ایک دوسرے کو برے نام یا برے القابات سے پکارن


ایک دوسرے کو برے نام یا برے القابات سے پکارنے والے کے لئے  قرآن پاک  اور  حدیث مبارکہ میں  شدید وعیدیں  وارد  ھوئی ھیں  چنانچہ قرآن پاک  میں اللہ عزوجل کا ارشادِ گرامی ہے

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا يَسۡخَرۡ قَوۡمٌ مِّنۡ قَوۡمٍ عَسٰٓى اَنۡ يَّكُوۡنُوۡا خَيۡرًا مِّنۡهُمۡ وَلَا نِسَآءٌ مِّنۡ نِّسَآءٍ عَسٰٓى اَنۡ يَّكُنَّ خَيۡرًا مِّنۡهُنَّ‌ۚ وَلَا تَلۡمِزُوۡۤا اَنۡفُسَكُمۡ وَلَا تَنَابَزُوۡا بِالۡاَلۡقَابِ‌ؕ بِئۡسَ الِاسۡمُ الۡفُسُوۡقُ بَعۡدَ الۡاِيۡمَانِ‌ ۚ وَمَنۡ لَّمۡ يَتُبۡ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوۡنَ۔ (سورة الحجرات)

" اے ایمان والو ! مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نہ کسی کو برے لقب دو ۰ایمان کے بعد فسق برا نام ہے، اور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم لوگ ھیں

فسق اللہ تعالی کی حکم عدولی کو کہتے ہیں، فاسق ایسے لوگ جو اللہ کی اطاعت سے نکل گئے، جو بداعمالیوں میں مبتلا ہو گئے۔

ایک روایت میں آتا ہے کہ عکرمہ رضی اللہ عنہ  بن ابی جہل اسلام قبول کرنے کے بعد جب مدینہ منورہ میں آئے تو مسلمان انہیں "امت کے فرعوں کا بیٹا" کہہ کر پکارنے لگے ، عکرمہ نے اس کی شکایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کی تو یہ آیت نازل ہوئی۔



ایک شخص دوسرے کسی شخص کا استہزاء یعنی اس سے مسخرا پن اسی وقت کرتا ہے جب وہ خود کو اس سے بہتر اور اس کو اپنے سے حقیر اور کمتر سمجھتا ہے حالانکہ اللہ کے ہاں ایمان وعمل کے لحاظ سے کون بہتر ہے اور کون نہیں، اس کا علم صرف اللہ کو ہے اس لیے خود کو بہتر اور دوسرے کو کم تر سمجنے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے حدیث شریف میں لوگوں کو حقیر سمجھنے کو کبر سے تعبیر کیا گیا ہے 

ایک دوسرے پر طعنہ زنی مت کرو اپنے طور پر استہزاء اور تحقیر کے لیے لوگوں کے ایسے نام رکھ لینا جو انہیں ناپسند ہوں یا اچھے بھلے ناموں کو بگاڑ کر بولنا برے القابات سے پکارنا مثلاً اے کافر اے زانی یا شرابی وغیرہ یہ بہت برا کام ہے۔

سلف صالحین نے اس امر سے بچنے میں حد درجہ مبالغہ سے کام لیا ان میں عمرو بن شرجیل کا قول ہے اگر میں کسی آدمی کو دیکھوں کہ وہ کوئی فعل کر رہا ہے اور میں اس پر ہنس پڑوں تو مجھے ڈر ہے کہ میں بھی اس فعل میں مبتلا نہ ہو جاؤں۔


*حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے "آزمائش بات پر ہی منحصر ہے، اگر میں کتے کا مذاق اڑاؤں تو مجھے ڈر ہے کہ میں کتا نہ بنا دیا جاؤں"

صحیح ترمذی میں آتا ہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی "یا رسول اللہ حضرت صفیہ چھوٹے قد کی عورت ہیں اور ہاتھ سے اشارہ کیا" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "تو نے ایسی بات کی ہے اگر اسے سمندر میں ملایا جائے تو وہ متغیر ہوجائے"


