰہی اس عورت کی بکریوں میں برکت دے۔‘‘
اسکے بعد چشم فلک نے ایک تحیّر خیز نظارہ دیکھا۔ سید المرسلین فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر جونہی بکری کے تھنوں کو چھوا، تھن فی الفور دودھ سے بھر گئے اور بکری ٹانگیں پھیلا کر کھڑی ہو گئی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بڑا برتن منگا کر دودھ دوہنا شروع کردیا، جلد ہی یہ برتن لبالب بھر گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے یہ دودھ امّ معبد رضی اللہ تعالی عنھا کو پلایا، اس نے خوب سیر ہو کر پیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو پلایا، جب وہ بھی سیر ہو گئے تو آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود پیا :
اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ دودھ دوہنا شروع کیا یہاں تک کے برتن پھر لبالب بھر گیا۔ یہ دودھ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے امّ معبد رضی اللہ تعالی عنھا کے لیے چھوڑ دیا اور آگے روانہ ہوئے۔
امّ معبد رضی اللہ تعالی عنھا کا بیان ہے کہ جس بکری کا دودھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوہا تھا وہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت تک ہمارے پاس رہی، ہم صبح و شام اسکا دودھ دوہتے تھے اور اپنی ضرورتیں بخوبی پوری کرتے تھے۔
رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لے جانے کے تھوڑی دیر بعد امّ معبد رضی اللہ تعالی عنھا کا شوہر اپنے ریوڑ کو لے کر جنگل سے واپس آیا۔ خیمے میں دودھ سے بھرا برتن دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اہلیہ سے پوچھا: ’’معبد کی ماں یہ دودھ کہاں سے آیا؟‘‘
امّ معبد رضی اللہ تعالی عنھا نے جواب دیا: ’’خدا کی قسم ایک بابرکت مہمان عزیز کا یہاں ورود ہوا۔ انہوں نے بکری کو دوہا۔ خود بھی اپنے ساتھیوں سمیت سیر ہو کر پیا یہ دودھ ہمارے لیے بھی چھوڑ گئے۔‘‘
پھر اس نے تفصیل کے ساتھ سارا واقعہ بیان کیا۔
ابومعبد تمیم رضی اللہ تعالی عنھ نے کہا: ’’ذرا اسکا حلیہ تو بیان کرو۔‘‘
امّ معبد رضی اللہ تعالی عنھا نے بے ساختہ سید البشر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حلیہ مبارک بیان کیا تاریخ نے اسے اپنے صفحات میں محفوظ کرلیا ہے۔ اس نے کہا:
’’پاکیزہ صورت، حسین و جمیل، روشن چہرہ، بدن فربہ نہ نحیف، متناسب الاعضاء، خوبصورت آنکھیں، بال گھنے، سیدھی گردن، آنکھ کی پتلیاں روشن، سرمگیں چشم، باریک و پیوستہ ابرو، سیاہ گھنگریالے بال، خاموش ہوتے تو نہایت باوقار معلوم ہوتے۔ تکلم دل نشین، دور سے دیکھنے میں نہایت سجیلے، اور دلربا۔ قریب سے نہایت شیریں و خوبرو، شیریں کلام، واضح الفاظ، کلام الفاظ کی کمی بیشی سے پاک، تمام گفتگو موتیوں کی لڑی جیسی پروئی ہوئی( یعنی مسلسل مربوط اور بر محل) میانہ قد کے کوتاہی سے حقیر نظر نہیں آتے، نہ طویل کے آنکھ وحشت زدہ ہو جائے۔ زیبندہ نہال کی شاخ تازہ،زیبندہ منظر، عالی قدر،رفقا ایسے کہ ہر وقت گردوپیش رہتے ہیں جب وہ کچھ کہتے ہیں تو بڑی توجہ سے سنتے ہیں اور جب وہ حکم دیتے ہیں تو تعمیل کیلیے لپکتے ہیں۔ مخدوم، مطاع، مالوف، نہ ادھوری بات کرنے والے نہ ضرورت سے زیادہ بولنے والے۔‘‘
ابو معبد رضی اللہ تعالی عنھا یہ صفات سن کر بول اٹھے کہ خدا کی قسم یہ تو وہی صاحب قریش صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے جن کا ذکر ہم سنتے رہتے ہیں، میں ان سے جا کر ملوں گا۔
حضرت امّ معبد رضی اللہ تعالی عنھا کے قبول اسلام کی دو مختلف روایات ہیں۔ ایک روایت یہ ہے کہ ان کے کانوں میں ’’صاحب قریش‘‘ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بھنک پہلے سے پڑ چکی تھی۔ چنانچہ جب پہلے پہل ان کی نظر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رخ انور پر پڑی تو ان کے دل نے گواہی دی کہ یہ وہی صاحب قریش صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں جو توحید کے داعی اور نیکی و ہدایت کا سرچشمہ ہیں۔ بکری کا واقعہ دیکھا تو انہیں قطعی یقین ہو گیا کہ مہمان عزیز اللہ کے سچے رسول ہیں چنانچہ وہ اسی وقت سچے دل سے مسلمان ہو گئیں تھیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کیلیے دعائے خیر و برکت فرمائی۔
دوسری روایت یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ منورہ تشریف لیجانے کے بعد ابو معبد رضی اللہ تعالی عنہ اور امّ معبد رضی اللہ تعالی عنھا دونوں میاں بیوی ہجرت کرکے مدینہ منورہ پہنچے اور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر سعادت ایمانی سے بہرہ مند ہوئے۔
حضرت امّ معبد رضی اللہ تعالی عنھا کی زندگی کے مزید حالات تاریخ کی کتابوں میں نہیں ملتے تاہم ان کی زندگی کے ایک واقعہ نے جو اوپر بیان ہوا ہے انہیں شہرت عام اور بقائے دوام میں اتنا بلند مقام عطا کردیا کہ ملت اسلامیہ کے تمام افراد ابد الآباد تک اس پر رشک کرتے رہیں گے۔
٭٭٭٭٭