قبر سے پہلے قبر کا عذاب ھونا اور حضرت عمر بن عبدالعزیز کی قبر کا نور سے بھر جانا

 *بنو امیہ کا سب سے حسین بادشاہ سلمان بن عبدالملک* ۔ 42 سال کی عمر ۔ جوانی ۔۔  جب اسکی میت کو قبر کے قریب کیا گیا تو لاش ہلنے لگی  تو انکے بیٹوں نے کہا کہ ہمارے ابو زندہ ہیں ۔ سکتہ ہو گیا ہوگا۔ یہ ابھی زندہ ہیں عمر بن عبدالعزیزؒ فرمانے لگے ارے بھتیجو! یہ ذندہ نہیں ہے بلکہ قبر کا عذاب جلدی شروع ہو گیا ہے اسے چھپاؤ جلدی چھپاؤ ۔

 عمر بن عبدالعزیزؒ جس تخت پر بیٹھے اسی تخت پر اس سے پہلے سلمان  بیٹھا تھا اور اسی تخت پر ولید بیٹھا تھا  اسی تخت پر عبدالملک  بھی بیٹھا تھا  ان تینوں نے اپنے رب کو راضی کرنے کی بجائے اپنے من کو راضی کیا رب کو بھلا بیٹھے۔

 عمر بن عبدالعزيزؒ نے اپنے دور میں صرف اپنے رب کو راضی کیا ۔ جب عمر بن عبدالعزيزؒ  کی موت کا وقت قریب آیا تو انہوں نے رضا بن ہیبہ کو بلایا اور اس سے فرمایا کہ میں نے عبدالملک بن مروان (چاچا - سسر ) انکی بیٹی فاطمہ سے آپ کی شادی ہوئی تھی ۔ میں نے انکو (عبدالملک بن مروان) کو جن قبر میں اتارا تو اس کے کفن کی گرہ کھول کر دیکھا تو انکا چہرہ قبلہ سے ہٹ چکا تھا اور رنگ کالا سیاہ پڑ چکا تھا حالانکہ عبدالملک بن مروان گورا چٹا تھا ۔گال سرخ ۔ آخر کالا کیوں ھوگیا؟ ۔۔۔ پھر میں نے ولید کو  جو عبدالملک کا بیٹا تھا کو قبر میں اتارا ۔اسنے 21 سال حکومت کی  تھی  میں نے اس کے کفن کی گرہ کو کھولا ۔۔۔ تو اسکا رنگ سیاہ ہو چکا تھا ۔۔ قبلہ کی طرف سے چہرہ ہٹ چکا تھا ۔ پھر میں نے سلمان کو  جو عبدالملک کا بیٹا تھا کو قبر میں اتارا پھر سلمان کے کفن کو کھولا ۔اسکا بھی چہرہ قبلہ سے ہٹ چکا تھا اور  رنگ سیاہ پڑ چکا تھا ۔ 

اب میں جا رہا ہوں  تم مجھے دیکھنا میرا کیا بنتا ھے ۔ پہلے تینوں خلفاء نے نے حکومت کی پوجا کی دنیا کو ھی اپنا سب کچھ سمجھا لیکن عمر بن عبدالعزیزؒ نے اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کی ۔۔۔ انہوں نے  خلیفہ بنتے ھی ایک بڑا عجیب خطبہ دیا ۔

اے لوگو۔۔۔!

بچپن میں مجھے شعر و شاعری کا شوق تھا تو میں شاعر بنا ۔۔۔ تھوڑی سی اٹھان ہوئی تو علم کا شوق پیدا ہوا میں نے علم حاصل کیا ۔۔جوان ہوا تو فاطمہ بنت عبدالملک سے عشق ہوا میں نے ان سے شادی کی  اب اللّٰہ تعالی نے مجھکو حکومت دے دی ہے ۔۔۔ اب تم دیکھو گئے میں اس سے اپنے اللّٰہ کو  کیسے راضی کروں گا ۔۔۔ 


ہمارے حکمران تو ووٹ سے آتے ہیں اور چار پانچ سال کے بعد چلے جاتے ہیں لیکن عمر بن عبالعزیز کو وراثت میں حکومت آ رہی ہے تا زندگی  اور تین براعظموں پر حکومت ہے  اور ایسا رعب و دبدبہ ہے بنو امیہ کا کہ کوئی انکے سامنے سر نہیں اٹھا سکتا۔۔۔ تین براعظم میں ذکواة لینے والا کوئی نہ بچا تین براعظم میں سوال کرنے والا کوئی نہ بچا  تین براعظم میں ظالم کوئی نہ بچا ۔تین برآعظم میں مظلوم کوئی نہ بچا ۔ لیکن خود کیسا رہا ۔اپنی زندگی کس حال میں گزاری 

گھر آئے  بیوی سے مخاطب ھوئے  فاطمہ! بڑے اچھے دن گزرے ہیں لیکن  اب امتحان  کا وقت ھے  میں تیرا حق نہ ادا کر سکوں گا ۔طلاق لینی ہے تو میں حاضر ہوں ۔ساتھ دینا ہے تو پہلے اپنے حقوق معاف کرو ۔

سیاسی لحاظ سے فاطمہ جیسی عورت تاریخ میں نہیں آئیں ۔۔۔ سات نسبتوں سے یہ شہزادی ہیں ۔ فاطمہ کہنے لگیں ۔ عمر۔۔۔! میں نے سکھ کے دن آپکے ساتھ گزارے  ہیں ۔۔۔ دکھ میں آپکو چھوڑ کر نہیں جاؤں گی ۔۔۔ جائیں میں نے سارے حقوق معاف کیے ۔پھر عمر بن عبدالعزیزؒ کی راتیں اور دن کیسے گزرے ۔۔۔ مصلے پر روتے روتے وہیں سو جاتے ۔ اور مصلے پر روتے روتے وھیں سے اٹھتے ۔اپنی حکومت کو اللہ کی رضا کے لئے استعمال کیا ۔۔۔ کیسے استعمال کیا ۔۔۔ فاطمہ کا سارا زیور بیت المال میں ڈال دیا اور خود تنخواہ پر آگئے ۔

 عید کا موقع آیا ۔ بچوں نے ماں سے کہا ۔ ہمیں کپڑے لے کر دو ۔۔۔ فاطمہ  کے پاس عمر کے (3 براعظموں کے خلیفہ) کے بچے آ رہے ہیں ۔ امی جان!  ابا سے کہیں عید آ رہی ہے  ہمیں عید کے کپڑے لے دیں۔ ابا تشریف لائے ۔۔۔ خزانے  لبا لب بھرے ہوئے ہیں گندم کے  ڈھیر کی طرح  فاطمہ نے کہا امیر المومنین !  بچے کپڑے مانگ رہے ہیں ۔ کہا فاطمہ ! میرے پاس تو پیسے نہیں کہاں سے کپڑے لے کر دوں؟ ۔ فاطمہ نے کہا پھر بچوں کا کیا کریں ۔ کہا مجھے بھی نہیں پتا کیا کروں ۔۔۔


اس سے پہلے تین حکمرانوں نے لوٹ مار کے بازار گرم کیے۔ ظلم کے بازار گرم کیے ۔ اور آج اسی تخت پر ایک شخص بیٹھا ہے جو اللّٰہ کو راضی کرنے میں لگا ہوا ہے ۔۔۔ 

تو فاطمہ نے کہا  آپ ایسا کریں اگلے مہینے کی تنخواہ ایڈوانس لے لیں  اس سے ہم بچوں کے کپڑے لے لیتے ھیں اور میں مزدوری کر کے گھر کا خرچ چلا لوں گی ۔۔۔ 

اپنی تاریخ پڑھو۔ صرف ڈرامے نہ دیکھتے رہ جاؤ۔   صرف گانے نہ سنتے رہ جاؤ۔۔۔ )"

پھر عمر بن عبدالعزیزؒ نے اپنے وزیر خزانہ مزآہم کو بلایا ۔ اپنا غلام ۔ ہاں بھائی مزاہم۔۔ ہمیں بچوں کے کپڑے چاہئیں ۔۔۔ آگر آگلے مہینے کی تنخواہ ایڈوانس مل جائے ۔۔۔ 

وہ کہنے لگے  اے امیر المومنین !  آپ مجھے لکھ کر دے دیں کہ آپ اگلے مہینے تک ذندہ رہیں گے اور خلافت کے اُمورنبٹاتے رھیں گے تو میں آپکو تنخواہ دے دیتا ہوں ۔۔۔ 

آپ نے سر جھکا لیا ۔ اٹھے۔۔گھر آئے اپنی بیوی سے کہا ۔۔ فاطمہ بچوں سے کہہ دو انکا باپ انکو کپڑے نہیں لے کر دے سکتا  عید کا دن آگیا ۔ بنو اممیہ کا خاندان ملنے آ رہا ہے ۔ سارے سردار ۔ سرداروں کے بیٹے ۔ اعلیٰ ملبوسات ۔ سب ملنے آ رہے ہیں ۔ تھوڑی دیر بعد دیکھا تو بچے بھی ملنے آ رہے ہیں ۔امیر المومنین کی حیثیت سے  بچے باپ کو ملنے آ رہے ہیں اور انکے جسموں پر پرانا لباس ہے  حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ایک طرف دیکھا تو سرداروں کے بیٹے اور زرق برق پوشاکیں دوسری طرف اپنے بچوں کو دیکھا جن کے جسموں پر پرانا لباس ۔۔۔ 


ارے اس باپ سے پوچھو۔ جو سب کچھ کر سکتا ہو لیکن پھر بھی اللّٰہ کی رضا کی خاطر مٹھی بند کر لے کہ نہیں میں نے حرام کی طرف نہیں جانا ۔۔۔ 


بچوں کو دیکھا تو انکھیں ڈگمگا گئیں ۔ فرمایا ۔اے  میرے بچو۔۔ آج تمہیں اپنے باپ سے گلہ تو ہو گا ۔کہ آج ہمارے باپ نے ہمیں کپڑے بھی نہیں لے کر دیئے انکے ایک بیٹے تھے عبدالملک ۔۔۔ وہ آپ سے بھی چار ہاتھ اگے تھے ۔وہ آپ سے پہلے ہی اللّٰہ کو پیارے ہو گئے تھے ۔ کہنے لگے ۔ابا جان ۔ آپکو عید مبارک ہو ۔۔۔ آج ہمارا سر بلند ہے ۔ ہم شرمندہ نہیں ہیں بلکہ ھم خوش ھیں ۔ ہمارے باپ نے قومی خزانے میں بددیانتی نہیں کی  ہم شرمندہ نہیں ہیں ۔ انسانوں کو کپڑوں میں نہیں تولا جاتا ۔۔۔ 


(آج  ھمارا حال کیا ھے  آج ھمارے وطن کا مالدار زھنی طور پر اتنا فقیر ہو گیا ہے ۔ اتنا چھوٹا ہو گیا ہے کہ وہ اپنا تعارف کروانے کے لیے 50 لاکھ کی گھڑی لیتا ہے ۔ 6 لاکھ کا جوتا لیتا ہے ۔۔ آج کی بیگم اتنی چھوٹی ہو گی ہے کہ وہ اپنے قد کو بڑا کرنے کے لیے 8-10 لاکھ کا ہینڈ بیگ لیتی ہے ۔۔ ارے میرے بھائی تو دو ٹکے کا بھی نہیں رہا اگر تم نے 50 لاکھ کی گھڑی سے خود کو بڑا بنایا ہے ۔ ارے اس دھوکہ سے نکلو۔۔ برینڈڈ ؟؟ برینڈڈ؟؟ برینڈڈ؟؟ جب تم اپنی ذات میں بے قیمت ہو تو اللہ کی قسم ۔۔۔ تمھاری گھڑی ۔ تمھارے بیگ ۔۔ تمھاری گاڑیاں تمہاری ذات اونچی نہیں کر سکتے ۔۔۔۔)


ایک دن عمر بن عبدالعزیزؒ اپنی بیگم فاطمہ سے کہنے لگے ۔۔ فاطمہ کچھ پیسے ہیں میرا انگور کھانے کو جی چاہ رہا ہے ۔۔۔ 

فاطمہ رونے لگیں اور کہنے لگیں ۔ امیر المومنین خزانے بھرے پڑے ہیں ۔۔ کیا ایک درہم کا بھی حق نہیں کہ لے کر آپ انگور کھا لیں ۔۔۔ 

فاطمہ کی بات سن کر تڑپ کر بولے ۔۔۔ فاطمہ میں جہنم نہیں برداشت کر سکتا۔۔۔ 

آج ہم اپنے گریبان میں جھانکیں صاحب اقتدار اپنی جگہ جس کو جتنا موقعہ ملتا ہے لوٹ کھسوٹ میں لگا ہوا ہے اللہ ہمارے حال پہ کرم فرمائے۔ دنیا بڑی خسارے کی جگہ ہے۔ 

رجب 101ھ بمطابق جنوری 720ء میں عمر بن عبدالعزیز بیمار پڑ گئے۔ کہا جاتا ہے کہ بنو امیہ نے آپ کے ایک خادم کو ایک ہزار اشرفیاں دے کر آپ کو زہر دلوادیا تھا۔ آپ کو علالت کے دوران ہی اس کا علم ہو گیا تھا لیکن آپ نے غلام سے کوئی انتقام نہ لیا بلکہ اشرفیاں اس سے لے کر بیت المال میں داخل کروا دیں اور غلام کو آزاد کر دیا۔ زہر دینے کی وجوہات میں ایک تو یہ بات شامل تھی کہ آپ خلفائے راشدین کی مانند خلافت کے امور چلاتے تھے۔ دوسرے یہ کہ ان کی وجہ سے بنو امیہ اپنی مخصوص مالی لوٹ مار نہیں کر سکے۔ کیونکہ حضرت عمر بن عبد العزیز بیت المال کو مسلمانوں کی امانت سمجھتے تھے۔


طبیعت بہت خراب ہو گئی تو آپ نے اپنے بعد ہونے والے خلیفہ یزید بن عبد الملک کے نام وصیت لکھوائی جس میں انہیں تقویٰ کی تلقین کی۔ 25 رجب 101ھ بمطابق 10 فروری 720ء کو آپ نے اپنا سفر حیات مکمل کر لیا۔ اس وقت آپ کی عمر صرف 39 سال تھی۔ 

کسی شخص نے کہا: ”حضرت کو روضہٴ نبوی کے اندر چوتھی خالی جگہ میں دفن کیا جائے یہ سن کر فرمایا: ”خدا کی قسم! میں ہرعذاب برداشت کرلوں گا؛ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے جسم پاک کے برابر اپنا جسم رکھواؤں، یہ جرأت مجھے برداشت نہیں۔“

          اس کے بعد آپ نے ایک عیسائی کو بلوایا اوراس سے اپنی قبر کی زمین خریدی، عیسائی نے کہا: ”میرے لیے یہ عزت کیا کم ہے کہ آپ کی ذات پاک میری زمین میں دفن ہو، میں اب عزت کی قیمت وصول نہیں کروں گا“۔ فرمایا: ”یہ نہیں ہوسکتا“ آپ نے اصرار کرکے قیمت اسی وقت ادا کردی، پھر فرمایا جب مجھے دفن کرو تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ”ناخن اور موئے مبارک“ میرے کفن کے اندر رکھ دینا، اسی وقت پیغام ربانی آگیا اور زبانِ مبارک پر یہ آیات جاری ہوگئیں: 

تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ نَجْعَلُھَا لِلَّذِیْنَ لاَ یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا وَلاَ فَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْنَ 

اور روحِ اطہر جسم سے پرواز کرگئی۔ 

اِنّا للہ وانا الیہ راجعون․

آپ کو حلب کے قریب دیر سمعان میں سپرد خاک کیا گیا جو شام میں ہے۔ دفن کرتے وقت جب ان کے کفن کی گرہ کھولی گئی تو چہرہ مبارک پر نور ھی نور تھا یہاں تک کہ قبر میں بھی اسقدر روشنی ھوگئی  تھی جیسے قبر میں چاند اتر آیا ھو 

بارگاہِ ایزدی میں دعا ہے کہ: اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو حضرت عمر بن عبدالعزیز جیسی زندگی اور موت نصیب فرمائے۔ 

آمین یا ربَّ العالمین 


Share: