وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَO
اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو
اس میں کوئی شک نہیں کہ نماز اللہ تعالی کا حکم ھے اس لئے اسے اللہ کا حکم سمجھ کر اور اس کی رضا کے لئے ھی ادا کرنا چاھیے لیکن جو شخص پانچ وقت کی نماز کا اھتمام کرتا ھے اسے اللہ پاک دنیاوی فوائد بھی عنایت فرماتے ھیں چنانچہ حدیث مبارکہ میں پانچ وقت کی نماز کا اھتمام کرنے والے کے لئے دنیا میں روزی کی کمی دور ھونے ( یعنی روزی میں برکت ھونے) وغیرہ کا ذکر موجود ھے اس کے ساتھ ساتھ تارکِ نماز کے لئے اُخروی عذاب کے ساتھ دنیا کے بہت سے نقصانات کا ذکر بھی آحادیث میں موجود ھے چنانچہ روحانی مسائل کے رھنماؤں نے اپنے تجربات کی روشنی میں نمازوں کے طبی اور معاشرتی اثرات پر روشنی ڈالی ھے ملاحظہ فرمائیے؛-
*نمازِ فجر*
نمازِ فجر کے وقت سوتے رہنے سے معاشرتی ہم آہنگی پر اثر پڑتا ہے، کیونکہ اجسام کائنات کی نیلگی طاقت سے محروم ہو جاتے ہیں رزق میں کمی اور بے برکتی آجاتی ہے۔ چہرہ بے رونق ہو جاتا ہے لہٰذا مسلسل نمازِ فجر قضا پڑھنے والا شخص بھی انہی بد نصیب لوگوں میں شامل ہے۔
*نمازِ ظہر*
وہ لوگ جو مسلسل نمازِ ظہر چھوڑتے ہیں وہ بد مزاجی اور بدہضمی سے دوچار ہوتے ہیں چونکہ اس وقت کائنات زرد ہو جاتی ہے اور معدہ اور نظامِ انہضام پر اثر انداز ہوتی ہے ایسے لوگوں کی روزی بھی تنگ کر دی جاتی ہے گو بظاھر ان کے پاس دولت کے انبار ھی کیوں نہ لگے ھوں
*نمازِ عصر*
اکثر نمازِ عصر چھوڑنے والوں کی تخلیقی صلاحیتیں کم ہوجاتی ہیں، اور عصر کے وقت سونے والوں کا ذھن کند ہو جاتا ہے اور زیادہ تر اولاد بھی کند ذہن پیدا ہوتی ہے اس وقت میں کائنات اپنا رنگ بدل کر نارنجی ہوجاتی ہے اور یہ پورے نظامِ تولید پر اثر انداز ہوتی ہے۔
*نمازِ مغرب*
مغرب کے وقت سورج کی شعاعیں سرخ ہوجاتی ہیں اس وقت جنات اور ابلیس کی طاقت عروج پر ہوتی ہے۔ سب کام چھوڑ کر پہلے مغرب کی نماز ادا کرنی چاہیے اس وقت سونے والوں کی اولاد کم ھی ہوتی ہے یا ہوتی ہی نہیں اور اگر ہو جائے تو نافرمان ہوتی ہے۔
*نمازِ عشاء*
نمازِ عشاء چھوڑنے والے ہمیشہ قلبی طور پر پریشان رہتے ہیں کائنات اس وقت نیلگی ہو کر سیاہ ہو جاتی ہے اور ہمارے دِماغ اور نظامِ اعصاب پر اثر کرتی ہے۔ نیند میں بے سکونی اور برے خواب آتے ہیں، جلد بڑھاپا آجاتا ہے۔
درآصل بے نمازی کی نہ دنیا ہے نہ ہی آخرت، کیونکہ یہ ہماری شیطان کے ساتھ گہری دوستی اور ہمارے گناہ ہی ہیں جو ہمیں ﷲ تعالٰی کے سامنے سجدہ نہیں کرنے دیتے۔
بیوقوف ہے وہ مسلمان جس کو علم بھی ہے کہ قیامت والے دن پہلا سوال نماز کا ھی ہونا ہے پھر بھی وہ نماز قائم نہیں کرتا۔
چنانچہ قرآن پاک کی سورہ المدثر میں ھے کہ جب جنت والے جہنم والوں سے پوچھیں گے کہ
مَا سَلَكَكُمْ فِىْ سَقَرَ O
کس چیز نے تمہیں دوزخ میں ڈالا۔
تو اھلِ جھنم جواب دیں گے
قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّيْنَ O
وہ کہیں گے کہ ہم نماز نہ پڑھتے تھے۔
نماز اَرکانِ اِسلام میں توحید و رسالت کی شہادت کے بعد سب سے بڑا رُکن ہے۔ اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِسے اِیمان اور کفر کے درمیان حدِ فاصل قرار دیا ہے۔ نماز کی رُوحانی و اِیمانی برکات اپنی جگہ مسلّم ہیں، سرِدست ہمارا موضوع طبی تحقیقات کے بارے میں نماز کا کردار ہے۔ کیونکہ نماز سے بہتر ہلکی پھلکی اور مسلسل ورزش کا تصوّر نہیں کیا جا سکتا۔ فزیو تھراپی کے ماھرین کہتے ہیں کہ اُس ورزش کا کوئی فائدہ نہیں جس میں تسلسل نہ ہو یا وہ اِتنی زیادہ کی جائے کہ جسم بری طرح تھک جائے۔ اللہ ربّ العزت نے اپنی عبادت کے طور پر وہ عمل عطا کیا ہے جس میں ورزش اور فزیو تھراپی کی غالباً تمام صورتیں بہتر صورت میں پائی جاتی ہیں۔
ایک مؤمن کی نماز جہاں اُسے مکمل رُوحانی و جسمانی منافع کا پیکج مہیا کرتی ہے وہاں منافقوں کی علامات میں ایک علامت اُن کی نماز میں سستی و کاہلی بھی بیان کی گئی ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَاِذَا قَامُوْآ اِلَی الصَّلٰوةِ قَامُوْا کُسَالٰی.
(النساء)
اور جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو سُستی کے ساتھ کھڑے (ہوتے ہیں)۔‘‘
تعدیلِ اَرکان کے بغیر ڈھیلے ڈھالے طریقے پر نماز پڑھنے کا کوئی رُوحانی فائدہ ہے اور نہ طبی و جسمانی، جبکہ درُست طریقے سے نماز کی ادائیگی کولیسٹرول کی مقدار کو اعتدال میں رکھنے کا ایک مستقل اور متوازن ذریعہ ہے۔
قرآنی اَحکامات کی مزید وضاحت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِس حدیثِ مبارکہ سے بھی ہوتی ہے :
فَإنَّ فِی الصَّلَاةِ شِفَاءً.
(احمد بن حنبل، المسند)
بے شک نماز میں شفاء ہے۔
جدید سائنسی تحقیق کے مطابق وہ چربی جو شریانوں میں جم جاتی ہے رفتہ رفتہ ہماری شریانوں کو تنگ کر دیتی ہے اور اُس کے نتیجہ میں بلڈ پریشر، اَمراضِ قلب اور فالج جیسی مہلک بیماریاں جنم لیتی ہیں۔
عام طور پر اِنسانی بدن میں کولیسٹرول کی مقدار 150 سے 250 ملی گرام کے درمیان ہوتی ہے۔ کھانا کھانے کے بعد ہمارے خون میں اس کی مقدار اچانک بڑھ جاتی ہے۔ کولیسٹرول کو جمنے سے پہلے تحلیل کرنے کا ایک سادہ اور فطری طریقہ اللہ تعالیٰ نے نمازِ پنجگانہ کی صورت میں عطا کیا ہے۔ دن بھر میں ایک مسلمان پر فرض کی گئی پانچ نمازوں میں سے تین یعنی فجر (صبح)، عصر (سہ پہر) اور مغرب (غروب آفتاب) ایسے اوقات میں ادا کی جاتی ہیں جب انسانی معدہ عام طور پر خالی ہوتا ہے، چنانچہ ان نمازوں کی رکعات کم رکھی گئیں۔ نمازِ ظہر اور نمازِ عشاء عام طور پر کھانے کے بعد ادا کی جاتی ہیں اِس لیے اُن کی رکعتیں بالترتیب بارہ اور سترہ رکھیں تاکہ کولیسٹرول کی زیادہ مقدار کو حل کیا جائے۔ رمضانُ المبارک میں اِفطار کے بعد عام طور پر کھانے اور مشروبات کی نسبتاً زیادہ مقدار کے اِستعمال کی وجہ سے بدن میں کولیسٹرول کی مقدار عام دنوں سے غیرمعمولی حد تک بڑھ جاتی ہے اِس لیے عشاء کی سترہ رکعات کے ساتھ بیس رکعات نمازِ تراویح بھی رکھی۔
نماز کے ذریعے کولیسٹرول لیول کو اِعتدال میں رکھنے کی حکمت دورِ جدید کی تحقیقات ہی کے ذریعے سامنے نہیں آئی بلکہ اِس بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیثِ مبارکہ بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا :
أَذِيْبُوا طَعَامَکُمْ بِذِکْرِ اﷲِ وَ الصَّلاةِ.
(طبرانی، المعجم الأوسط)
اپنی خوراک (کے کولیسٹرول) کو اللہ کی یاد اور نماز کی ادائیگی سے حل کرو۔‘‘
اگر ہم رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِرشاد اور عمل کے مطابق پانچ نمازیں ان کے مقررہ اوقات میں ادا کریں تو جسم کا کوئی عضو ایسا نہیں جس کی اَحسن طریقے سے ہلکی پھلکی ورزش نہ ہو جائے۔
ﷲ پاک ھم سب کو اپنے سامنے نماز میں کھڑے ہونے کا شرف بخشے۔
آمین یا رب العالمین.