ڈگری سینٹی گریڈ پر پہنچ جاتا ہے تو شاہی خاندان طائف میں منتقل ہو جاتا ہے۔ شدید گرمی میں بھی یہاں درجہ حرارت 35 ڈگری سے زیادہ نہیں بڑھ پاتا۔ ایک پہاڑی مقام ہونے کے علاوہ اس کی اپنی تاریخی اہمیت بھی ہے اور اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی سیرت طیبہ سے گہرا تعلق ہے۔
دور جاہلیت میں اس شہر کا شمار مکہ کے بعد عرب کے اہم ترین شہروں میں ہوتا تھا۔ یمن سے آنے والی دو تجارتی شاہراہوں میں سے ایک پر طائف واقع تھا۔ مکہ کے کئی رئیسوں نے یہاں اپنے فارم ہاؤس بنائے ہوئے تھے۔ شہر میں بنو ثقیف اور بنو ہوازن کے قبائل آباد تھے۔ اس کے اطراف میں بنو سعد آباد تھے جن کی آبادی طائف سے لے کر مکہ کے ایک طرف سے ہوتی ہوئی حدیبیہ تک جاتی تھی۔
اس شہر کو حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم سے کئی طرح کی نسبت ہے۔ آپ کا بچپن اسی شہر کے اطراف میں بنو سعد کے علاقے میں گزرا۔ انہی سر سبز پہاڑیوں میں دوڑ کر آپ بچپن سے لڑکپن کی حدود میں داخل ہوئے۔ اسی شہر کے قریب سیل کبیر کے علاقے میں آپ کی نوجوانی کی عمر میں جنگ فجار ہوئی جس میں آپ بھی کسی حد تک شریک تھے۔ آپ کی دعوتی زندگی کا سب سے تکلیف دہ وقت بھی اسی طائف میں گزرا جب یہاں کے اوباشوں نے آپ پر پتھروں کی بارش کی اور آپ نے اس کے جواب میں بھی دعا ہی دی۔ غزوہ حنین اور غزوہ طائف بھی اسی علاقے میں وقع پذیر ہوئے جن کے بعد کوئی بڑی جنگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی زندگی میں سامنے نہ آئی۔
طائف کے سفر کے لئے ہم نے جمعہ کے دن کا انتخاب کیا کیونکہ اس دن چھٹی تھی۔ صبح فجر کے بعد نیند کا دوسرا راؤنڈ چلا کیونکہ یہاں پر مجھے صرف ایک ہی ہفتہ وار چھٹی دستیاب ہوتی تھی۔ تقریباً ساڑہے دس بجے آنکھ کھلی اور میں نے اپنی فیملی کو جگایا۔ ساڑہے گیارہ بجے ہم لوگ تیار ہو کر نکل چکے تھے۔ اس وقت جمعہ کی نماز کے لئے پہلی اذان دی جارہی تھی۔ سعودی عرب میں یہ رواج ہے کہ جمعہ کی پہلی اذان زوال سے قبل ہی دے دی جاتی ہے۔ زوال کے فوراً بعد دوسری اذان ہوتی ہے اور امام صاحب خطبہ دیتے ہیں۔ اس کے بعد نماز ہوتی ہے۔ایک بجے تک سب لوگ جمعہ کی نماز سے فارغ ہو چکے ہوتے ہیں۔ ہمارا ارادہ یہ تھا کہ جمعہ کی نماز راستے میں ادا کریں گے۔
آدھے گھنٹے میں ہم لوگ حدیبیہ یا شمیسی کے مقام پر جا پہنچے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں صلح حدیبیہ ہوئی تھی۔ کئی سو سال کے بعد اس مقام کا نام شمیسی پڑ گیا۔ یہاں سے طائف کے لئے ایک بائی پاس بنا ہوا ہے۔ غیر مسلم اسے کرسچن بائی پاس کہتے ہیں۔ اس مقام سے طائف جانے کے دو راستے ہیں۔ایک راستہ تو یہی کرسچن بائی پاس ہے اور دوسرا راستہ حرم مکہ کی حدود کے اندر مکہ کے تیسرے رنگ روڈ سے ہوتا ہوا طائف کی طرف جاتا ہے۔ مکہ میں داخل ہو کر دائیں جانب تیسرے رنگ روڈ پر مڑ جائیے۔ مزدلفہ کے قریب ایک مقام پر دائیں جانب طائف جانے کا راستہ نکلتا ہے۔ کرسچن بائی پاس بھی اسی روڈ پر آملتا ہے۔ میرا تجربہ ہے کہ مکہ کے اندر کا راستہ نسبتاً جلد طے ہو جاتا ہے کیونکہ کرسچن بائی پاس زگ زیگ پہاڑیوں سے گزر کر آتا ہے۔ طائف جانے کا ایک تیسرا طویل راستہ مکہ سے براستہ سیل کبیر طائف کی طرف جاتا ہے۔
کرسچن بائی پاس
اس مرتبہ ہم نے کرسچن بائی پاس کا انتخاب کیا۔ حدیبیہ سے تھوڑی دور چلے تھے کہ گھنے سبزے میں ڈھکی ہوئی ایک وادی نظر آئی۔ اس بے آب و گیاہ ، وادی غیر ذی زرع میں اتنا سبزہ دیکھ کر حیرت ہوئی۔ قریب جا کر معلوم ہوا کہ یہ ویسے ہی صحرائی پودے ہیں جو کراچی اور حیدر آباد کے درمیان نظر آتے ہیں۔ یہاں یہ اتنے گھنے تھے کہ ان کے بیچ میں زمین دکھائی نہ دے رہی تھی۔ غالباً اس کی وجہ طائف کے پہاڑوں سے آنے والا پانی تھا۔ ذرا سی نمی ملنے پر یہ جھاڑیاں بہت تیزی سے پھیلتی ہیں۔
تھوڑا سا آگے جا کر سیاہ پہاڑ نظر آئے جنہیں چوٹی تک سنہری ریت نے ڈھانپا ہوا تھا۔ کہیں کہیں سیاہ چٹانوں کے کونے باہر نکلے ہوئے تھے۔ یہ جگہ وادی ملکان کہلاتی ہے۔ یہاں وسیع ریتلے میدان میں ہر سائز کے بے شمار اونٹ چر رہے تھے ۔ ان کی خوراک وہی صحرائی پودے تھے۔ اس علاقے میں صدیوں سے یہی منظر نظر آتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے دور میں بھی ایسا ہی منظر ہوتا ہو گا جہاں آپ اپنے بچپن اور لڑکپن میں بکریاں اور اونٹ چراتے ہوں گے۔
دور نوکیلی پہاڑیوں کا ایک سلسلہ نظر آرہا تھا۔ ان میں سے ایک پہاڑی بالکل شہادت کی انگلی کی طرح سب سے الگ تھلگ سیدھی کھڑی تھی ۔ یہ ایک نہایت ہی خوبصورت منظر تھا۔ تھوڑا سا آگے جا کر ایک فیکٹری آئی۔ نجانے یہ کس چیز کی فیکٹری تھی۔ اس سے تھوڑا سا آگے ایک چھوٹا سا ائر پورٹ تھا جو صرف ایک چھپر اور ایک رن وے پر مشتمل تھا۔ غالباً یہ پرائیویٹ ائر پورٹ تھا۔ چھپر کے نیچے ننھے منے جہاز کھڑے تھے جن میں سے کئی ٹوسیٹر تھے۔ اس قسم کے جہاز میں نے اسلام آباد ائر پورٹ پر بھی دیکھے تھے۔ وہاں یہ عموماً مختلف ممالک کے سفارت خانوں کی ملکیت ہوتے ہیں۔ اب ہم وادی ام دوحہ میں داخل ہو گئے۔ ایک مسجد پر نظر پڑتے ہی میں نے جمعہ کی نماز کے لئے گاڑی روک دی۔
اس روڈ پر خاصے گمراہ کن بورڈ لگے ہوئے تھے۔ ایک بورڈ پر راستے کو آگے جا کر بند دکھایا گیا تھا۔ میں سارا راستہ اسی شش و پنج میں گاڑی آہستہ چلاتا رہا کہ کہیں اچانک روڈ بند نہ ہوجائے۔ ایک مقام پر طائف کا بورڈ لگا ہوا تھا اور تیر کا رخ مکہ کی جانب تھا۔ دراصل ان دنوں طائف جانے والے اس راستے کو پہاڑ پر دو رویہ کرنے کے لئے بند کرنے کی تیاریاں کی جا رہی تھیں۔ یہ بورڈ لگا دیے گئے تھے مگر راستہ ابھی بند نہ ہوا تھا۔
ان بورڈز سے کنفیوز ہونے کے باعث میں نے کنفرم کرنا ضروری سمجھا۔ مسجد میں بہت سے پاکستانی بھی نماز پڑھ رہے تھے۔ میں دوران سفر سعودی عرب کے بہت سے چھوٹے بڑے شہروں سے گزرا ہوں۔ یہ مخلوق مجھے ہر مقام پر نظر آئی ہے۔ شلوار قمیص میں ملبوس پاکستانی سعودی عرب کے ہر شہر ، ہر قصبے اور شاید ہر گاؤں میں پائے جاتے ہیں۔ نماز کے بعد میں نے ایک صاحب سے طائف کا راستہ کنفرم کیا۔ وہ سوچ میں پڑ گئے۔ پھر ایک اور ساتھی سے پوچھ کر انہوں نے مجھے بتایا کہ یہی راستہ سیدھا طائف جائے گا۔
مسجد کے ساتھ ایک بقالہ بھی تھا۔ اس میں داخل ہوتے ہی احساس ہوا کہ میں پنجاب کے کسی گاؤں کی ہٹی پر کھڑا ہوں۔ فرق صرف زبان کا تھا ۔ یہاں کئی عرب بدو شور مچاتے ہوئے سامان اکٹھا کر رہے تھے۔ دو عربوں میں کسی بات پر زبردست بحث ہو رہی تھی۔ ایک عرب دکاندار سے قیمت پر جھگڑ رہا تھا۔ یہاں کئی پنجابی دیہاتی بھی تھے جو بدوؤں کے مقابلے میں بہت ڈیسنٹ نظر آرہے تھے۔ اس مسجد میں ارد گرد کے دیہات سے لوگ گروپوں کی صورت میں کھلی ہائی لکس گاڑیوں کے پیچھے بیٹھ کر بلکہ لٹک کر نماز جمعہ کے لیے آئے تھے۔ بچوں کے لئے کولڈ ڈرنکس لے کر میں واپس آگیا اور ہم نے اپنا سفر دوبارہ شروع کیا۔
عرفات اور عکاظ کا بازار
تھوڑا سا آگے جاکر بائیں جانب ہمیں میدان عرفات نظر آیا۔ اس میدان کی خاص پہچان اس میں لگا ہوا سبزہ ہے۔ حج کے دنوں میں یہاں ہر طرف سفید رنگ ہی نظر آتا ہے جو حجاج کے احرام کا رنگ ہے۔ اس وقت یہ میدان ویران پڑا تھا۔ اس جانب حرم کی حدود یہیں ختم ہوتی ہیں۔ اب ہم مکہ طائف موٹر وے پر پہنچ چکے تھے جو کہ منیٰ سے سیدھی یہاں آ رہی تھی۔ حج کے بعد اہل عرب "عکاظ" کے میدان میں جا کر خرید و فروخت کیا کرتے تھے۔ یہ عرب کی سب سے بڑی تجارتی منڈی تھی جس میں پورے عرب سے تاجر آ کر خرید و فروخت کیا کرتے تھے۔ عکاظ کا مقام طائف ریاض روڈ پر طائف ائر پورٹ کے قریب واقع ہے۔ عکاظ کے علاوہ ایک اور بڑا بازار’ذو المجاز‘ تھا جو حج سے پہلے لگا کرتا تھا اور اس سے فارغ ہو کر لوگ یہاں سے سیدھے منیٰ جا کر حج کیا کرتے تھے۔
سیل کبیر اور حرب فجار
جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ مکہ سے طائف جانے کے دو راستے ہیں۔ ایک راستہ تو یہی ہے۔ دوسرا راستہ جبل حرا سے شروع ہوتا ہے اور سیل کبیر کے راستے طائف کی طرف جاتا ہے۔ یہ نسبتاً لمبا راستہ ہے اور یہاں سے طائف تک تقریباً سوا گھنٹہ لگتا ہے۔ اس راستے میں پہاڑی سفر والی کوئی تھرل نہیں۔ میں ایک مرتبہ پہلے اس راستے سے طائف جا چکا تھا۔ اس راستے پر خاص بات ’سیل کبیر ‘ہے۔ یہ دور قدیم سے سیلابوں کی گزرگاہ رہی ہے۔ ان صحرائی پہاڑوں پر کئی کئی سال بارش نہیں ہوتی لیکن جب ہوتی ہے تو پھر سیلاب ہی آتا ہے۔ اسی وجہ سے اس کا نام سیل کبیر یعنی بڑا سیلاب ہے۔
یہاں عرب کی مشہور تجارتی منڈیاں لگا کرتی تھیں۔ اسی مقام پر مشہور ’جنگ فجار‘ ہوئی تھی۔ عرب قبائل کے جنگجو مزاج کے باعث جھگڑا ہوا جو بڑھ کر جنگ کی شکل اختیار کر گیا۔ اس میں ہوازن، ثقیف اور قریش نے حصہ لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی عمر اس وقت صرف پندرہ برس تھی۔ چونکہ اس میں قریش حق پر تھے اس لئے آپ نے ان کا ساتھ دیا۔ آپ نے اپنے چچاؤں کو تیر پکڑائے البتہ خود عملی جنگ میں حصہ نہ لیا۔
بالآخر جنگ کا اختتام ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زبیر بن عبد المطلب کی کوششوں سے ایک صلح کے معاہدے سے ہوا جس میں شریک ہونے والے کئی افراد کا نام ’فضل‘ تھا۔ اس وجہ سے یہ معاہدہ ’حلف الفضول‘ کہلاتا ہے۔ اپنی انسان دوست فطرت کے باعث حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کو اس معاہدے سے اتنی خوشی ہوئی کہ آپ فرماتے ، ”مجھے یہ معاہدہ سرخ اونٹوں کے ملنے سے زیادہ محبوب تھا۔“
مکہ سے طائف جانے کا دوسرا راستہ عرفات اور ہدا سے ہو کر طائف جاتا ہے۔ نبوت کے دسویں سال ، اپنے دعوتی سفر کے دوران حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم اسی راستے سے طائف تشریف لے گئے تھے۔ یہ مختصر راستہ ہے۔ اس پر سفر کرکے تقریباً پینتیس چالیس منٹ میں طائف پہنچا جاسکتا ہے۔ یہ راستہ پہاڑی ایڈونچر اور تھرل سے بھرپور ہے۔اپنے طائف کے سفر سے واپسی کے دوران حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سیل کبیر والا راستہ اختیار فرمایا تھا۔ یہاں وادی نخلہ میں آپ نے کچھ دیر قیام فرمایا اور قرآن مجید کی تلاوت فرمائی جسے جنات کے ایک گروہ نے سنا اور وہ ایمان لے آیا۔ اسی واقعہ کا ذکر قرآن مجید کی سورہ احقاف میں ہے۔ جنات نے آپ سے قرآن سن کر اپنی قوم میں جا کر تبلیغ کی۔ اس کے بعد جنات کے کئی وفود آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر ایمان لائے۔
مکہ طائف موٹر وے ایک طرف سے تین لین پر مشتمل تھی اور روڈ کی کوالٹی بہت اچھی تھی۔ عرفات سے آگے نکلے تو ہمارے دونوں طرف خوبصورت فارم ہاؤسز کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اب ہمارے سامنے ایک بہت بڑا پہاڑی سلسلہ نظر آرہا تھا جو کہ کسی قلعے کی فصیل کی مانند دائیں بائیں پھیلا ہوا تھا۔ دس منٹ میں ہم اس فصیل تک جا پہنچے۔ اس مقام کو میں نے ’ہدا‘ کے بیس کیمپ کا خطاب دیا۔ اس مقام کی بلندی سطح سمندر سے تقریباً 2000 فٹ ہے۔ بیس کیمپ پر موٹر وے ختم ہو جاتی ہے اور ایک سنگل روڈ کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔ یہ روڈ زگ زیگ انداز میں گھومتی ہوئی فصیل نما پہاڑ پر چڑھتی ہے۔پہاڑ کی چوٹی پر ’ہدا‘ کا مقام ہے جس کی بلندی سطح سمندر سے 6000 فٹ ہے۔ یہ چڑھائی بیس منٹ میں طے ہوتی ہے۔ ان بیس منٹ میں مکہ سے طائف کی جانب فاصلہ کم نہیں ہوتا لیکن انسان 4000 فٹ کی بلندی کا سفر طے کر لیتا ہے۔
غزوہ حنین
بعض تاریخی روایات کے مطابق غزوہ حنین اسی بیس کیمپ کے قریب کسی وادی میں ہوا تھا ۔ یہ وادی تاریخ کی کتابوں میں شہرت نہ پاسکی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے اس جنگ کا مال غنیمت مسجد جعرانہ کے مقام پر تقسیم کیا تھا۔ یہ مسجد سیل کبیر کے راستے کے قریب واقع ہے اس لیے قرین قیاس یہی ہے کہ جنگ سیل کبیر والی جانب ہوئی ہو گی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی سرکردگی میں یہ آخری جنگ تھی جس میں باقاعدہ مقابلہ بھی ہوا۔ اس دور کے عرب میں مکہ کے بعد طائف دوسرا بڑا شہر تھا۔ فتح مکہ کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم طائف کو فتح کرنے کے ارادے سے وہاں تشریف لے گئے۔ اب اسلامی لشکر کی تعداد 12000 ہو چکی تھی جس میں فتح مکہ کے دس ہزار قدوسیوں کے علاوہ مکہ کے دو ہزار نو مسلم بھی شامل تھے۔ اس علاقے میں آباد بنو ہوازن ، بنو ثقیف ، بنو جشم، بنو نضر اور بعض دوسرے چھوٹے موٹے قبائل مقابلے پر آئے۔ اب وہ وقت نہ تھا کہ کفار کا لشکر اسلامی لشکر کے مقابلے پر زیادہ ہوتا۔ اب لشکر اسلام کے مقابلے میں ان کی تعداد بہت کم تھی۔ یہ جاہلیت کے پیروکاروں کی عرب میں اسلام کے خلاف آخری بڑی مزاحمت تھی۔
اپنے عظیم لشکر کے مقابلے میں معمولی سی قوت دیکھ کر بعض افراد یہ کہہ اٹھے ، ’ یہ کیا ہمارا مقابلہ کریں گے؟‘۔ یہ جملہ اللہ تعالیٰ کو پسند نہ آیا۔ چونکہ بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کچھ مختلف ہے اس لئے ان کی ہر غلطی کی فورا ً اسی دنیا میں ہی پکڑ کی جاتی ہے۔ احد کی طرح یہاں بھی ایسا ہی معاملہ پیش آیا۔ جب جنگ شروع ہوئی تو ہوازن نے تیر اندازی شروع کی۔ یہ اتنی سخت تھی کہ اسلامی لشکر میں بھگدڑ مچ گئی لیکن حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم اور چند جلیل القدر صحابہ ثابت قدم رہے۔
ابوسفیان رضی اللہ عنہ، جو فتح مکہ سے قبل کفر کی ہر مزاحمت کے لیڈر تھے، اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے گھوڑے کی لگامیں تھامے سب لوگوں کو جمع ہونے کے لئے کہہ رہے تھے۔ ہوازن کے تیر ان کی آنکھوں میں لگے اور ان کی آنکھیں شہید ہوگئیں۔ اللہ تعالیٰ کی مدد آئی۔ حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم اور آپ کے جلیل القدر صحابہ کی ثابت قدمی کے باعث لشکر دوبارہ اکٹھا ہوا اور اس نے ان قبائل کو شکست دی۔ قرآن مجید میں اس کا ذکر کچھ یوں آیا ہے:
اللہ اس سے پہلے بہت سے مواقع پر تمہاری مدد کر چکا ہے جیسے حنین کے دن۔ اس روز تم اپنی کثرت تعداد پر اترا گئے مگر وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی اور تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے۔ پھر اللہ نے اپنی سکینت اپنے رسول اور مومنوں پر نازل کی اور وہ لشکر اتارے جو تمہیں نظر نہ آتے تھے۔ پھر منکرین حق کو سزا دی کہ یہی بدلہ ہے ان لوگوں کے لئے جو حق کا انکار کریں۔ “ (توبہ 9:24-26 )
اس جنگ کے بعد عرب کی قسمت کا فیصلہ ہوگیا کہ اب اسے دار الاسلام بننا ہوگا۔ ایک سال کے عرصے میں ہی باقی عرب قبائل کے وفود مدینہ حاضر ہوئے اور انہوں نے اسلام قبول کیا۔ صرف دو برس کے اندر مسلمان مردوں کی تعداد 12000 سے بڑھ کر سوا لاکھ تک پہنچ گئی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو 10ھ کے حج میں شریک ہوئے۔ عرب کے وہ افراد جو اس حج میں شامل نہ تھے، اس کے علاوہ ہیں۔
زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ
مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کا سفر طائف یاد آنے لگا۔ اس سفر میں آپ کے ہمراہ صرف سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ تھے۔ یہ واحد صحابی ہیں جن کا نام قرآن مجید میں آیا ہے۔ ایمان لانے والوں میں سیدنا ابوبکر، خدیجہ اور علی رضی اللہ عنہم کے بعد چوتھے ہیں۔ انہیں بچپن میں کسی بردہ فروش نے اغوا کرکے غلام بنا لیا تھا۔ بعد میں کئی ہاتھوں میں فروخت ہوتے ہوئے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے جنہوں نے انہیں حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی خدمت میں پیش کر دیا۔
آپ نے ان سے غلاموں جیسا برتاؤ نہ رکھا بلکہ اپنے بیٹوں جیسا سلوک کیا۔ ان کے والد انہیں ڈھونڈتے ہوئے آپ تک آ پہنچے اور منہ مانگی قیمت کے عوض ان کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ آپ نے جواب دیا ، ”زید سے پوچھ لو۔ اگر وہ جانا چاہے تو میں کوئی قیمت نہ لوں گا۔“ باپ بیٹے کی ملاقات ہوئی۔ زید نے حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کا در چھوڑنے سے انکار کردیا اور والد کو بتایا کہ اتنی محبت آپ بھی مجھے نہیں دے سکتے جتنی مجھے حضور نے دی ہے۔ والد بھی مطمئن ہو کر چلے گئے۔ اس واقعہ کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے انہیں اپنا بیٹا بنا لیا۔
عرب میں عام دستور تھا کہ منہ بولے بیٹوں کے ساتھ بالکل حقیقی بیٹوں والا سلوک کیا جاتا۔ انہیں وراثت میں بھی حصہ ملتا جس کی وجہ سے اصل وارث محروم رہ جاتے۔ حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے زید کی شادی اپنی پھوپھی زاد بہن زینب بن جحش رضی اللہ عنہا سے کی تھی۔ ان میں نبھ نہ سکی اور زید کو انہیں طلاق دینا پڑی۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کو سیدہ زینب سے نکاح کرنا پڑا تاکہ اس رسم کا خاتمہ کیا جاسکے۔ قرآن مجید کے مطابق منہ بولے بیٹوں کے ساتھ اگرچہ اچھا سلوک کرنے میں کوئی حرج تو نہیں ہے لیکن انہیں اپنے اصل والد کی نسبت ہی سے پکارا جانا چاہئے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جاہلانہ رسموں کے خاتمے کے لئے یہ ضروری ہے کہ قوم کے راہنما خود ان رسموں کو توڑنے کے لئے ذاتی اقدام کریں تاکہ لوگوں کے لئے مثال قائم کی جا سکے۔
حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے زمانے میں یہ پہاڑی ٹریک محض ایک تنگ سا راستہ ہوگا جس سے گھوڑے وغیرہ گزرتے ہوں گے۔ بعض روایات کے مطابق آپ پیدل ہی روانہ ہوئے تھے۔ چار ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچنا کتنا مشکل کام رہا ہوگا۔ سفر کی اتنی صعوبتیں برداشت کرنے کے باوجود یہ اہل طائف کی بے مروتی کہیے یا سخت دلی کہ ایک غلام کے سوا کسی کو ایمان لانے کی توفیق نہ ہوئی۔
انہوں نے محض آپ کی دعوت سے انکار ہی نہ کیا بلکہ ان کے اوباشوں نے آپ پر پتھر بھی برسائے۔ قریب تھا کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب ان پر آئے، لیکن حضورصلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے ان کے حق میں دعا فرمائی اور یہ امید ظاہر کی کہ ان کی نسل میں اہل ایمان پیدا ہوں گے۔آپ کی اس امید کے عین مطابق صرف 11 برس بعد اہل طائف نے اسلام قبول کرلیا۔ ان کی نسل سے کئی مشہور لوگ پیدا ہوئے۔ فاتح سندھ محمد بن قاسم کا تعلق بھی اسی نسل سے تھا۔
افسوس جس دین کی خاطر حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے اتنی تکالیف برداشت کیں اس کی آج اس کے ماننے والوں کے نزدیک قدر نہ رہی۔ اس سے دین کو تو کوئی فرق نہیں پہنچتا البتہ یہ ہماری محرومی کی انتہا ہے۔
ہدا
ہم اب چڑھائی کا سفر طے کرنے لگے۔ 4000 فٹ اوپر ہدا کے مقام سے کیبل کار بیس کیمپ تک آ رہی تھی۔ یہ بھی اپنی نوعیت کا سنسنی خیز تجربہ ہوگا۔ نیچے ایک فیملی پارک تھا جہاں کیبل کار کا پوائنٹ بنا ہوا تھا۔ دوسرے عرب پہاڑوں کے بر عکس یہ پہاڑ کافی سرسبز تھا۔ راستے میں پانی کے کئی پہاڑی راستے نظر آ رہے تھے۔ ہمارے شمالی علاقہ جات کے چشموں کی طرح یہ ہر وقت تو نہ چلتے تھے البتہ بارش کے وقت ان میں ضرور پانی نظر آتا تھا۔ اس وقت یہ خشک تھے۔ روڈ بل کھاتی ہوئی اوپر جارہی تھی۔
میں اور میری اہلیہ تو پہاڑی سفروں کے عادی تھے لیکن میرے بچوں کے لئے اپنے شعور میں یہ پہلا تجربہ تھا۔ روڈ کے ایک طرف گہری کھائی کو دیکھ کر ان کا خون خشک ہو رہا تھا جو ہر پل مزید گہری ہوتی جارہی تھی۔ اس چڑھائی کو دیکھ کر مجھے مالم جبہ اور شوگران کی چڑھائیاں یاد آئیں۔ یہاں ان کی نسبت سبزہ کافی کم تھا لیکن روڈ ویسا ہی تھا۔ اس روڈ کی کوالٹی بہت اچھی تھی۔ سنگل ٹریک اتنا چوڑا تھا کہ تین گاڑیاں ایک ساتھ گزر سکتی تھیں۔ کھائی والی جانب مضبوط بلاک لگے ہوئے تھے۔ ہماری پہاڑی سڑکوں میں اس معیار کی سڑک ’قراقرم ہائی وے ‘ ہی ہے یا پھر زلزلے سے پہلے کاغان روڈ ہوا کرتی تھی۔ اب اس روڈ کو بھی دو رویہ کیا جا چکا ہے۔
ہم آہستہ آہستہ بلند ہوتے چلے جارہے تھے۔ آٹو میٹک گیئر والی گاڑی اب کچھ دشواری محسوس کررہی تھی۔ میں نے پہاڑی ٹریکس کے مخصوص گیئرز میں سے پہلا گیئر لگایا۔ انجن کی ریوولیشن میں اضافہ ہوا اور گاڑی ہموار ہوگئی۔ ہم 60 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بلندی کا سفر طے کر رہے تھے۔ چوٹی پر پہنچنے سے کچھ دیر قبل روڈ ڈبل ہوگئی۔ یہاں پہاڑ کے گرد پل بنا کر روڈ کی توسیع کی گئی تھی۔ جیسے ہی ہم چوٹی پر پہنچے، براؤن رنگ کے ہر سائز کے بندروں کے ایک غول نے ہمارا پرجوش استقبال کیا۔ یہ مسکین صورت بنائے روڈ کے کنارے بیٹھے تھے۔ بچے ان بندروں کو دیکھ کر بہت پر جوش ہوگئے تھے۔ چونکہ یہ بندر روڈ کے دوسری طرف تھے، اس لئے میں یو ٹرن لے کر اس طرف آیا۔ یہاں چار ہزار فٹ گہرا بیس کیمپ صاف نظر آرہا تھا۔ اس گہرائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر بیس کیمپ سے چوٹی تک ایک عمارت بنائی جائے تو اس کی چار سو منزلیں بن سکتی ہیں۔ یہ عمارت دنیا کی موجودہ بلند ترین عمارت سے چار گنا بلند ہو گی۔
چونکہ لوگ ان بندروں کو کھانے پینے کی اشیا دیتے ہیں، اسلئے یہ سارا دن یہیں براجمان رہتے ہیں۔ کوک کا ٹن کھولنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔یہاں کئی لوگ گاڑیاں روک کر اترے ہوئے تھے۔ کئی اپنے موبائل کیمروں کی مدد سے ان کی تصاویر لے رہے تھے۔ کچھ خواتین بندروں کے درمیان بیٹھ کر تصاویر بنوا رہی تھیں۔ بچے ان کے آگے کھانے پینے کی اشیا پھینک رہے تھے اور بندر انہیں جھپٹنے میں مصروف تھے۔ بعض عرب لڑکے بھی ہاہا ہو ہو کرتے آگئے اور بندروں کو تنگ کرنے لگے۔
ہدا کے تہہ در تہہ پہاڑوں کا منظر |
ہم پھر گھوم کر ہدا کی طرف روانہ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت دیکھئے کہ فصیل نما پہاڑ کی چوٹی پر وسیع و عریض میدان تھا جس میں کہیں کہیں چوٹیاں نکلی ہوئی تھیں۔ اس مقام کو ’ہدا‘ کہتے ہیں۔ اسی میدان میں بیس کلومیٹر کے فاصلے پر طائف کا شہر تھا۔ وادی ہدا کی اصل خوبصورتی اس کا کنارہ ہے جس کے ساتھ ایک دم چار ہزار فٹ کی گہرائی ہے۔ دور گہرائی میں سنہری ریت کے بیک گراؤنڈ میں سیاہ مکہ روڈ نظر آرہی تھی۔ تھوڑ اسا آگے جاکر پھلوں کی بے شمار دکانیں آئیں جن میں بہت ہی ترتیب سے رنگ برنگے پھل چنے ہوئے تھے۔
ذرا سا آگے دائیں جانب ہدا رنگ روڈ نکل رہا تھا۔ یہ نصف دائرے کی شکل کی روڈ تھی جو وادی ہدا کا چکر لگا کر پھر گھوم کر مکہ طائف روڈ پر آملتی تھی۔ ہم بھی رنگ روڈ پر ہو لئے۔ یہیں ایک فائیو سٹار ہوٹل تھا۔ دائیں طرف کئی روڈز نکل رہی تھیں جن پر شوخ رنگوں کے ریزارٹ بنے ہوئے تھے۔ ایک جگہ سعودی ائر فورس کا کوئی سنٹر تھا۔ ایک روڈ کافی اوپر پہاڑوں میں جارہا تھا۔ ہم اسی پر ہولئے۔ کافی بلندی پر پہنچ کر روڈ بند ہو رہا تھا۔ یہاں ایک فیملی نے خیمہ لگایا ہوا تھا۔ ہم نے بھی وہیں گاڑی روکی ۔ آسمان پر گھنے بادل اکٹھے ہو رہے تھے۔ ہم نے گاڑی کی سن روف اور تمام شیشے کھول دیے۔ بچوں کو وہیں چھوڑ کر میں اور اہلیہ ہائکنگ کے لئے روانہ ہوگئے۔
وادی ہدا کو اگر سبزہ، خوشبو، خنکی اور گھنے بادلوں کا مجموعہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ پہاڑی ٹریک پر ہمیں بہت سے پرندے دیکھنے کو ملے۔ زمین پر انواع و اقسام کے کیڑے مکوڑے نظر آرہے تھے۔ ان میں سے کئی افزائش نسل میں مشغول تھے۔ وادی ہدا کی خوبصورتی کو دیکھ کر ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم بھی خیمہ خریدیں گے اور سردیوں میں یہاں آ کر شدید سردی اور دھوپ کو انجوائے کریں گے۔ تھوڑی دیر میں ایک بڑی سی گاڑی بھی یہاں آ پہنچی۔ یہ ایک بڑی جی ایم سی ویگن تھی۔ اس نسل کی ویگنیں پاکستان میں نہیں پائی جاتیں۔ اس کے اندر ایک موبائل ریسٹورنٹ بنا ہوا تھا۔ ہم نے اس سے کون اور کارن فلیکس لئے۔ عصر کی اذان ہو رہی تھی چنانچہ ہم مسجد کی طرف روانہ ہوئے۔
مسجد کے پاس کافی آبادی تھی۔ ماحول ہمارے شمالی علاقہ جات کے کسی گاؤں کا سا تھا۔ خواتین کا مصلیٰ دوسری منزل پر تھا۔ نماز کے بعد میں نے امام صاحب سے ’مسجد عداس‘ کے بارے میں دریافت کیا۔ فرمانے لگے، ”وہاں جانا تو گمراہی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے صرف تین مسجدوں کی طرف سفر کی اجازت دی ہے۔“ مجھے جتنی عربی آتی تھی، اس کا زور لگا کر میں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ اس حدیث پر میرا بھی ایمان ہے۔ میں یہ سفر ثواب یا زیارت کی نیت سے نہیں بلکہ محض سیاحت کے طور پر کر رہا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم سے تعلق رکھنے والے مقامات کے بارے میں ایک کتاب لکھ رہا ہوں۔ آدمی معقول تھے۔ میری بات ان کی سمجھ میں آگئی اور انہوں نے مجھے مسجد عداس کا راستہ بتا دیا۔ قارئین کی سہولت کے لئے میں اس راستے کی تفصیل بھی لکھ رہا ہوں۔
مثناۃ اور مسجد عداس
ہدا سے طائف جانے والی روڈ جب طائف ہی حدود میں داخل ہوتی ہے تو سب سے پہلے طائف کے رنگ روڈ سے واسطہ پڑتا ہے۔ یہ مکمل گول رنگ روڈ نہیں بلکہ نصف دائرے کی شکل میں طائف کے گرد پھیلا ہوا ہے۔ ہم لوگ رنگ روڈ سے دائیں جانب مڑے۔ یہی روڈ سیدھا ’شفا‘ کی طرف جاتا ہے۔ تھوڑی دور جا کر کنگ عبد العزیز ہسپتال آگیا۔ اس سے اگلے ایگزٹ سے ہم رنگ روڈ سے نکل کر بائیں جانب شہر کی طرف روانہ ہوئے۔
تھوڑا دور جا کر مثناۃ کا علاقہ آگیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے زمانے میں طائف یہاں آباد تھا۔ روڈ کے اوپر ہی ایک قدیم مسجد نظر آرہی تھی۔ دارالسلام پبلشرز کی شائع کردہ ’اطلس سیرت نبوی‘ میں اسی مسجد کی تصویر دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہی مسجد عداس ہے۔ میں نے قریب کھڑے ایک پانی کے ٹینکر کے پاکستانی ڈرائیور سے مسجد کے بارے میں پوچھا۔ وہ کہنے لگا کہ اصل مسجد عداس آبادی کے اندر ہے۔ چنانچہ ہم لوگ ٹینکر کے پیچھے آبادی میں داخل ہوئے۔
یہ علاقہ اب طائف کا مضافاتی علاقہ ہے۔ پورا علاقہ میں زرعی فارم پھیلے ہوئے تھے۔ آگے گلیاں تنگ تھیں اور ماحول بالکل پنجاب کے دیہات جیسا تھا۔ ہم لوگ گاڑی ایک جگہ کھڑی کرکے پیدل روانہ ہوئے۔ ہمارے دیہات کی طرح لڑکے ٹولیوں کی صورت میں دیواروں بلکہ ’بنیروں‘ پر بیٹھے تھے۔ سامنے ہی ’مسجد عداس‘ تھی جو خاصی پرانی ہو چکی تھی۔
روڈ کے کنارے ایک چھوٹی سی پہاڑی تھی۔ مقامی لوگوں سے میں نے گفتگو کی تو انہوں نے بتایا کہ طائف کے اوباش اس پہاڑی کے پاس چھپے بیٹھے تھے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم یہاں پہنچے تو انہوں نے آپ پر پتھر برسائے۔ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے اپنے جسم کو ڈھال بنا کر ان پتھروں کو روکنے کی کوشش کی ۔ حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم اور سیدنا زید کافی زخمی ہو کر اس مقام پر آئے جہاں اب مسجد عداس ہے۔ اس زمانے میں یہاں مکہ کے رئیس عتبہ اور اس کے بھائی شیبہ کا باغ ہوا کرتا تھا۔ یہ دونوں وہیں موجود تھے۔ یہ لوگ بھی اگرچہ اسلام دشمنی میں پیش پیش تھے لیکن ابو لہب اور ابوجہل کے مقابلے میں کمینی فطرت کے مالک نہ تھے۔ اپنے شہر کے دو افراد کو اس حالت میں دیکھ کر انہیں افسوس ہوا اور انہوں نے اپنے غلام ’عداس‘ کے ہاتھ آپ کو انگور بھجوائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے اپنی دعوت عداس کے سامنے پیش کی۔ یہ عتبہ کے غلام تھے اور اس باغ کی رکھوالی کیا کرتے تھے۔ مذہباً عیسائی تھے۔ ان کا تعلق نینوا سے تھا۔ جب انہوں نے یہ بتایا تو حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے فرمایا، ”وہ تو میرے بھائی یونس بن متی علیہ السلام کا شہر ہے۔“ آپ کی دعوت پر عداس رضی اللہ عنہ فوراً ایمان لائے ۔
جس مقام پر آپ اور زید بیٹھے تھے، اسی مقام پر بعد میں مسجد عداس بنا دی گئی جو آج بھی موجود ہے۔ انہوں نے آپ کے سر اور پاؤں کو بوسہ دیا۔ عتبہ اور شیبہ اس بات پر ان سے ناراض ہوئے اور انہیں آپ سے دور رہنے اور اپنے مذہب پر قائم رہنے کی نصیحت کی۔ اس واقعہ کے پانچ سال بعد عتبہ و شیبہ جنگ بدر کے لئے روانہ ہوئے۔ اہل کتاب ہونے کے ناتے عداس اللہ تعالیٰ کے اس قانون سے اچھی طرح واقف تھے کہ رسول کا مقابلہ کرنے والوں کو ہلاک کردیا جاتا ہے۔ انہوں نے پاؤں پکڑ کر اپنے آقاؤں کو روکنے کی کوشش کی لیکن یہ لوگ مقابلے پر نکلے۔ عتبہ ، سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں مارا گیا اور شیبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں۔ ابوسفیان کی زوجہ ہند رضی اللہ عنہا بھی اسی عتبہ کی بیٹی تھیں۔ اپنے باپ کا انتقام انہوں نے جنگ احد میں سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کا کلیجہ چبا کر لیا لیکن فتح مکہ کے دن وہ اسلام لائیں۔ چونکہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی ساس ہونے کا شرف بھی حاصل تھا اس لئے آپ کے ساتھ ان کا ہنسی مذاق کئی روایات میں مذکور ہوا ہے۔
غزوہ طائف
مقامی لوگوں نے بتایا کہ یہ پورا علاقہ عتبہ و شیبہ کا باغ تھا۔ اس وقت بھی یہ علاقہ دو تین بڑے بڑے فارم ہاؤسز پر مشتمل تھا۔ میرے سامنے حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی سیرت طیبہ کے مناظر پھر گردش کرنے لگے۔ اہل طائف کی اس بدتمیزی کے بعد جبریل علیہ السلام آئے اور کہنے لگے، "اگر آپ کہیں تو اسی پہاڑی کو اہل شہر پر گرا کر انہیں ہلاک کردیا جائے۔" آپ نے اس سے منع فرمایا اور امید ظاہر کی کہ ان لوگوں کی نسل میں اہل ایمان ہوں گے۔ اس واقعہ کے ٹھیک 11برس بعدآپ نے طائف پر چڑھائی کی۔ اس وقت مکہ فتح ہو چکا تھا اور اہل طائف اپنے حلیف قبائل کے ہمراہ حنین کی جنگ میں شکست کھا کر شہر میں قلعہ بند ہو چکے تھے۔
حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے شہر کا محاصرہ کیا۔ اس دوران ان کے رئیس عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایمان لائے۔ یہ وہی صحابی ہیں جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے بتایا کہ ان کی شکل سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سے ملتی ہے۔ ان کی دعوتی کوششوں کے نتیجے میں اہل طائف اسلام لائے اور حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے محاصرہ اٹھانے کا حکم دیا۔ بعد میں اہل طائف پکے مسلمان ثابت ہوئے۔ سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے ادوار میں انہوں نے قیصر و کسریٰ کے خلاف جنگوں میں بھرپور حصہ لیا۔
بنو امیہ کے مشہور گورنر حجاج بن یوسف کا تعلق بھی طائف کے قبیلے بنو ثقیف سے تھا۔ یہ شخص اپنی انتظامی قابلیت کے علاوہ ظلم و ستم کے لئے مشہور تھا۔ اسی کے بھتیجے محمد بن قاسم تھے جنہوں نے سندھ فتح کیا۔ اپنی انتظامی صلاحیتوں میں یہ اپنے چچا سے بڑھ کر تھے لیکن اس کی ظالمانہ طبیعت کے برعکس یہ نہایت ہی نرم دل تھے۔ان کی نرمی نے ہندوؤں کا دل جیت لیا۔ یہاں تک کہ بعض ہندو ان کا بت بنا کر انہیں پوجنے بھی لگے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ ان کا تعلق بھی طائف اور بنو ثقیف سے تھا۔
طائف کی ایک اور مشہور شخصیت ابو عبید ثقفی رضی اللہ عنہ تھے۔ یہ ایک تابعی تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب مملکت ایران کی شرپسندیوں کے جواب میں اس پر چڑھائی کا ارادہ کیا تو تمام مسلمانوں کو اکٹھا کیا اور انہیں اس جہاد میں شرکت کی ترغیب دی۔یہ ایک نہایت مشکل جنگ تھی۔ ابو عبید وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے کھڑے ہو کر اس جہاد میں شمولیت کا ارادہ ظاہر کیا۔ ان کی بہادری کے باعث حضرت عمر نے انہیں اس لشکر کا سالار مقرر کیا جس میں کئی کبار صحابہ بھی شامل تھے۔ اس لشکر کا سامنا جسر کے مقام پر ایرانی فوج سے ہوا۔ دونوں افواج کے درمیان دریائے دجلہ تھا۔ ابو عبید جوش جہاد سے سرشار تھے۔ انہوں نے ایک جنگی غلطی کی اور دریا پار کرکے دشمن کے مقابلے پر آئے۔ جوش شہادت میں انہوں نے وہ پل بھی توڑ دیا جس سے اسلامی لشکر نے دریا پار کیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ کسی کے دماغ میں فرار کا خیال بھی نہ آئے۔
جب جنگ شروع ہوئی تو مسلمانوں کے لئے جگہ تنگ پڑ گئی۔ جنگی حکمت عملی کے تحت لشکر کو جتنا پھیلنا چاہئے تھا اسے اس کی جگہ میسر نہ آئی جس کے نتیجے میں ایرانیوں نے دباؤ بڑھا دیا۔ اس معرکے میں بہت سے مسلمان شہید ہوئے جن میں سالار لشکر ابو عبید بھی تھے۔ اس موقع پر مشہور صحابی مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے کمان سنبھالی اور ایرانی لشکر کی یلغار کو روکا۔ انہوں نے لشکر کے ایک حصے کو پل دوبارہ بنانے کا حکم دیا۔ پل بنتے ہی لشکر واپس دریا پار کر گیا۔ اس جنگ میں مسلمانوں کا بڑا نقصان ہوا جس کا افسوس سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو ایک عرصے تک رہا۔ مثني وہی صحابی ہیں جنہوں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ایران پر حملے کے لیے تیار کیا اور باقاعدہ جنگی کاروائی کا آغاز کیا۔
طائف کی ایک اور مشہور شخصیت مختار ثقفی بھی ہے۔ یہ ان طالع آزما لوگوں میں سے تھا جنہوں نے واقعہ کربلا کا بھرپور سیاسی فائدہ اٹھایا۔ اس نے بنو امیہ کی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور چن چن کر قاتلین حسین کو ہلاک کیا۔ اس سے اسے بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ بعد ازاں اس نے عراق پر اپنا اثر و رسوخ مضبوط کیا اور پھر نبوت کا دعویٰ کر دیا۔ جب سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی حکومت قائم ہوئی تو ان کے بھائی مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اس فتنے کا خاتمہ کیا۔
طائف کی تاریخ کے بارے میں سوچتے اور باتیں کرتے ہم لوگ مسجد ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف روانہ ہوئے۔
مسجد ابن عباس
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے چچا عباس کے بیٹے اور مشہور صحابی ہیں۔ آپ کی وفات کے وقت یہ ابھی بچے تھے۔ عبداللہ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے خاص شاگرد تھے۔ نوجوانی کے عالم میں بزرگ صحابہ کی مجلس مشاورت میں شریک ہوتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے انہیں ’حبر الامۃ‘ یعنی امت کے بڑے عالم کا خطاب دیا تھا۔ آپ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دور میں بصرہ کے گورنر بھی رہے۔ بعد میں آپ نے مکہ میں رہنے ہی کو ترجیح دی۔
جب سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کوفہ کے لئے روانہ ہوئے تو ابن عباس نے انہیں وہاں جانے سے بہت منع کیا۔ یہاں تک کہ جب آپ روانہ ہوئے تو ابن عباس، ان کے گھوڑے کی لگام پکڑ کر ساتھ دوڑتے گئے اور انہیں قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ بعد ازاں ، آپ کے اندیشے درست ثابت ہوئے اور اہل کوفہ کی بے وفائی کے باعث آپ کو کربلا میں شہید کر دیا گیا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی پوری عمر قرآن سمجھنے اورسمجھانے میں گزری۔ آخری عمر میں آپ نابینا ہوگئے۔ کسی نے آپ کو طائف شفٹ ہونے کا مشورہ دیا جو آپ نے قبول کیا۔ مکہ کے سخت گرم موسمی حالات کے مقابلے میں طائف ایک پرفضا پہاڑی مقام ہے۔ یہیں آپ کی عمر کے آخری ایام گزرے اور آپ نے وفات پائی۔ جس مقام پر آپ کی قبر تھی، اس کے قریب آپ سے منسوب مسجد تعمیر کی گئی۔ موجودہ طائف میں یہ مسجد، شہر کے مرکز میں واقع ہے اور شہر کے ’فیس لینڈ مارک‘ کا درجہ رکھتی ہے۔
ٹریفک میں پھنسنے کے باعث ہم لوگ نماز کے کچھ دیر بعد مسجد ابن عباس پہنچے۔ مسجد کی وسیع و عریض پارکنگ میں گاڑی کھڑی کرکے ہم مسجد میں داخل ہوئے۔ اتنی بڑی مساجد دنیا میں بہت کم ہوں گی۔ دوسری جماعت میں نماز پڑھنے کا موقع ملا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی قبر اب ایک بند کمرے میں واقع ہے جس پر تالہ لگا ہوتا ہے۔ اس کے بعدمیں نے احادیث میں مروی زیارت قبور کے لئے پڑھی جانے والی دعا پڑھی۔
میرے کزن ابرار ان دنوں طائف میں مقیم تھے۔ میں نے موبائل پر ان سے مغرب کا وقت طے کیا تھا۔ ان سے بھی یہیں ملاقات ہوئی۔ وہ ہمیں لے کر قریب ہی بخاریہ کے علاقے میں واقع ایک پاکستانی ہوٹل پر لے گئے۔ یہ پٹھانوں کا ہوٹل تھا۔ یہاں کے فیملی ہال میں بیٹھ کر ہم نے کڑاہی گوشت کا آرڈر دیا۔ جب کڑاہی چکھی تو اس کا ذائقہ پشاور کی نمک منڈی کی کڑاہی جیسا معلوم ہوا۔
شفا
طائف کے قریب ہی شفا کا پرفضا مقام ہے۔ طائف کی طرف اپنے پہلے سفر کے دوران ہم ’سیل کبیر‘ کے راستے طائف پہنچے تھے۔ شہر سے گزر کر ہم شفا کی جانب روانہ ہوئے ۔ طائف سے شفا تک دو رویہ فور لین موٹر وے بنی ہوئی ہے۔ جب ہم شفا کے قریب پہنچے تو ایسی چڑھائی نظر آئی جو بالکل سیدھی تھی۔ روڈ کے دونوں جانب گہری کھائیاں تھیں۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ ہم ایک ایسی دیوار پر چل رہے ہیں جو بلند ہوتی جارہی ہے۔ چڑھائی کا اختتام شفا رنگ روڈ پر ہوا۔
وادی شفا ایک نہایت ہی خوبصورت اور پر فضا مقام ہے۔ رنگ روڈ بالکل گول شکل میں وادی کے گرد بنایا گیا ہے اور تمام ہوٹل وغیرہ اس پر واقع ہیں۔ رنگ روڈ سے ادھر ادھر چھوٹی سڑکیں نکلتی ہیں جو مختلف ریزارٹس تک جاتی ہیں۔ ہم لوگ ایک عرب ریسٹورنٹ پر رکے جہاں کے تمام ملازم پاکستانی تھے۔ میں نے یہاں سے ’مندی‘ خریدی۔ یہ ہماری ’سجی‘ سے ملتی جلتی ایک عرب ڈش ہوتی ہے۔ عرب لوگ سالم بکرے کو ذبح کرکے اس کی کھال اتارنے کے بعد دہکتے پتھروں کے درمیان دفن کر دیتے ہیں۔ پتھروں کی گرمی سے گوشت پک جاتا ہے۔ اس کے بعد اس گوشت کے ٹکڑے کر کے روٹی یا بخاری پلاؤ کے ساتھ پیش کئے جاتے ہیں۔
یہاں کے ہوٹلوں میں بیٹھنے کا رواج نہ تھا۔ ہم نے ہوٹل والے سے برتن مستعار لئے اور کھانا لیکر گھنے سبزے کے درمیان آ بیٹھے۔ ہم لوگوں کے لئے سالم بکرے کا تصور بڑا لذیذ تھا لیکن جب یہ سامنے آیا تو بچوں نے اسے کھانے سے انکار کر دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سالم بکرے کا گوشت ، اس طرح صاف نہیں ہوتا جیسا کہ ہم عام طور پر کھاتے ہیں۔ اس میں گوشت کے علاوہ چربی، ریشہ اور وہ سب کچھ ہوتا ہے جو ہمارے قصاب بھائی صاف کرکے دیتے ہیں۔ شاید اسی لئے یہ اسے ’مندی‘ کہتے ہیں جو پنجابی میں ’چنگی‘ کے متضاد کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ عرب لوگ ہڈیوں کے علاوہ یہ سب کچھ کھا جاتے ہیں ۔ ہم نے پکے ہوئے گوشت سے یہ سب آلائشیں صاف کیں اور پھر اسے چاولوں کے ساتھ کھایا۔ سلاد اور سرکے والے اچار کے ساتھ مندی بہت لذیذ محسوس ہوئی۔
مندی کھا کر ہم وادی کے مختلف گوشوں کا جائزہ لینے لگے۔ پرفضا مقامات پر ہماری دلچسپی ہمیشہ قدرتی ماحول سے رہی ہے۔ ایک روڈ نیچے اتر رہی تھی۔ جب ہم اس پر گئے تو یہ نیچے ہی اترتی گئی۔ تھوڑی دیر میں ہم ایک اور سر سبز وادی میں تھے۔ ہم نے یہیں ڈیرہ لگانے کا ارادہ کیا۔ بچے وادی میں کھیلنے لگے اور میں اپنی اہلیہ کے ساتھ ہائیکنگ میں مصروف ہوگیا۔ وادی میں ہر طرف سبزہ پھیلا ہوا تھا۔ یہ ہمارے شمالی علاقہ جات جیسا علاقہ تو خیر نہیں تھا جہاں پہاڑ مکمل طور پر سبزے سے ڈھکے ہوتے ہیں۔ البتہ پاکستان میں اسے زیارت سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ یہاں سبزے کے بیچ پہاڑوں کا اصل رنگ نمایاں تھا۔ کیمپنگ کے لئے یہ مقام آئیڈیل تھا۔
اب ہم اس وادی سے آگے روانہ ہوئے۔ بل کھاتی ہوئی سڑک اوپر چڑھتی جا رہی تھی۔ راستے میں ایک جگہ رک کر ہم نے عصر کی نماز ادا کی۔ سڑک کا اختتام پہاڑ کی چوٹی پر ہوا جہاں ایک عرب اور ایک خان صاحب کھڑے تھے۔ مجھے گیٹ نظر نہ آیا اور میں گاڑی کو سیدھا اندر لے گیا۔ یہ ان صاحب کا گھر تھا۔ میں نے ان سے بڑی معذرت کی لیکن وہ خندہ پیشانی سے پیش آئے۔ یہ صاحب طائف کے رہنے والے تھے اور انہوں نے یہ گھر اپنی تفریح کے لئے بنایا تھا۔ یہ پہاڑ اور اس کے گرد و نواح کا علاقہ انہی کی ملکیت تھا اور خان صاحب کو انہوں نے بطور نگران یہاں ملازمت دی ہوئی تھی۔
ان صاحب کی فیملی بھی وہیں تھی۔ انہوں نے ہمیں چائے کی بھرپور دعوت دی۔ میں نے معذرت کر لی۔ انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ ہم لوگ نیچے اتر کر ان کا فارم ہاؤس دیکھ آئیں جو ان کے گھر سے تقریباً سو فٹ کی گہرائی میں واقعہ تھا۔ ہم خان صاحب کے ساتھ وہاں روانہ ہوئے۔ یہ نہایت ہی خوبصورت فارم تھا۔ اس میں بارش کے پانی کو جمع کرنے کے لئے ایک پختہ تالاب تھا جس سے موٹر کے ذریعے پانی اوپر گھر تک پہنچایا جاتا تھا۔ خان صاحب نے اپنے لئے یہاں ایک کمرہ تعمیر کیا ہوا تھا اور طویل عرصے سے تن تنہا یہیں مقیم تھے۔ ایسے لوگ فطرت کے ماحول میں رہتے ہوئے فطرت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہ لوگ آہستہ آہستہ موسم، دریا، ندی نالے، پہاڑوں اور چٹانوں کی زبان سمجھنے لگتے ہیں اور ان کے حواس بہت تیز ہو جاتے ہیں۔ آسمان کے بدلتے ہوئے رنگ سے یہ بارش کا اندازہ لگانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مجھے ایسے کئی لوگ شمالی علاقہ جات میں ہائکنگ کے دوران ملے تھے جو برسوں سے ایک ہی جگہ مقیم تھے۔
مغرب سے ذرا پہلے ہم روانہ ہوئے۔ واپسی کے سفر میں مسجد ملنے میں کچھ تاخیر ہوئی ۔ بالآخر ایک مسجد ملی جہاں ہم نے مغرب کی نماز ادا کی۔ سفر کی افراتفری کے باعث میں نے مغرب و عشا کی نمازیں جمع کرنے کا ارادہ کیا۔ مغرب کے بعد میں عشا کی نماز پڑھ رہا تھا کہ ایک عرب صاحب آکر میرے ساتھ کھڑے ہو گئے اور بولے ، ’تصلی المغرب۔ (تم مغرب پڑھ رہے ہو؟)‘ میں انہیں کیا جواب دیتا۔ وہ میرے مقتدی کے طور پر نماز میں شامل ہوگئے۔
میں شش و پنچ میں پڑ گیا کہ میں عشا کی نماز پڑھ رہا ہوں اور یہ مغرب کی۔ فقہ کے مطالعہ کے دوران ایسا کوئی ’مسئلہ‘ میری نظر سے نہ گزرا تھا کہ ایسی صورتحال میں کیا کیا جائے۔ میں نے نماز توڑی اور اپنے ساتھی سے کہا، ’ اصلی العشاء۔ (میں تو عشا کی نماز پڑھ رہا ہوں)‘۔ نماز کے دوران ان صاحب کا قہقہہ نکل گیا۔ نماز توڑ کر وہ بولے، ’کوئی بات نہیں، آپ عشا پڑھیں، میں مغرب کی نیت کرتا ہوں۔‘ اس کے بعد انہوں نے میری امامت میں مغرب کی نماز ادا کی۔ نماز کے بعد میں نے ان سے راستہ پوچھا، انہوں نے تفصیل بتائی۔
واپسی پر ہم لوگ طائف رنگ روڈ کے راستے براستہ سیل کبیر واپس ہوئے۔ چونکہ اس وقت مجھے ہدا کے راستے کے بارے میں معلومات نہ تھیں اس لئے یہ سفر خاصا طویل ثابت ہوا۔ ایک مقام پر جدہ کے لئے بورڈ لگا ہوا تھا۔ میں سمجھا شاید یہ جدہ جانے کا شارٹ کٹ ہو گا۔ ہم اس پر مڑ گئے۔ یہ ایک تنگ و تاریک پہاڑی روڈ ثابت ہوا۔ ہم مسلسل سفر کرتے رہے اور جدہ مکہ موٹر وے کے انتظار میں رہے۔ تین گھنٹے کے بعد جب ہم بری طرح تھک چکے تھے اور موٹر وے سے بالکل ہی مایوس ہو چکے تھے تو اچانک کہیں سے جدہ نمودار ہو گیا۔ دراصل ہم لوگ مکہ والے قدیم روڈ کی طرف سے جدہ پہنچے تھے۔
بعد میں ایک اور سفر کے دوران میں نے اس راستے کو دیکھنے کے لئے یہیں سے طائف روانہ ہوا۔ یہ اونچے نیچے پہاڑوں سے گزرتا ہوا راستہ ہے جو اولڈ مکہ روڈ کو سیل کبیر سے ملاتا ہے۔ اس راستے پر جموم نامی قصبے کے قریب یہ مکہ اورمدینہ کو ملانے والی طریق الہجرہ کے اوپر سے گزرتا ہے۔