ہمارے طنزیہ جملے دوسروں کا کتنا نقصان کردیتے ہیں؟

 مولانا طارق جمیل صاحب حفظه الله  فرماتے ہیں کہ ہم ایک دفعہ ایک جماعت میں گئے، اس دوران وھاں ایک شخص سے ملاقات ھوئی اور اُس سے الله تعالی  اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كي بات چیت کی،

اس کو ترغيب دے کر نماز کے لئے مسجد میں لانے کی کوشش کی ۔ اول اول تو وہ راضی ہی نہیں ہورہا تھا، اس کی منت سماجت کی تو اللہ اللہ کرکے وہ مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے آیا، یہ شخص جب مسجد میں آیا تو اسے مسجد میں جماعت والوں نے بہت هي عزت دی، خوب احترام و اکرام کیا ۔ یہ سب دیکھ کر  اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔۔ وہ کہنے لگا کہ بھائیو ! میں آخری دفعہ پچیس سال پہلے مسجد میں آیا تھا اور اس کے بعد کبھی مسجد میں نہیں آیا۔

جب اٗس سے پوچھا گیا  کہ ایسا کیوں؟ تو اس نے بتایا کہ اس وقت جب میں مسجد میں آیا تھا ۔ تو میں نے نماز کے لئے وضو خانے میں وضو کرنا شروع کیا ۔ ابھی وضو مکمل بھی نہیں ھوا تھا کہ ایک نمازی کے طنزیہ جملہ کی آواز میرے کانوں میں پڑی ۔ وہ میری طرف دیکھ کر کہہ رہا تھا کہ:

"واہ بھئی آج چاند کہاں سے نکل آیا؟"

بس میرا يه سننا تها کہ میرے تن بدن میں آگ لگ گئی ۔ میرا وضو جہاں تک ہوا تھا، میں وہیں چھوڑ کر فوری طور پر مسجد سے باھر نکل گیا۔ اس طنزیہ جملہ کا میرے دل پر ایسا اثر ھوا کہ اس کے بعد کھبی بھی میں نے مسجد کا رخ نہیں کیا

آج پچیس سال بعد میں مسجد میں أيا تو آپ لوگوں نے مجھے اتنی عزت دی تو اب مجھے بهت هي شرمندگی ہورہی ہے کہ اتنا عرصہ اللہ کے گھر سے غیر حاضر رھا اور اب میں نے يه  تہیہ کرلیا ہے کہ اب تو میں ان شاء الله پابندی سے نماز پڑھنے آیا کروں گا اور اگر اللہ نے چاھا تو پکا نمازی بن جاؤنگا۔

کبھی ہم نے یہ سوچا کہ ہمارے طنزیہ جملے بعض اوقات دوسروں کا کتنا نقصان کردیتے ہیں؟ اوپر ذکر کردہ شخص کی مثال آپ کے سامنے ھے کہ ایک نمازی کے ایک طنزیہ جملے کی وجہ سے وہ تارکِ نماز بن گیا لیکن جب اُس کو مسجد میں آکر عزت اور اکرام  و احترام ملا تو اللہ تعالی کے فضل سے وہ نمازی بن گیا اس لئے ھمیں بہت ھی محتاط رویہ اختیار کرنا چاھیے ۔ اگر کوئی شخص پہلے نماز نہیں پڑھتا تھا اور اب نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں آیا ھے تو اُس کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ آفزائی کی جانی چاھیے نہ کی حوصلہ شکنی 

Share: