بائیس سال کے بعد ایک نماز کی تکبیرِ تحریمہ چھوٹنے کا غم


فقیہ العصر حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کا نام علم کی ادنیٰ سی مناسبت رکھنے والے کے لئے کسی تعارف کا محتاج نہیں، وہ صرف علمی میدان کے محقق ہی نہیں تھے بلکہ کامل پیر اور مرشد بھی تھے، ہر وقت مریدوں کا جھمگھٹا لگا رہتا تھا، اصلاح اور تزکیہ کا سلسلہ جاری رہتا تھا، وہ اپنے دور کے مفتئ اعظم بھی تھے، پورے ہندوستان بلکہ بیرونِ ہندوستان بھی استفتاءآتے رہتے تھے جن کے وہ علمی اور تحقیقی جوابات دیا کرتے تھے۔


ان کے حالات میں لکھا ہے کہ دارالعلوم دیوبند میں دستاربندی کا جلسہ ہو رہا تھا‘ اس میں ایک دن کسی نماز میں ایسا اتفاق پیش آیا کہ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کسی عذر کی وجہ سے تھوڑی سی تاخیر سے پہنچے، جس کی وجہ سے تکبیر تحریمہ چھوٹ گئی، سلام پھیرنے کے بعد دیکھا گیا کہ وہ عظیم انسان جو بڑے بڑے حوادث میں پریشان نہیں ہوتا تھا، جو عزیزوں کی موت کی خبر بھی بڑے صبر اور حوصلے سے سنا کرتا تھا، جو بیماریوں اور تکالیف کو بھی خاطر میں نہیں لاتا تھا، آج اس کے چہرے پر رنج و غم کے بادل چھائے ہوئے تھے، شاگردوں اور مریدوں کو پریشانی لاحق ہوئی، اہل تعلق نے رنج و غم کی اس کیفیت کو فوراً پہچان لیا، پوچھا گیا ”حضرت! اتنے غمزدہ کیوں ہیں؟ کیا کوئی حادثہ پیش آگیا ہے؟“ آپ نے بڑے رنج کے ساتھ فرمایا ”افسوس! آج بائیس برس کے بعد تکبیر تحریمہ فوت ہو گئی۔“


ذرا تصور کیجئے! کہ یہ غم اور رنج کسی فرض یا واجب کے چھوٹنے پر نہیں تھا اور نہ ہی کسی نماز کے قضا ہو جانے یا جماعت کے نکل جانے کا تھا، یہ افسوس تو اس ترکِ سنت پر تھا جس کی پابندی برسوں سے کی جارہی تھی۔ 22 برس زبان سے کہہ دینا آسان ہے مگر اس پر عمل کر کے دکھانا مشکل کام ہے، اکثر عوام میں بزرگی کا معیار  ظاھری کرامت کو سمجھا جاتا ہے، بزرگ اس شخص کو مانتے ہیں جس سے کوئی کرامت ظاہر ہو لیکن اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ جس شخص کی ساری زندگی خلافِ سنت کاموں سے بچتے ہوئے گزرے اور ادائیگی سنت کا اہتمام اس حد تک ہو کہ 22 سال تک تکبیرِ تحریمہ نہ چھوٹی ہو تو کیا یہ کسی کرامت سے کم ہے؟


(دلچسپ انوکھے واقعات ص154,153)

Share: