انسان اپنی زندگی گزارنے کے لئے کچھ آصولوں کی پابندی کرتا ھے یہ آصول اس کی زندگی میں خوشگوار یا ناخوشگوار اثرات مرتب کرتے ھیں یعنی انسانی زندگی پر مثبت آصول مثبت اثرات اور منفی آصول منفی اثرات ضرور چھوڑتے ھیں لہذا آچھی زندگی گزارنے کے لئے آچھے آصولوں کو ھی اپنانا ضروری ھے
آچھے آصولوں میں سے ایک آصول اختلاف رائے کا احترام کرنا بھی ھے زندگی میں اس آصول کو ضرور اپنانا چاھیے کہ انسان کو ایسے لوگوں کو ضرور اپنے قریب رکھنا چاہیئے جو آپ پر تنقید یا کم از کم آپ کی رائے سے اختلاف کر سکتے ہوں۔ چونکہ انسان فطری طور پر خود پسند واقع ھوا ہے ، اسی وجہ سے وہ خوشامد کرنے والوں کو زیادہ اپنے قریب رکھتا ہے جبکہ تنقید کرنے والوں کو ناپسند کرتا ھے ۔
یاد رکھنا چاھیے کہ اختلاف کرنے والوں کی مثال کڑوی گولی کی طرح ھے کہ وہ کھانے میں تو کڑوی لگتی ھے لیکن بیماری کو ختم کرنے کا ذریعہ ھے اسی طرح اختلاف یا مثبت تنقید کرنے والے مہربانوں کی مدد سے بہت سی نفسیاتی بیماریوں سے دور رہنے میں مدد ملتی ہے اور انسان زندگی میں سنگین غلطیوں سے محفوظ رہتا ہے۔
اھل دانش نے یہ اصول بتایا ہے کہ جب بہت سے قریبی لوگ تیرے کسی فیصلے سے اختلاف کریں تو آپ کو چاھیے کہ آپ اپنی بات کو رد کر دیں اور ان کی مان لیں ایک دانشمند کا قول ھے کہ بہت سے تجربات کے بعد یہ معلوم ہوا کہ اگرچہ ہر بار سب لوگ ٹھیک نہیں تھے مگر نوے فیصد یا اس سے بھی زیادہ دفعہ ان کی رائے صائب تھی اور میں غلطی پر تھا۔
جب عملی زندگی شروع ہوتی ھے تو بہت سے باصلاحیت لوگوں کو زندگی میں اس لیے ناکام ہوتے دیکھا گیا ھے کہ وہ اختلاف کرنے والوں کو دور بھگاتے ہیں اور ان کی بات سے اتفاق کرنے والوں کو محبوب بنا لیتے ہیں۔ ہر وقت ہاں میں ہاں ملانے والے آپ کو غلطی پر نہیں ٹوکتے بلکہ ہر فیصلے کی توثیق کرتے رہتے ہیں۔ آپ معاملے کا دوسرا رخ دیکھنے سے محروم ہو جاتے ہیں۔ خودفریبی کا جالا مضبوط ہوتا جاتا ہے اور انسان اس میں جکڑتا ھوا چلا جاتا ہے۔
اگر میدانِ سیاست کو ملاحظہ کریں تو بہت سے سیاستدانوں کا تجزیہ کرنے کے بعد یہی نتیجہ نکلا ہے کہ سب سے زیادہ خطرے میں یہی طبقہ رہتا ہے کیونکہ ان کے پاس ہاں میں ہاں ملانے والوں کا ایک انبار ہوتا ہے جس میں اختلافی آوازیں یا تو دب کر رہ جاتی ہیں یا پھر انہیں خود سے دور کر دیا جاتا ہے کیونکہ وہ نغمۂ شیریں نہیں ہوتا بلکہ تلخ نوائی ہوتی ہے۔ یہیں سے انسان کا زوال شروع ہو جاتا ہے اور ایک دن انسان اپنی تمام متاع سے محروم ہو کر صرف شکوے کرتا اور صفائیاں پیش کرتا رہ جاتا ہے۔
اس سے محفوظ رہنے کا سب سے احسن طریقہ یہی ہے کہ اختلاف رائے کرنے والوں کو اپنا محسن سمجھا جائے ان کو نہ صرف ساتھ رکھا جائے بلکہ ان کی ہر بات پوری توجہ سے سنی جائے کیونکہ یہی لوگ ھوتے ھیں جو انسان کو غلط راستے پر چلنے سے محفوظ رکھنے میں بہتریں مددگار ثابت ھوتے ہیں۔ حکمرانوں اور دوسرے ذمہ داروں کو اپنے اوپر تنقید کرنے یا ان کے فیصلوں سے اختلاف کرنے والی آوازوں کو بند نہیں کرنا چاہیئے۔
ایسا کرنے سے اس میں اپنا ہی نقصان ہوتا ہے کیونکہ روک ٹوک کی فکر سے آزاد ہو کر انسان خودفریبی کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے۔ اسی طرح جماعت ، برادر ی اور خاندان کے اندر بھی اختلافی آوازوں کو ھر صورت زندہ رکھنا چاہیئے۔ اس میں اپنا ہی فائدہ ہے۔
یہ قدرت کا ایک اہم قانون ہے کہ اگر آپ کو کوئی رتبہ، مقام یا چیز مل جائے اور آپ اسے اپنا دائمی حق سمجھ کر لاپرواہ ہو جائیں تو وہ ضرور چھن جاتی ہے۔وطنِ عزیز میں سابق صدر اور سابق وزیر آعظم ذوالفقار علی بھٹو اس کی قابلِ غور مثال ہیں اسی طرح عالمی سطح پر اس کی بےشمار مثالیں موجود ھیں حالیہ مثال سابق آمریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیں۔ انہیں آخری وقت تک بھی یقین نہیں ہو رھا تھا کہ ان سے سب کچھ چھن چکا ہے یہ خود فریبی کا ھی نتیجہ ھے کیونکہ خود فریبی کا جالا بہت توانا ہوتا ہے جو حقائق کو جاننے کی صلاحیت یکسر ختم کردیتا ھے
اللہ پاک ہم سب کو خودفریبی کی اس بلا سے ھمیشہ محفوظ رکھے۔
آمین یا رب العالمین