عام مسلمانوں میں کثرت سے اور بعض خواص میں بھی مالی معاملات کے بارے میں جو بڑی کوتاہیاں اور غلطیاں ہو رہی ہیں، ان میں سے ایک کوتاہی میراث کا اللہ تعالٰیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام و ارشادات کے مطابق تقسیم نہ کرنا، بلکہ ایک وارث یا چند وارثوں کا اسے ہڑپ کر جانا اور دوسرے وارثوں کو اس کے حصہ سے محروم کرنا یا اس کے حصہ میں سے کسی طریقہ یا بہانہ سے کم کرنا ہے۔ قرآنِ مجید میں اسے اللہ تعالٰیٰ اور رسول اللہ کی نافرمانی اور کافروں کا عمل اور کردار بتایا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالٰیٰ ہے:
وَتَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلًا لَّمًّا o وَّتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا o
اور میراث کا سارا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو اور مال کی محبت میں پوری طرح گرفتار ہو۔
دور جاہلیت میں میراث
----------------
عرب جاہلیت کے دور میں عورتوں اور بچوں کو میراث کے مال سے محروم رکھا جاتا تھا، جو زیادہ طاقت ور اور بااثر ہوتا، وہ بلاتامل ساری میراث سمیٹ لیتا تھا، اور ان سب لوگوں کا حصہ بھی ھڑپ کرجاتا تھا جو اپنا حصہ حاصل کرنے کی طاقت نہ رکھتے تھے۔ میراث اور ورثے کی تقسیم کے بارے میں دنیا کی مختلف قوموں کے نظریات، خیالات اور طور طریقے کئی طرح کے رہے ہیں۔ ان طریقوں میں سے کسی میں بھی اعتدال اور انصاف نہیں تھا۔ بعض قومیں میراث میں عورتوں اور بچوں کو بالکل حصہ نہیں دیتی تھیں۔ عرب جاہلیت کی قومیں، برعظیم پاک و ہند کی قومیں اور دیگر علاقوں کے لوگ عورتوں کو حصہ بالکل نہیں دیتے تھے، پھر بیٹوں میں بھی انصاف و برابری نہیں تھی۔ کسی بیٹے کو تھوڑا تو کسی کو زیادہ دے دیا جاتا تھا۔
بعض اقوام نے میراث دینی شروع کی تو پرانے جاہلیت کے طریقے کو چھوڑ کر نئی جاہلیت اپنائی اور عورتوں کو مردوں کے برابر لاکھڑا کیا۔ یہ دوسری انتہا اور زیادتی ہے جس میں بھی انصاف کے تقاضے مدنظر نہیں رکھے گئے۔ میراث کی تقسیم میں افراط و تفریط دنیا کے بہت بڑے حصے میں پایا جاتا تھا اور آج بھی پایا جاتا ہے اور مسلم اُمت بھی اس کبیرہ گناہ میں گرفتار ہے۔
اسلام اور احکامِ میراث
---------------
اللہ تعالٰیٰ نے مسلمانوں کے لیے تقسیمِِ میراث کے احکام بالکل صاف واضح، متعین اور دو اور دو چار کی طرح مقرر کردیے ھیں، اس میں کوئی الجھاؤ اور شبہہ تک نہیں چھوڑا۔ اس لیے کہ مال وہ پسندیدہ اور دل لبھانے والی چیز ہے کہ انسان اسے چھوڑنا نہیں چاہتا۔ معاشرتی دباؤ کی بنا پر کوئی زبان نہ کھولے تو اور بات ہے، لیکن دل میں خواہش، تمنا اور اپنا حق حاصل کرنے کی تڑپ ضرور موجود رہتی ھے۔ میراث کی تقسیم، وارثوں کے حصے، حصوں کی حکمت، میراث سے قرض کی ادایگی، جائز وصیت پوری کرنے اور اس حکم پر عمل کرنے والوں کے لیے جنت کی خوش خبری اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے دوزخ کے دردناک عذاب کی وعید سورۂ النساء میں بیان کی گئی ہے۔
میراث کی حکمت و احکام
------------------
تقسیمِ میراث میں حصہ پانے والوں کے حصے مقرر کرتے ہوئے کچھ باتیں کلام کے درمیان میں بیان کی گئی ہیں جن سے اس مسئلے کی پوشیدہ حکمتیں، اہمیت، فرضیت اور اس پر عمل کرنے والوں کے لیے خوش خبری اور اسے چھوڑ دینے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے عذاب بیان کیا گیا ہے۔
میراث کی تقسیم میں جو حصے مقرر کیے گئے ہیں، ان کی مقدار کی مکمل حکمت و مصلحت اللہ رب العزت ہی بہتر جانتا ہے، اس لیے کہ ہماری عقل و شعور کو اس کی گہرائی تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ اس لیے فرمایا: ’’تم نہیں جانتے کہ تمھارے ماں باپ اور تمھاری اولاد میں سے کون نفع کے لحاظ سے تمھارے قریب تر ہیں۔ یہ حصے اللہ تعالى نے مقرر کر دیے ہیں اور اللہ یقیناً سب حقیقتوں سے واقف اور تمھاری مصلحتوں کا جاننے والا ہے۔
تقسیمِ میراث کی آیات میں وصیت اور آدائیگئ قرض کے الفاظ متعدد مرتبہ آئے ہیں۔ لہٰذا تقسیمِ میراث میں سب سے پہلے میت کے ذمے جو قرض ہے اسے ادا کرنا چاہیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مقروض (قرض دار) کا جنازہ تک نہیں پڑھایا۔ اس لیے نفلی خیرات و صدقات کرنے سے پہلے تدفین کے اخراجات اور اس کے بعد قرض کی ادایگی لازمی ہے۔ بیوی کا مہر بھی قرض میں شامل ہے اور شوہر کے ذمے لازم ہے۔
میت کی جائز وصیت کا پورا کرنا بھی ضرورہ ھے لیکن اگر میت نے خلافِ شرع وصیت کی ھو تو اسے رد کر دیا جائے گا ملکیت میں سے ایک تہائی کی وصیت پوری کی جانی چاہیے۔ جس محسن کی میراث لی جارہی ہے، اس کا اتنا تو حق ہونا چاہیے کہ اس کا کہا مانتے ہوئے ایک تہائی میراث میں سے اس کی وصیت پوری کی جائے۔ اگر وصیت، ایک تہائی میراث سے زیادہ ہے تو زیادہ وصیت پوری کرنا لازم نہیں ہے۔ اگر بالفرض سب بالغ ورثا راضی ہوں تو پورا کر دیں، ورنہ زیادہ کو چھوڑ دیں۔
جب تک میراث تقسیم نہیں ہوتی تو تمام وارثوں (بشرطیکہ بالغ ہوں) سے اجازت لیے بغیر خیرات و صدقات نہ کیے جائیں۔ اگر وارث نابالغ اور کم سن ہوں تو کسی صورت میں خیرات کرنا نہیں چاہیے اور وارث یتیم ہونے کی صورت میں گناہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے، لہٰذا ایسی خیرات کھلانے والے، کھانے والے گویا دوزخ کے ایندھن سے شکم پُری کر رہے ہیں۔
میراث کے احکام کے آخر میں دو آیتیں بہت ہی اہم ہیں۔ ان سے تقسیمِ میراث کی اہمیت، فرضیت اور اس پر ثواب و عذاب کا اندازہ ہوتا ہے کی سورہ النساء کی آیت 14 کے بارے میں علماء كرام تحریر کرتے ہیں: ’’یہ ایک بڑی خوفناک آیت ہے جس میں ان لوگوں کو ہمیشگی کے عذاب کی دھمکی دی گئی ہے جو اللہ تعالٰیٰ کے مقرر کیے ہوئے قانونِ وراثت کو تبدیل کریں یا، ان دوسری قانونی حدوں کو توڑیں جو خدا نے اپنی کتاب میں واضح طور پر مقرر کر دی ہیں۔ لیکن سخت افسوس ہے کہ اس قدر سخت وعید کے ہوتے ہوئے بھی مسلمانوں نے بالکل یہودیوں کی سی جسارت کے ساتھ خدا کے قانون کو بدلا اور اس کی حدوں کو توڑا۔ اس کے قانونِ وراثت کے معاملے میں جو نافرمانیاں کی گئیں ہیں وہ اللہ کے خلاف کھلی بغاوت کی حد تک پہنچتی ہیں۔ کہیں عورتوں کو میراث سے مستقل طور پر محروم کیا گیا۔ کہیں عورتوں کي میراث كے حصه كو مختلف بهانوں سے كم کیا گیا کہیں صرف بڑے بیٹے کو میراث کا مستحق ٹھہرایا گیا، کہیں سرے سے تقسیمِ میراث ہی کے طریقے کو چھوڑ کر “مشترکہ خاندانی جائیداد” کا طریقہ اختیار کیا گیا اور کہیں عورتوں اور مردوں کا حصہ برابر کر دیا گیا‘‘۔
قیامت کے دن سوال
--------------
قیامت کے دن ہر مسلمان سے پانچ اہم سوال کیے جائیں گے اور ان کے جواب طلب کیے جائیں گے۔ جب بندہ ان کے جواب دے دے گا تب قدم آگے بڑھائے گا۔ ان سوالوں میں سے دو سوال، یعنی ایک سو نمبروں میں سے 40 نمبر یا 40 فی صد سوال مال کے بارے میں ہوں گے۔
حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن اللہ تعالٰیٰ کی عدالت سے آدمی نہیں ہٹ سکتا جب تک اس سے پانچ باتوں کے بارے میں حساب نہیں لے لیا جائے گا۔ اس سے پوچھا جائے گا کہ:
عمر کن مشاغل میں گزاری؟
جوانی کہاں کھپائی؟
دین کا علم حاصل کیا تو اس پر کہاں تک عمل کیا؟
مال کہاں سے کمایا؟
مال کہاں خرچ کیا؟
ان پانچ سوالوں میں سے دو سوال صرف مال کے بارے میں ہیں، یعنی دیگر مالی معاملات کے علاوہ میراث کے مال کے بارے میں ضرور سوال ہوگا کہ کیسے حاصل کیا؟ کیا دوسرے وارثوں کا حق مار کر اپنا حصہ زیادہ لیا اور دوسروں کو ان کے حصے سے محروم کر دیا يا أنكے حصه ميں كمي كي ؟
میراث کو قرآن مجید کے احکام کے مطابق تقسیم کرنا وارثوں پر فرضِ عین ہے اور دوسرے رشتہ داروں اور برادری اور خاندان کے بزرگوں پر فرضِ کفایہ ہے۔ اگر کچھ لوگ میراث کو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کے مطابق تقسیم کرنے کی تلقین کریں اور ترغیب دیں تو ان پر سے فرض کفایہ اُتر جائے گا، اور وارثوں پر فرضِ عین ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ خوش دلی اور رضا و خوشی سے میراث کی شریعت کے مطابق تقسیم کرنے پر متفق ہوجائیں تو سب پر سے فرض اُتر جائے گا۔
میراث کا معاملہ جدید دور میں
-------------------
آج مسلم معاشرے پر نظر ڈالی جائے اور برعظیم پاک و ہند کے مختلف علاقوں کو دیکھا جائے تواندازہ ہوتا ہے کہ بحیثیت مجموعی بہت کم لوگ میراث شریعت کے مطابق تقسیم کرتے ہیں اور بڑی تعداد اللہ تعالٰیٰ کی نافرمانی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت سے منہ موڑے ہوئے ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی سطح پر ایک سروے کا اہتمام کیا جائے کہ کتنے فی صد لوگ میراث شرعی طریقے پر تقسیم کرتے ہیں تاکہ حقیقی صورت حال سامنے آسکے اور لوگوں کو توجہ دلائی جاسکے کہ بحیثیت مجموعی ہم اللہ تعالٰیٰ کے واضح حکم سے کتنی غفلت برت رہے ہیں۔
یتیم پوتے کی وراثت
---------------
یتیم پوتے کی وراثت کے حوالے سے کافی اختلاف پایا جاتا ہے۔ کچھ علماء ایسے یتیم پوتوں کو جن کا باپ دادا کی زندگی میں وفات پا گیا ہو، ان کو دادا کا بعیدی رشتے دار قرار دیتے ہوئے وراثت سے خارج سمجھتے ہیں۔ کچھ علماء نے یتیم پوتے کو دادا کی وراثت میں حق دار بتایا ہے۔
تقسیمِ میراث کے فوائد ِ، برکتیں ، رحمتیں اور اجروثواب
-------------
شریعتِ مطہرہ کے مطابق تقسیمِ میراث کی برکتیں ، رحمتیں ، فوائد اور اجروثواب بہت زیادہ ہے۔ اس سے اجتماعی و انفرادی اور ديني و دنياوي فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
1- اللہ تعالٰیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے اور ایسے بندے سے اللہ تعالٰیٰ محبت کرتا ہے۔
میراث کے شرعی حکم پر عمل کرنے والا جنت کا حق دار ہوتا ہے۔ اللہ تعالٰیٰ نے اپنی کتاب میں اسے بہت بڑی کامیابی فرمایا ہے۔
2- قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شفاعت نصیب ہوگی اور اس دن کے عذاب سے نجات حاصل ہوجائے گی۔
3- ایسے شخص کا مال حلال ہونے کی وجہ سے مالی عبادتیں قبول ہوتی ہیں۔ یہ آخرت کے دن بڑا سرمایہ ہوگا۔
4- جن عزیز و اقارب اور عورتوں کو میراث میں سے حصہ ملتا ہے، وہ ان کے لیے دل سے دعائیں کرتے ہیں اور محروموں کو جب حق ملتا ہے تووہ ایسے شخص کے ہمدرد بن جاتے ہیں۔
5- تقسیمِ میراث سے دولت تقسیم ہوتی ہے جو اسلام کا ایک مقصد ہے۔ ارشاد باری تعالٰیٰ ہے:
کَیْ لاَ یَکُوْنَ دُوْلَۃً بَیْنَ الْاَغْنِیَآءِ مِنْکُمْ
ترجمہ: ’’تاکہ وہ تمھارے مال داروں ہی کے درمیان گشت نہ کرتا رہے‘‘۔*
6- تقسیمِ میراث کے حکم پر عمل کرنے سے دوسروں کو ترغیب ہوتی ہے اور پہل کرنے والے کو اجر ملتا ہے اور اس کے لیے صدقہ جاریہ بن جاتا ہے۔
میراث کی حق دار عورتوں كي ذمه داري
------------------
میراث کی حق دار عورتوں کو اپنے حق کے لیے مطالبہ کرنا چاہیے۔ میراث میں عورتوں، بیٹیوں، بہنوں، ماں اور بیویوں کا حق ہے، لہٰذا انھیں اپنے حق کا نہ صرف مطالبہ کرنا چاہیے، بلکہ آگے بڑھ کر تقاضا کرکے اپنا حق لینا چاہیے اور هر وه ممكن راسته إختيار كرنا چاهيے جس سے يه فرض قرآن المجيد كے كے مطابق پورا هو جائے اور قرآن مجید کے اس حکم (فرضِ عین) پر عمل کرنے کی هر ممكن کوشش کرنی چاہیے۔ عورتوں کو جاہلیت کی رسم اور معاشرتی دباؤ کی وجہ سے اپنا حصہ نہیں چھوڑنا چاہیے۔ انہیں كسي صورت بهي الله تعالى كي نافرماني كا مرتكب هونے والونكا ساتهـ نهيں دينا چاهيے ورنه كهيں إيسا نه هو قيامت والے دن قران المجيد كے حكم كي خلاف ورزي كرنے والوں ميں شامل هوجائيں .
خاندان کے دوسرے افراد
--------------------
خاندان کے دوسرے افراد كي بهي يه شرعي ذمه داري هے كه وه اپنا اثر و رسوخ إستعمال كركے ان ( عورتوں) کا حصہ دلوانے میں اپنا کردار ادا کريں - أنهيں هر ممكن كوشش كركے الله تعالى كے إس حكم كو نافذ كروانے كي سعي كرني چاهيے اگر أنكي كوشش سے الله تعالى كے حكم كے مطابق ميراث كا مسئله حل هوگيا تو إسكا آجر انكو قيامت والے دن ضرور ملے گا اور اگر اتكي كوشش كے باوجود غاصبين نے يه مسئله حل نه كيا پهر بهي وه آجر سے محروم نهيں هونگے كيونكه انهوں نے تو اپني بساط كے مطابق پوري كوشش كي هے
میراث تقسیم نہ کرنے کے نقصانات
-----------------
میراث تقسیم نہ کرنے اور مستحقین کو محروم رکھنے کے کئی خطرناک پہلو ہیں جن میں میراث کھانے والے مبتلا ہوکر گنہگار ہوتے ہیں اور اپني آخرت كو برباد كر ليتے هيں ۔ یہ درج ذیل ہیں:
1- میراث کو قرآن و سنت کے مطابق تقسیم نہ کرنا اور دیگر وارثوں کا حق مارنا کفار، یہود، نصاریٰ، ہندوؤں اور غیرمسلم اقوام کا طریقہ ہے۔ میراث کو قرآن و سنت کے مطابق تقسیم نہ کرنے والے اپنے رب كے حكم كو توڑ كر إن أقوام كي تابعداري كرتے هيں اور حديث مباركه ميں هے جو جس قوم كي مشابهت أختيار كريگا قيامت والے دن أنهي كے ساتهـ أٹهايا جائے گا
2- میراث کا شرعی طریقے پر تقسیم نہ کرنا اللہ تعالٰیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نافرمانی ہے۔ یہ صریحاً فسق ہے، لہٰذا ایسا شخص فاسق ہے اور گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہے۔ خاص طور پر برسہا برس اس پر اصرار کرنا اور توبہ نہ کرنا تو اور بهي بڑا گناہ اور اللہ تعالٰیٰ سے بغاوت کے مترادف ہے۔
3- میراث کے حق داروں کا مال کھا جانا ظلم ہے اور یہ شخص ظالم ہے۔ لیکن اگر وارث اپنے قبضے اور تحویل میں لے لیں اور پھر کوئی طاقت ور وارث چھین لے تو یہ غصب ہوگا۔ اس کا گناہ ظلم سے بھی زیادہ ہے۔
4- میراث پر قبضہ کرنے والے کے ذمے میراث کا مال قرض ہوگا، اور قرض بھی واجب الادا ہے۔ اگر کوئی دنیا میں ادا نہیں کرے گا تو آخرت میں لازماً دینا ہی ہوگا۔
5- ایسا مال جس میں میراث کا مال شامل ہو، اس سے خیرات و صدقہ اور انفاق کرنے، حج و عمرہ کرنے كا ثواب حاصل نہیں ہوگا، اس لیے کہ اللہ تعالٰیٰ پاک و طیب مال قبول کرتا ہے حرام مال كو قبول نهيں كيا جاتا
6- جو میراث کا مال کھا جاتا ہے اس کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔
7- میراث شریعت کے مطابق تقسیم نہ کرنے والے كے لئے دوزخ میں داخل ہونے کی وعيد قرآن پاک میں سنائى گئى هے ۔
8- جو اشخاص میراث کا مال کھا جاتے ہیں حق دار وارث ان کو دل سے بددعائیں دیتے ہیں۔ اور حديث مباركه ميں مظلوم كي بددعا سے ڈرايا گيا هے
9- میراث اس کے مستحقین کو نہ دینے والا حقوق العباد تلف کرنے کا بہت بڑا مجرم ہے۔
10 - شریعت کے مطابق مال (ورثہ) تقسیم کرنا اسلامی حکومت کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری ہے، لہٰذا جو حکومت اس طرف توجہ نہیں دیتی، وہ اپنے فرائض میں کوتاہی كي مرتكب هوتی ہے۔
---------------