ایک گاؤں میں ایک بُڑھیا اپنے بیٹے کیساتھ رہتی تھی۔ بیٹا پڑھ لکھ کر شہر میں نوکری کرنے لگا وہ ہر ماہ اپنی ماں کو خط لکھتا اور اس میں ماں کو پیسے بھی بیجھتا ۔ بیٹے کا خط دیکھ کر ماں کی آنکھیں فرطِ جزبات سے بھر آتی، وہ اسے دیکھتی ، چومتی ، آنکھوں کو لگاتی اور پھر سنبھال کر رکھ لیتی ، ماں نے کبھی بھی بیٹے کا خط کھول کر نہیں دیکھا کیونکہ اسے پڑھنا نہیں آتا تھا
اکیلی بُڑھیا کا واحد کفیل اسکا بیٹا ہی تھا اور کوئی کمانے والا نہیں تھا ، گھر میں فاقوں کی نوبت آگئی ، فاقے بڑھتے گئے بڑھیا فاقوں کی وجہ سے انتقال کر گئی ،،،،،،
اسکی وفات کے بعد جب اسکا بیٹا آیا تو اسے بتایا گیا کہ اسکی ماں بھوک اور فاقہ کشی کی وجہ سے مر گئی ھے
بیٹے کو بہت تعجب ہوا کیونکہ وہ باقاعدگی سے ماں کو پیسے بیجھتا رھا تھا
جب وہ گھر گیا تو اس نے دیکھا کہ اس کے بھیجے ہوۓ خط اسکی ماں نے کھول کر بھی نہیں دیکھے تھے ،جس میں وہ اپنی ماں کو پیسے بھیجا کرتا تھا
بالکل یہی صورتحال آج امت مسلمہ کی ہے
ہمارے پاس قرآن پاک کی مبارک صورت میں ہمارے ہر مسئلے کا حل موجود ہے مگر ھم اس سے لاعلم ھیں یا پھر یوں سمجھیں کہ ہم نے اس سے کھبی رھنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ھی محسوس نہیں کی بلکہ حقیقت یہ ھے کہ ھم لوگ بھی قرآن پاک کو اس بڑھیا کی طرح دیکھتے ہیں چومتے ہیں سنبھال کے رکھ لیتے ہیں ، لیکن اس مبارک کتاب کو ہم کھول کر نہیں دیکھتے کہ آخر یہ کتاب کیوں بھیجی گئی تھی ،ہمارے ہر مسئلے کا حل اس میں موجود ہے ،لیکن ہم اپنے مسائل دوسرے طریقوں سے حل کرنے کی کوشش تو کرتے ھیں لیکن قرآن پاک سے رھنمائی نھیں لیتے نتیجتاً ھم لوگ مسائل کیساتھ ہی مر جاتے ہیں حالانکہ بیشک قرآن پاک میں ہمارے ہر مسئلے کا حل موجود ہے