ہم میں سے ہر انسان کی زندگی کی کتاب میں کچھ ایسے اوراق ضرور ہوتے ہیں جنہیں ہم کھبی منظرعام پر لانا پسند نہیں کرتے. ایسے لمحے ہر انسان کی زندگی میں آتے ہیں جب وہ نفس کی پیروی میں یا شیطان کے بہکاوے میں آ کر ایسی حرکتیں کر بیٹھتا ہے جن پر وہ پوری زندگی پچھتاتا ہے. ہمارے اعمال کی یہ سیاہیاں اگرچہ ہمارے سفید اور اجلے کپڑوں میں نظر نہ آتی ہوں مگر اس ذات کو تو ہمارے ایک ایک پل کی خبر ہے جو علیم بذات الصدور ہے،
اس کی رحمت دیکھیے کہ وہ اپنے عفو وکرم سے ہمارے ان عیبوں پر پردہ ڈال کر ہمیں رسوا ہونے سے بچا لیتا ہے،اگر وہ ایسا نہ کرتا اور ہمارے تمام اعمال وحرکات منظر عام پر آ جاتے تو ہم میں سے ہر شخص سوچے کہ آج معاشرے میں اس کی کیا پوزیشن ہوتی؟
جب اللہ تعالی نے ہمارے بے شمار عیبوں پر پردہ ڈال رکھا ہے تو کیا یہ بات ہمیں زیب دیتی ہے کہ ہم دوسروں کی جاسوسی کرتے پھریں، ان کے نقائص اور عیوب تلاش کریں اور پھر انہیں معاشرے میں بے عزت کریں.
ذرا سوچیے اگر عزت وذلت کا معاملہ اللہ نے انسانوں کے ہاتھ میں دیا ہوتا تو ہم میں سے کوئی شخص اپنے حریف ومقابل کو کبھی باعزت زندگی گزارنے ہی نہ دیتا اور شاید ہر شخص ذلت وخواری کی زندگی گزار رہا ہوتا. یہ تو اس کریم کی شان کریمی ہے کہ اس نے عزت وذلت اپنے ہاتھ میں رکھی ہے
وتعز من تشاء وتذل من تشاء بيدك الخير انك على كل شىء قدير ،
تو جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے، تیرے ہی ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں بیشک تو ہرچیز پر قادر ہے۔
(آل عمران)
آج دنیاوی مخالفتوں اور مخاصمتوں میں ہر شخص اپنے حریف کی عزت کے درپے ہے،اس کی آبرو اچھالنے میں مصروف ہے،
اس کے عیوب کا ڈھنڈورا پیٹنے میں لگا ہے. مگر یاد رکھیے یہ چیزیں مومنانہ کردار کے منافی ہے. ایک مومن تو ہمیشہ اپنے مومن بھائی کے عیبوں پر پردہ ڈالتا ہے تاکہ کل قیامت کے دن رب العالمین خود اس کے عیبوں پر پردہ ڈالے.
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو بندہ دنیا میں کسی بندے کے عیب چھپائے گا قیامت کے دن اللہ اس کے عیب چھپائے گا۔
(صحیح مسلم)
یہی وجہ ہے کہ دوسروں کی ٹوہ میں لگنے اور جاسوسی کرنے سے ہماری شریعت میں سختی سے منع کیا گیا ہے. اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اگر تم لوگوں کی پوشیدہ باتوں کے پیچھے پڑو گے، تو تم ان میں فساد پیدا کر دو گے، یا قریب قریب فساد کے حالات پیدا کر دوگے.
(ابوداود)
آج ہمارا حال یہ ہے کہ کسی کے اخلاق وعادات سے متعلق اگر کوئی نازیبا بات ہمیں معلوم ہوتی ہے تو ہم اسے فوراً معاشرے میں پھیلانے میں لگ جاتے ہیں. جب کہ یہ بہت بڑا گناہ ہے، اس کا عذاب آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی ملتا ہے.
ارشاد باری تعالی ہے
جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی کی بات پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہیں اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے۔
(النور:19)
اس آیت کی تفسیر میں حافظ ابن کثیر نے مسند احمد کی ایک حدیث نقل کی ہے.حضرت ثوبان کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ کے بندوں کو ایذاء نہ دو ، انہیں عار نہ دلاؤ ، ان کی خفیہ باتوں کی ٹوہ میں نہ لگے رہو ۔ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیوب ٹٹولے گا
اللہ اس کے عیبوں کے پیچھے پڑ جائے گا اور اسے یہاں تک رسوا کرے گا کہ اس کے گھر والے بھی اسے بری نظر سے دیکھنے لگیں گے،
(مسند احمد)
ذرا ان نصوص کی روشنی میں ہم اپنا محاسبہ کریں. آج ہر شخص دوسروں کی عیب جوئی کو اپنا پسندیدہ مشغلہ بنائے ہوئے ہے.
دوسروں کے عیب پر پردہ ڈالنا تو دور کی بات ہے ہمیں کسی کا عیب معلوم ہو جائے تو ہم اسے سرِ بازار بے عزت کرنے پر تُل جاتے ہیں.
کاش ہم یہی سوچ کر دوسروں کی عیب پوشی کرتے کہ کل قیامت کے دن ہمیں اس بات کہ شدید ضرورت ہوگی کہ رب العالمین ہمارے عیبوں پر پردہ ڈال کر ہمیں رسوا ہونے سے بچا لے.
اللہ تعالی ہمیں اس حقیقت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے.