پہلے زمانہ میں جب ملک الموت (موت والا فرشتہ) لوگوں کے پاس آتا تھا تو وہ اس کو دیکھتے تھے۔ چنانچہ ملک الموت حضرت موسی علیہ السلام کے پاس (انسانی شکل میں ) آیا اور کہا: اپنے رب کی بات قبول کرو (اور روح قبض کرنے دو)۔ حضرت موسی علیہ السلام نے اسے تھپڑ مارا اور ملک الموت کی آنکھ پھوٹ گئی چنانچہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں اس واقعہ کو بیان کیا گیا ھے
عن ابو ھریرہ رضی اللہ تعالی وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " جاء ملك الموت إلى موسى ابن عمران فقال له : أجب ربك " . قال : " فلطم موسى عين ملك الموت ففقأها " قال : " فرجع الملك إلى الله فقال : إنك أرسلتني إلى عبد لك لا يريد الموت وقد فقأ عيني " قال : " فرد الله إليه عينه وقال : ارجع إلى عبدي فقل : الحياة تريد ؟ فإن كنت تريد الحياة فضع يدك على متن ثور فما توارت يدك من شعرة فإنك تعيش بها سنة قال : ثم مه ؟ قال : ثم تموت . قال : فالآن من قريب رب أدنني من الأرض المقدسة رمية بحجر " . قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " والله لو أني عنده لأريتكم قبره إلى جنب الطريق عند الكثيب الأحمر " . متفق عليه
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (جب ) حضرت موسی ابن عمران علیہ السلام (کی موت کا وقت قریب آیا ان ) کے پاس موت کا فرشتہ عزرائیل علیہ السلام آیا اور کہا کہ اپنے پروردگار کی طرف سے پیغامِ اجل قبول فرمائیے یعنی آپ کی روح قبض ہونے کا وقت آپہنچا ہے واصل الی اللہ ہونے کے لئے تیار ہوجائیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حضرت موسی علیہ السلام نے یہ سن کر فرشتۂ موت کو طمانچہ رسید کردیا جس سے اس کی آنکھ پھوٹ گئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا موت کا فرشتہ دربارِ الہٰی میں واپس گیا اور عرض کیا کہ پروردگار تونے مجھے روح قبض کرنے کے لئے اپنے ایک ایسے بندے کے پاس بھیجا جو موت نہیں چاہتا اور یہ کہ اس نے میری آنکھ بھی پھوڑ دی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے فرشتۂ موت کی یہ شکایت سن کر اس کی آنکھ درست کردی اور یہ حکم دیا کہ میرے بندے موسی علیہ السلام کے پاس دوبارہ جاؤ اور ان کو میرا یہ پیغام پہنچاؤ کہ کیا تم طویل زندگی چاہتے ہو؟ اگر تم طویل زندگی چاہتے ہو تو کسی بیل کی کمر پر اپنا ہاتھ یا دونوں ہاتھ رکھ دو تمہارے اس ہاتھ یا دونوں ہاتھوں کے نیچے جتنے بال آجائیں گے ان میں سے ہر ایک بال کے عوض تمہاری زندگی میں ایک ایک سال کا اضافہ ہوجائے گا فرشتہ نے دوبارہ حاضر ہو کر حضرت موسی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام سنایا تو انہوں نے کہا کہ اس طویل زندگی کا بھی آخری نتیجہ موت ہی ہے تو پھر وہ آج ہی کیوں نہ آجائے میں اسی وقت موت کی آغوش میں جانے کے لئے تیار ہوں لیکن میری یہ دعا ضرور ہے کہ رب کریم ( تدفین کے لئے مجھے ارضِ مقدس (یعنی بیت المقدس ) سے قریب کردے اگرچہ ایک پھینکے ہوئے پتھرکے بقدر ہو اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اگر میں بیت المقدس کے قریب ہوتا تو تمہیں حضرت موسی علیہ السلام کی قبر کا نشان دیکھا دیتا جو ایک راستے کے کنارے پر سرخ ٹیلے کے قریب ہے
( بخاری ومسلم)
مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ حدیث 277
ایسا کیوں ہوا؟ اس بارے میں ابن بطال رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اصل میں اللہ تعالی نے فرشتے کو حضرت موسی علیہ السلام کے امتحان کے لیے بھیجا تھا نہ کہ موت کے لیے۔
شرح صحيح البخارى لابن بطال (3/ 322):
امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح میں اس کی مختلف وجوہات تحریر فرمائی ہیں، ایک وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ درحقیقت اس میں تھپڑ کھانے والے فرشتے کا امتحان تھا، یعنی اللہ تعالیٰ کے مقدس انبیاءِ کرام علیہم السلام کی روح قبض کرتے ہوئے پہلے اجازت لی جاتی ہے، یوں جاکر براہِ راست روح کی حوالگی کا مطالبہ نہیں کیا جاتا، اور اللہ تعالیٰ جس کا چاہیں امتحان لیتے ہیں، اور جو چاہیں اپنی مخلوق میں پیدا فرمادیتے ہیں۔
ایک اور توجیہ یہ بیان کی گئی ہے کہ ملک الموت جب انسانی شکل میں آیا اور اس نے روح قبض کرنے کی بات کی تو پہلے پہل حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسے پہچانا ھی نہیں، اور انسان سمجھتے ہوئے اپنے دفاع میں اسے تھپڑ مارا، اور یہ ضابطہ ہے کہ جب فرشتہ یا جن انسانی شکل میں متشکل ہو تو اس میں اتنی ہی جان ہوتی ہے جو ایک طاقت ور انسان میں ہوسکتی ہے، لہٰذا ملک الموت حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تھپڑ کی تاب نہ لاسکے۔
شرح النووي على مسلم (15/ 129):
“رب کریم مجھے ارض مقدس سے قریب کردے “ حضرت موسی علیہ السلام نے آخری وقت میں یہ دعا اس لئے کی کہ وہ بیت المقدس کے قریب دفن ہونا چاہتے تھے اور اس زمانہ میں وہی جگہ سب جگہوں سے افضل واشرف تھی کیونکہ یہ انبیاء کا مدفن اور مزارات کی جگہ تھی ہوسکتا ہے کہ مذکورہ واقعہ کے وقت حضرت موسی علیہ السلام میدان تیہ (صحراسینا ) میں ہونگے لہٰذا انہوں نے آخری وقت میں بیت الرب (یعنی بیت المقدس ) کی قربت کی خواہش ظاہر کی اور اس خواہش کی شدت کو ظاہر کرنے کے لئے کہا کہ چاہے یہاں سے وہ قربت اتنے کم فاصلہ کے برابر ہی کیوں نہ ہو جو ایک پھینکا ہوا پتھر طے کرتا ہے نیز انہوں نے بیت المقدس کے قریب دفن ہونے کی خواہش تو ظاہر کی لیکن بیت المقدس کے اندر دفن ہونے کی خواہش کا اظہار نہیں کیا انہیں یہ خوف تھا کہ اگر میں نے بیت المقدس میں دفن ہونے کی خواہش کی تو میری قبر بہت مشہور اور زیارت گاہ خلائق ہوجائے گی اور ہوسکتا ہے کہ لوگ اس کی وجہ سے کتنے فتنہ اور برائی میں مبتلا ہوجائینگے ۔ بعض محققین نے لکھا ہے کہ حدیث میں جس سرخ ٹیلے کا ذکر ہے وہ ایک بستی اریحاء کے قریب ہے اور بستی میدان تیہ کے سب کے قریب وادی مقدس کا علاقہ ہے
جب حضرت موسی علیہ السلام کی خدمت میں موت کا فرشتہ حاضر ہوا تو وہ انسانی شکل وصورت میں تھا ، حضرت موسی علیہ السلام اس کو دیکھ کر پہچان نہ سکے کہ یہ موت کا فرشتہ ہے اور میری روح قبض کرنے آیا ہے ، ان کو یہ ناگوار گذرا کہ ایک اجنبی شخص بغیر اجازت کے کیوں ان کے خلوت کدہ میں گھس آیا ہے ، پھر اس نے ان کو موت کا پیغام دیا تو یہ خطرہ بھی ہوا کہ کہیں یہ شخض قتل کرنے کی نیت سے تو میرے پاس نہیں آیا اس لئے ان کو طیش بھی آیا اور انہوں نے اس کے خلاف اس کے خلاف دفاعی اقدام کرنا ضروری سمجھا ، چنانچہ اس کے منہ پر طمانچہ ماردیا ، فرشتہ بشکل انسان تھا لہٰذا بشری اثرات نے کام کیا اور حضرت موسی علیہ السلام کے زبردست طمانچہ کی چوٹ سے اس کی آنکھ جاتی رہی ۔
موت کا فرشتہ درگاہ الہٰی میں جاپہنچا ، اب اللہ تعالیٰ نے اس کو پھر ملکوتی ہیئت پر واپس کیا اور حضرت موسی علیہ السلام کی خدمت میں دوبارہ بھیجا اور اس طرح وہ اس عیب ونقصان سے بری ہوگیا جو بشری شکل وصورت میں آنکھ مجروح ہوجانے سے پیدا ہوگیا تھا ، ادھر فرشتۂ موت نے حضرت موسی علیہ السلام کے خیالات سے آشنا ہوئے بغیر خود ہی یہ سمجھ لیا کہ حضرت موسی علیہ السلام موت کے نام سے خفا ہوگئے اور موت نہیں چاہتے اور دربار الہٰی میں جاکریہی شکایت بھی کی لیکن اللہ تعالیٰ تو اصل صورت حال جانتا تھا اس نے فرشتہ کی غلط فہمی اور حضرت موسی علیہ السلام کی جلالتِ شان دونوں کے اظہار کے لئے یہ طریقہ اختیار فرمایا کہ فرشتۂ موت دوبارہ حضرت موسی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور ایک بلیغ انداز میں موت کا پیغام پہنچایا ادھر حضرت موسی علیہ السلام نے اس اجنبی شخص کے یکایک غائب ہوجانے پر فورًا محسوس کرلیا تھا کہ درحقیقت یہ معاملہ عالمِ بالا کا ہے ، چنانچہ فرشتہِ موت نے جب دوبارہ حاضر ہو کر حضرت موسی علیہ السلام کو پیغامِ الہٰی سنایا تو ان کا طرزِ عمل اور طریقۂ گفتگو فورا بدل گیا پھر انہوں نے پیغامِ اجل کو لبیک کہنے میں ذرا بھی دیر نہیں کی اور اپنے رفیقِ آعلی سے جاملے ،