بدگمانی سے مراد کسی دوسرے کے متعلق ایسی بات دل میں لانا ہے جس کا نہ یقین ہو نہ ھی اس کی تحقیق کی ھو اور نہ ہی اس کے متعلق عادل گواہ موجود ہوں۔
یوں تو تمام رذائل اخلاق انسانی شخصیت اور معاشرے کے لیے نقصان دہ ہیں اور اسلام ان سے کلیتاً اجتناب کا حکم دیتا ہے لیکن بدگمانی ایک ایسا گناہ ہے جس کے کرنے سے انسان دیگر گناہوں کی دلدل میں خود بخود پھنستا چلا جاتا ہے گویا بدگمانی ایسی متعدی بیماری ہے جو انسان کی ذاتی زندگی سے لے کر معاشرے کی اجتماعی زندگی تک بگاڑ کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کر دیتی ہے۔
دینِ اسلام بلنداخلاق،اعلی کردار اور پاکیزہ اقدار پرمشتمل ایسے مثالی معاشرے کا علم بردار اور داعی ہے،جس کا ہرفرد امن وآشتی، عزت ومساوات اور بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے یکساں حیثیت کا حامل ہو۔یہ بات اہل فکر و نظر پر مخفی نہیں کہ امن وسلامتی دراصل باہمی مضبوط روابط اور آپسی الفت و محبت سے فروغ پاتی ہے، جس سماج میں محبت ورواداری کا جس قدر وجود ہوگا اسی قدر وہاں امن وسلامتی کے آثار ملیں گے اور جس سر زمین پرجس قدر یہ چیزیں مفقود ہوں گی اسی قدر وہاں امن وسلامتی کا وجود خطرے میں دکھائی دے گا۔یہی وجہ ہے کہ آپس میں سلام کو عام کرنا، ملاقات کے و قت مصافحہ کرنا،بھلائی کے ساتھ لوگوں کا تذکرہ کرنا،خندہ پیشانی اورکشادہ جبینی کے ساتھ ایک دوسرے سے معاملہ کرنا وغیرہ ، اسلام کی اولین ترجیحات میں سے ہے۔ اس کے برعکس تجسس وبدظنی،غیبت وچغل خوری، عداوت ودشمنی،حسد و قطع رحمی جیسی مہلک خصلتوں کی اسلام میں حد درجہ مذمت کی گئی ہے؛کیوں کہ یہ مخلصانہ تعلقات کوختم کرنے اور اسلامی اخوت کو تباہ وبرباد کرنے کے بنیادی اسباب ومحرکات ہیں۔
اِمام ابن حجر المکی لکھتے ہیں:”بدگمانی کا شمار ان کبیرہ گناہوں میں ہوتا ہے جن کا علاج لازمی وضروری ہے؛ کیوں کہ جس شخص کے دل میں یہ بیماری موجود ہوگی اس کی حق تعالی سے قلب سلیم کے ساتھ ملاقات نہ ہوسکے گی اور یہ اتنا بڑا گناہ ہے جس کے ارتکاب پر اتنی بلکہ اس سے زیادہ مذمت کی جانی چاہیے، جتنی مذمت چوری، زنا کاری اور شراب نوشی جیسے گناہوں کے ارتکاب پر کی جاتی ہے؛ اس لیے کہ بدگمانی کا شر و فساد کئی گنا بڑھ کر ہے،اس کے زہرناک اثرات دیرپا ہیں،برخلاف ان گناہوں کے جن کا صدور اعضاء و جوارح سے ہوتا ہے؛اس لیے کہ ان کے اثرات جلد زائل ہوجاتے ہیں اور توبہ و استغفار کے ذریعہ ان کا ازالہ ممکن ہے“۔(الزواجر:106)
بدگمانی لوگوں کے مابین قربت و محبت کا جذبہ ختم کر دیتی ہے، اخوت ودوستی کو رقابت ونفرت میں بدل دیتی ہے،خوش گوار تعلقات کے آبگینے کو سنگ زنی کا نشانہ بنادیتی ہے، بدگمانی صرف ایک گناہ نہیں؛بلکہ کئی ایک گناہوں کا پیش خیمہ ہے،اسی سے تجسس پیدا ہوتاہے،بڑائی و خود پسندی کا جذبہ انگڑائی لینے لگتا ہے،غیبت و بہتان تک کی نوبت آجاتی ہے اس لیے قرآن و حدیث میں صراحتاً واشارتاً متعدد مقامات پر اس کی قباحت بیان کی گئی ہے۔
بدگمانی کی مذمت، قرآن و حدیث کی روشنی میں
بدگمانی کی مذمت کرتے ہوئے اور بہت زیادہ گمان سے بچنے کا حکم دیتے ہوئے حق تعالیٰ شانہ ارشادفرماتے ہیں:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثۡمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوۡا وَ لَا یَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًا ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحۡمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا فَکَرِہۡتُمُوۡہُ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیۡمٌ O
اے اہل ایمان! بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہیں اور ایک دوسرے کے حال کا تجسس نہ کیا کرو اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ اس سے تو تم ضرور نفرت کرو گے۔ تو غیبت نہ کرو اور اللہ کا ڈر رکھو بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا ہے مہربان ہے
(الحجرات)
مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ ظن کی کئی قسمیں ہیں۔ ایک ظن غالب ہے، جو کسی دلیل یا مضبوط علامت کے ساتھ قوی ہوجائے، اس پر عمل کرنا درست ہے۔ شریعت کے اکثر احکام اسی پر مبنی ہیں اور دنیا کے تقریباً تمام کام اسی پر چلتے ہیں،مثلاً عدالتوں کے فیصلے، گواہوں کی گواہی، باہمی تجارت، ٹیلی فون اور خطوط کے ذریعے سے اطلاعات اور خبر واحد کے راویوں کی روایات۔ ان سب چیزوں میں غور و فکر، جانچ پڑتال ا ور پوری کوشش سے حاصل ہونے والا علم بھی ظن غالب ہے؛ مگر اس پر عمل واجب ہے۔ اسے ظن اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی مخالف جانب کا، یعنی اس کے درست نہ ہونے کانہایت ادنیٰ سا امکان رہتا ہے۔ ظن کی ایک قسم یہ ہے کہ کسی وجہ سے دل میں ایک خیال آکر ٹھہر جاتا ہے مگر اس کی کوئی دلیل نہیں ہوتی۔ دلیل نہ ہونے کی وجہ سے دل میں اس کے ہونے یا نہ ہونے کا امکان برابر ہوتا ہے، اسے شک بھی کہتے ہیں یا اس کے ہونے کا امکان اس کے نہ ہونے کے امکان سے کم ہوتا ہے، یہ وہم کہلاتا ہے۔ ظن کی یہ صورتیں مذموم ہیں اور ان سے اجتناب واجب ہے۔
(ان بعض الظن اثم) بیشک بعض گمان گناہ ہیں سے یہی مراد ہے اور اللہ تعالیٰ کے فرمان :
وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا ۚ إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَO
ان میں سے اکثر گمان کے سوا کسی چیز کی پیروی نہیں کرتے۔ یقیناً گمان حق کے مقابلے میں کچھ کام نہیں آتا۔ یقیناً اللہ اچھی طرح جاننے والا ہے جو وہ کر رہے ہیں۔“ (٣٦)
اور اللہ کے فرمان:
ؕ اِنۡ یَّتَّبِعُوۡنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ مَا تَہۡوَی الۡاَنۡفُسُ ۚ وَ لَقَدۡ جَآءَہُمۡ مِّنۡ رَّبِّہِمُ الۡہُدٰی O
یہ لوگ محض خیال و گمان اور خواہشاتِ نفس کے پیچھے چل رہے ہیں حالانکہ انکے پروردگار کی طرف سے انکے پاس ہدایت آ چکی ہے
(النجم) میں اسی ظن کا ذکر ہے۔
* ظَنَّ کے معنی ہیں گمان کرنا۔ مطلب ہے کہ اہل خیر واہل اصلاح وتقویٰ کے بارے میں ایسے گمان رکھنا جو بےاصل ہوں اور تہمت وافترا کے ضمن میں آتے ہوں اسی لئے اس کا ترجمہ بدگمانی کیا جاتا ہے۔ اور حدیث میں اس کو أَكْذَبُ الْحَدِيثِ (سب سے بڑا جھوٹ) کہہ کر اس سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے :۔
إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ (البخاري،
اور البتہ کھلم کھلا فسق وفجور میں مبتلا لوگوں سے ان کے گناہوں کی وجہ سے اور ان کے گناہوں پر بدگمانی رکھنا اس وعید میں شامل نہیں ھے یہ وہ بدگمانی نہیں ہے جسے یہاں گناہ کہا گیا ہے اور اس سے اجتناب کی تاکید کی گئی ہے
“إِنَّ الظَّنَّ الْقَبِيحَ بِمَنْ ظَاهِرُهُ الْخَيْرُ، لا يَجُوزُ، وَإِنَّهُ لا حَرَجَ فِي الظَّنِّ الْقَبِيحِ بِمَنْ ظَاهِرُه الْقَبِيحُ (القرطبي)۔
*یعنی اس ٹوہ میں رہنا کہ کوئی خامی یا عیب معلوم ہو جائے تاکہ اسے بدنام کیا جائے، یہ تجسس ہے جو منع ہے اور حدیث میں بھی اس سے منع کیا گیا ہے۔ بلکہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر کسی کی خامی، کوتاہی تمہارے علم میں اجائے تو اس کی پردہ پوشی کرو۔ نہ کہ اسے لوگوں کے سامنے بیان کرتے پھرو، بلکہ جستجو کرکے عیب تلاش کرو۔ آج کل حریت اور آزادی کا بڑا چرچا ہے۔ اسلام نے بھی تجسس سےروک کر انسان کی حریت اور آزادی کو تسلیم کیا ہے لیکن اس وقت تک، جب تک وہ کھلے عام بےحیائی کا ارتکاب نہ کرے یا جب تک دوسروں کے لئے ایذا کا باعث نہ ہو۔ مغرب نے مطلق آزادی کا درس دے کر لوگوں کو فساد عام کی اجازت دے دی ہے جس سے معاشرے کا تمام امن وسکون برباد ہو گیا ہے
حضور نبی اکرم ﷺ نے متعدد آحادیث مبارکہ میں بدگمانی کرنے کی مذمت اور ممانعت فرمائی ہے ۔
حضرت ابو ہریرہؓ روایت کر تے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ بدگمانی کرنے سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے، ایک دوسرے کے ظاہری اور باطنی عیب مت تلاش کرو۔‘‘ (مسلم)
سیدنا علی المرتضیٰ ؓ فرماتے ہیں کہ جب بدگمانی دل میں گھر کر جاتی ہے تو یہ مصالحت و مفاہمت کے سب امکانات ختم کر دیتی ہے۔ یہ اخلاقی برائی انسان میں موجود بقیہ اخلاقی خوبیوں کو بھی نگل جاتی ہے ۔ ایسا شخص حقیقت و سچائی کا ادراک کرنے سے بھی محروم ہو جاتا ہے ۔حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ دو خیالات ہر انسانی دل میں چکر لگاتے رہتے ہیں ۔ ایک خیال اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے جو انسان کو نیکی اور سچائی کی طرف راغب کر تا ہے اور دوسرا خیال شیطان کی طرف سے ہے ۔ یہ انسان کو حق اور بھلائی سے روکتا ہے ۔ جس شخص کا دل بدگمانی میں مبتلا ہو ،شیطان اس کے لیے کینہ ، بغض اور ٹوہ یعنی تجسس جیسے گناہ سرزد کروانے کے لیے راہ ہموار کرتا ہے ۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے مسلمان کے خون ، اس کی عزت اور اس کے متعلق بدگمانی کو حرام کر دیاہے ۔‘‘
حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص نے اپنے بھائی کے متعلق بدگمانی کی اس نے اپنے رب کے متعلق بدگمانی کی۔ ‘‘
بدگمانی ایک ایسا گناہ ہے جس کے کرنے سے انسان دیگر گناہوں کی دلدل میں خود بخود پھنستا چلا جاتا ہے کیونکہ جب انسان کے دل میں کسی کے متعلق کوئی بُرا گمان آتا ہے پھر وہ اپنے گمان کی تصدیق کے لیے اس کی ٹوہ میں رہتا ہے، اس کی باتیں سنتاہے اور اس کے حالات کامشاہدہ کرتاہے ۔ بعض اوقات جاسوسی کرتا اور کرواتا ہے تاکہ اس کے ذہن میں اس شخص کے متعلق جو براگمان آیا تھا، اس کی تائید اور توثیق حاصل کر سکے ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی ﷺ نے بدگمانی کے بعد تجسس کرنے یعنی کسی کی ٹوہ میں لگے رہنے سے منع فرمایا ہے
حضرت ابن عباس ؓ روایت کر تے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کے عیب کو چھپایا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیب چھپائے گا اور جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کے عیب ظاہرکیے، اللہ تعالیٰ اس کے عیب کا پردہ چاک کر دے گا اور اس شخص کو اس کے گھر میں رسوا کر دے گا۔ (کشف الخفاء، ۲:۱۳۳)
مندرجہ بالا آیات اور احادیث مبارکہ میں جس بدگمانی اور تجسس سے منع کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اگر کسی شخص کا عیب صرف اس کی ذات تک محدود ہو تو اس سے متعلق کسی بھی طرح کی بدگمانی ، عیب جوئی اور تجسس کرنا منع ہے۔
لیکن اگر کسی شخص کا عیب اجتماعی زندگی ، کسی ملک ، تنظیم ، خاندان ، فرد/افراد یا ادارے کے لیے مضر ہو تو پھر اس کی تحقیق کرکے اس سے باز پرس کرنا اور اس کو کیفر کردار تک پہنچانا ضروری ہے ۔ اسی طرح اگر کسی جگہ کام کرنے والے کسی شخص یا بعض افراد کے متعلق شبہ ہو کہ اس کی در پردہ سرگرمیاں ادارے اور کارکنان کے لیے نقصان دہ ہیں یا اس سے ادارے کی عزت، ساکھ اور سلامتی کو خطرہ ہے، تو ایسی صورت میں اس کو پرایا معاملہ سمجھ کر یا خود کو غیر جانب دار ثابت کرنے کے خیال میں خاموش نہ رہا جائے بلکہ اسے ادارے کے علم میں لانا ضروری ہے ۔ اس کے برعکس، کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بدگمانی جیسی مہلک بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں اور وہ ہمہ وقت اسی فکر اور جستجو میں رہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طریقے سے دوسرے شخص کو بُرا بھلا کہا جائے یا کسی شعبے کو بدنام کیا جائے۔ اس سلسلے میں اسے ہر وہ شخص دیانت دار اور صاحب الرائے نظر آتا ہے جو اس کے مزاج کے عین مطابق ہو۔ پس یہیں سے کسی کے عیب کا کھوج لگانے کے لیے یہ لوگ لکڑیاں اور تیل مہیا کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اِدھر اُدھر سے معلومات حاصل کر تے رہتے ہیں ، جس میں بتانے والوں کی اپنی کدورتیں اور بدگمانیاں بھی شامل ہو جاتی ہیں۔ نتیجتاً کام میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے اور کارکنان گروپ بندی اور اختلافات کا شکار ہو جاتے ہیں ۔
لہٰذا جب آپ کو ایسے بدگمان شخص سے کسی دوسرے شخص کے بارے میں کوئی ایسی معلومات ملیں جو کسی کے لیے نقصان دہ ہوں، تو آپ پر لازم ہے کہ کوئی رائے قائم نہ کریں کیوں کہ سماعت اور نظر میں دھوکے کا امکان بہر حال رہتا ہے اور حقیقت ویسے نہیں ہوتی جیسے آدمی سمجھ رہا ہوتا ہے ۔ ہر وہ خبر جس کے متعلق کوئی صحیح علامت اور گواہی موجود نہ ہو اس کے بارے میں بدگمانی کرنا حرام ہے اور اس بدگمانی سے اجتناب کرنا واجب ہے ۔لیکن ایسی بات یا خبر جس کے مثبت اور منفی پہلو نکل سکتے ہوں تو مسلمان کو حکم ہے کہ آپس میں حسنِ ظن سے کام لے کیونکہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’حسن ظن رکھنا حسن عبادت میں سے ہے۔‘‘ ابو داؤد)
تہمت، الزام تراشی، بہتان، اور بد گمانی ہمارے معاشرتی سکون کے لئے زہر قاتل ہیں۔ یہ رویئے ہماری خوشیوں کو برباد کردیتے ہیں اورہر گھر اور ہر ایک فرد ان سے متاثر ہوتا ہے۔ منفی خیالات اور دوسروں کے بارے میں غلط سوچ اور خوہ مخواہ کا تجسس ہمیں ایک دوسرے سے دور لے جاتا ہے۔ بے بنیاد خیالات، غلط فہمیاں، شک اور دوسروں کے بارے از خود کوئی رائے قائم کرلینا یا دوسروں کی غلط معلومات اور الزام ترشی کو تصدیق کئے بغیرسچ جان لینا بدگمانی اور نفرت کا باعث بن جاتا ہے جس سے ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ آجاتا ہے۔بعض اوقات کسی پر ایسا الزام لگادیا جاتا ہے کہ اسے سننے والا حیران و ششدر رہ جاتا ہے۔ جو شخص کسی کے خلاف جھوٹا الزام لگاتا ہے وہ خود کو دوسرے کا ہمدرد ثابت کرتا ہے اور اپنے آپ کو معتبر گردانتا ہے لیکن فریق مخالف کو بغیر کسی جرم و خطا کے مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کردیتا ہے دراصل ایسا شخص خود ہی یہ سب باتیں پھیلا رہا ہوتا ہے کوئی اس بیان کو درست تسلیم کرلیتا ہے اور خواہ مخوا ہ شک اور بدگمانی اپنے دل میں ڈال لیتا ہے حالانکہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل تصدیق کرلینی چاہیے اور دوسرے فریق سے بھی وضاحت طلب کرنی چاہیے۔ قرآن حکیم نے اسی لئے حکم دیا ہے کہ جب بھی کوئی فاسق اس قسم کی خبر تمہارے پاس لائے تو اس کی تحقیق کرلیا کرو۔ یہ حکم انفرادی باتوں کے متعلق بھی ہے اور اجتماعی امور سے بھی ہے۔ تہمت، بہتان اور جھوٹے الزام لگانے کو اللہ تعالیٰ نے بدترین جرائم قرار دیا ہے۔ ایسا کرنے والا نہایت کمینہ خصلت ، بد ترین کردار اور پست ذہنیت کا حامل ہوتا ہے۔ متاثرہ فرد اور اس سے جڑے ہوئے دیگر افراد کا سکون تباہ ہوجاتا ہے اوروہ اس ناکردہ گناہ کی وجہ سے مفت میں بدنام ہوجاتا ہے۔ قرآن حکیم نے اسی لئے اس کو بہت سنگین جرم قرارد یاہے۔ کسی کی عزت اور کردار کو پورے معاشرہ میں رسوا کرنے کے بعد اگر معافی طلب کربھی جائے تو جو نقصان ہو چکا ہوتا ہے اس کی تلافی ممکن نہ نہیں ہوتی۔انہی سماجی رویوں کے باعث دلوں میں دوریاں اور نفرتیں پروان چڑھتی ہیں اور اسلام کی تعلیمات کے سرا سر منافی ہے جو جو دلوں کو جوڑنے آیا تھا
قرآن حکیم نے ان امور کے بارے میں واضح تعلیمات دی ہیں۔ فرمایا کہ دوسروں کے معاملات کی ٹوہ میں نہ لگے رہو۔ کسی کے خلاف تہمت نہ لگاؤ۔ ثبوت پیش نہ کرنے والے کی سزا اسی کوڑے ہیں۔ قرآن حکیم میں یہ بھی ہے کہ خود جرم کا مرتکب ہونا اور اس کا بہتان دوسروں پر لگا دینا جرم ہے۔ ایک دوسرے کی غیبت مت کرو، یہ نہایت ناپسندیدہ بات ہے۔ ایک دوسرے کا تمسخر نہ اڑاؤ ، ایک دوسرے کی ذلت نہ کرو۔ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھو۔ باری تعالیٰ نے یہ بھی حکم دیا کہ ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی مت کرو۔ کسی سے حسد نہ کرو۔ خواہ مخواہ افواہیں نہ پھیلاؤ اور غلط باتوں کا چرچا نہ کرو۔ قرآن حکیم جو تعلیمات دی ہیں ان کا تقاضا ہے کہ اگر کسی کے خلاف کوئی الزام لگایا جائے تو مومنین کا پہلا رد عمل نیک ہونا چاہیے ، آپس میں ہمیشہ حسن ظن نیک رکھنا چاہیے اور کہنا چاہیے کہ یہ بات غلط ہے۔ قرآن حکیم یہ بھی تعلیم دیتا ہے کہ لوگوں کو چاہیے کہ جب کسی کے بارے کوئی ایسی بات سنیں جو نامناسب ہو تو اسے آگے نہ پھیلائیں بلکہ کہہ دیں کہ یہ بہتان تراشی ہے۔ قرآن حکیم نے سخت تنبیہ کی ہے کہ اس قسم کی باتوں کا چرچا کرنے والے بھی مجرم ہیں۔ قرآن حکیم نے سورہ نساء، نور، احزاب اور حجرات میں اس بارے میں تفصیلی احکامات دئے ہیں اور یہ کالم انہی کا روشنی میں تحریر کیا گیا ہے۔ ان احکامات پر عمل کرکے جہاں ہم خوشنودی باری تعالیٰ حاصل کرسکتے ہیں وہاں ہم اپنے رشتوں اور تعلقات میں آنے والی رنجشوں اور دوریوں کو ختم کرسکتے ہیں۔ ان پر عمل پیرا ہونے کی صورت میں ہمارا معاشرہ محبت اور دوستی کا گہواراہ بن سکتا ہے۔ ہمیں انفرادی، معاشرتی اور قومی سطح پر ان ہدایات کو ملحوظ نظر رکھنا چاہیے۔ میڈیا اور ذمہ دار عہدوں پر فائیز افراد کو تو اور بھی سختی سے ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
بخاری اور مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے ایک روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔ مسند احمد میں حضرت عبدالرحمٰن بن غنمؓ اور حضرت اسماء بنت یزیدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے بہترین بندے وہ ہیں جن کو دیکھ کر اللہ یاد آجائے اور برترین بندے وہ ہیں جو چغلیاں کھانے والے، دوستوں میں جدائی ڈالنے والے ہیں اور جو اس خواہش اور کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ اللہ کے پاک دامن بندوں کو بدنام اور پریشان کریں۔ قرآن پاک اور رسول اکرم ؐ کے ان احکامات کو ہمیں اپنی زندگی کا نصب العین بنا لینا چاہیے اور اگر کوئی بد گمانی پھیلانے کی کوشش کرے تو اسے وہیں روک دیں ۔یاد رکھئے جب آپ کسی حسد یا پرخاش کی وجہ سے کسی کی جھوٹی سٹوریاں اڑاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہماری سچی سٹوریاں اڑا دیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کو آپ کی ٹکروں سے کوئی غرض نہیں اگر آپ چھوٹے موٹے معاملات میں محض شک کی بناء پر اگلے کی زندگی حرام کریں گے تو اللہ تعالیٰ کا غضب جوش میں آ جائے گا ۔ہم پر مصیبتیں ہمارے ہی اعمال کے سبب آتی ہیں
وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍؕ(۳۰)
ترجمہ:اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ اس کے سبب سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا اور بہت کچھ تو معاف فرمادیتا ہے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بدگمانی جیسی بدترین اخلاقی برائی کو کسی بھی صورت میں پیدا ہونے کا موقع نہ دیں اور جہاں تک ممکن ہو حسنِ ظن اور باہمی اتفاق اور بھائی چارے کا ماحول پیدا کریں، تاکہ آقائے دو جہاں ﷺ کے حسب ارشاد بدگمانی پنپ نہ سکے ۔
اللہ پاک ھم سب کو اس مہلک بیماری سے محفوظ رکھے
آمین یا رب العالمین
※※※※※