مصافحہ دونوں ھاتھوں سے کرنا سنت اور افضل ھے

 السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ! 

مفتی صاحب مصافحہ ایک ہاتھ سے ہے یا دو ہاتھ ملانے چاہئیں مکمل  حدیث پاک کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔ شکریہ

الجواب

مصافحہ کا حکم

سلام کرتے وقت مصافحہ کرنا سنت ہے اور حدیث شریف میں مصافحہ کو سلام کی تکمیل قرار دیا گیا ہے،  حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جب دو مسلمان آپس میں ملتے ہیں اور ایک دوسرے سے مصافحہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ پر یہ حق ہو جاتا ہے کہ ان کی دعاؤں کو سنے اور دونوں ہاتھوں کے الگ ہونے سے پہلے اُن کی مغفرت فرما دے۔(مجمع الزوائد:36/8، دارالکتب)


مصافحہ دونوں ہاتھوں سے کرنا سنت  اور افضل ہے اس طرح کہ دونوں ہاتھوں سے ایک دوسرے کی ہتھیلیاں آپس میں ملائی جائیں، اِمام بخاریؒ نے بخاری شریف میں دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کے ثبوت کے لیے باقاعدہ ایک ترجمۃ الباب قائم فرمایا ہے، اور اُس کے تحت حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی  روایت نقل فرمائی ہے جس میں آپ ﷺ کا دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنے کا ذکر ہے ،  تاہم کسی عذر کی وجہ سے  ایک ہاتھ سے مصافحہ  کرنے میں  بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ البتہ مصافحہ کرتے وقت مندرجہ ذیل آداب کا خیال رکھنا چاہیے:


 (1)پہلے سلام اور پھر مصافحہ کرنا چاہیے،کیوں کہ سلام کے بغیر صرف مصافحہ خلافِ سنت ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: 248/5، دارالکتب)

(2)مشغولی کے وقت مصافحہ نہیں کرنا چاہیے۔ (آداب المعاشرت: 59،مکتبۃ العلم )

(3)جو شخص تیزی سے جا رہا ہو اُس کو مصافحہ کے لیے نہ روکنا چاہیے؛ تاکہ اس کا کوئی حرج نہ ہو۔(آداب المعاشرت: 48)

(4)مجلس میں سب لوگوں کی بجائے صرف اُسی آدمی سے مصافحہ پر اکتفا کیا جائے جس کے ساتھ ملاقات کا ارادہ ہو، البتہ اگر باقی لوگوں کے ساتھ بھی واقفیت ہو تو ان سب سے مصافحہ کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ (آداب المعاشرت: 48)

(5)مصافحہ پہلی ملاقات کے وقت یا رخصت ہوتے ہوئے کرنا چاہیے۔ (آداب المعاشرت:49 ،مکتبۃ العلم)

(6)مصافحہ کرتے وقت دوسرے کی راحت کا خیال رکھنا چاہیے۔ (آداب المعاشرت: 53 ،مکتبۃ العلم)

(7)مصافحہ دونوں ہاتھوں سے کرنا چاہیے۔ (صحیح بخاری: 926/2،قدیمی)


الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 414):


"ويسلم على الواحد بلفظ الجماعة وكذا الرد، ولا يزيد الراد على وبركاته.


 (قوله: بلفظ الجماعة)؛ لأن مع كل واحد حافظين كراماً كاتبين، فكل واحد كأنه ثلاثة، تتارخانية (قوله: ولا يزيد الراد على وبركاته) قال في التتارخانية: والأفضل للمسلم أن يقول: السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، والمجيب كذلك يرد، ولا ينبغي أن يزاد على البركات شيء اهـ. ويأتي بواو العطف في وعليكم، وإن حذفها أجزأه وإن قال المبتدئ: سلام عليكم أو السلام عليكم، فللمجيب أن يقول في الصورتين سلام عليكم أو السلام عليكم ولكن الألف واللام أولى اهـ".


الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 381):


"(كالمصافحة) أي كما تجوز المصافحة؛ لأنها سنة قديمة متواترة؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: «من صافح أخاه المسلم وحرك يده تناثرت ذنوبه»، وإطلاق المصنف تبعاً للدرر والكنز والوقاية والنقاية والمجمع والملتقى وغيره يفيد جوازها مطلقاً ولو بعد العصر، وقولهم: إنه بدعة أي مباحة حسنة كما أفاده النووي في أذكاره وغيره في غيره، وعليه يحمل ما نقله عنه شارح المجمع من أنها بعد الفجر والعصر ليس بشيء توفيقاً فتأمله. وفي القنية: السنة في المصافحة بكلتا يديه، وتمامه فيما علقته على الملتقى.


 (قوله: لقوله عليه الصلاة والسلام  إلخ) كذا في الهداية، وفي شرحها للعيني: قال النبي صلى الله عليه وسلم : «إن المؤمن إذا لقي المؤمن فسلم عليه وأخذ بيده فصافحه تناثرت خطاياهما كما يتناثر ورق الشجر». رواه الطبراني والبيهقي.


(قوله: كما أفاده النووي في أذكاره) حيث قال: اعلم أن المصافحة مستحبة عند كل لقاء، وأما ما اعتاده الناس من المصافحة بعد صلاة الصبح والعصر، فلا أصل له في الشرع على هذا الوجه، ولكن لا بأس به؛ فإن أصل المصافحة سنة، وكونهم حافظوا عليها في بعض الأحوال، وفرطوا في كثير من الأحوال أو أكثرها لا يخرج ذلك البعض عن كونه من المصافحة التي ورد الشرع بأصلها اهـ قال الشيخ أبو الحسن البكري: وتقييده بما بعد الصبح والعصر على عادة كانت في زمنه، وإلا فعقب الصلوات كلها كذلك، كذا في رسالة الشرنبلالي في المصافحة ... (قوله: وتمامه إلخ) ونصه: وهي إلصاق صفحة الكف بالكف وإقبال الوجه بالوجه، فأخذ الأصابع ليس بمصافحة خلافاً للروافض، والسنة أن تكون بكلتا يديه، وبغير حائل من ثوب أو غيره وعند اللقاء بعد السلام وأن يأخذ الإبهام، فإن فيه عرقاً ينبت المحبة، كذا جاء في الحديث، ذكره القهستاني وغيره اهـ".


صحيح البخاري (8/ 59):


"باب الأخذ باليدين وصافح حماد بن زيد، ابن المبارك بيديه


حدثنا أبو نعيم، حدثنا سيف، قال: سمعت مجاهداً يقول: حدثني عبد الله بن سخبرة أبو معمر قال: سمعت ابن مسعود، يقول: علمني رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكفي بين كفيه، التشهد، كما يعلمني السورة من القرآن: «التحيات لله، والصلوات والطيبات، السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، أشهد أن لاإله إلا الله، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله»، وهو بين ظهرانينا، فلما قبض قلنا: السلام - يعني - على النبي صلى الله عليه وسلم".


الكوكب الدري (۳/۳۹۲،  ندوة العلماء لکهنو)


"قوله : (الأخذ باليد) اللام فيه للجنس. فلا تثبت الوحدة، والحق فيه أن مضافحته ﷺ ثابتة باليد و باليدين، إلا أن المصافحة بيد واحدة لما كانت شعار أهل الأفرنج وجب تركه لذلك".فقط واللہ اعلم

Share: