شریعت اور جمہوریت


اکثر سننے میں آتا ھے  کہ ھمارے سیاستدان “جمہوریت جمہوریت” کی رٹ  بہت زیادہ لگاتے ھیں  خاص کر جب یہ زیر عتاب ھوتے  ہیں تو  ان کو جمھوریت کا مروڑ کچھ زیادہ ھی ھوتا ھے گو ان کی اپنی پارٹیوں میں جمہوریت نام کی کوئی چیز دور  دور تک نظر نہیں آتی صرف اتنا ھی نہیں بلکہ بعض اوقات یہ عوام کو دھوکہ دینے کے لئے یہ بھی کہتے سنائی دیتے ھیں کہ جمھوریت عین شریعت ھے حالانکہ ان کی اپنی زندگیوں میں شریعت کا وجود سرے سے موجود ھی نہیں ھوتا بلکہ یہ تو شریعت کے مفہوم سے بھی آشنا نہیں ھوتے اب سوال یہ 

پیدا ھوتا ھے کہ کیا شریعت میں جمہوریت کی گنجائش ھے اگر ھے تو کس حد تک ھے؟ اھل علم اس کا جواب یہ دیتے ھیں کہ شریعت میں جمہوریت کی بلاشبہہ گنجائش ھے لیکن اسلامی جمہوریت میں ھر ساجھے ماجھے کو ووٹ کا حق حاصل نہیں ھے صرف اہل علم لوگ ووٹ کا حق رکھتے ہیں گویا شریعت میں جس جمہوریت کا اعتبار ہے اس جمہوریت سے مراد اہل علم و اہل حل وعقد ہیں ۔ہر کس وناکس کا ا عتبار نہیں۔

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال فرماتے ہیں:

*اس راز کو اک مردِ فرنگی نے کِیا فاش*

*ہر چند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے*

*جمہُوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں*

*بُندوں کو گِنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے*!

موجودہ جمہوریت درحقیقت برطانیہ کا بنایا ہوا  ایک نظام ہے جس میں حاکمیت  کا اختیار اللہ تعالی کی بجائے مخلوق کو دیا گیا ہے ووٹ میں ایک عالم اور ایک جاہل کو برابر رکھا گیا ہے اور ووٹ کے زریعہ حاکم کو منتخب کیا جاتا ہے چاہے  منتخب ھونے والا فاسق اور فاجر ہی کیوں نہ ہو بلکہ چاھے وہ اسلام بیزار ھی کیوں نہ ھو

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں  جس کا مفہوم یہ ھے کہ میرے لیے ایک ہی دین قابل قبول ہے اور وہ ہے اسلام جو ایک کامل دین ہے 

اسلام میں عبادات کے ساتھ ساتھ ایک مکمل نظام حیات موجود ہے جسے شریعت کہتے ہیں.

جس طرح اسلام کے مقابلے میں کوئی دوسرا دین جائز نہیں اسی طرح نظام شریعت کے مقابلے میں بھی کوئی دوسرا نظام جائز نہیں. موجودہ نظام جمہوریت کسی طرح بھی نظام شریعت کا متبادل نہیں

※※※※※

Share: