اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّـٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِىْ كِتَابِ اللّـٰهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضَ مِنْـهَآ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚ ذٰلِكَ الـدِّيْنُ الْقَيِّـمُ ۚ فَلَا تَظْلِمُوْا فِيْـهِنَّ اَنْفُسَكُمْ ۚ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَآفَّةً كَمَا يُقَاتِلُوْنَكُمْ كَآفَّةً ۚ وَاعْلَمُوٓا اَنَّ اللّـٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ (36)
بے شک اللہ کے ہاں مہینوں کی گنتی بارہ مہینے ہیں اللہ کی کتاب میں جس دن سے اللہ نے زمین اور آسمان پیدا کیے، ان میں سے چار عزت والے ہیں، یہی سیدھا دین ہے، سو ان میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو، اور تم سب مشرکوں سے لڑو جیسے وہ سب تم سے لڑتے ہیں، اور جان لو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے
(سورہ التوبہ)
گذشتہ سال کا محاسبہ اور نئے سال کے لئے نیکیوں کا مصمم ارادہ
محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے یعنی ذی الحجہ پر ہجری سال کا اختتام اور محرم الحرام سے ہجری سال کا آغاز ھوتا ہے۔ نیز محرم الحرام ان چار مہینوں میں سے ایک ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے حرمت والے مہینے قرار دئے ہیں۔ اس ماہ کو حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اللہ تعالیٰ کا مہینہ قرار دیا ہے۔ یوں تو سارے ہی دن اور مہینے اللہ تعالیٰ کے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کرنے سے اس کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔ ماہ محرم کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ اس مہینے کا روزہ رمضان المبارک کے بعد سب سے افضل ہے۔حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ میں حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، ایک صاحب نے آکر پوچھا یا رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ رمضان کے مہینہ کے بعد کس مہینے کے روزے رکھنے کا آپ مجھے حکم دیتے ہیں تو حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا کہ اگر رمضان کے مہینہ کے بعد تم کو روزہ رکھنا ہو تو محرم کا روزہ رکھو اس لئے کہ یہ اللہ کا مہینہ ہے۔اس میں ایک دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول کی اور دوسرے لوگوں کی توبہ بھی قبول فرمائیں گے۔ (ترمذی) جس قوم کی توبہ قبول ہوئی وہ قوم بنی اسرائیل ہے جیساکہ اس کی وضاحت حدیث میں ہے کہ عاشورہ کے دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون اور اس کے لشکر سے نجات دی تھی۔
ہجری سال کے کیلنڈر کا افتتاح اگرچہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے زمانے میں ہوا تھا، مگر تمام بارہ اسلامی مہینوں کے نام اور ان کی ترتیب نہ صرف نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے زمانے، بلکہ عرصہ دراز سے چلی آرہی تھی اور ان بارہ مہینوں میں سے حرمت والے چار مہینوں (ذو القعدہ، ذوالحجہ، محرم الحرام اور رجب المرجب) کی تحدید بھی زمانہ قدیم سے ھی چلی آرہی تھی جیسا کہ آیتِ بالا میں اس کا ذکر ھے ۔ اسلامی کیلنڈر (ہجری) کے افتتاح سے قبل عربوں میں مختلف کیلنڈر رائج تھے اور ہر کیلنڈر کی ابتدا محرم الحرام سے ہی ہوتی تھی۔
حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے زمانۂ خلافت میں جب ایک نئے اسلامی کیلنڈر کو شروع کرنے کی بات آئی تو صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم نے اسلامی کیلنڈر کی ابتدا کو نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی ولادت یا نبوت یا ہجرتِ مدینہ سے شروع کرنے کے مختلف مشورے دئے۔ آخر میں صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم کے مشورہ سے ہجرتِ مدینہ منورہ کے سال کو بنیاد بناکر ایک نئے اسلامی کیلنڈر کا آغاز کیا گیا۔ یعنی ہجرت مدینہ منورہ سے پہلے تمام سالوں کو زیرو کر دیا گیا اور ہجرتِ مدینہ منورہ کے سال کو پہلا سال تسلیم کرلیاگیا۔ رہی مہینوں کی ترتیب تو اس کو عربوں میں رائج مختلف کیلنڈر کے مطابق رکھی گئی یعنی محرم الحرام سے سال کی ابتدا۔ غرض یہ ہے کہ عربوں میں محرم الحرام کا مہینہ قدیم زمانے سے سال کا پہلا ہی مہینہ رہتا تھا، لہذا اسلامی سال کو شروع کرتے وقت اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ اس طرح ہجرت مدینہ منورہ سے نیا اسلامی کیلنڈر تو شروع ہوگیا، مگر مہینوں کی ترتیب میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔
شریعت اسلامیہ میں متعدد عبادتیں ہجری کیلنڈر سے مربوط ہیں۔ دونوں یعنی ھجری کیلنڈر اور عیسوی کیلنڈر میں 10 یا 11 روز کا فرق ہونے کی وجہ سے بعض مخصوص عبادتوں کا وقت ایک موسم سے دوسرے موسم میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ یہ موسموں کی تبدیلی بھی اللہ تعالیٰ کی نشانی ہے۔ ہمیں اس پر غور کرنا چاہئے کہ موسم کیسے تبدیل ہوجاتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس پر غور وخوض کرنے کی دعوت دینی چاہئے۔ ظاہر ہے کہ یہ صرف اور صرف اللہ کا حکم ہے جس نے متعدد موسم بنائے اور ہر موسم میں موسم کے اعتبار سے متعدد چیزیں بنائیں، جیسا کہ فرمان الٰہی ہے:
اِنَّ فِىْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّـهَارِ لَاٰيَاتٍ لِّاُولِى الْاَلْبَابِ (190)
اَلَّـذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللّـٰهَ قِيَامًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰى جُنُـوْبِهِـمْ وَيَتَفَكَّرُوْنَ فِىْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (191)
بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کے باری باری آنے جانے میں اُن عقل والوں کے بڑی نشانیاں ہیں۔ جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوئے (ہر حال میں) اللہ کو یاد کرتے ہیں، اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں، (اور انہیں دیکھ کر بول اٹھتے ہیں کہ) اے ہمارے پروردگار! آپ نے یہ سب کچھ بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ آپ (ایسے فضول کام سے)پاک ہیں۔ پس دوزخ کے عذاب سے بچالیجئے۔
(سورۃ آل عمران )
حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
پانچ امور سے قبل پانچ امور سے فائدہ اٹھایا جائے۔
بڑھاپا آنے سے قبل جوانی سے۔
موت آنے سے قبل زندگی سے۔
مصروفیت سے قبل فراغت سے۔
غربت آنے سے قبل مال سے۔
بیماری سے قبل صحت سے۔
(مستدرک الحاکم ومصنف بن ابی شیبہ)
اسی طرح ابو برزہ اسلمی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ "قیامت کے دن کسی شخص کے قدم اس وقت تک اپنی جگہ سے نہ ہٹیں گے، جب تک اس کی عمر کے بارے میں نہ پوچھ لیا جائے کہ اسے کس چیز میں فنا کیا، اس کے علم کے بارے میں نہ پوچھ لیا جائے کہ اس سے کیا کیا، اس کے مال کے بارے میں نہ پوچھ لیا جائے کہ اسے کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا اور اس کے جسم کے بارے میں نہ پوچھ لیا جائے کہ اسے کہاں کھپایا۔" صحیح - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔
اللہ کے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ بتا رہے ہیں قیامت کے دن کوئی بھی شخص حساب کی جگہ سے جنت یا جہنم کی جانب اس وقت تک بڑھ نہیں سکے گا، جب تک اس سے کچھ باتیں پوچھ نہ لی جائيں :
1- اس نے اپنی زندگی کن کاموں میں گزاری؟
2- اس نے جو علم حاصل کیا تھا، کیا اسے اللہ کی رضا کے لیے حاصل کیا تھا؟ ، کیا اس پر عمل کیا تھا اور کیا اسے اس کے مستحق تک بھی پہنچایا تھا؟
3- اس کے پاس جو مال تھا، اسے اُس نے کہاں سے کمایا تھا؟ کمائی کے راستے حلال تھے یا حرام؟ ساتھ ہی اسے کہاں خرچ کیا تھا؟ اللہ کی رضامندی کے کاموں میں یا ناراضگی کے کاموں میں۔
4- اسے جو جسم، قوت، عافیت اور جوانی ملی ہوئی تھی، اسے کن کاموں میں خرچ کیا تھا؟
ہمیں اپنی زندگی کے ھر لمہے کا حساب اپنے خالق ومالک ورازق کو دینا ہے جو ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے، جو پوری کائنات کا پیدا کرنے والا اور پوری دنیا کے نظام کو تن تنہا چلا رہا ہے۔
بہرحال ہمیں ہجری سال کے اختتام پر یہ محاسبہ کرنا چاہئے کہ ہمارے نامہ اعمال میں کتنی نیکیاں اور کتنی برائیاں لکھی گئیں۔ کیا ہم نے گزرے ھوئے سال میں اپنے نامہ اعمال میں ایسے نیک اعمال درج کرائے کہ کل قیامت کے دن ان کو دیکھ کر ہم خوش ہوں اور جو ہمارے لئے دنیا وآخرت میں نفع بخش بنیں؟ یا ہماری غفلتوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے ایسے اعمال ہمارے نامہ اعمال میں درج ہوگئے جو ہماری دنیا وآخرت کی ناکامی کا ذریعہ بنیں گے؟
ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہوگا کہ گزرے ھوئے سال میں اللہ کی اطاعت میں بڑھوتری ہوئی یا کمی آئی؟ ہماری نمازیں، روزے اور صدقات وغیرہ صحیح طریقہ سے ادا ہوئے یا نہیں؟ ہماری نمازیں خشوع وخضوع کے ساتھ ادا ہوئیں یا پھر وہی طریقہ جاری رہا جوبچپن سے جاری ہے؟ روزوں کی وجہ سے ہمارے اندر اللہ تعالی کا خوف پیدا ہوا یا صرف صبح سے شام تک بھوکا رہنا ھی نصیب بنا ؟
ہم نے یتیموں اور بیواؤں کا خیال رکھا یا نہیں؟ ہم نے اس سال میں انسانوں کو ایذائیں پہنچائیں یا ان کی راحت رسانی کے انتظام کئے؟ ہم نے یتیموں اور بیواؤں کی مدد بھی کی یا اُن کا صرف تماشہ ھی دیکھتے رہے؟ ہمارے معاملات میں مثبت تبدیلی آئی یا نہیں؟ ھم نے بندوں کے حقوق ادا کئے یا پہلی ھی کافرانہ روش پر قائم رھے ۔ ہمارے اخلاق نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے اخلاق کا نمونہ بنے یا نہیں؟ ہمارے پڑوسی ہماری تکلیفوں سے محفوظ رہے یا نہیں؟ ہم نے والدین، پڑوسی اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کئے یا نہیں؟
جو علم ہم نے حاصل کیا تھا اُس پر عمل کرنے کی عملی کوشش کی یا نہیں ۔ جو علم حاصل ھوا تھا اُسے دوسروں تک پہنچایا یا نہیں؟ ہم نے اپنے بچوں کی ہمیشہ کی زندگی میں کامیابی کے لئے کچھ اقدامات بھی کئے یاصرف ان کی دنیاوی تعلیم اور ان کو دنیاوی سہولیات فراہم کرنے کی ہی فکر میں لگے رہے؟ قرآن کریم کے ہمارے اوپر جو حقوق ہیں وہ ھم نے ادا بھی کئے یا نہیں؟ ہم نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی یا نافرمانی؟
آییے ہم نئے ہجری سال کی آمد پر عزمِ مصمم کریں کہ ھماری زندگی کے جتنے ایام باقی بچے ہیں ان شاء اللہ ھم اپنے رب کو راضی رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ ابھی تو ہم بقید حیات ہیں اور موت کا فرشتہ ہماری جان نکالنے کے لئے کب آجائے، اس کا کسی کو کچھ معلوم نہیں ، لہذا ضرورت اس امر کی ھے کہ ھم زندگی کے ان قیمتی سانسوں کو غنیمت سمجھیں اور اپنے رب کی خوشنودی کے لئے ھر ممکن کوشش کریں کیونکہ معلوم نہیں اگلا سال ھماری زندگی میں آئے یا نہ آئے
اللہ پاک ہمیں اعمالِ صالح کی توفیق عنایت فرمائے
آمین یا رب العالمین
※※※※