وتر کے معنی طاق کے ہیں۔ احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں امت مسلمہ متفق ہے کہ ہمیں نمازِ وتر کی ھمیشہ پابندی کرنی چاہیے؛ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سفروحضر ہمیشہ نمازِ وتر کا اہتمام فرماتے تھے، نیز نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ِوتر پڑھنے کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے حتی کہ فرمایا کہ اگر کوئی شخص وقت پر وتر نہ پڑھ سکے تو وہ بعد میں اس کی قضا کرے۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت مسلمہ کو وتر کی ادائیگی کاحکم ( امر) متعدد مرتبہ دیا ہے، عربی زبان میں امر کا صیغہ عموماً وجوب کے لئے ہوا کرتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نمازِ وتر کا زندگی میں ایک مرتبہ بھی چھوڑنا حتی کہ حج کے موقع پر مزدلفہ میں بھی ثابت نہیں ہے، جیساکہ سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم شیخ عبد العزیز بن باز نے بھی ایک سوال کے جواب میں یہی فرمایا ہے
وتر کو واجب یا سنت موٴکدہ اشد التاکید کادرجہ دینے میں زمانہٴ قدیم سے فقہاء وعلماء کے درمیان اختلاف چلا آرہا ہے۔ فقہاء وعلماء کی ایک جماعت نے وتر کو سنتِ موٴکدہ اشد التاکید کہا ہے؛ جب کہ فقہاء وعلماء کی دوسری جماعت مثلاً حضرت نعمان بن ثابت یعنی امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں واجب قرار دیا ہے، جس کا درجہ فرض سے یقینا کم ہے۔ جن فقہاء وعلماء نے سنت موٴکدہ اشد التاکید کہا ہے، انھوں نے بھی احادیث شریفہ کی روشنی میں یہی فرمایا ہے کہ نماز وتر کا ہمیشہ اہتمام کرنا چاہیے اور وقت پر ادا نہ کرنے پر اس کی قضا کرنی چاہیے۔ امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ: جس نے جان بوجھ کر نمازِ وتر کو چھوڑا، وہ برا شخص ہے اور اس کی شہادت قبول نہیں کرنی چاہیے۔ (۱)
علامہ ابن تیمیہ نے بھی نماز ِوتر چھوڑنے والے کی شہادت قبول نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ غرضیکہ عملی اعتبار سے امتِ مسلمہ متفق ہے کہ نماز ِوتر کی ہمیشہ پابندی کرنی چاہیے اور وقت پر ادا نہ کرنے پر اس کی قضا بھی کرنی چاہیے خواہ اس کو جو بھی عنوان دیا جائے۔
*نمازِ وتر کی اہمیت وتاکید نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں:*
(۱) عَنْ اَبِی سَعِید الخُدْرِی قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہ صلى الله عليه وسلم : اَوْتِرُوْا قَبْلَ اَنْ تُصْبِحُوا(۲)
حضرت ابو سعید خدری رض فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : صبح ہونے سے قبل نماز وتر پڑھو۔
(۲) عَنْ عَلِی قالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یَا اَہْلَ الْقُرْآنِ اَوْتِرُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ وِتْرٌ یُحِبُّ الْوِتْرَ(۳)
حضرت علی رض فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے مسلمانو! وتر پڑھو؛ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ بھی وتر ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے۔
(۳) عَنْ خارجةَ بنِ حذافہ اَنَّہ قَالَ خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ: اِنَّ اللّٰہَ اَمَدَّکُمْ بِصَلَاةٍ ہِیَ خَیْرٌ لَّکُمْ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ․ الوِتْرُ جَعَلَہُ اللّٰہُ لَکُمْ فِیْمَا بَیْنَ صَلاةِ الْعِشَاءِ اِلَی اَن یَّطْلُعَ الْفَجْرُ(۴)
حضرت خارجہ بن حذافہ رض فرماتے ہیں کہ: ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک نماز عطا فرمائی ہے، وہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہے،اور وہ وتر کی نماز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نماز تمہارے لیے نماز عشا کے بعد سے صبح ہونے تک مقرر کی ہے․․․․ محدثین نے تحریر کیا ہے کہ سرخ اونٹوں سے بہتر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ: نمازِ وتر دنیا وما فیہا سے بہتر ہے؛ کیونکہ اُس زمانہ میں سرخ اونٹ سب سے زیادہ قیمتی چیز تھی۔
(۴) عَنْ اَبِی سَعِیدِ الخُدری قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہ صلى الله عليه وسلم : مَنْ نَامَ عَنْ وِتْرِہِ اَوْ نَسِیَہُ فَلْیُصَلِّہِ اِذَا ذَکَرَہ(۵)
حضرت ابو سعید خدری رض فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص وتر سے سوتا رہ جائے یا بھول جائے تو جب یاد آئے (یا وہ جاگے) تو اسی وقت پڑھ لے۔
(۵) عن بریدة قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم یقول: اَلْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ یُوْتِرْ فَلَیْسَ مِنَّا، اَلْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ یُوْتِرْ فَلَیْسَ مِنَّا، اَلْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ یُوْتِرْ فَلَیْسَ مِنَّا(۶)
حضرت بریدہ اسلمی رض فرماتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نمازِ وتر حق ہے، جو وتر ادا نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔ نمازِ وتر حق ہے، جو وتر ادا نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔ نمازِ وتر حق ہے، جو وتر ادا نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں․․․․․․
بعض روایت میں یہ حدیث ”الوتر واجِبٌ“ کے لفظ سے مروی ہے۔
امام حاکم نے اِس حدیث کو صحیح علی شرط الشیخین قرار دیا ہے۔ امام داوٴد نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد اس پر خاموشی اختیار کی ہے، جو اُن کے نزدیک حدیث کے صحیح یا کم از کم حسن ہونے کے دلیل ہوتی ہے۔(۷)