حافظ ابن قیم رحمتہ اللہ علیہ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک گلی سے گزر رہا تھا کہ ایک دروازہ کھلا۔میں نے دیکھا کہ کوئی آٹھ نو سال کا بچہ ہے اور اس کی ماں خفا ہو کر اس کے تھپڑ لگا رہی ہے' اس کو دھکے دے رہی ہے.. "تو نافرمان بن گیا ہے' میری کوئی بات نہیں سنتا' کوئی کام نہیں کرتا' دفع ہو جا' چلاجا یہاں سے.." یہ کہہ کر ماں نے جو دھکا دیا تو وہ بچہ گھر سے باھر آگیا۔
فرماتے ہیں کہ ماں نے کنڈی لگالی.. اب میں رہیں کھڑا رہ گیا کہ دیکھو اب کیا ہوتا ہے..؟
چونکہ مار پڑی تھی' بچہ رو رہا تھا.. خیر وہ اٹھا اور کچھ سوچتا سوچتا ایک طرف کو چلنے لگا.. چلتے چلتے وہ گلی کے موڑ پر پہنچا.. وہاں کھڑے ہو کر کچھ سوچتا رہا' پھر واپس آنا شروع کردیا اور چلتے چلتے اپنے گھر کے دروازے پر آکر بیٹھ گیا.. تھکا ہوا تھا' رو بھی کافی دیر سے رہا تھا' دہلیز پر سر رکھا تو نیند آگئی.. وہیں سوگیا..
کافی دیر کےبعد اس کی والدہ نے کسی کام کیلئے دروازہ کھولا تو کیا دیکھتی ہے کہ بیٹا دیلیز پر سر رکھے پڑا ہوا ہے۔
والدہ کا غصہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہو تھا.. وہ پھر ناراض ہونے لگی اور کہنے لگی.. "چلا جا یہاں سے.. دور ہو جا میری نگاہوں سے.."
جب اس نے پھر اسے ڈانٹا تو وہ بچہ کھڑا ہو گیا.. آنکھوں میں آنسو آگئے اور کہنے لگا.. "اماں ! جب مجھے تونے گھر سے دھتکار دیا تھا' میں نے سوچا تھا میں چلا جاوٴنگا.. میں بازار جاکر بھیک بھی مانگ لونگا.. مجھے کچھ نہ کچھ کھانے کو بھی مل جائے گا..
اماں ! میں نے سوچا تھا میں کسی کے جوتے صاف کرلونگا.. کسی کے گھر کا نوکر بن جاوٴنگا.. مجھے جگہ بھی مل جائے گی.. مجھے کھانا بھی مل جائے گا..
اماں ! یہ سوچ کر میں گلی کے موڑ تک چلا گیا تھا مگر میرے دل میں یہ خیال آیا کہ مجھے دنیا کی سب نعمتیں مل جائیں گی لیکن اماں جو محبت مجھے تو دے سکتی ہے یہ محبت مجھے کہیں نہیں مل سکتی..
اماں ! میں یہ سوچ کر واپس آگیا ہوں.. میں اسی در پر پڑا ہوں.. تو مجھے دھکے دے یا مارے' میں کہیں نہیں جاونگا.."
جب اس نے یہ بات کہی' ماں کی ممتا جوش میں آگئی.. اس نے بچے کو سینے سے لگایا اور کہا.. "میرے بیٹے ! اگر تیرے دل میں یہ کیفیت ہے کہ جو محبت تجھے میں دے سکتی ھوں وہ کوئی نہیں دے سکتا تو میرے بچے ! میرا دروازہ بھی تیرے لئے کھلا ہے.." اس نے بیٹے کو محبت سے اپنی آغوش میں چھپا لیا۔
حافظ ابن قیم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں..
''جب گنہگار بندہ اس احساس کیساتھ رب کے دروازے پر آتا ہے اور اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہے' اپنے ربّ سے معافی مانگتا ہے' اس سے رحم کی امید رکھتے ہوئے سچی توبہ کرتا ہے تو پھر پروردگار بھی اسی طرح اپنی رحمت کےدروازے کھول دیتا ہے.."
ربِ کریم ہمیں بھی سچی توبہ کی توفیق عطا فرمائے اور آنے والے وقت کو گزرے وقت سے بہتر بنائے..
آمین یا رب العالمین