مشہور مستشرق ڈاکٹر گیری ملیر Dr.Gary millerاستاذ ریاضیات ومنطق جامعہ ٹورنٹو دعوت الی مذھب النصرانی میں بہت ہی سرگرم اورفعال مستشرقین میں سے تھا، کتاب مقدس اناجیل کے علم میں یدطولی اور علم غزیر رکھتا تھا جسے علم ریاضیات سے ایک خاص دلچسپی تھی ہر ایک چیز میں فلسفہ اور منطق کے ناحیہ سے کام کرنے والا تھا، ایک دن اس نے قران کریم کو اس نیت سے پڑھنا شروع کیا کہ اس میں کوئی خامی نکالی جائے اور مسلمانوں کو بتلایا جائے کہ دیکھو جس کتاب کو تم دین کی بنیاد مانتے ہو اس میں تو کئی خامیاں ہیں تو کیوں نہ تم نصرانی مذہب کی طرف آجاؤ اور نصرانیت قبول کرلو ۔
اسے امید تھی کہ قران تو چودہ سو سال پہلے لکھی گئی کتاب ہے اور اس اعتبارسے وہ بہت ہی پرانی کتاب ہے، اس میں صرف صحرا و بیابان کا تذکرہ ہوگا ، لیکن قران کریم پڑھنے کے بعد وہ ہکا بکا رہ گیا کیونکہ اس نے قرآن کو اپنی سوچ کے بالکل برخلاف پایا ، اور اسے یہ انکشاف ہوتا چلاگیا کہ اس کتاب مقدس میں ایسی ایسی چیزیں موجود ہیں جو دنیا کی کسی دوسری کتاب میں نہیں پائی جاتیں۔ قران مجید کے پڑھنے سے پہلے وہ اس بات کی بھی توقع کررہاتھا کہ اس کتاب مقدس میں بعض المناک واقعات ہوں گے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حیات مبارکہ میں پیش آئے تھے جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محتر مہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کی وفات کا واقعہ یا اولاد نرینہ کے بچپن میں ہی فوت ہوجانے کے واقعہ کوقرآن مجید نے بیان کیا ہوگا ، لیکن اس طرح کے واقعات اس کو قران مجید میں کہیں بھی نہیں مل سکے ۔ بلکہ وہ مزید تعجب اور حیرت میں پڑ گیا کہ قران مجید میں حضرت مریم علیہا السلام کے نام سے مستقل ایک سورہ موجود ہے ، جس میں مریم علیہا السلام کی تعظیم وتکریم کی گئی ہے جس کی مثال نصاری کی کتابوں اور اناجیل مقدس میں ہرگز نہیں ملتی ۔ وہیں دوسری جانب اسے قران کریم میں کوئی بھی سورہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا یا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نام سے نہیں ملی۔ اسی طرح اس نے قران مجید میں یہ بھی پایا کہ اس میں جہاں حضرت عیسی علیہ السلام کا اسم گرامی 25 مرتبہ آیا ہے ،وہیں نبی کریم علیہ الصلا والسلام کا اسم گرامی صرف چار دفعہ آیا ہے ،یہ سب دیکھ کر اس کی حیرانگی اوربڑھ گئی۔
ڈاکٹر ملیر قران کریم کو مزید غور وفکر سے پڑھنے لگا تاکہ اسے اس میں اپنے مطلب کی کوئی چیز مل جائے لیکن سورۃ النساء کی آیت کریمہ
اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْـرِ اللّـٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيْـرًا ( )
کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے، اور اگر یہ قرآن اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت اختلاف پاتے۔(سورہ النساء)
پر پہونچا تو ایک جھٹکا سا لگا
ڈاکٹر ملیر اس آیت مبارکہ کے بارے میں کہتا ہے کہ موجودہ دور کے ثابت شدہ علمی نظریات میں ہے کہ آپ کسی علمی نظریہ میں غلطی تلاش کریں اور غلطی ثابت کرنے کے بعد لوگوں کو غلط نظریہ کے بارے میں بتائیں تاکہ لوگ اس نظریہ کو نہ مانیں اور اس سے دور رہیں لیکن قران کریم کا عجب ہی معاملہ ہے وہ تو براہ راست جیلینج کرتا ہے کہ قران میں غلطی ڈھونڈ نکالیں پھر قران کریم خود کہتا ہے کہ تم غلطی نہیں نکال سکتے ۔
مزید ڈاکٹر ملیر کا کہنا ہے کہ دنیا کے اندر ایسا کوئی مصنف نہیں ہے جو اس جرات اور بیباکی سے کہہ سکے کہ میری کتاب میں کوئی غلطی نہیں ہے ، اس کے برعکس قران کریم اس بات کا کھلے عام چیلنج کرتا ہے :اگر انسان اور جنات اس بات پر جمع ہوجائیں کہ اس قران کے مثل لے آئیں ، ہرگز نہیں لاسکتے ہیں گرچہ دونوں آپس میں ایک دوسر ے کی اس بات پر مدد بھی کرلیں ۔
ڈاکٹر ملیر نے سورہ انبیاء کی آیت
اَوَلَمْ يَرَ الَّـذِيْنَ كَفَرُوٓا اَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا ۖ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ كُلَّ شَىْءٍ حَيٍّ ۖ اَفَلَا يُؤْمِنُـوْنَ ( )
کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین جڑے ہوئے تھے پھر ہم نے انھیں جدا جدا کر دیا، اور ہم نے ہر جاندار چیز کو پانی سے بنایا، کیا پھر بھی یقین نہیں کرتے(سورہ آنبیاء)
کو خوب غورسے پڑھا اور اس کی گہرائیوں میں اترتاچلاگیا
ڈاکٹر ملیر نے کہا کہ بالضبط یہی آیت کریمہ میری سائنسی تحقیق کا موضوع تھا میں نے جس میں نوبل انعام جیتا تھا یہ واقعہ 1973 کا ہے ۔ وہ نظریہ یہ ہے کہ کائنات کا وجود ایک بڑے دھماکے کے نتیجہ میں ہوا جس میں آسمان وزمین اور سب ایک دوسرے سے الگ الگ ہوگئے کیونکہ رتق کہتے ہیں چیزوں کا آپس میں جڑنا اور پرونا اور فتق کہتے ہیں جڑی ہوئی چیز کا الگ الگ ہونا۔آیت کریمہ کے آخری حصہ میں کہا گیا ہے پانی اس دنیائے رنگ وبو میں سرچشمۂ حیات ہے ۔
ڈاکٹر ملیر کا کہنا ہے کہ یہ بات بہت تعجب خیز ہے کہ جدید سائنس نے اخیر میں یہ بات ثابت کردی ہے کہ زندہ خلیہ Cytoplasm سے مرکب ہے جو بنیادی طور پر پانی کے اجزا میں 80 فی صد پایا جاتا ہے ،پھر کیسے ممکن ھے کہ ایک امی انسان 1400 سال قبل یہ سب باتیں آسمانی وحی کے بغیر جانتا ہو ۔
ڈاکٹر گیری ملیر نے بعد میں اسلام قبول کرلیا اور اپنا نام *عبدالاحد عمر* رکھا ، اللہ تعالی نے ان کو ہدایت دی ،جو پہلے دعوت الی النصرانی میں مشغول رہا کرتا تھا اب دعوت الی اللہ میں اپنی زندگی کو وقف کردیاہے، پوری دنیا میں جگہ جگہ محاضرات ولیکچرز دیتے رہتے ہیں خاص طورسے نصاری مذہب کے علما سے انہوں نے کئی مناظرے کئے ہیں حالانکہ وہ پہلے خود نصرانیوں کے ایک بڑے عالم اور مناظر تھے۔
کتابِ ھدی میں یہ تاثیر دیکھی
بدلتی ھوئی ھزاروں کی تقدیر دیکھی
※※※※