*کسی کا مذاق اڑانا، کسی کی عیب جوئی کرنا کتنا برا ہے اس کے لیے یہ ایک روایت ہی کافی ہے۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا "تم میں سے کوئی ایک اپنے بھائی میں تنکا دیکھ لیتا ہے اور اپنی آنکھ میں شہتیر کو چھوڑ دیتا ہے" یعنی رائی کا پہاڑ بنا دیتا ہے۔


*ایک قول کے مطابق انسان کی سعادت مندی اس میں ہے کہ دوسروں کے عیوب میں مشغول ہونے کے بجائے اپنے عیوب میں مشغول ہو جائے۔


ایک روایت میں ہے جس نے اپنے بھائی کا برا لقب ذکر کیا یا اس کے ساتھ مذاق کیا تو ایسا کرنے والا فاسق ہوتا ہے حدیث صحیح میں ہے "جس نے اپنے بھائی کے بارے میں کہا اے کافر تو یہ قول کسی ایک کی طرف لوٹے گا، جس کے متعلق کہا گیا اگر وہ ایسا ہی ہوا تو ٹھیک ورنہ کافر کہنے والا کافر ہو جائے گا"


*جس نے وہ عمل کیا جس سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا تھا یعنی مذاق، عیب لگانا تو ایسا کرنے والا فاسق ہوگا۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا "جس نے کسی مؤمن کو اس گناہ کی وجہ سے عار دلائی جس سے اس نے توبہ کی ہوئی ہے تو اللہ تعالیٰ نے یہ اپنے ذمہ لیا ہوا ہے کہ اسے آزمائش میں ڈالے اور اسے دنیا وآخرت میں ذلیل ورسوا کرے"

آجکل یہ روایت چل پڑی ہے یعنی ایک دوسرے کو برے نام یا برے القابات سے پکارنا، اخلاق سے عاری قوم مخالفت میں کسی کو یہودی ایجنٹ تو کسی کو مولانا ڈیزل کہہ کر پکارتی ہے، کوئی زانی وکوکینی قرار پایا تو کوئی ملا منافق، کبھی کوئی محض اختلاف کی بنیاد پر کافر وقادیانی بنا دیا گیا تو کوئی فضلانڈو، کوئی پٹواری ٹھہرا تو کوئی یوتھیا

*کیا آپ بھی دنیا وآخرت میں ذلیل ہونا چاہتے ہیں؟ اگر نہیں تو لوگوں کو عار پہنچانے سے باز رہیں۔

امام بخاری نے جامع صحیح میں کتاب الادب کا ایک باب باندھا ہے۔

نبی کریم نے ارشاد فرمایا "انسان کو ایسا لقب نہ دیا جائے جسے وہ ناپسند کرتا ہے اور جسے وہ پسند کرتا ہے وہ لقب اسے دینا جائز ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر کو فاروق، حضرت ابوبکر کو صدیق، حضرت عثمان کو ذوالنورین، حضرت خزیمہ کو ذوشہاتیں، کسی کو ذوشمالین اور کسی کو ذویدین وغیرہ کا لقب دیا۔

زمحشری نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے "ایک مؤمن کا دوسرے مؤمن پر یہ حق ہے کہ اسے وہ نام دے جو اسے سب سے زیادہ محبوب ہو"*

جو ایسے القاب ذکر کرنے سے توبہ تائب نہ ہوئے جس سے مسلمان اذیت محسوس کرتے ہیں وہ ان منع کی گئی چیزوں کو اپنا کر اپنی جانوں پر ظلم کرنے والوں میں سے ہیں

لہذا کوشش کیجیئے کہ ایسے تمام برے القابات سے گریز کیا جائے ۔۔۔ اللہ عزوجل ہم سب کا حامی وناصر ھو

اللھم آمین

Share: