اولاد نیک ہونے کے لیے اول درجہ تو یہ ہے کہ والدین خود نیک بنیں اپنے اعمال پر خصوصی توجہ دیں اگر نیک اعمال کریں گے تو ان کا اثر اولاد پر بھی ضرور آچھا ھی پڑے گا
دوسرا درجہ یہ ہے کہ پیدا ہونے کے بعد اس کے سامنے بھی کوئی حرکت بے جانہ کریں، اگرچہ وہ بالکل ناسمجھ بچہ کیوں نہ ہو۔ کیوں کہ حُکَما نے کہاہے کہ بچے کے دماغ کی مثال پریس جیسی ہے، کہ جو چیز اس کے سامنے آتی ہے وہ دماغ میں منقش ہوجاتی ہے۔ پھر جب اس کو ہوش آتاہے تو وہی نقوش اُس کے سامنے آجاتے ہیں اور وہ ایسے ہی کام کرنے لگتاہے جیسے اُس کے دماغ میں پہلے ہی منقش تھے۔غرض یہ مت سمجھو کہ یہ تو ناسمجھ بچہ ہے، کیاسمجھے گا؟ یاد رکھو !جو افعال تم اُس کے سامنے کروگے اُن کا اُس کے اخلاق پر ضرور اثر پڑے گا۔
تیسرا اور بہت اہم درجہ یہ ہے کہ جب بچہ بڑا ہوجائے تو اس کو علمِ دین سکھلاؤ اور خلافِ شریعت کاموں سے بچاؤ اور نیک لوگوں کی صحبت میں رکھو، بُرے لوگوں کی صحبت سے بچاؤ۔
غرض جس طرح بزرگوں نے لکھا ہے اسی طرح بچوں کی تعلیم کا اہتمام کرو۔ بعض عورتیں اس میں بہت کوتاہی کرتی ہیں اور اولاد کے حقوق کو تلف کرتی ہیں۔ اور اولاد کے یہ حقوق صرف عورتوں ہی کے ذمہ نہیں، بلکہ مردوں کے بھی ذمہ ہیں۔ مگر بچوں کے اخلاق کی درستگی زیادہ ترعورتوں ہی کے اہتمام کرنے سے ہوسکتی ہے کیوں کہ بچے ابتدا میں زیادہ تر ان ہی کے پاس رہتے ہیں۔ سو جیسی تربیت کی ھو گی ویسا ہی نتیجہ برآمد ھو گا