حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ جن کو عمر ثانی بھی کہا جاتا ھے کی سلطنت کا عالم یہ تھا کہ تین براعظموں پر حکومت تھی اور تین براعظموں تک کوئی زکوةٰ لینے والا نہ تھا۔۔۔ان کی حکومت دمشق سے کشمیر تک، دمشق سے کاشغر چین تک۔ دمشق سے سینیگال چاڈ تک اور دمشق سے جنوبی فرانس تک لاکھوں مربع میل پر تھی اور یہ عالم تھا کہ لاکھوں مربع میل میں کوئی زکوة لینے والا نہ تھا لیکن ان کے اپنے گھر کا حال ملاحظہ ھو کہ عید کا موقع ہے بارہ بچے ہیں اور پہننے کو کپڑے نہیں ہیں۔۔بچے ماں کے پاس آتے ہیں کہ ہمیں ابا سے کہہ کر نئے کپڑے تو لے دیں ماں یعنی فاطمہ بنت عبدالملک سات نسبتوں سے شہزادی ہیں۔۔ان کے دادا خلیفہ بنے، ان کے والد عبدالملک خلیفہ بنے۔۔ان کے چار بھائی خلیفہ بنے اور ان کے شوہر عمر بن عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ خلیفہ بنے۔۔
اور ان کا باپ عبدالملک اپنی بیٹی کو ہیروں میں تولتا تھا۔۔۔اب عالم یہ ہے کہ بچوں کے پاس عید پر پہننے کو کپڑے نہیں ہیں۔۔۔۔
شام کو عمر بن عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ گھر تشریف لائے تو اہلیہ نے کہا
"عید آ رہی ہے بچے کپڑے مانگ رہے ہیں۔۔"
تو عمر رحمة اللہ علیہ فرمانے لگے
"فاطمہ! میرے پاس تو پیسے نہیں ہیں۔۔"
تین براعظموں میں زکوة لینے والا نہیں ہے اور خلیفہ کے پاس بچوں کی عید کے لیے پیسے نہیں۔۔۔۔
فاطمہ نے فرمایا
" میرے پاس ایک ترکیب ہے کہ آپ اگلے ماہ کی تنخواہ ایڈوانس لے لیں ان سے بچوں کے کپڑے سی لیتے ہیں اگلے ماہ میں گھر میں اون صاف کر کے یا چھوٹی موٹی مزدوری کر کے گھر کا خرچہ چلا لوں گی۔۔"
*اللہ اکبر* یہ خاتونِ اول فرما رہی ہیں کہ میں چھوٹی موٹی مزدوری کر کے خرچہ چلا لوں گی۔۔۔آپ اگلے ماہ کی تنخواہ ایڈوانس لے لیں۔۔۔
عمر بن عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ نے اتفاق کیا اور باہر نکلے ۔ جا کر اپنی خزانچی مزاحم سے ملے اور فرمایا
"بھائی مجھے اگلے مہینے کی تنخواہ ایڈوانس میں دے دو بچوں کے لیے عید کے کپڑے لینے ہیں۔۔۔۔"
آپ ملاحظہ کیجیے کہ لاکھوں مربع میل کا حاکم اپنے خزانچی سے ادھار تنخواة کی منت کر رہا ہے۔۔حالانکہ وہ خزانچی بھی ان کا ماتحت ہے وہ چاہتے تو حکمیہ لہجہ اپنا سکتے تھے لیکن نہیں وہ عمر بن عبدالعزیز تھے۔۔مزاحم بھی ان کا تربیت یافتہ تھا، اس نے جواب دیا
"امیر المومنین آپ اگلے ماہ کی تنخواہ ایڈوانس مانگ رہے ہیں آپ مجھے لکھ کر دے دیں آپ ایک ماہ زندہ رہیں گے میں آپ کو ایڈوانس تنخواہ دے دیتا ہوں۔۔۔"
*سبحان اللہ*۔۔یعنی خزانچی بھی ان کا تربیت یافتہ تھا وہ بھی اپنے پیشے سے بددیانتی نہیں کر رہا ۔۔۔انسان فانی ہے عمر بن عبدالعزیز ان سے ایک ماہ کی تنخواہ لے لیتے اور وفات پا جاتے۔۔ایک ماہ کام نہ کر پاتے تو وہ تنخواہ حرام کہلانی تھی چونکہ کام جو نہیں کر پائے۔۔۔
عمر بن عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ گھر واپس لوٹ کر آتے ہیں فاطمہ سے فرماتے ہیں
"فاطمہ! میرے بچوں کو کہہ دو میں انھیں عید کے کپڑے نہیں لے کر دے سکتا۔۔۔"
عید کی نماز ہوئی سارے سردار ملنے آئے ۔۔وہیں عمر عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ کے بچے بھی انہی پرانے کپڑوں میں بیٹھے تھے۔۔۔عمر بن عبدالعزیز نے اپنے بچوں سے فرمایا
"آج تمہیں اپنے باپ سے گلہ تو ہو گا کہ عید کے کپڑے نہیں لے کر دے سکا۔۔۔۔"
عمر بن عبدالعزیز کے ایک بیٹے کا نام عبدالملک تھا جو عمر بن عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ کی زندگی میں ہی فوت ہو گیا تھا انھوں نے جواب دیا
"نہیں ابا! آج ہمارا سر فخر سے بلند ہے کہ ہمارے باپ نے خیانت نہیں کی۔۔۔۔"
گھر میں تشریف لائے تو بچیاں منہ پر کپڑا رکھ کر بات کر رہی تھیں۔۔۔۔۔استفسار کیا منہ پر کپڑا رکھ کر کیوں بات کر رہی ہو
بیٹیوں نے جواب دیا آج ہم نے کچے پیاز سے روٹی کھائی ہے ہم نہیں چاہتیں ہمارے منہ سے آنے والی پیاز کی بدبو سے آپ کو پریشانی ہو۔۔۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ رونے لگے اور فرمایا
"میری بچیو! کوئی باپ اپنی اولاد کو دکھ نہیں دینا چاہتا۔۔۔میں چاہوں تو تمہیں شہنشاہی زندگی دے دوں لیکن میں تمہاری خاطر جہنم کی آگ نہیں خرید سکتا۔۔۔"
یہ تین براعظموں کے حاکم کے گھر کا حال ہے کہ عید کے کپڑے نہیں ، کھانے کو کچا پیاز ہے۔۔۔۔
رجب 101ھ بمطابق جنوری 720ء میں آپ بیمار پڑگئے۔ کہا جاتا ہے کہ بنو امیہ نے آپ کے ایک خادم کو ایک ہزار اشرفیاں دے کر آپ کو زہر دلوادیا تھا۔ آپ کو علالت کے دوران ہی اس کا علم ہوگیا تھا لیکن آپ نے غلام سے کوئی انتقام نہ لیا بلکہ اشرفیاں اس سے لے کر بیت المال میں داخل کروادیں اور غلام کو آزاد کردیا۔
زہر دینے کی وجوہات میں ایک تو یہ بات شامل تھی کہ آپ خلفائے راشدین کی مانند خلافت کے امور چلاتے تھے۔ دوسرے یہ کہ ان کی وجہ سے بنو امیہ اپنی مخصوص مالی لوٹ مار نہیں کر سکے۔ کیونکہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ بیت المال کو مسلمانوں کی امانت سمجھتے تھے۔
طبیعت بہت خراب ہوگئی تو آپ نے اپنے بعد ہونے والے خلیفہ یزید بن عبدالملک کے نام وصیت لکھوائی جس میں انہیں تقویٰ کی تلقین کی۔ 25 رجب 101ھ بمطابق 10 فروری 720ء کو آپ نے اپنا سفر حیات مکمل کرلیا۔ اس وقت آپ کی عمر صرف 40 سال تھی۔ آپ کو حلب کے قریب دیر سمعان میں سپرد خاک کیا گیا جو شام میں ہے۔۔
انھیں جپ قبر میں اتارا گیا۔۔رجاء قبر میں اترے ان کے کفن کی گرہ کھول کر دیکھی۔ رجاء نے فرمایا میں نے دیکھا
"عمر بن عبدالعزیز کا چہرہ قبلہ کی جانب تھا اور چودھویں کے چاند کی طرح روشن تھا یوں لگتا تھا جیسے چودہویں کا چاند قبر میں اتر آیا ہو "
****