عثمانيه دور ميں مسجد نبوي صلى الله عليه وآله وسلم كي تعمير

 تاريخ كا إيك آنوكها واقعه 

محبت اور عقيدت إيك إيسي دولت هـے جسے كسي ترازو ميں تولا نهيں جاسكتا

ليكن بعض اوقات بعض واقعات إيسے هوتے هيں كه وه ازخود إسكي علامت بن جاتے هيں- إيك مغل شهزادے كا آپني بيوي كي محبت ميں تاج محل بنوانا هماري برصغير كي تاريخ كا إيك عجيب وغريب واقعه مانا جاتا هے اور لوگ تاج محل كي تعمير کو محبت کی علامت قرار دیتے ھیں هو سكتا هے يه كسي حد تك درست بهي هو ليكن يه تو بهرحال بالكل ظاهر هے كه يه سب كچهـ شهزادے كا اپنے جذبات كي تسكين كيلئے تها اور تاج محل سے خلق خدا كو كوئى فائده نهيں هوا نه هي شهزادے كے لئے يه صدقه جاريه بنا حالانكه اپنے زمانه كے أعتبار سے يه إيك إنتهائى مهنگا پراجيكٹ تها -

اب آئيے هم اپنى تاريخ كے إيك أنوكهے واقعه كي طرف آتے هيں يه هـے مسجد نبوی (صلى الله عليه وآله وسلم ) کی تعمیر كا واقعه - مسجد نبوي(صلى الله عليه وآله وسلم )  كي تعمير وتوسيع كا كام كئى مرتبه هوا اور وقت كے بادشاهوں نے اپنے اپنے انداز سے ذياده سے ذياده كوششيں كيں كه إس مقدس اور بابركت مقام كي تعمير ميں كوئى كسر باقي نه ره جائے اور يه سلسله الحمد لله اب بهي جاري وساري هے

مسجد نبوی (صلى الله عليه وآله وسلم ) كي تعمير تو بهت مرتبه هوئى ليكن عثمانی دور میں مسجد نبوی(صلى الله عليه وآله وسلم )  کی تعمیر، تاريخ كا إيك آنوكها واقعه هـے - يه تعمیرات کی دنیا میں محبت اور عقیدت کی معراج ھے - آج بهي پڑھنے والے إس واقعه كا مطالعه كركے اپنے دلوں کو عشق رسول (صلى الله عليه وآله وسلم ) سے منور کرتے هیں ۔

ترکوں نے جب مسجد نبوی (صلى الله عليه وآله وسلم )کی تعمیر کا ارادہ کیا تو انہوں نے اپنی وسیع وعریض ریاست میں اعلان کیا کہ انھیں عمارت سازی سے متعلق فنون کے ماہرین درکار ھیں، إن ماهرين كے لئے يه لازمي شرط بهي تهي كه انكي اپنی نرينه اولاد بهي هو - اعلان کرنے کی دیر تھی کہ ھر علم کے مانے ھوۓ لوگوں نے اپنی خدمات پیش کیں، سلطان کے حکم سے استنبول کے باہر إن ماهرين كے لئے ایک نيا شہر بسایا گیا جس میں اطراف عالم سے آنے والے ان ماہرین کو الگ الگ محلوں میں بسایا گیا، 

اس کے بعد عقیدت اور حیرت کا ایسا باب شروع ھوا تاريخ ميں جس کی نظیر ملنا مشکل ھے، خلیفۂ وقت جو اسوقت دنیا کا سب سے بڑا فرمانروا تھا ، إس شہر میں آیا اور ھر هر شعبے کے ماہر کو خود ملا اور هر ماهر كو يه تاکید کی کہ اپنے ذھین ترین بچے کو اپنا فن اس طرح سکھائٔے کہ اسے یکتا و بیمثال کر دے، اور اس اثنا میں ترک حکومت اس بچے کو حافظ قرآن اور عالم دين بنائے گی، دنیا کی تاریخ کا یہ عجیب و غریب منصوبہ کئی سال تك جاری رھا ، آخركار 25 سال كي طويل مدت كے بعد نوجوانوں کی إيك ایسی جماعت تیار ھوئى جو نہ صرف اپنے شعبے میں یکتا ۓ روزگار تھے بلکہ ہر شخص حافظ قرآن اور با عمل مسلمان بھی تھا، یہ تعداد ميں لگ بھگ 500 لوگ تھے-

اسی دوران ترکوں نے پتھروں کی نئی کانیں دریافت کیں، جنگلوں سے لکڑیاں کٹوایٔیں، تختے حاصل کئے گئے اور شیشے کا سامان بہم پہنچایا گیا، جب یہ سارا سامان نبی کریم(صلى الله عليه وآله وسلم ) کے شہر پہنچایا گیا تو ادب کا یہ عالم تھا کہ اسے رکھنے کے لیۓ مدینہ منوره سے دور ایک بستی بسائى گیٔ تا کہ شور وغل سے مدینہ منوره کا ماحول خراب نہ ھو، نبی كريم (صلى الله عليه وآله وسلم ) کے ادب کی وجہ سے اگر کسی پتھر میں ترمیم کی ضرورت پڑتی تو اسے واپس اسی بستی بھیجا جاتا- اور حجرہ مبارک کی جالیوں کو کپڑے سے لپیٹ دیا گیا تاکہ گرد غبار اندر روضہ پاک (صلى الله عليه وآله وسلم ) میں نہ جائے، ستون لگائے گئے کہ ریاض الجنة اور روضہ پاک پر مٹی نہ گرے

ترك حكومت كي طرف سے إن ماھرین کو يه خصوصي حکم تھا کہ ھر شخص کام کے دوران با وضو رھے اور درود شریف اور تلاوت قرآن میں مشغول رھے، سو يه ماهرين جو باعمل حافظ قرآن اور عالم دين بهي تهے باوضو هو كر مسجد نبوي كا كام كرتے اور مسلسل تلاوت قرآن المجيد بهي كرتے رهتے إسطرح يه عظيم منصوبه پندرہ سال تک چلتا رھا تو گويا إس مبارك مسجد كو باعمل حفاظ كرام نے باوضو هو كر تلاوت قرآن كرتے هوئے تعمير كيا اور تاریخ عالم گواہ ھے كه ایسی محبت ایسی عقیدت سے کوئى تعمیر نہ کبھی پہلے ھوئى اور شايد نہ کبھی بعد میں ھوگی.

الحمد لله يه مسجد نبوي(صلى الله عليه وآله وسلم ) كا پرانا حصه جو أسوقت عثمانيه دور ميں بنا، آج بهي موجود هے اور زائرين إس حصه ميں بيٹهـ كر عبادت كرنا اپنے لئے بهت بڑى سعادت سمجهتے هيں كيونكه إسي حصه ميں رياض الجنه بهي هے ليكن يه بهي حقيقت هے كه بهت كم زائرين كو إس كى تعمير كي تاريخ معلوم هے

Share: