حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ک مزاحی واقعات اس لئے نقل کئے جاتے ہیں تاکہ عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مزاح کا سنت طریقہ معلوم ہوجائے اور متبعین سنت کے لئے یہ فطری جذبہ بھی دیگر متعدد فطری جذبات کی طرح عبادت بن جائے۔
عن انسٍ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ان رجلاً استحمل رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم فقال انی حاملک علی ولد ناقةٍ فقال ما اصنع بولد الناقةِ فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وہل تلد الابل الا النوق (مشکوٰة)
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سواری طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں سواری کے لئے اونٹنی کا بچہ دوں گا تو سائل نے عرض کیا کہ حضور ! میں اونٹنی کے بچے کا کیاکروں گا تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا اونٹنی اونٹ کے علاوہ بھی کسی کو جنتی ہے
ملاحظہ فرمائیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں سائل سے مزاح بھی فرمایا اور اس میں حق اور سچائی کی رعایت بھی فرمائی سواری طلب کرنے پر آپ نے جب اونٹنی کا بچہ مرحمت فرمانے کا وعدہ فرمایاتو سائل کو تعجب ہوا کہ مجھے سواری کی ضرورت ہے اوراونٹنی کا بچہ اس قابل نہیں ہوتا کہ اس پر سواری کی جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے تعجب کو دور کرتے ہوئے اور اپنے مزاح کا انکشاف کرتے ہوئے فرمایا کہ بھائی میں تجھے سواری کے قابل اونٹ ہی دے رہا ہوں مگر وہ بھی تو اونٹنی ہی کا بچہ ہے۔
عن انسٍ ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لہ یاذالاذنین (مشکوٰة )
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا
“اے دوکان والے”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے ”اے دو کان والے“ کہنا بھی ظرافت اور خوش طبعی کے طورپر تھا۔ اور ظرافت کا یہ انداز تو ہمارے عرف میں بھی رائج ہے مثلاً کبھی اپنے بے تکلف دوست سے یا ذہین طالب علم سے ناراضگی کا اظہار اس انداز میں کیاجاتا ہے کہ ایک چپت رسید کروں گا تو تمہارا سر دوکانوں کے درمیان ہوجائے گا۔ حالانکہ وہ پہلے سے وہیں پر ہوتا ہے۔
عن انسٍ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لامرأةٍ عجوزٍ انہ لاتدخل الجنة عجوزٌ فقالت مالہن وکانت تقرء القرآن فقال لہا ما تقرئین القرآن اِنَّا انشئاناہن انشاءً فجعلنٰہنّ ابکارًا(مشکوٰة)
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ایک بوڑھی عورت سے فرمایاکہ بڑھیا جنت میں داخل نہیں ہوگی۔ وہ عورت قرآن پڑھی ہوئی تھی اس نے عرض کیا بوڑھی کے لئے کیا چیز دخولِ جنت سے مانع ہے؟ حضور آکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے قرآن میں نہیں پڑھا ہم جنتی عورتوں کو پیدا کریں گے پس ہم ان کو کنواریاں بنادیں گے
ایک اور روایت میں یہ واقعہ مزید تفصیل کے ساتھ وارد ہوا ہے کہ اس صحابیہ عورت نے جو بوڑھی تھیں آپ سے دخولِ جنت کی دعا کی درخواست کی تو اس پر آپ نے مزاحاً فرمایا کہ بڑھیا تو جنت میں داخل نہیں ہوگی، یہ سن کر بڑھیا کو بڑا رنج ہوا اور روتے ہوئے واپس چلی گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جاکر اس عورت کو کہہ دو کہ عورتیں بڑھاپے کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہوں گی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے
”اِنَّا انشئاناہن انشاءً فجعلنٰہنّ ابکارًا“
حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مزاح اس واقعہ میں بھی مبنی برحق تھا مگرآپ نے ایک سچی بات کو مزاحیہ انداز میں بیان کرکے امت کو یہ تعلیم دی کہ کبھی کبھار حق اور سچائی کی رعایت کے ساتھ مذاق اور دل لگی بھی کرلینی چاہئے۔
واللہ اعلم