حضرت علامہ انور شاہ کاشمیری رحمة اللہ عليه کا عشقِ ختم نبوت کا ایک واقعہ


حضرت علامہ محمد انور شاہ کاشمیری رحمة الله عليه بہت بڑے محدث 'عالم، زاہد و عابد اور سچے عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ واله وسلم تھے۔ 1926ء میں احمدپور شرقیہ بہاولپور کی ایک مسلمان عورت نے بہاولپور کی ایک عدالت میں دعویٰ کیا کہ اس کا شوہر مرزائی ہو چکا ہے۔ لہٰذا اس کا نکاح فسخ کیا جائے۔ اس مقدمہ میں تمام مشاہیر علما کو شہادت کے لیے عدالت میں بلایا گیا۔ جب یہ مقدمہ آخری مراحل میں پہنچا تو شیخ الجامعہ حضرت مولانا غلام محمد گھوٹویؒ، حضرت مفتی صادق صاحبؒ اور تمام علماء كرام نے استدعا کی کہ حضرت شاہ صاحبؒ کا ایک علمی بیان عدالت میں ہونا چاہیے۔ شاہ صاحبؒ ان دنوں خونی بواسیر کے سخت مریض تھے۔ ڈاکٹروں /حکیموں نے سفر سے بالکل روک دیا تھا۔ اسی سال حج کا بھی ارادہ تھا۔ کمزوری بہت ہو چکی تھی، لیکن جونہی شاہ صاحبؒ کو دعوت پہنچی، آپ سفر کے لیے تیار ہو گئے۔ بہاولپور سے مفتی صادق صاحب بھی خود انھیں لینے کے لیے دیوبند پہنچ گئے۔ حکیموں نے آپ کو بیماری کے پیش نظر سفر کرنے سے منع کیا۔ لیکن حضرت شاہ صاحبؒ نے فرمایا: ’’اگر قیامت کے روز حضورصلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم نے یہ سوال کر لیا کہ میری ختم نبوت کا مقدمہ پیش تھا، “ تجھے طلب کیا گیا اور تُو نہیں گیا تو میں کیا جواب دوں گا؟ موت تو آنی ہی ہے، اگر اسی راستہ میں آ گئی تو اس سے بہتر اور کیا ہوگا۔‘‘ لہٰذا حکیموں کے روکنے کے باوجود آپ تاریخ مقدمہ سے کئی روز پیشتر بہاولپور تشریف لے آئے، اور تقریباً 25 روز بہاولپور میں قیام فرمایا۔ بہاولپور کی جامع مسجد میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا ’’حضرات! میں نے ڈابھیل جانے کے لیے سامان سفر باندھ لیا تھا کہ یکایک مولانا غلام محمد گھوٹوی شیخ الجامعہ کا ٹیلی گرام موصول ہوا کہ شہادت دینے کے لیے بہاولپور آئیے۔ ایک مسلمان بچی کے تنسیخ نکاح کا مسئلہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ قادیانیت کے ارتداد و کفر کا مسئلہ ہے اور ختم نبوت کے اعتقاد کا مسئلہ ہے۔ ٹیلی گرام پڑھ کر، میں نے پچھلی زندگی کے اعمال پر سوچا کہ اگر اللہ تعالیٰ قیامت کے دن پوچھ لے کہ کون سا عمل لائے ہو، پچھلی زندگی میں کوئی عمل رکھتے ہو تو پیش کرو؟ تو سوچنے کے بعد میرے دماغ میں کوئی ایسا عمل تازہ نہیں ہوا جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کر سکوں۔ چنانچہ اس عاجز نے ڈابھیل اور حج کا سفر ملتوی کر دیا اور بہاولپور کا سفر کیا۔ تاکہ قیامت کے دن حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منصب ختم نبوت کے تحفظ کرنے والوں میں شمار کیا جاؤں اور سمجھا جاؤں اور اس عمل کے صدقے میں میری بخشش ہو جائے۔ دل میں یہ خیال بھی آیا کہ جا تو رہا ہوں حج کے لیے اور آگے سفر کروں گا مدینہ منورہ کا تو اللہ تعالیٰ کی رضا بھی چاہیے، حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت بھی چاہیے۔ قیامت کے دن اگر حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پوچھ لیں کہ ضرورت وہاں تھی، آ یہاں گیا۔ ضرورت تو تیری بہاول پور میں تھی اور تُو یہاں آ گیا تو میرے پاس اس کا بھی کوئی جواب نہیں ہوگا۔ چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ میں حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام ختمِ نبوت اور منصب ختمِ نبوت کی حفاظت کے لیے بہاولپور جاؤں گا۔ بہت ضعیف اور علیل ہوں۔ یہ خیال کرتے ہوئے کہ ہمارا نامۂ اعمال تو سیاہ ہے ہی، شاید یہی بات میری نجات کا باعث بن جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وکیل بن کر عدالت میں پیش ہوں۔ ممکن ہے یہ نیکی میرے لیے توشۂ آخرت بن جائے۔‘‘ اس پر لوگ دھاڑیں مارتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے… پھر فرمانے لگے: ’’ہم سے تو گلی کا کتا بھی اچھا ہے۔ ہم اس سے بھی گئے گزرے ہیں۔ وہ اپنی گلی و محلے کا حقِ نمک خوب ادا کرتا ہے جبکہ ہم حق غلامی و امتی ادا نہیں کرتے۔ اگر ہم ناموس پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تحفظ کریں گے تو قیامت کے دن حضور نبی کریم صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کے مستحق ٹھہریں گے۔ تحفظ نہ کیا یا نہ کر سکے تو ہم مجرم ہوں گے اور ایک کتے سے بھی بدتر کہلوائیں گے۔‘‘ 

صوفی بزرگ بُلّھے شاہ نے کہا تھا: 

راتیں جاگیں، کریں عبادت راتیں جاگن کُتے

 تیتھوں اُتّے بھونکنوں بند مُول نہ ہوندے جا روڑی تے سُتے، تیتھوں اُتے خصم اپنے دا در نہ چھڈ دے بھانویں وجن جُتے، تیتھوں اُتے بُلھے شاہ! کوئی رَخت وِہاج لَے نئیں تے بازی لے گئے کُتے تیتھوں اُتّے 


جج صاحب جن کا نام محمد اکبر تھا، وہ شاہ صاحب کا بہت احترام کرتا تھا۔ آپ کو عدالت میں کرسی مہیا کی گئی اور حضرت شاہ صاحبؒ کا آخری معرکہ آرا بیان ہوا اور قادیانیوں کی طرف سے ان پر جرح ہوتی رہی اور شاہ صاحبؒ جواب دیتے رہے۔ آپ کے مدمقابل قادیانیوں کی طرف سے مشہور مرزائی مبلغ و مناظر جلال الدین شمس تھا۔ آپ نے اس پر خوب جرح کی مگر وہ کمال ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتا رہا اور ہر بات پر ’’میں نہ مانوں‘‘ کی رٹ لگاتا رہا۔ اس پر شاہ صاحب نہایت جلال میں آ گئے اور ان پر ایک عجیب و غریب وجد طاری ہو گیا۔ آپ نے مرزائی مبلغ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’جلال الدین! اگر اب بھی تمھیں مرزا قادیانی کے کفر میں کوئی شک ہے تو آ! میرے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے۔ میں تمھیں بھری عدالت میں کھڑے کھڑے مرزا قادیانی کو جہنم میں جلتا ہوا دکھا سکتا ہوں۔‘‘ اس پر جلال الدین شمس پر سکتہ طاری ہو گیا اور وہ کچھ نہ بول سکا۔ بعدازاں عدالت سے فراغت کے بعد ایک مرید نے حضرت شاہ صاحب سے پوچھا: حضرت! آج آپ نے عدالت میں بہت بڑی بات کہہ دی۔ اگر مرزائی مبلغ آپ سے مرزا قادیانی کو جہنم میں جلتا ہوا دکھانے کا کہہ دیتا تو آپ کیا کرتے؟ اس پر شاہ صاحب نے فرمایا: ’’بالکل دکھا دیتا، کیونکہ مجھے ہزار فیصد یقین کامل ہے کہ جو شخص تحفظ ختم نبوت کا کام کرتا ہے، اللہ اسے دوسروں کے سامنے کبھی رسوا نہیں کرتا۔ شرط یہ ہے کہ یہ مقدس کام اخلاص و محبت سے کیا جائے۔ تب دنیا و جہان کی تمام کامیابیاں اس کے قدم چومیں گی۔‘‘

———

Share: