سلف صالحین کے اخلاق میں سے ایک یہ ہے کہ واجبات موسعہ اور نوافل پر صنعت وحرفت کو مقدم رکھتے تھے تاکہ لوگوں سے سوال کرنے سے بچ جائیں۔
کسی نے حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے ایک شخص کی نسبت سوال کیا جو کسب کا محتاج ہو کہ اگر وہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کو جائے تو اسے اس دن سوال کی حاجت ہوگی، آپ نے فرمایا: وہ مزدوری کرے اور نماز تنہا پڑھ لے، اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو ہزار قسم کی صنعتیں سکھلائی تھیں اور فرمایا تھا کہ اپنی اولاد سے کہہ دو کہ ان کو سیکھیں اور اپنے گزر اوقات کا ذریعہ اس کو بنائیں اپنا پیٹ پالیں اور دین فروشی سےبچیں۔
امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسب کو چھوڑ کر مسجد میں نہ بیٹھو اور بغیر سبب اختیار کیے یہ مت کہو کہ اے اللہ! مجھے رزق دے کیونکہ یہ خلاف سنت ہے، تمہیں تو معلوم ہی ہے کہ آسمان سونا چاندی نہیں برساتا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین خشکی اور دریا میں تجارت کرتے تھے، لہذا ان کی اقتداء انسب ہے۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالى عنہ فرماتے ہیں تم میں نیک وہ ہے جو دین ودنیا دونوں کا کام کرے، ابو قلابہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جو شخص اپنی معاش کے لیے کوشش کرتا ہے وہ مسجد میں بیٹھنے والے سے بہتر ہے۔
ابو سلیمان دارانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ خوبی نہیں ہے کہ تم اپنے پاؤں کو عبادت کے لیے باندھو اور دوسرا تمہاری خاطر مصیبت اٹھائے بلکہ خوبی یہ ہے کہ اپنی روٹی کو پہلے گھر میں جمع کرو اور پھر نماز پڑھو اس کے بعد پرواہ مت کرو کہ کون دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور اگر پاس میں کھانے کو نہ ہوگا تو جو کوئی دروازہ کھٹکھٹائے گا دل میں یہی خیال آئے گا کہ کچھ کھانے کی چیز لایا ہوگا۔
سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ اپنے دوستوں سے فرماتے، کسب کرو، کیونکہ اکثر لوگ جو امراء کے دروازوں پر جاتے ہیں ضرورت ہی کی وجہ سے جاتے ہیں۔
اے دوست! اس کو خوب یاد رکھ اور اس پر عمل کر اور سلف کی پیروی کر۔
اخلاق سلف ترجمہ تنبیہ المغترین ص218