بیٹوں کی کامیاب اور بابرکت زندگی کے رہنما اصول


بیٹوں کی تربیت ایک مشکل اور تھکا دینے والا کام ہے۔ اکثر والدین اولاد کی سرکشی کی وجہ سے شدید دکھ اور تکلیف میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں۔


اس سلسلے میں *ابن القیم الجوزي رحمہ اللہ* کہتے ہیں:

*"بے شک گناہوں میں سے کچھ گناہ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا کفارہ انسان کو اولاد کی طرف سے ملنے والے غم کے سوا کچھ نہیں ہوتا! تو خوشخبری ہے اس کے لیے جو اپنے بیٹوں کی تربیت کا اہتمام اس طریقے پر کرتا ہے جو اللہ سبحانہ و تعالی کی پسند اور رضا کا ہے. اور خوشخبری ہے اس کے لیے جس کے لیے اولاد کی تربیت میں تکلیف اٹھانا اس کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔ لہذا اگر تم اپنے بیٹوں میں کوئی ایسی بات دیکھو جو تمہیں ان کی تربیت کے معاملہ میں تھکا دیتی ہو تو اپنے رب سے اپنے گناہوں بخشش طلب کرو۔"*


*مقاتل بن سلیمان رحمہ اللہ، منصور عباسی خلیفہ* کے پاس آئے. جس دن ان کی خلافت پر بیعت کی گئی تو منصور نے ان سے کہا:

"اے مقاتل! مجھے کچھ نصیحت کیجئے۔"


تو مقاتل کہنے لگے:

"کیا میں تمہیں (اس میں سے) نصیحت کروں جو میں نے دیکھا یا (اس میں سے) جو میں نے سنا؟"


تو منصور نے کہا:

"اس میں سے جو آپ نے دیکھا ہے۔"


تو مقاتل نے کہا:

"سنو اے امیر المومنین! عمر بن عبد العزیز کے گیارہ بیٹے تھے اور وہ صرف اٹھارہ دینار چھوڑ کر فوت ہوئے جن میں سے پانچ دینار کا وہ کفن دیے گئے اور چار دینار سے ان کے لیے قبر خریدی گئی اور باقی دینار ان کے بیٹوں میں تقسیم کر دیے گئے۔ اور ھشام بن عبد الملک کے ہاں بھی گیارہ لڑکے تھے جب اس کا انتقال ہوا تو اس نے ترکہ میں ہر لڑکے کے حصے میں دس لاکھ دینار چھوڑے۔ اللہ کی قسم! اے امیر المومنین میں نے ایک ہی دن عمر بن عبد العزیز کے ایک بیٹے کو دیکھا وہ اللہ کی راہ میں سو گھوڑے صدقہ کر رہا تھا اور ھشام کے بیٹے کو دیکھا وہ بازاروں میں بھیک مانگ رہا تھا!!!"


جب عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ بستر مرگ پر تھے تو لوگوں نے ان سے پوچھا:

"اے عمر! تم اپنے بیٹوں کے لیے کیا چھوڑے جارہے ہو؟


انہوں نے فرمایا:

*"میں نے ان کے لیے اللہ سبحانہ و تعالی کا تقوی چھوڑا ہے. پس اگر وہ نیکوکار ہوئے تو اللہ سبحانہ و تعالی نیکوکاروں کا دوست ہے اور اگر وہ اس کے علاوہ کچھ اور ہوئے تو میں ان کے لیے وہ مال ہر گز نہ چھوڑوں گا جو وہ اللہ کی نافرمانی کے کاموں میں ان کا مددگار بنے۔"*


یہ بہت قابل غور بات ہے کہ عموما لوگ مال جمع کرنے کے لیے سخت محنت اور مشقت کرتے ہیں اور اپنی اولاد کا مستقبل محفوظ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر کوششیں کرتے ہیں کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی موت کے بعد ان کی اولاد کے پاس مال ہوگا تو ہی وہ خوشحال رہیں گے اور امن میں ہوں گے. جبکہ وہ اس سے زیادہ بڑے امان، جو کہ اللہ کا تقوی ہے، اس سے غافل رہتے ہیں اور اپنی اولاد کو تقوی کا توشہ نہیں دیتے. 


ایک آدمی جب اپنے کسی بیٹے میں اخلاقی زوال دیکھتا تو صدقہ کرتا اور لوگوں کو کھانا کھلاتا اور اس آیت کی تلاوت کرتا تھا:


*خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا.*

"ان سے ان کے مالوں میں سے صدقہ لے کر ان کو پاک کیجئے اور اس سے ان کا تزکیہ کیجئے۔"

اور دعا کرتا کہ

*"اے اللہ! میرا یہ صدقہ کرنا اس لیے ہے کہ میرے بیٹے کا اخلاقی تزکیہ ہو جائے کیونکہ اس کا یہ بگاڑ مجھ پر اس کی جسمانی بیماری سے زیادہ بھاری ہے۔"*


اسی طرح ایک اور شخص کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ غربت کی زندگی گزارنے کی وجہ سے جب وہ صدقہ کرنے کے لیے کچھ نہ پاتا اور اس کا بیٹا اس کو ستاتا تو وہ رات کو قیام اللیل میں سورة البقرة پڑھ کر دعا کرتا اور یوں کہتا کہ:

*"اے اللہ! یہ میرا صدقہ ہے، تو مجھ سے قبول کر لے اور اس کی وجہ سے میرے بیٹے کی اصلاح فرما دے۔"*


 اپنے بیٹوں کی اصلاح کی نیت سے اللہ سبحانہ و تعالی کی طرف عبادت کے ذریعے رجوع کریں۔ اگر انہوں نے تمہاری کوششوں کو مغلوب کر بھی لیا تو وہ تمہاری نیتوں کو ہرگز مغلوب کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔


*رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا.*


"اے پروردگار! ہمیں ہمارے شریک حیات کی طرف سے (دل کا چین) اور اولاد کی طرف سے آنکھ کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں متقین کا امام بنا۔"

آمین


اپنا یہ معمول بنالیں کہ ہر فرض نماز کی آخری رکعت میں درود اور دعا کے ساتھ اس دعا کا بھی اضافہ کرلیں۔ ان شاء اللہ انتہائی مجرب پائیں گی۔ اللہ تعالی ہمارے بچوں کو صحیح معنوں میں امت کا سرمایہ اور ہمارے لئے صدقہ جاریہ بنا دے۔ آمین یا رب العالمین


منقول

Share: