خوش قسمت صحابی رضی اللہ تعالی عنہ کا متاثر کن واقعہ

 ایک واقعہ 

!!! 


مدینہ منورہ (یثرب) کا بازار تھا ، گرمی کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ لوگ نڈھال ہورہے تھے ۔ ایک تاجر اپنے ساتھ ایک غلام کو لیے پریشان کھڑا تھا ۔ غلام جو ابھی بچہ ہی تھا وہ  بیچارہ بھی دھوپ میں کھڑ ا پسینہ پسینہ ہورہا تھا ۔ تاجر کا سارا مال اچھے داموں بک گیا تھا بس یہ غلام ہی باقی تھا جسے خریدنے میں کوئی بھی دلچسپی نہیں دکھا رہا تھا۔ تاجر سوچ رہا تھا کہ اس غلام کو خرید کر شاید اس نے گھاٹے کا سودا کیا ہے۔ اس نے تو سوچا تھا کہ اچھا منافع ملے گا لیکن یہاں تو اصل لاگت ملنا بھی دشوار ہورہا تھا۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ اب اگر یہ غلام پوری قیمت پر بھی بکا تو وہ اسے فورا" بیچ دے گا۔


مدینہ منورہ کی ایک لڑکی کی اس غلام پر نظر پڑی تو اس نے تاجر سے پوچھا کہ یہ غلام کتنے کا بیچو گے۔ تاجر نے کہا کہ میں نے اتنے میں لیا ہے اور اتنے کا ہی دے دوں گا۔ اس لڑکی نے اس بچے پر ترس کھاتے ہوئے اسے خرید لیا ۔ تاجر نے بھی خدا کا شکر ادا کیا اور واپسی کے راہ لی.


مکہ مکرمہ سے  حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ تعالی مدینہ منورہ آئے تو انہیں بھی اس لڑکی کا قصہ معلوم ہوا۔ لڑکی کی رحم دلی سے متاثر ہوکر انہوں نے اسکے لیے نکاح کا پیغام بھیجا جو قبول کرلیا گیا۔ یوں واپسی پر وہ لڑکی جس کا نام  حضرت ثبیتہ بنت یعار  رضی اللہ تعالی عنہا تھا انکی بیوی بن کر انکے ہمراہ تھی اور وہ غلام بھی مالکن کے ساتھ مکہ مکرمہ  پہنچ گیا۔

 

حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ واپس مکہ مکرمہ آئے تو اپنے پرانے دوست حضرت عثمان غنی  رضی اللہ تعالی عنہ  سے ملے تو انہیں کچھ بدلا ہوا پایا اور انکے رویے میں سرد مہری محسوس کی۔ انہوں نے اپنے دوست سے استفسار کیا کہ عثمان(رضی اللہ تعالی عنہ) یہ سرد مہری کیوں!!۔ تو  حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا کہ میں نے اسلام قبول کرلیا ہے اور تم ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تو اب ہماری دوستی کیسے چل سکتی ہے؟ حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا تو پھر مجھے بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس لے چلو اور اس اسلام میں داخل کردو جسے تم قبول کرچکے ہو۔


 چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا اور وہ کلمہ پڑھ کر دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئے۔ گھر آکر انہوں نے اپنی بیوی اور غلام کو اپنے مسلمان ہونے کا بتایا تو ان دونوں نے بھی کلمہ پڑھ لیا۔


حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اس غلام سے کہا کہ چونکہ تم بھی مسلمان ہوگئے ہو اس لیے میں اب تمہیں غلام نہیں رکھ سکتا لہذا میری طرف سے اب تم آزاد ہو۔ غلام نے کہا آقا میرا اب اس دنیا میں آپ دونوں کے سوا کوئی نہیں ہے۔ آپ نے مجھے آزاد کردیا تو میں کہاں جاؤں گا۔  حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اس غلام کو اپنا بیٹا بنا لیا اور اپنے پاس ہی رکھ لیا۔ غلام نے قران پاک سیکھنا شروع کردیا اور کچھ ہی دنوں میں بہت سا قران یاد کرلیا۔ اور وہ جب قران پڑھتے تو بہت خوبصورت لہجے میں پڑھتے۔


ہجرت کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے جن صحابہ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی ان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ اور انکا یہ لے پالک بیٹا بھی تھا۔ مدینہ منورہ  پہنچ کر جب نماز کے لیے امام مقرر کرنے کا وقت آیا تو اس غلام کی خوبصورت تلاوت اور سب سے زیادہ قران حفظ ہونے کی وجہ سے انہیں امام چن لیا گیا۔ اور انکی امامت میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ جیسے جلیل القدر صحابی بھی نماز ادا کرتے تھے ۔


  مدینہ منورہ کے یہودیوں نے جب انہیں امامت کرواتے دیکھا تو حیران ہوگئے کہ یہ وہی غلام ہے جسے کوئی خریدنے کے لیے تیار نہ تھا۔ آج دیکھو کتنی عزت ملی کہ مسلمانوں کا امام بنا ہوا ہے.


اللہ پاک نے انہیں خوش الحان اسقدر بنایا تھا کہ جب آیاتِ قرآنی تلاوت فرماتے تو لوگوں پر ایک محویت طاری ہوجاتی اور راہ گیر ٹھٹک کر سننے لگتے۔ ایک دفعہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہونے میں دیر ہوئی۔ آپ ﷺ نے توقف کیوجہ پوچھی تو بولیں کہ ایک قاری تلاوت کررہا تھا، اسکے سننے میں دیر ہوگئی اور خوش الحانی کی اس قدر تعریف کی کہ نبی کریم ﷺ خود چادر سنبھالے ہوئے باہر تشریف لے آئے۔ دیکھا تو وہ بیٹھے تلاوت کررہے ہیں۔ آپ ﷺ نے خوش ہوکر فرمایا : اللہ پاک کا شُکر ہے کہ اُس نے تمہارے جیسے شخص کو میری امت میں بنایا ۔


یہ خوش قسمت صحابی  حضرت سالم رضی اللہ تعالی عنہ تھے جو سالم مولی ابو حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کے نام سے مشہور تھے۔ انہوں نے جنگ موتہ میں جام شہادت نوش کیا۔ اللہ کی کروڑ ہا رحمتیں ہوں ان پر ۔


السیرۃ النبویۃ   (ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)

Share: