مفتئ اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمة اللہ علیہ
ووٹ اور ووٹر:۔کسی امیدوار کوووٹ دینے کی ازروئے قرآن و حدیث چند حیثیتیں ہیں۔ایک حثییت شہادت (گواہی) کی ہے کہ ووٹر جس شخص کو ووٹ دے رہا ہے اس کے متعلق وہ شہادت دے رہا ہے کہ یہ شخص اس کام کی قابلیت بھی رکھتا ہے اور دیانت و امانت بھی۔اگر واقع میں اس امیدوار کے اندر یہ صفات نہیں ہیں،اور ووٹر یہ جانتے ہوئے بھی اس کو ووٹ دیتا ہے تو یہ ایک جھوٹی شہادت ہے۔جو سخت کبیرہ گناہ اور وبالِ دنیا و آخرت ہے۔حدیث میں رسول کریم ﷺ نے جھوٹی گواہی اور جھوٹی شہادت کو کبیرہ گناہوں میں شمار فرمایاہے۔
دوسری حیثیت ووٹ کی شفاعت یعنی سفارش کی ہے کہ ووٹر اسکی نمائندگی کی سفارش کرتا ہے۔اس سفارش کے بارے میں قرآن کریم کا یہ ارشاد ہر ووٹر کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔"جو شخص اچھی سفارش کرتا ہے اس میں اسکو بھی حصہ ملتا ہے اور جو بری سفارش کرتا ہے تو اس کی برائی میں اس کا بھی حصہ ہے" اچھی سفارش یہی ہے کہ قابل اور دیانت دار آدمی کی سفارش کی جائےجو خلق خدا کے حقوق صحیح طور پر ادا کرے اور بری سفارش یہ ہے کہ نااہل ، نالائق، فاسق، ظالم کی سفارش کرکے اس کو خلق خدا پر مسلط کرے۔اس سے معلوم ہوا کہ ہمارے ووٹوں سے کامیاب ہونے والا امیدوار اپنے پانچ سالہ دور میں جو نیک یا بد عمل کرے گا، ہم اس میں شریک سمجھے جائیں گے۔
ووٹر کی ایک تیسری حیثیت وکالت کی ہے کہ ووٹ دینے والا امیدوار کو اپنا نمائندہ اور وکیل بناتا ہے۔اور یہ وکالت بھی کوئی عام انفرادی معاملے کی نہیں بلکہ یہ وکالت ایسے حقوق کے متعلق ہےجن میں اسکے ساتھ پوری قوم شریک ہے۔اس لیےاگر کسی نااہل کو اپنی نمائندگی کیلئے ووٹ دیکر کامیاب بنایا تو پوری قوم کے حقوق کو پامال کرنے کا گناہ بھی اسکی گردن پر ہوگا۔
خلاصہ یہ ہے کہ ہمارا ووٹ تین حیثیتیں رکھتا ہے۔ ایک شہادت(گواہی)، دوسرے سفارش اور تیسرےحقوق مشترکہ میں وکالت، تینوں حیثیتوں میں جس طرح نیک صالح، قابل آدمی کو ووٹ دینا موجب ثواب ِ عظیم ہے اور اس کے ثمرات اس کو ملنے والےہیں۔اسی طرح نااہل شخص کو ووٹ دینا جھوٹی شہادت بھی ہے،بری سفارش بھی اور ناجائز وکالت بھی اور اس کے تباہ کن ثمرات اسکے نامہ اعمال میں بھی لکھے جائیں گے۔
ضروری تنبیہ:
جس طرح قرآن و سنت کی رو سے یہ واضح ہوا کہ نااہل، ظالم ، فاسق اور غلط آدمی کو ووٹ دیناگناہِ عظیم ہے۔اسی طرح ایک اچھے،نیک اور قابل آدمی کوووٹ دینا ثوابِ عظیم ہے بلکہ ایک فریضہ شرعی ہے۔قرآن کریم نے جیسے جھوٹی شہادت کوحرام قراردیا ہے۔اسی طرح سچی شہادت کو واجب و لازم بھی فرمایا ہے۔ قرآن میں مسلمانوں پر فرض کیا گیا ہے کہ "سچی شہادت سے جان نہ چرائیں"،" اللہ کیلئے ادائیگی شہادت کے واسطےکھڑے ہوجائیں"۔تیسری جگہ سورۃ طلاق میں ارشاد ہے:" اللہ کیلئے سچی شہادت کو قائم کرو۔"ایک اور آیت میں یہ ارشادفرمایا کہ "سچی شہادت کو چھپانا حرام اور گناہ ہے۔"
ان تمام آیات میں مسلمانوں پر یہ فریضہ عائد کردیاگیا ہے کہ سچی گواہی سے جان نہ چرائیں اس کو ضرور ادا کریں۔آج جو خرابیاں انتخاب میں پیش آرہی ہیں ان کی بڑی وجہ یہی ہے کہ نیک اور صالح حضرات عموما"ووٹ دینے سے گریز کرنے لگےہیں جس کا لازمی نتیجہ وہ ہوا جو مشاہدہ میں آرہا ہے ، اس لیے جس حلقہ میں کوئی امیدوار قابل اور نیک معلوم ہو اسے ووٹ دینے سے گریز کرنا بھی شرعا" حرام اور پوری قوم و ملت پر ظلم کے مترادف ہے۔
مختصر یہ کہ انتخابات میں ووٹ کی شرعی حیثیت کم ازکم ایک شہادت کی ہے۔جس کا چھپانا بھی حرام ہے اور اس میں جھوٹ بولنا اور اس پر کوئی معاوضہ(یا مفاد) لینا بھی حرام ہے۔ اس کو محض ایک سیاسی ہار جیت اور دنیا کا کھیل سمجھنا بڑی بھاری غلطی ہے۔آپ جس امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں شرعا آپ اس کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص اپنے نظریے، علم و عمل اور دیانت داری کی رو سے اس کام کا اہل اور دوسرے امیدواروں سے بہتر ہے۔
جس کام کیلئے یہ انتخابات ہورہے ہیں اس حقیقت کو سامنے رکھیں تو اس سے مندرجہ ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
1۔آپ کے ووٹ اور شہادت کے ذریعے جو نمائندہ کسی اسمبلی میں پہنچے گا وہ اس سلسلہ میں جتنے اچھے یا برے اقدامات کرے گا ان کی ذمہ داری آپ پر عائد ہوگی۔آپ بھی اسکے ثواب یا عذاب میں برابر کے شریک ہونگے۔
2۔اس معاملہ میں یہ بات خاص طور پر یاد رکھنے کی ہے کہ شخصی معاملات میں کوئی غلطی بھی ہوجائےتو اسکا اثر بھی شخصی اور محدود ہوتا ہے، ثواب بھی اور عذاب بھی محدود۔جبکہ قومی اور ملکی معاملات سے پوری قوم متاثر ہوتی ہے اس کا ادنٰی سا نقصان بھی بعض اوقات پوری قوم کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے۔اس لیے اس کا ثواب و عذاب بھی بہت بڑا ہے۔
3۔سچی شہادت کا چھپانا ازروئے قرآن حرام ہے۔اس لئے آپ کے حلقہ انتخاب میں اگر کوئی صحیح نظریہ کا حامل اور دیانت دار نمائندہ کھڑا ہےتو اس کو ووٹ دینے میں کوتاہی کرنا گناہ ہے۔
4۔جو امیدوار نظریہ اسلامی کے خلاف کوئی نظریہ رکھتا ہے۔اس کو ووٹ دینا ایک جھوٹی شہادت ہے جو کہ گناہ کبیرہ ہے۔
5۔ووٹ کو پیسوں کے معاوضے میں دینا بدترین قسم کی رشوت ہے اور چندٹکوں کی خاطر اسلام اور ملک سے بغاوت ہے۔ رسول ﷺ نے فرمایا ہے کہ وہ شخص سب سے زیادہ خسارے میں ہے جو دوسرے کی دنیا بنانے کیلئے اپنا دین کھو بیٹھے۔