سب آحباب سے گُزارش ہے اسے ایک بار ضرور پڑھیں
ہر مسلمان ہر لمحہ حالتِ امتحان میں ہے اور اپنے ہر فیصلے اور ہر کام کیلئے اللہ کو جوابدہ ہے۔
اس میں ووٹ کا استعمال بھی شامل ہے۔
ووٹ کے امتحان میں اللہ تعالیٰ کے ہاں کامیابی تب ہوگی جب ووٹ تمام امیدواروں میں سے اس کو دیا جائے جو منصب کیلئے دینی اعتبار سے ان میں سے سب سے زیادہ اہل ہو۔
کئی لوگ اس بارے میں خاصے کنفیوژن کا شکار معلوم ہوتے ہیں،
حالانکہ اسلامی تعلیمات اس بارے میں بہت واضح اور دو ٹوک ہیں۔ آئیے مختصر طور پر اس بارے میں اسلامی تعلیمات کی یاد دہانی کرلیں۔
ووٹ کی نوعیت پانچ اعتبار سے سمجھی جا سکتی ہے: -
*ووٹ شہادت ہے*
انسان جس کو ووٹ دیتا ہے گویا وہ اس کے حق میں گواہی دیتا ہے کہ وہ امیدوار سب سے بہتر ہے۔ اسلام مسلمان سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ سچی گواہی دے۔
جھوٹی گواہی کبیرہ گناہوں میں شمار ہوتی ہے۔ (الحج 22:30؛ الطلاق 65:2؛ المعارج 70:33)
*ووٹ منصف کا فیصلہ ہے*
ووٹر یہ فیصلہ دیتا ہے کہ تمام امیدواروں میں کونسا شخص سب سے بہتر ہے۔
اگر بہترین شخص کے حق میں فیصلہ نہیں دیا تو نا انصافی ہو گی۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں جتنی شدومد سے انصاف کا حکم دیا ہے کسی اور بات کا حکم نہیں دیا۔
(النساء 4:58،اور 135؛ المائدہ 5:8)
*ووٹ امانت ہے*
جو اس کے سپرد کرنے کا حکم ہے جو اس کا سب سے زیادہ حقدار ہو۔ ورنہ امانت میں خیانت ہو گی۔ ( النساء 4:58)
ووٹ ایک سفارش ہے
ووٹر اپنے ووٹ سے امیدوار کے حق میں سفارش کرتا ہے، غلط آدمی کے حق میں کی گئی سفارش پر اللہ کے ہاں ضرور پکڑ ہو گی۔ ( النساء 4:85)
*ووٹ رائے اور مشورہ ہے*
آپ اپنے ووٹ سے اپنی رائے اور مشورہ دیتے ہیں کہ جس کیلئے ووٹ دیا جا رہا ہے وہی سب سے بہتر ہے۔ چنانچہ صائب مشورہ دینا ایمانداری کا تقاضا ہے۔ (الشوریٰ 42:38)
اس لحاظ سے مسلمان پارٹی کی بنیاد پر ووٹ نہیں دے سکتا کیونکہ اچھی پارٹی میں بھی برے لوگ ہوتے ہیں اور بری پارٹی میں بھی اچھے لوگ ہوتے ہیں۔ پارٹی کو مد نظر صرف اس وقت رکھا جائے گا جب دو امیدوار ایک جیسے ہوں تو پھر جس کی پارٹی یا پارٹی لیڈر بہتر ہو پھر وہ امیدوار بہتر تصور کیا جائے گا۔
مزید بر آں مسلمان کیلئے محض ذات، برادری ،دوستی، لسانی، نسلی یا فرقہ وارانہ بنیادوں پر ووٹ دینا کسی طرح جائز نہیں۔ کیونکہ جو بھی بہتر امیدوار کو چھوڑ کر کمتر امیدوار کو پارٹی، ذات، برادری، دوستی، لسانی یا نسلی یا فرقہ وارانہ تعصب کی بنیاد پر ووٹ دیتا ہے، وہ جھوٹی گواہی دیتا ہے، انصاف کا خون کرتا ہے، امانت میں خیانت کا مرتکب ہو تا ہے، ناحق سفارش کرتا ہے اور غلط مشورہ دینے کا جرم کرتا ہے ۔
اور اللہ کے ہاں ان جرائم کی سزا پائے گا۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ بہتر امیدوار کا تعین کیسے کریں؟
اس کیلئے قرآن کا دیا گیا سب سے پہلا معیار تقوی ھے تقوی اللہ سے ڈرتے ہوئے نہایت انہماک کے ساتھ کھری بات، کھرے فیصلے اور کھرے معاملات کے ساتھ محتاط زندگی گذارنے کی فکر اورتگ و دو کا نام ہے۔ جس کی طرزِ زندگی اور لوگوں کے ساتھ معاملات کرنے میں جتنا زیادہ تقویٰ عیاں ہو گا وہ اتنا زیادہ ووٹ کا مستحق ہو گا۔
جہاں تقویٰ نہیں ہو گا وہ حرامخوری سے پیسہ بنائے گا اور کام نہیں کرے گا ، خواہ وہ ووٹ لینے کیلئے جتنی بھی باتیں بنائے۔ اس کا دوسرا اہم معیار اہلیت ہے۔ اہلیت میں تعلیم، معاملات کی سوجھ بوجھ،، وِژن اور پلان سب شامل ہیں، بعض اوقات لوگوں کے پاس خیالات تو ہوتے ہیں مگر ان کو عملی جامہ پہنانے کا کوئی پلان نہیں ہوتا، ایسے خیالات بھی بیکار ہیں۔
اس سلسلے میں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ پہلی کسوٹی تقویٰ ہے اور دوسری کسوٹی اہلیت ہے،جو تقویٰ کے معیار پر پوریں اتریں ان کی اہلیت کو جانچا جائے گا۔ جو تقویٰ کے معیار میں فیل ہو جائے، اسے مزید جانچنا وقت ضائع کرنا ہے۔
صاحبِ تقویٰ منتخب ہو جائے تو اللہ کے ہاں جوابدہی کے ڈر سے اہلیت پیدا کر لے گا اور سیکھ جائے گا، مگر تقویٰ سے محروم صاحبِ اہلیت اپنی ذہانت کو چوری میں لگا لے گا، عوام کے کام کرنے میں نہیں۔ جیسا کہ ہم آج تک دیکھتے آئے ہیں۔
مگر ایسے صاحبِ تقویٰ اور با صلاحیت امیدوار کہاں سے آئیں کیونکہ پاکستان کی سیاست میں تو زیادہ تر امیدوار بدمعاش، اخلاق باختہ، لٹیرے، قاتل، زانی، حرامخور اور جعلی ڈگریوں والے ہیں۔
تو یہ سب پاکستانی مسلمانوں کے سوچنے اور فکر کرنے کی بات ہے کہ آپکی حالت ایسی ابتر کیوں ہو چکی ہے۔ ظاہر ہے اس حالت کے ذمہ دار آپ خود ہیں، آپ ہی ہر بار ایسے لوگوں کو ووٹ دے مضبوط کرتے ہیں اور اس حالت سے نکلنے کے اقدامات بھی آپ سب کا فرض ہیں۔
اسلام نے تو ایسے رہنما اصول دے دئے جو تا قیامت ہر وقت اور ہر معاشرے کیلئے واجب العمل ہیں، اب یہ آپ کے کرنے کا کام ہے کہ اسلام کی ان سچی تعلیمات پر عمل کیسے کیا جائے اور ان کو کیسے بروئے کار لایا جائے۔
جب تک ہمارا معاشرہ اتنا سدھر نہیں جاتا کہ مندرجہ بالا اسلامی تعلیمات پر کما حقہ عمل کیا جا سکے، اس وقت تک ہر پاکستانی مسلمان کو ووٹ کا استعمال اس طرح کرنا ہو گا کہ اسلامی تعلیمات کے تقاضے بھی پورے ہوں اور حالات بھی بہتر ہونے شروع ہو جائیں۔ اس کیلئے مندرجہ ذیل صورتیں ہو سکتی ہیں:
پاکستانی معاشرہ نیک لوگوں سے بالکل خالی نہیں ہو گیا، ابھی بھی معاشرے میں خدا خوفی رکھنے والے لوگ موجود ہیں، ان میں سے اہلیت رکھنے والے لوگوں کو قائل کیا جائے کہ وہ الیکشن میں کھڑے ہوں۔ اگر کوئی اچھا آدمی نہ ملے تو آپ کا فرض ہے آپ خود کھڑے ہو جائیں۔
جو صاحبِ تقویٰ لوگ کھڑے ہوں، ان کی ہر حال میں مدد کی جائے اور خواہ ان کے جیتنے کا کوئی چانس ہو یا نہ ہو ان کو ہر صورت میں ووٹ دیا جائے۔ یاد رہے اللہ تعالیٰ آپ سے یہ نہیں پوچھے گا کہ تمہارا امیدوار جیتا تھا یا نہیں، بلکہ وہ یہ پوچھے گا کہ تم نے میرے بتائے گئے اصولوں کے مطابق اچھے بندے کو ووٹ دیا تھا یا نہیں۔
اگر آپ کے حلقے میں کسی بھی اچھے امیدوار کا کھڑا ہونا ممکن نہ ہو تو کم از کم تمام امیدواروں میں سے جو بہتر ہو اسے ووٹ دیں، ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ سب امیدوار ایک جیسے ہوں، کوئی نہ کوئی تو نسبتاً بہتر ضرور ہو گا، اس صورت میں اس کو ووٹ دیا جانا چاہیے خواہ وہ کسی بھی پارٹی سے اور خواہ وہ ہار رہا ہو یا جیت رہا ہو۔
یاد رکھیں کہ آپ یہ کہہ کر برئ الذمہ نہیں ہو سکتے کہ کوئی اچھا امیدوار نہ تھا لہٰذا میں ووٹ ہی نہیں دیتا۔ جو لوگ ووٹ نہیں دیتے وہ دراصل سب سے برے آدمی کو ووٹ دینے کے مجرم ہوتے ہیں، کیونکہ بہتر امیدوار ان کی حمایت سے محروم رہتا ہے اور اس طرح برے امیدوار کے ہاتھ مضبوط ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ ووٹ نہ دینا گواہی کو چھپانا ہے جو سختی سے منع ہے۔(البقرہ 2:283)
ووٹ نہ دے کر آپ اپنے معاملات کا فیصلہ دوسروں پر چھوڑ رہے ہیں، اور ان کے غلط فیصلے کے نتائج بھگتنے کیلئے تیار ہیں۔
جو ووٹ نہیں دیتا یا ایسے شخص کو ووٹ دیتا ہے جو سب سے اچھا امیدوار نہ تھا، تو اس کو پھر حالات کی خرابی کی شکایت کرنے کا حق بھی نہیں رہتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو جو موقع دیا اس نے اس کو ضائع کیا ۔ لہٰذا وہ خود بھی حالات کی خرابی کا ذمہ دار ہے اور اسے اس غفلت کے بارے میں اللہ کے ہاں جواب دینا ہو گا۔
آگر آپ بہترین امیدوار کو ووٹ دے کر اپنا فرض ادا کر دیں اور حالات میں کوئی خاطر خواہ بہتری نہ بھی آئے تو کم از کم آپ اپنے فرض سے عند اللہ تو سبکدوش ہو گئے اور اس کے اجر کے مستحق ہو گئے۔
اگر ہم ان اصولوں پر چلیں گے تو اللہ کے ہاں بھی سرخرو ہونگے اور ہمارے معاشرے کے حالات بھی آہستہ آہستہ بہتر ہونے لگیں گے۔ ایک دن میں تبدیلی تو نہیں آئے گی، لیکن اگر ہم ان اصولوں پہ ڈٹ جائیں اور ان کا معاشرے میں پرچار کریں تو بہتری کی کافی امید ہے۔
میرے بس میں اتنا ہی تھا وہ میں نے کوشش کر ڈالی ہے۔ جو عمل کرے اللہ تعالیٰ اسے بھرپور جزا دے، جو نہ کرے اس کو اللہ کے ہاں اپنا جواب سوچ لینا چاہیے۔
—-