حضرت علي رضي الله تعالى عنہ کے اوصاف


حضرت ضرار بن زمرہ کنانی حضرت معاویہ رضی الله عنہ كبى خدمت میں گئے تو حضرت معاویہ رضی الله عنہ نے ان سے فرمایا کہ میرے سامنے حضرت علی رضی الله عنہ کے اوصاف بیان کیجیے تو حضرت ضرار نے کہا اے امیرالمومنین ! آپ مجھے معاف رکھیں. اس پر حضرت معاویہ رضی الله عنہ نے فرمایا کہ میں معافی نہیں دونگا تمہیں ضرور بیان کرنے ہونگے. تو حضرت ضرار نے کہا کہ اگر ان کے اوصاف کو بیان کرنا ضروری ہی ہے تو سنیں کہ :

حضرت علی رضی الله عنہ اونچے مقصد والے بڑی عزت والے اور بڑے طاقت ور تھے. فیصلہ کن بات کہتے اور عدل و انصاف والا فیصلہ کرتے تھے. آپ کے ہر پہلو سے علم پھوٹتا تھا اور ہر طرف سے دانائی ظاہر ہوتی تھی. دنیا اور دنیا کی رونق سے آپ کو وحشت تھی. رات اور رات کے اندھیرے سے ان کا دل بڑا مانوس تھا یعنی رات کی عبادت میں آپ کا دل خوب لگتا تھا. الله کی قسم ! آپ بہت زیادہ رونے والےاور بہت زیادہ فکرمند رہنے والے صحابی تھے. اپنی ہتھیلیوں کو الٹتے پلٹتے اور اپنے نفس کو خطاب فرماتے. سادہ اور مختصر لباس اور موٹا جھوٹا کھانا پسند تھا. الله کی قسم ! وہ ہمارے ساتھ ایک عام آدمی کی طرح رہتے تھے. جب ہم ان کے پاس جاتے تو ھمیں اپنے قریب بٹھالیتے اور جب ہم ان سے کچھ پوچھتے تو ضرور ہماری بات کا جواب دیتے اگرچہ وہ ہم سے بہت گھل مل کر رہتے تھے لیکن اس کے باوجود ان کی ہیبت و رعب کی وجہ سے ہم ان سے بات کرتے ہوۓ جھجکتے تھے. جب آپ مسکراتے تو آپ کے دانت انتہائی خوبصورت نظر آتے جیسے کہ موتی. دینداروں کی قدر کرتے مسکینوں سے محبت رکھتے. کوئی طاقت ور اپنے غلط دعوے میں کامیابی کی آپ سے امید نہ رکھ سکتا تھا اور کوئی کمزور آپ کے انصاف سے ناامید نہ ہوتا اور میں الله کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے ان کو ایک دفع ایسے وقت میں کھڑے ہوۓ دیکھا کہ جب رات کی تاریکی چھا چکی تھی اور ستارے ڈوب چکے تھے اور آپ اپنی محراب میں اپنی داڑھی پکڑے ہوۓ جھکے ہوۓ تھے اور اس آدمی کی طرح تلملارہے تھے جسے کسی بچھو نے کاٹ لیا ہو اور غمگین آدمی کی طرح رو رہے تھے اور ان کی صدا اب بھی گویا میرے کانوں میں گونج رہی ہے کہ بار بار" یا ربّنا یا ربّنا " فرماتے اور الله کے سامنے گڑگڑاتے. پھر دنیا کو مخاطب ہو کر فرماتے کہ اے دنیا ! تو مجھے دھوکہ دینا چاہتی ہے. میری طرف جھانک رہی ہے مجھ سے دور ہوجا. مجھ سے دورہوجا کسی اور کو جا کر دھوکہ دے میں نے تجھے تین طلاقیں دیں کیونکہ تیری عمر بہت تھوڑی ہے اور تیری صحبت بہت گھٹیا ہے تیری وجہ سے آدمی آسانی سے خطرے میں مبتلا ہوجاتا ہے. ہائے !! ہائے !! میں کیا کروں زاد سفر تھوڑا ہے اور سفر لمبا ہے اور راستہ وحشت ناک ہے.

یہ سن کر حضرت معاویہ رضی الله عنہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور ان کو روک نہ سکے اور اپنی آستیں سے ان آنسوں کو پوچهنے لگے اور دوسرے لوگ بھی ان کو دیکھ کر اور حضرت علی رضی الله عنہ کے یہ اوصاف سن کر ہچکیاں لے کر اتنا رونے لگے کہ گلے رندھ گئے.

اس پر حضرت معاویہ رضی الله عنہ نے فرمایا بیشک اب الحسن یعنی حضرت علی رضی الله عنہ ایسے ہی تھے. الله ان پر رحمت نازل فرمائے. اے ضرار ! تمہیں تمہیں ان کی وفات کا کیسا رنج ہے ؟ حضرت ضرار نے کہا اس عورت جیسا غم ہے جس کا اکلوتا بیٹا اس کی گود میں ذبح کردیا گیا ہو کہ نہ اس کے آنسو تھمتے ہیں اور نہ اس کا غم کم ہوتا ہے پھر حضرت ضرار اٹھے اور چلے گئے.

حیات الصحابہ جلد اول – صفحہ ٥٦

Share: