حدیث اربعین اوراربعینات کا تعارف
از: رشید احمد فریدی، مدرسہ مفتاح العلوم، تراج، سورت
الحمد للّٰہ ربّ العٰلمین الذی خلق الانسان فی اطوار الاربعین والصلوة والسلام علی من بعث علی رأس الاربعین وعلی من صحبہ وتبعہ باحسان الی یوم الدین․
جمع وحفاظتِ قرآن مجید کے بعد احادیث نبویہ اور سنن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جمع وضبط، حفاظت وصیانت پر جن احوال وظروف اور ارشاداتِ خاتم الانبیاء نے صحابہ کرام اور تابعین عظام کو آمادہ کیا ہے اُن میں اُن بشارتوں کا بھی ایک خاص مقام ہے جن کی وجہ سے علمائے امت کیلئے صحرائے احادیث کے سنگ پاروں اور بحر آثار کے قطروں کو محفوظ کرنا ایک اہم علمی وظیفہ اور دینی خدمت بن گیا۔ مثلاً نضّراللّٰہ عبدًا سمع مقالتی فحفظہا و وعاہا واداہا الخ، اور نضّر اللّٰہ امرأ سمع منّا شیئا فبلّغہ کما سمع الخ ، اور من حفظ علی امتی اربعین حدیثا من امر دینہا بعثہ اللّٰہ یوم القیامة فی زمرة الفقہاء والعلماء․ وغیرہا۔
نبیٴ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس حدیثوں کے حفظ و نقل پر جو عظیم بشارت دی ہے اس کے پیش نظر خیرالقرون سے اب تک بے شمار لوگوں نے احادیث کی حفاظت کی اور زبانی یا تحریری طریقہ سے دوسروں تک پہنچانے کا اہتمام کیا، چنانچہ فن حدیث کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ کتب احادیث کے اقسام میں محدثین نے ایک خاص قسم ”اربعینات“ بھی ذکر کی ہیں اِن اربعینات کا تعارف پیش کرنے سے قبل مذکورہ بالا حدیث اربعین کے کچھ متعلقات ذکر کرنا مناسب اور مفید ہوگا۔
یہ حدیث امام محی الدین ابوزکریا یحییٰ بن شرف نووی رحمہ اللہ کے بقول کئی صحابہ کرام حضرت علی، عبداللہ بن مسعود، معاذ بن جبل، انس بن مالک، ابوہریرہ، ابوسعید خدری، عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس وغیرہم سے مختلف الفاظ کے ساتھ کئی طرق سے مروی ہے۔ حضرت ابوالدرداء کی روایت میں ”کنتُ لہ یوم القیامة شفیعًا وشہیدًا“ ہے۔ ابن مسعود کی روایت میں ”قیل لہ اُدخلِ الجنة من اَیِّ ابوابِ الجنة شِئتَ“ آیا ہے۔ ابن عمر کی روایت میں کُتِب فی زمرة العلماء و حُشِر فی زمرة الشہداء“ منقول ہے۔ اور ابوسعید خدری کی روایت میں ”اَدخَلتُہ یوم القیامة فی شفاعتی“وارد ہے۔ نیز بعض روایت میں ”اربعین حدیثا من السنة، یا مِن سنتی“ کا لفظ ہے۔ اور بعض میں ”من حفظ علی امتی“ کے بجائے ”من حمل مِن امتی“ کالفظ پایا جاتا ہے۔ (جامع الصغیر للسیوطی، الاربعین للنووی)
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ یہ حدیث تیرہ(۱۳) صحابہ کرام سے وارد ہوئی ہے۔ ابن جوزینے اپنی کتاب عِلَل میں اُن تمام کی تخریج کی ہے، اور امام منذری نے اس حدیث پر مستقل رسالہ تصنیف کیا ہے اور میں نے املاء میں اس کی تلخیص کی ہے ایک جزء میں حدیث کے تمام طرق کو جمع کیا ہے۔ (فیض القدیر،ج:۶،ص:۱۵۵)
علامہ عبدالرؤف مناوی صاحب فیض القدیر حدیث کے الفاظ مختلفہ کے مابین جمع وتطبیق یا حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اربعین کے حفظ کرنے والے قیامت کے دن مختلف المراتب ہوں گے بعضوں کاحشر زمرئہ شہداء میں اور بعضوں کو علماء میں اور بعض کو بحیثیت فقیہ وعالم اٹھائیں گے اگرچہ وہ دنیا میں ایسا نہیں تھا۔ (شرح اربعین لابن دقیق العید)
فقیہ ابواللیث سمرقندی نے بستان العارفین میں حضرت جابر کی روایت سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیا ہے کہ چالیس حدیثوں کو اگر کوئی ازبر (حفظ) کرلے تو یہ اس کے حق میں چالیس ہزار درہم صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔ اور بعض روایت میں یوں ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر حدیث کے بدلے قیامت کے دن اسے نور عطا فرمائیں گے۔ (بستان،ص:۱۰۴)
حدیث اربعین کا حکم
علامہ جلال الدین سیوطی نے جامع الصغیر میں بحوالہ ابن النجار اس حدیث کو نقل کرکے اس پر صحیح کی علامت لگائی ہے البتہ محققین کا اتفاق ہے کہ یہ خبر اپنے جمیع طرق کے اعتبار سے ضعیف ہے۔ قال ابن حجر ․․․ ثم جمعت طرقہ فی جزء لیس فیہا طریق تسلم من عِلة قادحة․ (فیض القدیر) واتفق الحفاظ علی انہ حدیث ضعیف وان کثرت طرقہ․ (اربعین للنووی)
مگر چونکہ فضائل میں عمل بالضعیف درست ہے خصوصاً جبکہ کثرت طرق وغیرہ امور سے حدیث میں قوت آجاتی ہے۔ وقد اتفق العلماء علی جواز العمل بالحدیث الضعیف فی فضائل الاعمال (اربعین للنووی) قال ابن عساکر الحدیث روی عن علی ․․․ وابی سعید باسانید فیہا کلہا مقال لیس للتصحیح فیہا مجال لکن کثرة طرقہ تقوّیہ (فیض القدیر، ج:۶، ص:۱۵۴) یہی وجہ ہے کہ فضیلت و ثواب کی تحصیل اور سعادت اخروی کے حصول کی خاطر علمائے امت نے اربعین پر اتنی تصنیفات وتالیفات کی ہیں کہ لا تُعد ولا تُحصٰی․
تنبیہ: متقدمین ومتأخرین اصحابِ حدیث کا عمل بالحدیث الضعیف کے جواز پر قولاً اتفاق اور خیرالقرون سے اب تک بغیر فترت کے ہرزمانہ میں علماء کا اس عظیم بشارت کے پیش نظر حدیث اربعین کا حفظ ونقل یا تصنیف وتالیف پر عملاً اجماع ایک مسلّم حقیقت ہے اس تواتر عملی اور اجماعِ قولی کے مقابل غیرمقلدین کا نظریہ اور ان کا شور وشغب کہ ”فضائل میں بھی ضعیف حدیث پر عمل جائز نہیں ہے“ لا یُعبأبہ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا۔ آفتاب عالم تاب کے سامنے ٹمٹماتا چراغ کا وجود سچ پوچھئے تو خود اس کی ذات کیلئے باعث شرمندگی ہے پس اہل حدیث ہونے کا دعویٰ کرنے والے (غیرمقلدین) اگرحدیث میں فہم صحیح کی اہلیت اور عمل بالحدیث کی لیاقت پیدا کرکے سبیل المومنین یعنی اہل السنة والجماعة کی طرح حقائق کو تسلیم کرتے ہیں تو یہ ان کے حق میں نفع ہے اور آخرت میں سود مند ہوگا۔ ورنہ کہیں سبیل المومنین سے روگردانی اور کنارہ کشی اللہ کی ناراضگی کاسبب بن کر غضبِ الٰہی کا ذریعہ نہ بن جائے۔
عمل بالاربعین کی لطیف صورت
علامہ مناوی فرماتے ہیں کہ اربعین کا پہلا عدد ۱ رُبع عشر ہے پس جس طرح حدیثِ زکوٰة ربع عشر بقیہ مال کی تطہیر پر دلالت کرتی ہے اسی طرح ربع عشر پر عمل بقیہ احادیث کو غیر معمول بہا ہونے سے خارج کردیتا ہے۔ چنانچہ بِشر حافی فرماتے تھے اے اصحاب حدیث ہر چالیس میں سے ایک حدیث پر عمل کرلو۔ (شرح اربعین لابن دقیق العید)
امام نووی فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے اِس سلسلہ میں عبداللہ بن مبارک نے تصنیف کی ہے پھر محمد بن اسلم طوسی عالم ربانی نے پھر حسن بن سفیان نسائی نے اورامام ابوبکر آجری، ابوبکر اصفہانی، دارقطنی، حاکم، ابونعیم اور ابوعبدالرحمن سلمی وغیرہم متقدمین و متأخرین کی بڑی تعداد نے تصنیف کی ہے۔ نیز ہر ایک کے اغراض ومقاصد مختلف اور طرز انتخاب بھی جداگانہ ہے کسی نے اصولِ دین کے مضمون کو بنیاد بنایا، کسی نے فروعی مسائل سے تعرض کیا۔ کسی نے جہاد میں حصہ لیا تو کسی نے زہد اختیار کیا۔ اور کسی نے آداب زندگی کو مطمح نظر رکھاتو کسی نے خطبہ کو موضوع بنایا۔ بعض نے اختصار و ایجاز کا طریق اختیار کیا تو بعض نے جوامع الکلم کو ظاہر و روشن کیا۔ بعض نے صحتِ احادیث کا التزام کیا تو بعض نے حَسَن و ضعیف روایت کو بھی جگہ دی۔ حتی کہ بعض نے صرف اس کا اہتمام کیا کہ احادیث طعن و قدح سے سالم ومحفوظ ہو خواہ کسی بھی مضمون سے متعلق ہو۔ پھر اسی پر بس نہیں بلکہ بعضوں نے جدت طرازی، غرابت پسندی اور تلون مزاجی کا بھی ثبوت دیا ہے جس سے پڑھنے والوں کو علمی بالیدگی، ذہنی نشاط اور قلبی انشراح کا ہونا ظاہر ہے تاکہ سنت پر عمل کا داعیہ پیدا ہو غرضیکہ جس نے بھی امت کی نفع رسانی کیلئے چالیس احادیث اُن تک پہنچائی اور خود بھی دین پر قائم اور عمل پیرا رہا وہ ان شاء اللہ اس فضیلت کا مستحق ہوگا۔ (فیض القدیر،ج:۶، اربعین نووی)
صاحب کشف الظنون علامہ مصطفی بن عبداللہ معروف بکاتب چلپی متوفی ۱۰۶۷ھ نے حضرت عبداللہ بن مبارک سے اپنے زمانہ تک کے مشاہیر علماء میں سے تقریباً ۷۵ علماء کی نوّے (۹۰)سے زائد اربعینات کا ذکر کیا ہے ان میں سے یہاں چند کا تعارف ان کی مختلف الجہتہ موضوع کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔
(۱) اربعین لابن المبارک المتوفی ۱۸۱ھ: امام نووی فرماتے ہیں کہ میرے علم کے مطابق یہ پہلی اربعین ہے جو تصنیف کی گئی ہے۔
(۲) اربعین لابی بکر البیہقی: امام ابوبکر شمس الدین احمد بن حسین الشافعی البیہقی متوفی ۴۵۸ھ کی تصنیف ہے اس میں سو احادیثِ اخلاق کو ۴۰/ ابواب پر مرتب فرمایا ہے۔
(۳) اربعین الطائیہ: ابوالفتوح محمد بن محمد بن علی الطائی الہمدانی متوفی ۵۵۵ھ کی ہے اس میں مصنف نے اپنی مسموعات میں سے چالیس حدیثیں چایس شیوخ سے املا کرائی ہیں اس طرح پر کہ ہر حدیث الگ صحابی سے ہے پھر ہر صحابی کی سوانح حیات ان کے فضائل اور ہر حدیث کے فوائد مشتملہ، الفاظ غریبہ کی تشریح اور پھر چند مستحسن جملے ذکر کئے ہیں اس کتاب کا ناماربعین فی ارشاد السائرین الی منازل الیقین رکھا بقول علامہ سمعانی کتاب بہت خوب اور عمدہ ہے جس کا تعلق علوم حدیث، فقہ ادب اور وعظ سے ہے۔
(۴) اربعینات لابن عساکر: ابوالقاسم علی بن حسن الدمشقی الشافعی متوفی ۵۷۱ھ نے کئی اربعین لکھی ہیں: (۱) اربعین طوال، (۲) اربعین فی الابدال العوال، (۳) اربعین فی الاجتہاد فی اقامة الحدود، (۴) اربعین بلدانیہ۔ اربعین طوال میں چالیس ایسی طویل حدیثیں جمع کی ہیں جو نبیٴ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر دلالت کرتی اور صحابہ کرام کے فضائل کو بھی بتلاتی ہیں۔ ساتھ ساتھ ہر حدیث کی صحت و سقم کو بھی ظاہر کیا ہے۔
(۵) اربعین بلدانیہ: ابوطاہر احمد بن محمد السلفی الاصبہانی متوفی ۵۷۶ھ نے چالیس حدیثیں چالیس شیوخ سے چالیس شہروں میں جمع کی ہیں۔ ابن عساکر نے ان کی اتباع میں ایسی بھی ایک اربعین لکھی اور اس پر یہ اضافہ کیا کہ وہ حدیثیں چالیس صحابہ کرام سے چالیس بابوں میں ذکر کیا۔ چونکہ ہر حدیث کے مالہ وماعلیہ پر کلام بھی کیا ہے اس سے ہر باب گویا مستقل کتابچہ بن گیا ہے۔
اربعین بلدانیہ اور بھی بہت سے محدثین نے لکھی ہیں۔
(۶) اربعین فی اصول الدین: امام فخرالدین محمد بن عمر الرازی متوفی ۶۰۶ھ نے اس کو اپنے فرزند محمد کے لئے تالیف کیا تھاجسے علم کلام کے چالیس مسائل پر مرتب کیا ہے۔
(۷) الاربعین فی اصول الدین: ابوحامد محمد بن محمد الغزالی متوفی (․․․) کی ہے جو تصوف کے مسائل پر مشتمل ہے۔
(۸) الاربعین: موفق الدین عبداللطیف بن یوسف الحکیم الفیلسوف البغدادی متوفی ۶۲۹ھ نے طب نبوی پر جمع کیا ہے۔
(۹) الاربعین: محمد بن احمد الیمنی البطّال متوفی ۶۳۰ھ نے اس میں صبح و شام کے اذکار ذکر کئے ہیں۔
(۱۰) الاربعین المختارہ فی فضل الحج والزیارة: حافظ جمال الدین الاندلسی متوفی ۶۶۳ھ کی ہے۔ (اس نوع کی ایک اربعین شاہ محمداسحاق محدث دہلوی کی بھی ہے)
(۱۱) اربعین للنووی: ابوزکریا محی الدین یحییٰ بن شرف النووی الشافعی متوفی ۶۷۶ھ نے تالیف کی ہے اس میں امام نووی نے متقدمین علماء کے مقاصد منفردہ کو یکجا کردیا ہے یعنی ایسی حدیثوں کا انتخاب فرمایا ہے جو دین وشریعت کے اصول وبنیاد ہیں اوراعمال واخلاق کی اَساس اور تقویٰ وپاکیزگی کیلئے مدار ہیں نیز صحت کا بھی التزام کیا ہے بلکہ اکثر احادیث صحیحین سے ماخوذ ہیں۔ اخیر میں اربعین پر دو کااضافہ کرکے غالباً ان عدد الاربعین للتکثیر لا للتحدید کی طرف اشارہ کردیا۔
چونکہ یہ اربعین جامع المقاصد تھی اس لئے بعد کے علمائے فحول نے اس کی تشریح و توضیح کی طرف خصوصی توجہ مبذول کی ہے علامہ چلپی نے تقریباً ۲۰ شارحین کا ذکر کیا ہے جن میں ایک علامہ ابن حجر عسقلانی بھی ہیں جنھوں نے احادیث کی تخریج کی ہے۔ اس کی ایک عمدہ شرح علامہ ابن دقیق العید کی بھی ہے مگر کشف الظنون میں اس کا ذکر نہیں ہے۔
(۱۲) اربعین لابن الجزری: شمس الدین محمد بن محمد الجزری الشافعی متوفی ۸۳۸ھ نے اس میں ایسی چالیس حدیثیں ذکر کی ہیں جو اصح، افصح اور اوجز ہیں۔
(۱۳) اربعینات للسیوطی: علامہ جلال الدین عبدالرحمن بن ابی بکر السیوطی متوفی ۹۱۱ھ نے کئی اربعین تالیف کی ہیں ایک فضائل جہاد میں، ایک رفع الیدین فی الدعاء میں۔ ایک امام مالک کی روایت سے۔ ایک روایت متباینہ میں۔
(۱۴) اربعین عدلیہ: شہاب الدین احمد بن حجر المکی متوفی ۹۷۳ھ نے اپنی سند سے ایسی چالیس احادیث جمع کی ہیں جو عدل وعادل سے متعلق ہیں۔
(۱۵) الاربعین عشاریات الاسناد: قاضی جمالد الدین ابراہیم بن علی قلقشندی الشافعی متوفی ۹۶۰ھ نے تصنیف کی ہے اس میں انھوں نے ایسی چالیس روایات املاء کرائی ہیں جو سند کے اعتبار سے عالی ہیں اگرچہ حَسَن کے درجہ تک نہیں پہنچی ہیں۔
(۱۶) اربعین لابن العربی: محی الدین محمد بن علی متوفی ۶۳۸ھ نے اسے مکہ میں جمع کیا اس شرط کے ساتھ کہ اس کی سند اللہ تبارک وتعالیٰ تک پہنچتی ہے (یعنی بواسطہٴ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) پھر اس کے بعد اور چالیس روایتیں اللہ تعالیٰ سے نقل کی ہیں اس طرح کہ اسکی سند بغیر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ کے اللہ تک پہنچتی ہے۔
(۱۷) اربعین طاش کبری زادہ: احمد بن مصطفی الرومی متوفی ۹۶۸ھ نے اس میں ایسی چالیس حدیثیں ذکر کی ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بطور مزاح و دل بستگی کے صادر ہوئی ہیں۔
(۱۸) اربعین یمانیہ: محمد بن عبدالحمید القرشی متوفی ․․․․ کی ہے جو یمن کے فضائل پر مشتمل ہے۔
(۱۹) اربعین لخویشاوند: ابوسعید احمد بن الطوسی متوفی ․․․ کی ہے اس میں فقراء اور صالحین کے مناقب میں ۴۰ احادیث بیان کی ہیں۔
(۲۰) اربعین قدسیہ: حسین بن احمد بن محمد التبریزی متوفی ․․․ نے ایسی احادیث کا انتخاب کیاہے جن کا تعلق اسرار عرفانی اور علوم لدنی سے ہے پھر صوفیاء کے مذاق کے مطابق اس کی شرح کی ہے اور ساتھ ساتھ چالیس حدیث قدسی مع شرح کے اضافہ کیا ہے اس کتاب کا نام مفتاح الکنوز ومصباح الرموز ہے۔
(۲۱،۲۲) الاربعین فی فضائل عثمان، الاربعین فی فضائل علی: یہ دونوں ابوالخیر رضی الدین القزوینی متوفی ․․․ کی ہیں۔
(۲۳) الاربعین فی فضائل العباس: ابوالقاسم حمزہ بن یوسف السہمی الجرجانی متوفی ۴۲۷ھ کی ہے۔
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی متوفی ۱۴۰۲ھ نے بھی لامع الدراری کے مقدمہ میں کئی اربعینات کا ذکر کیا ہے منجملہ یہ ہے۔
(۲۴)اربعین عالیہ: شیخ الاسلام حافظ احمد بن حجر العسقلانی الشافعی متوفی ۸۵۲ھ کی ہے اس میں انھوں نے صحیحین میں سے ایسی چالیس حدیثیں ذکر کی ہیں جن میں مسلم کی سند بخاری کی سند سے عالی ہے اس کے علاوہ اربعین متباینہ اور اربعین نووی کی تخریج وغیرہ بھی ہے۔
(۲۵)الاربعین الالٰہیہ: حافظ ابوسعید خلیل بن کیکلدی متوفی ۷۶۱ھ نے کئی اربعینات تالیف کی ہیں ایک یہی جو تین جزوں میں ہے دوسری الاربعین فی اعمال المتقین ۴۶/اجزاء میں اور الاربعین المعنعنہ ۱۲/جزوں میں ہے۔
(۲۶) اربعین: مسند الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی متوفی ۱۱۷۶ھ نے ایسی چالیس احادیث کا انتخاب فرمایا ہے جو قلیل المبانی وکثیر المعانی یعنی جوامع الکلم کے قبیل سے ہیں۔ حضرت شیخ الحدیث کے والد ماجد مولانا یحییٰ کاندھلوی ”مفید الطالبین“ کی جگہ یہی اربعین کا درس دیاکرتے تھے (شاہ صاحب کی اِس اربعین کا منظوم ترجمہ مولانا ہادی علی لکھنوی نے کیا ہے جو تسخیر کے تاریخی نام سے موسوم ہے۔ یہ اربعین رسالہ ”المسلسلات“ میں شامل ہوکر مطبوع ہے۔
مولانا ابوسلمہ شفیع احمد شیخ الحدیث والتفسیر مدرسہ عالیہ کلکتہ متوفی ۱۴۰۶ھ نے اپنی مضمون ”ہندوستان میں علوم حدیث کی تالیفات“ میں اور مضمون کے تکملہ میں محدث کبیر مولانا حبیب الرحمن الاعظمی نے مزید چند اربعین کا ذکر کیا ہے اور یہ سب علمائے برصغیر کی خدماتِ علم حدیث کی ایک کڑی ہے۔
(۲۷)اربعین (چہل حدیث): حکیم الامت مولانا اشرف علی التھانوی متوفی ۱۳۶۲ھ نے صرف مسلم شریف کی حدیث معمر عن ہمام بن منبہ عن ابی ہریرہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جمع کیا ہے یہ تمام احادیث کی سند ایک ہے۔
(۲۸)اربعین عن مرویات نعمان سید المجتہدین: مولانا محمد ادریس نگرامی متوفی ۱۳۳۱ھ نے ایسی چالیس حدیثیں جمع فرمائی ہیں جو امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت سید المجتہدین کی مرویات میں سے ہیں۔
امیرالمومنین فی الحدیث حضرت ابن المبارک کی اربعین سے لیکر اب تک کے ذخیرہ اربعینات میں سے مشت نمونہ از خروارے صرف چند کا تعارف پیش کیاگیا ہے استیعاب مقصود نہیں ہے۔
مذکورہ حدیث اربعین کے حفظ ونقل کی بشارت کے پیش نظر داعیہ پیدا ہوا کہ راقم الحروف بھی چالیس حدیثوں کو جمع کرکے لوگوں تک پہنچائے، مگر ایک خاص ندرت اور لطافت کے ساتھ کہ اس کی ہر حدیث میں اربعین کا ذکر مقصوداً ہوا ہو چنانچہ یہ مجموعہ تیار ہے۔ ان احادیث کو مفتی اعظم ہند حضرت فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہی نوراللہ مرقدہ نے ملاحظہ فرمایا اور راقم کی درخواست پر اپنے کلمات بابرکات کا تحفہ بھی عنایت فرمایا۔ نیز فقیہ النفس مفتی اعظم گجرات حضرت مفتی سید عبدالرحیم صاحب لاجپوری رحمہ اللہ کو یہ اربعین سنائی تھی حضرت نے تعجب آمیز خوشی کا اظہار فرمایا اور دعاؤں سے ضیافت فرمائی تھی۔
اِن اربعینات کے مطالعہ سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ صادقینِ امت یعنی حضرات صفیاء نے بغرض اصلاحِ قلب چلّہ کشی اور موجودہ دور میں اکابر تبلیغ نے امت کے عام افراد میں فکر آخرت پیدا کرنے اور اتباعِ سنت کی روح پھونکنے کیلئے خروج فی سبیل اللہ اربعین یوماً یا ثلثہ اربعینات کا جو نصاب مقرر فرمایا ہے یہ سب کس قدر کتاب وسنت کے موافق ہے۔ فجزاہم اللّٰہ عن سائر الامة خیر الجزاء․
الاربعون فی الاربعین
اس مجموعہٴ اربعینات میں جو آپ کے پیش نظر ہے اور اس کا نام ”الاربعون فی الاربعین“ ہے اربعینات قرآنیہ بھی شامل ہیں اور بطور تبرک ابتداء میں لکھی گئی ہیں۔ اگر انہیں ”اربعین حدیثاً“میں شمار کرلیں تو پھر عدد الاربعین للتکثیر لا للتحدید سمجھا جائے کما فعلہ النووی فی کتابہ الاربعیننیز اِس جمع میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ حدیث لفظاً ومعناً موضوع نہ ہو البتہ بعض احادیث ضِعاف ہیں سو اِن شاء اللہ اِن اربعینات کی تشریح و توضیح کے موقع پر حدیث کی صحت و ضعف پر بھی اشارہ کردیا جائے گا تاکہ علمی اشکال مرتفع اور عملی خلجان دور ہوجائے، فقط۔
الف: واذ واعدنا موسی اربعین لیلة (پ:۱، بقرہ آیت:۵۱)
ب: قال فانہا محرمة علیہم اربعین سنة یتیہون فی الارض (پ:۶، مائدہ آیت:۲۶)
ج: حتی اذا بلغ اشدہ وبلع اربعین سنة قال رب اوزعنی ان اشکر نعمتک (پ:۲۶، احقاف آیت:۱۵)
۱- من حفظ علی امتی اربعین حدیثا بعثہ اللّٰہ فقیہاً․
۲- ان خلق احدکم یجمع فی بطن امہ اربعین نطفة ثم تکون علقة مثل ذلک ثم تکون مضغة مثل ذلک ثم یبعث اللّٰہ الیہ ملکا باربع کلمات الخ․ (متفق علیہ مشکوٰة:۲۰)
۳- کتب اللّٰہ علیّ ان اعملہ قبل ان یخلقنی باربعین سنة (مسلم:۱۹، مشکوٰة:۱۹)
۴- بُعِث رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لاربعین سنة (متفق علیہ مشکوٰة:۵۲۱)
۵- بین المسجد الحرام والمسجد الاقصی اربعون سنة (مسلم:۱۹۹، مشکوة:۷۲)
۶- من صلی اربعین یوما فی جماعة یدرک التکبیرة الاولی کتب لہ براء تان (ترمذی،ج:۱،ص:۳۳، مشکوٰة،ص:۱۰۲)
۷- لو یعلم المارّ بین یدی المصلی ماذا علیہ لکان ان یقف اربعین خیرلہ من ان یمر بین یدیہ․(ترمذی،ص:۴۵، مشکوة،ص:۷۴)
۸- وقّت لنا فی قص الشارب وتقلیم الاظفار ونتف الابط وحلق العانة ان لا نترک اکثر من اربعین یوماً․(مسلم،ج:۱،ص:۱۲۹)
۹- من اتی عرّافا فسألہ عن شیء لم یقبل لہ صلوة اربعین لیلة․ (مشکوة:۳۹۳ عن مسلم)
۱۰- من شرب الخمر لم یقبل اللّٰہ صلوة اربعین صباحاً․ (ترمذی،ج:۲،ص:۸، مشکوة:۳۱۷)
۱۱- من اتی کاہنا فسألہ عن شیء حجبت عنہ التوبة اربعین لیلة فان صدقہ بما قال کفر․ (جامع الصغیر عن الطبرانی: ۲۴۶)
۱۲- من قتل معاہدًا لم یرح رائحة الجنة وان ریحہا لتوجد من مسیرة اربعین عاما․ (بخاری،ج:۱، ص:۴۴۸)
۱۳- ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امر عبداللہ بن عمرو ان یقرأ القرآن فی اربعین یوماً․(ترمذی،ج:۲،ص:۱۱۸)
۱۴- من صلی فی مسجدی اربعین صلاة لاتفوتہ صلاة کتب لہ براء ة من النار و برأة من النفاق․ (وفاء الوفاء،ج:۳، ص:۴۲۴ عن احمد والطبرانی)
۱۵- ما من رجل مسلم یموت فیقوم علی جنازتہ اربعون رجلا لایشرکون باللّٰہ شیئاً الاشفعہم اللّٰہ فیہ․ (جامع الصغیر،ج:۱،ص:۴۷۲)
۱۶- یدخل فقراء المسلمین الجنة قبل اغنیائہم باربعین خریفاً․ (ترمذی،ج:۲،ص:۵۸)
۱۷- سبق المہاجرون الناسَ باربعین خریفا الی الجنة․ (جامع الصغیر،ج:۴،ص:۹۳ عن الطبرانی)
۱۸- تمام الرباط اربعون یوما ومن رابط اربعین یوما لم یبع ولم یشتر ولم یحدث حدثا خرج من ذنوبہ کیوم ولدتہ امہ․ (جامع الصغیر،ج:۳،ص:۲۶۷ عن الطبرانی)
۱۹- ما بین النفختین اربعون․ (متفق علیہ، مشکوة:۴۸۱)
۲۰- ایما مسلم دعا بقولہ لا الہ الا انت سبحانک انی کنتُ من الظٰلمین اربعین مرة فمات فی مرضہ ذلک اعطی اجر شہید وان برأ برأ وقد غفرلہ جمیع ذنوبہ․ (حصن:۱۷۷ عن الحاکم)
۲۱- یخرج الدجال فیمکث اربعین یوماً (ترمذی،ج:۶،ص:۴۷)
۲۲- ینزل عیسی بن مریم ویمکث فی الناس اربعین سنة․ (طبرانی بحوالہ ترجمان السنة،ج:۴،ص:۴۲۳)
۲۳- من اخلص للّٰہ اربعین صباحا اظہر اللّٰہ ینابیع الحکمة من قلبہ علی لسانہ․ (جامع،ج:۶،ص:۴۳)
۲۴- اربعون خصلة اعلاہن منحة العنز لا یعمل عبد بخصلة منہا رجاء ثوابہا وتصدیق موعدہا الا ادخلہ اللّٰہ تعالی بہا الجنة․ (جامع،ج:۱،ص:۴۷۲ عن البخاری و ابی داوٴد)
۲۵- اعطی رسول اللّٰہ ﷺ قوة اربعین رجلا․ (معارف السنن:۴۶۷ عن الحلیہ)
۲۶- الابدال بالشام وہم اربعون رجلا کلما مات رجل ابدل اللّٰہ مکانہ رجلا یُسقٰی بہم الغیث وینتصر بہم علی الاعداء ویصرف عن اہل الشام بہم العذاب․ (جامع،ج:۳،ص:۱۶۹ عن احمد)
۲۷- ان ما بین مصراعین فی الجنة لمسیرة اربعین سنة․ (جامع،ج:۳،ص:۵۱۹ عن مسند احمد)
۲۸- لسرادق الناس اربعة جدر کثافة کل جدار مسیرة اربعین سنة․ (ترمذی،ج:۲،ص:۸۲، مشکوة:۵۰۳)
۲۹- حد الجوار اربعون دارا․ (جامع،ج:۳،ص:۳۷۶ عن البیہقی)
۳۰- الشیب نور من خلع الشیب فقد خلع نور الاسلام فاذا بلغ الرجل اربعین سنة وقاہ اللّٰہ الادواء الثلثة الجنون والجذام والبرص․ (جامع،ج:۴،ص:۱۸۴ عن ابن عساکر)
۳۱- من غسّل میتا فکتم علیہ غفر اللّٰہ لہ اربعین مرة․ (کنز العمال،ج:۱۵،ص:۲۴۴، حاکم)
۳۲- روٴیا المومن جزء من اربعین جزئا من النبوة․ (ترمذی)
۳۳- صلوة الجماعة تفضل صلاة احدکم اربعین درجة․ (تنویرالحوالک،ج:۱،ص:۱۴۹)
۳۴- ما من حاکم یحکم بین الناس الاجاء یوم القیامة وملک آخذٌ بقفاہ ثم یرفع رأسَہ الی السماء فان قال اَلقِہ القاہ فی مہواة اربعین خریفا․ (مسند احمد بحوالہ مشکوة:۳۲۵)
۳۵- اقامة حد من حدود اللّٰہ تعالیٰ خیر من مطر اربعین لیلة فی بلاد اللّٰہ․ (مشکوة:۳۱۳ عن ابن ماجہ والنسائی)
۳۶- من احتکر طعاما علی امتی اربعین یوما وتصدق بہ لم یقبل منہ․ (جامع،ج:۶، ص:۳۵ عن ابن عساکر)
۳۷- لاتسبوا اصحاب محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلمقام احدہم ساعة یعنی مع النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم خیر من عمل احدکم اربعین سنة․ (شرح عقیدة الطحاوی،ج:۸،ص:۳۸۲ عن الانابة الکبری)
۳۸- کانت الکعبة غثاء علی الماء قبل ان یخلق السماء والارض باربعین سنة․ (مرقاة،ج:۱، ص:۴۷۸)
۳۹- لغزوة فی سبیل اللّٰہ احبّ الیّ من اربعین حجة․ (جامع،ج:۵،ص:۲۷۷)
۴۰- سألت اللّٰہ فی ابناء الاربعین من امتی فقال یا محمد قد غفرت لہم قلتُ فابناء الخمسین قال ان قد غفرت لہم قلتُ فابناء الستین قال قد غفرت لہم قلتُ فأبناء السبعین قال یا محمد انی لاستحی من عبدی ان اعمرّہ سبعین سنة یعبدنی لا یشرک بی شیئاً ان اعذّبہ بالنار فاما ابناء الاحقاب فابناء الثمانین والتسعین فانی واقف یوم القیامة فقائل لہم اَدخِلوا من احببتم الجنة․ (جامع،ج:۴،ص:۷۵ عن ابن حبان)