ایک مشرک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا
اور بڑی بد تمیزی سے بولا
یا محمد( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )!!!
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت نرم مزاج اور خندہ رو تھے. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسکی طرف دیکھا اور فرمایا. جی بولئے اس نے کہا
مجھے تیری تین باتیں سمجھ نہیں آتیں
1....تو کہتا ھے کہ سارا عرب میرا کلمہ پڑھے گا
2.....تو کہتا ھے کہ قیصر و کسری جیسی عظیم سلطنت فتح ھونگی... یہاں تو کھانے کو روٹی نہیں.
3....تو کہتا ھے کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جائیں گے یہ کیسے ممکن ھے.
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسکی باتیں سنیں اور مسکرا کر فرمایا. امید ھے کہ تیری زندگی لمبی ھو گی( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امید دراصل یقین ھوتا تھا )
یقیناً سارا عرب میرا کلمہ پڑھے گا
یقیناً قیصر وکسری فتح ھوں گے. تو دیکھے گا
اور
یقیناً بروز قیامت میں تیرا ھاتھ پکڑ کر بولوں گا
کہ
کیا یہ سچ نہیں؟
وہ چلا گیا
جب مکہ فتح ھوا تو لوگوں نے کہا کہ ایک بات تو ھو گئ لیکن اس شخص نے کلمہ نہیں پڑھا.
جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا دور خلافت ایا اور ایران فتح ھوا تو یہ شخص مزدوری کر رھا تھا... اپنے اوزار اٹھا کر مکہ مکرمہ چل پڑا اور اس نے کلمہ پڑھ لیا
یہ شخص بے حد مسکین اور غریب تھا جب بھی یہ مسجد آتا تو امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ اس کے احترام میں کھڑے ہو جاتے. لوگوں نے کہا کہ آپ اس معمولی شخص کو اتنی اہمیت کیوں دیتے ھیں تب حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا
کہ جب یہ پہلی مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایا تھا میں بھی اس مجلس میں موجود تھا. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا ھاتھ پکڑ کر فرمایا تھا
کہ میدان حشر میں تیرا ھاتھ پکڑ کر پوچھوں گا کہ کیا یہ سچ نہیں ھے.
میرے ماں باپ میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان. جس کا ھاتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیامت کے دن پکڑ لیں اور وہ اتنا قریب ھو تو وہ ایک جنتی ھی ھو سکتا ھے
یہ کہہ کر امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ بے اختیار رو دئیے.
( صحیح بخاری و صحیح مسلم )