صلاة التراویح کی فضیلت و اہمیت

وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِO 

اور میں نے جن اور انسان کو بنایا ہے تو صرف اپنی بندگی کے لیے۔

اور میں  نے جن اور آدمی اسی لئے بنائے کہ میری عبادت کریں ۔ یعنی میں  نے جنوں  اور انسانوں  کو صرف دنیا طلب کرنے اور اس طلب میں  مُنہَمِک ہونے کے لئے پیدا نہیں  کیا بلکہ انہیں  اس لئے بنایا ہے تاکہ وہ میری عبادت کریں اور انہیں  میری معرفت حاصل ہو

رمضان شریف کا مہینہ عبادت اور  عالمِ روحانیت کا موسم بہار ہے۔ دن کو فرض روزہ رکھنا اور رات کو سنت تروایح ادا کرنا اس مبارک مہینہ کی مخصوص عبادات ہیں۔ حدیث مبارکه میں ارشاد ہے:

شَهْرٌکَتَبَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ صِيَامَہٗ وَسَنَنْتُ لَكُمْ قِيَامَهُ۔ (سنن ابن ماجۃ) 

ترجمہ:اس مہینہ کے روزے اللہ تعالیٰ نےتم پر فرض فرمائے ہیں اور میں نے اس کے قیام (تراویح) کو تمہارے لیے سنت قرار دیا ہے۔

رمضان المبارک میں نفل عبادت کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستر گنا زیادہ عطا کیا جاتا ہے۔

اس لیے ان مبارک گھڑیوں کوغنیمت سمجھا جائے اورایک لمحہ بھی ضائع نہیں ہونے دینا چاہیے شائد آئندہ ہمیں یہ مقدس گھڑیاں نصیب ہوں یا نہ ہوں۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ صديقه رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا  فرماتی ہیں:

كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ شَدَّ مِئْزَرَهُ ، ثُمَّ لَمْ يَأْتِ فِرَاشَهُ حَتَّى يَنْسَلِخَ ۔ (شعب الایمان للبیہقی) 

ترجمہ:جب رمضان کا مہینہ آتا تورسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کمر کَس لیتے اوراپنے بستر پرتشریف نہ لاتے ،یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا۔

لیکن جب رمضان  المبارک کی آخری دس راتیں آتیں تو حضرت  عائشہ صديقه رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا  ہی فرماتی ہے کہ :

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْتَهِدُ فِى الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ مَا لاَ يَجْتَهِدُ فِى غَيْرِهَا۔ 

ترجمہ: رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  آخری دس دنوں میں جو کوشش فرماتے وہ باقی دنوں میں نہ فرماتے تھے۔(صحیح مسلم)

نیز آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم امت کوبھی اس مہینے میں عبادت کی ترغیب فرماتے تھے ۔حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ روایت فرماتے ہیں:

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ۔ (صحیح بخاری) 

ترجمہ: رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا: جس نے رمضان میں ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے تروایح پڑھی تواس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  رمضان المبارک میں خود بھی بکثرت عبادت فرماتے تھے اورامت کوبھی بکثرت عبادت کی ترغیب فرماتے تھے۔اس لیے اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ جتنی عبادت ہوسکے پوری ہمت اورکوشش سے کرنی چاہیے۔

۔ ماہ رمضان کی راتوں میں ادا کی جانے والی بیس رکعات نماز باجماعت کا نام ’’تراویح‘‘ اس لئے رکھا گیا کہ جب لوگوں نے جماعت کے ساتھ تراویح پڑھنا شروع کی تو وہ ہر چار رکعت کے بعد اتنی دیر آرام کرتے تھے، جتنی دیر میں چار رکعات پڑھی جاتی تھیں، یعنی تراویح کے معنی آرام والی نماز ہے۔

نماز تراویح بالاجماع سنت مؤکدہ ہے اور احادیث نبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  میں اس کی اہمیت و فضیلت بیان ہوئی ہے۔ خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے نماز تراویح کی مداومت فرمائی ہے، چنانچہ تاجدار مدینہ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کا ارشاد ہے کہ ’’میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت کو اپنے اوپر لازم کرلو‘‘۔ خود حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے بھی نماز تراویح ادا فرمائی اور اسے پسند فرمایا۔ حضرت ابوہریرہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ ’’جو رمضان میں قیام کرے ایمان کی وجہ اور طلب ثواب کے لئے، اس کے اگلے سب گناہ بخش دیئے جائیں گے‘‘

تراویح کی تعداد ِرکعت کے سلسلہ میں علماء کرام کے درمیان اختلاف ہے۔ تراویح پڑھنے کی اگرچہ بہت فضیلت احادیث میں وارد ہوئی ہے؛ لیکن فرض نہ ہونے کی وجہ سے تراویح کی تعدادِ رکعت میں یقینا گنجائش ہے۔ جمہور محدثین اورفقہاء کی رائےیہ  ہے کہ تراویح ۲۰ رکعت پڑھنی چاہئیں۔ تراویح کی تعداد ِرکعت میں علماء کرام کے درمیان اختلاف کی اصل بنیاد یہ ہے کہ علماء کا اس میں اختلاف ھے کہ تراویح اور تہجد ایک نماز ہے یا دو الگ الگ نمازیں۔ جمہور محدثین،فقہائے کرام نے اِن دونوں نمازوں کو الگ الگ نماز قرار دیا ہے، اُن کے نقطہٴ نظر میں حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا کی روایت کا تعلق تہجد کی نماز سے ہے، جس میں انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم رمضان اور رمضان کے علاوہ گیارہ رکعت سے زائد نماز نہیں پڑھتے تھے۔ جس کے انہوں نے مختلف دلائل بهي دیے ہیں

حضرت عائشہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُا کی روایت (جس میں انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم   رمضان اور رمضان کے علاوہ گیارہ رکعت سے زائد نماز نہیں پڑھتے تھے) میں لفظ ِتراویح کا ذکر نہیں ہے۔ لہٰذا اس حدیث کا تعلق تہجد کی نماز سے ہے؛ کیونکہ محدثین نے اس حدیث کو تہجد کے باب میں نقل کیا ہے، نہ کہ تراویح کے باب میں۔ امام مسلم ، امام ابوداوٴد  امام ترمزی ، امام  نسائی اور امام مالک وغیرہ  نے اپنی اپنی کتابوں میں اس حدیث کو تہجد کے باب میں ھی ذکر کیا ھے  اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان محدثین کے نزدیک بھی یہ حدیث تہجد کی نماز سے متعلق ہے نہ کہ تراویح سے متعلق۔

تراویح كي بیس رکعت پر حضرات خلفاءِ راشدین میں سے حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ، حضرت عثمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  اورحضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ، دیگرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم، ائمہ مجتہدین و حضرات مشائخ رحمہم اللہ عمل پیرا رہے، بلاد اسلامیہ میں چودہ سو سال سے اسی پر عمل ہوتا رہا ہے اورامت کا اسی پر اجماع ہے ۔

فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِى وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ۔ )سنن ابی داؤد: ج2،ص290، باب فی لزوم السنۃ(

ترجمہ: تم میری سنت کواورہدایت یافتہ خلفاء راشدین (رضی اللہ عنہم) کی سنت کو اپنے اوپرلازم پکڑو اور اسے مضبوطی سے تھام لو۔

اس حدیث مبارک میں جہاں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے اپنی سنت پر لفظ ’’علیکم‘‘(تم پر لازم ہے) اور عضواعلیھاب النواجذ (مضبوطی سےتھام لو) سے عمل کرنے کی تاکید فرمائی اسی طرح حضرات خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی سنت پر بھی عمل کرنے کی تاکید فرمائی جوکہ تراویح کے سنت موکدہ ہونے کی دلیل ہے۔

علامہ ابن تیمیہ رحمه الله فرماتے ہیں کہ حضرت عمرفاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے سب صحابہ رضوان الله عليهم کو حضرت ابی بن کعب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی امامت میں جمع کیا تو وہ بیس رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھاتے تھے۔ حضرت عمر فاروق  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ان خلفاء راشدین میں سے ہیں، جن کی بابت نبی اکرم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا ہے کہ میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کرو اور اسی کو ڈاڑھوں سے مضبوطی سے پکڑے رکھو۔ علامہ ابن تیمیہ رحمه الله فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے ڈاڑھوں کا ذکر اس لیے کیا کہ ڈاڑھوں کی گرفت مضبوط ہوتی ہے، لہٰذا حضرت عمر فاروق  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا یہ اقدام عینِ سنت ہے۔ (فتاوی ابن تیمیہ)

قرآن وحدیث کی روشنی میں ساری امت مسلمہ متفق ہے کہ رمضان المبارک کی راتوں میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنی چاہیے، نیز حضرت عمرفاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے عہدِ خلافت سے امت مسلمہ جماعت کے ساتھ ۲۰ ہی رکعت تراویح پڑھتی آئی ہے، حرمین (مسجد حرام اور مسجد نبوی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ) میں آج تک کبھی بھی بيس رکعت تراویح سے كم تراويح نہیں پڑھی گئیں۔( گذشتہ كچھ سالوں سے بوجہ کرونا دس تراویح پر اکتفا کیا جارھا ھے ) علامہ نووی رحمه الله فرماتے ہے کہ جان لو کہ نماز تراویح کے سنت ہونے پر تمام علماء کا اجماع ہے اور یہ بیس رکعت ہیں، جن میں ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرا جاتا ہے۔ (الاذکار ص ۸۳)

مشہور غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خان بھوپالی رحمه الله نے تحریر فرمایا ہے کہ حضرت عمرفاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے دور میں جو طریقہ بیس رکعت پڑھانے کا ہوا ، اس کو علماء نے اجماع کے مثل شمار کیا ہے۔ 

(عون الباری ج۴ ص ۳۱۷)



نمازِ تراویح کی چودہ سو سالہ تاریخ

سعودی عرب کے نامور عالم ، مسجد نبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کے مشہور مدرس اور مدینہ منورہ کے (سابق) قاضی الشیخ عطیہ محمد سالم رحمه الله (متوفی ۱۹۹۹) نے نماز تراویح کی چودہ سو سالہ تاریخ پر عربی زبان میں ایک مستقل کتاب (التراویحُ أکْثَرُ مِنْ ألْفِ عَامٍ فِی الْمَسْجِدِ النبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم) لکھی ہے۔ کتاب کے مقدمہ میں تصنیف کا سبب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مسجد نبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم میں نماز تراویح ہورہی ہوتی ہے تو بعض لوگ آٹھ رکعت پڑھ کر ہی رک جاتے ہیں ، ان کا یہ گمان ہے کہ آٹھ رکعت تراویح پڑھنا بہتر ہے اور اس سے زیادہ جائز نہیں ہے، اس طرح یہ لوگ مسجد نبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم میں بقیہ تراویح کے ثواب سے محروم رہتے ہیں۔ ان کی اس محرومی کو دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے ،لہٰذا میں یہ کتاب لکھ رہا ہوں؛ تاکہ ان لوگوں کے شکوک وشبہات ختم ہوں اور ان کو بیس رکعت تراویح پڑھنے کی توفیق ہوجائے․․․․ اس کتاب میں ۱۴۰۰ سالہ تاریخ پر مدلل بحث کرنے کے بعد شیخ عطیہ محمد سالم رحمه الله لکھتے ہیں: اس تفصیلی تجزیہ کے بعد ہم اپنے قراء سے اولاً تو یہ پوچھنا چاہیں گے کہ کیا ایک ہزار سال سے زائد اس طویل عرصہ میں کسی ایک موقع پر بھی یہ ثابت ہے کہ مسجد نبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم میں  مستقل آٹھ تراویح پڑھی جاتی تھیں؟ یا چلیں بیس سے کم تراویح پڑھنا ہی ثابت ہو؟ بلکہ ثابت تو یہ ہے کہ پورے چودہ سو سالہ دور میں بیس یا اس سے زائد ہی پڑھی جاتی تھیں۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا کسی صحابی یا ماضی کے کسی ایک عالم نے بھی یہ فتویٰ دیا کہ ۸ سے زائد تراویح جائز نہیں ہیں اور اس نے حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کی حدیث کو اس فتوے کی بنیاد بنایا ہو ؟


رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم کی باجماعت نمازِ تراویح  صرف تین راتیں:

رسول كريم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  سے تراویح کی جماعت صرف تین دن ثابت ہے، پورا مہینہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے صحابہ كرام رضوان اللہ عنہم کو تراويح كي نماز نهيں پڑھائی جیسا کہ احادیث مباركه میں اس کی صراحت موجود ہے۔ چنانچہ حضرت ابوذر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے:

قَالَ صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- رَمَضَانَ فَلَمْ يَقُمْ بِنَا شَيْئًا مِنَ الشَّهْرِ حَتَّى بَقِىَ سَبْعٌ فَقَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ فَلَمَّا كَانَتِ السَّادِسَةُ لَمْ يَقُمْ بِنَا فَلَمَّا كَانَتِ الْخَامِسَةُ قَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ شَطْرُ اللَّيْلِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ نَفَّلْتَنَا قِيَامَ هَذِهِ اللَّيْلَةِ. قَالَ فَقَالَ « إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا صَلَّى مَعَ الإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ حُسِبَ لَهُ قِيَامُ لَيْلَةٍ ». قَالَ فَلَمَّا كَانَتِ الرَّابِعَةُ لَمْ يَقُمْ فَلَمَّا كَانَتِ الثَّالِثَةُ جَمَعَ أَهْلَهُ وَنِسَاءَهُ وَالنَّاسَ فَقَامَ بِنَا حَتَّى خَشِينَا أَنْ يَفُوتَنَا الْفَلاَحُ. . . . ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِنَا بَقِيَّةَ الشَّهْرِ. (سنن ابی داؤد) 

حضرت ابوزر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے، آپ نے پورا مہینہ ہمیں رات میں نماز نہیں  پڑھائی یہاں تک کہ سات دن باقی رہ گئے تو(تیئسویں رات میں) آپ نے ہمیں نماز پڑھائی یہاں تک کہ تہائی رات گزر گئی جب چھ دن رہ گئے تو نماز نہیں  پڑھائی پھر جب پانچ دن رہ گئے تونماز پڑھائی(یعنی پچیسویں رات میں)یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی میں نے عرض کی: یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  اگر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  اس رات کے باقی حصے میں بھی ہمیں نفل پڑھا دیتے توکیا ہی اچھا ہوتا!آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم   نے فرمایا: جب کوئی شخص امام کے ساتھ نماز(عشاء)پڑھے پھر اپنے گھر واپس جائےتو اسے پوری رات کے قیام کا ثواب ملے گا۔

حضرت ابوذر پرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ جب چار دن باقی رہ گئے توآپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے ہمیں نماز نہیں پڑھائی، جب تین دن باقی رہ گئے توآپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے اپنے گھروالوں، عورتوں اور دیگر لوگوں  کوجمع کیا اور نماز پڑھائی (یعنی ستائیسویں رات)اتنی لمبی نماز پڑھائی کہ ہمیں اندیشہ ہونے لگا کہ ہم سے سحری رہ جائے گی، پھرباقی ایام بھی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصحَابِہٖ وَسَلَّم  نے ہمیں نماز نہیں  پڑھائی۔


تسبیح تراویح

نمازِ تروایح میں ہر چار رکعت ادا کرنے کے بعد کچھ توقف کیا جاتا ہے، جس میں تسبیح تراویح، اَذکار اور صلوٰۃ و سلام پڑھا جاتا ہے۔ تسبیح تراویح یہ ہے:

سُبْحَانَ ذِی الْمُلْکِ وَالْمَلَکُوْتِ ط سُبْحَانَ ذِی الْعِزَّةِ وَالْعَظَمَةِ وَالْهَيْبَةِ وَالْقُدْرَةِ وَالْکِبْرِيَآئِ وَالْجَبَرُوْتِ ط سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْحَيِ الَّذِی لَا يَنَامُ وَلَا يَمُوْتُ ط سُبُّوحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّنَا وَرَبُّ الْمَلَائِکَةِ وَالرُّوْحِ ط اَللّٰهُمَّ اَجِرْنَا مِنَ النَّارِ يَا مُجِيْرُ يَا مُجِيْرُ يَا مُجِيْر.

’’پاک ہے (وہ اﷲ) زمین و آسمان کی بادشاہی والا۔ پاک ہے (وہ اﷲ) عزت و بزرگی، ہیبت و قدرت اور عظمت و رُعب والا۔ پاک ہے بادشاہ (حقیقی، جو) زندہ ہے، سوتا نہیں اور نہ مرے گا۔ بہت ہی پاک (اور) بہت ہی مقدس ہے ہمارا پروردگار اور فرشتوں اور روح کا پروردگار۔ اِلٰہی ہم کو دوزخ سے پناہ دے۔ اے پناہ دینے والے! اے پناہ دینے والے! اے پناہ دینے والے!‘‘


الله تعالى هم سبكو عمل كي توفيق عنايت فرمائے 

(آمين يا رب العلمين)

Share: