صلح اور باھمی تعلقات کی اصلاح کا حکم

 *صلح اور باہمی تعلقات کی اصلاح کا حکم*


قرآن کریم کے متعدد مقامات پر صلح کی اہمیت و ضرورت، اس کی ترغیب اور خاندانی و معاشرتی نظام زندگی میں اس کے کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اسے’’خیر‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے، اسے ضروری قرار دیا گیا ہے، ایسے لوگوں کی مدح اور تعریف کی گئی ہے جو صلح پسند ہوں

اللہ پاک  کو سب سے زیادہ وہ قدم پسند ہیں جو مسلمانوں میں صلح اور باہمی تعلقات کی اصلاح کے لیے اٹھیں۔اور اس بات پر بھی غور کریں کہ صلح کروانا ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے اور اللہ عزوجل نے قرآن کریم میں آپس میں صلح کروانے کا حکم بھی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:


*” إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ ۚوَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ "*

*یاد رکھو سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں پس اپنے دو بھائیوں میں ملاپ کرا دیا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے (الحجرات)

لہٰذا جب کبھی مسلمانوں میں ناراضگی پیدا ہو جائے یا خاندانوں،جماعتوں، فریقوں میں اختلافات پیدا ہوجائیں اور توتو میں میں ،ہاتھا پائی، لڑائی ،خون خرابہ یا جنگ وجدال کی نوبت آجائے تو ان کے درمیان صلح کروا کر یہ فضائل و برکات حاصل کرنے چاہئیں نہ کہ مسالہ لگا کر اس معاملے کو طول دیں ۔ اللہ ہم سب کو محفوظ رکھے - آمین

بعض دفعہ شیطان یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ کیا ہم انہیں صلح پر آمادہ کریں گے انہیں سمجھانا تو بیکار ہے، یاد رکھیں!  اپنے ہی کسی مسلمان بھائیوں و بہنوں کو سمجھانا بیکار نہیں بلکہ مفید و کارآمد ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:


وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَىٰ تَنفَعُ الْمُؤْمِنِينَ (الذاریات)

اور انہیں سمجھاؤ یقیناً سمجھانا مسلمانوں کو فائدہ دیتا ہے

صلح کروانے کے لئے رسول اللہ ﷺ کے ارشادات  ملاحظہ  ہوں 

 حضرت ام کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو تین چیزوں میں جھوٹ بولنے کی رخصت دیتے ہوئے سنا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں ایسے شخص کو جھوٹا نہیں سمجھتا جو لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لئے کوئی بات کرتا ہے اس کا مقصد صرف اور صرف اصلاح ہوتا ہے۔ جو دوسرا وہ شخص جنگ کے موقع پر کوئی بات کرتا ہے۔ اور تیسرا وہ شخص جو اپنی بیوی سے کوئی بات کرتا ہے اور بیوی خاوند سے کوئی بات کرتی ہے۔

(سنن ابی داوُد )

حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا میں تم کو روزہ، نماز اور صدقہ خیرات سے افضل درجہ والی چیز نہ بتاؤں؟ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا: ضرور ارشاد فرمایئے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: باہمی اتفاق سب سے افضل ہے کیونکہ آپس کی نااتفاقی (دین کو) مونڈنے والی ہے (یعنی جیسے استرے سے سر کے بال ایک دم صاف ہوجاتے ہیں ایسے ہی آپس کی لڑائی سے دین ختم ہوجاتا ہے) (ترمذی)

حضرت حمید بن عبدالرحمن ؒ اپنی والدہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے صلح کرانے کے لئے ایک فریق کی طرف سے دوسرے فریق کو (فرضی) باتیں پہنچائیں اس نے جھوٹ نہیں بولا( یعنی اسے جھوٹ بولنے کا گناہ نہیں ہوگا)۔(ابوداوُد)


حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ ارشاد فرمایا کرتے تھے: قسم ہے اس ذات عالی کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے والے دو مسلمانوں میں پھوٹ پڑنے کی وجہ اس کے علاوہ کوئی نہیں ہوتی کہ ان میں سے کسی ایک سے گناہ سرزد ہوجائے۔

(مسند احمد، مجمع الزوائد)


حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ اپنے مسلمان بھائی سے تین راتوں سے زیادہ (قطع تعلقی کرکے) اسے چھوڑے رکھے کہ دونوں ملیں تو یہ اِدھر کو منہ پھیرلے اور وہ اُدھر کو منہ پھیرلے اور دونوں میں افضل وہ ہے جو (میل جول کرنے کے لئے) سلام میں پہل کرے۔ (مسلم)


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلقی کرے۔

صلح کی بجائے مسلمانوں میں باہمی لڑائی جھگڑا کروا کر آپس میں ان کی پھوٹ ڈلوادینا اور ان کے مابین نفرتیں پھیلانا یہ سب شیطان کے اولین اہم اہداف و مقاصد میں سے ہیں۔ بسااوقات شیطان انسانوں میں سے نیکی وخیر کی دعوت کو عام کرنے والے لوگوں کے درمیان پھوٹ ڈلوا کر بغض و حسد کی ایک ایسی عظیم دیوار کھڑی کر دیتا ہے جسے صلح کے ذریعے بھی گرانا و ڈھانا اور اس کا مسمار کرنا انتہائی مشکل ترین امر بن جاتا ہے۔


صلح کروانے والوں کو  سب سے پہلے تو یہ چاہئے کہ وہ صلح کروانے سے پہلے خود اللہ عزوجل کی بارگاہ میں کامیابی کی دُعا کریں اور پھر احسن انداز میں صلح کرائیں۔مصلحین کی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ سماج میں موجود افراد اور گروہوں میں کسی باہم بات پر تناؤ ہو جائے تو فوراً ان میں صلح کی کوشش کریں۔

جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

*لَّا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِّن نَّجْوَاهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا”(النساء)

بہت سی سر گوشیوں میں کوئی بھلائی نہیں ہوتی ،ہاں مگر یہ کہ کوئی صدقہ کا حکم دے یا کسی اچھے کام کی تاکید کرے یا لوگوں میں باہم صلح کی بات کرے ۔اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے یہ کام کرے تو ہم اسے ضرور اجر عظیم عطا فرمائیں گے۔

صلح کرانے والوں کے لیے ضروری ھے کہ دونوں فریقوں کو الگ الگ بٹھا کر ان کی شکایات سنیں اور اہم نکات نوٹ کرلیں اور اسی کے مطابق تمام امور کو انجام دیں اور  ایک فریق کی بات سن کر کبھی بھی فیصلہ نہ کریں ، ہو سکتا ہے جس کی بات سنی ہے وہی غلطی پر ہو، اس طرح دوسرے فریق کی حق تلفی کا قوی امکان ہے جو شرعا غلط ہے اور ایک فریق پر ظلم ہے


فریقین کی بات سننے کے بعد انہیں صلح پر آمادہ کریں اور سمجھائیں کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی ہمارے لئے اس سلسلے میں بہترین نمونہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کو جنھوں نے ایذا دیا، ستایا حتی’ کہ اپنے جانی دشمنوں کو بھی معاف کردیا تھا, کتب سیرت و احادیث میں کئی مثالیں بھری پڑی ہیں۔ لیکن ہماری حالت یہ ہے کہ ہم چھوٹی چھوٹی باتوں کو ایشو بنا کر اپنے ہی مسلمان بھائیوں سے ناراض ہو جاتے ہیں، اس میں سراسر اپنا نقصان اور شیطان کی خوشی اور تفریح اور لذت کا سامان ھے 

دونوں فریق کو قریب رکھیں انھیں دور کرنے کی کوشش نہ کریں ،باہمی رنجشوں اور ناچاقیوں کے موقع پر صلح نہ کرنے سے فریقین کا بہت بڑا نقصان ہوتا ہے ان میں سے کسی ایک کے ماحول سے دُور چلے جانے، نمازیں چھوڑدینے ،مساجد الگ کر لینے،دیوار الگ اٹھالینے اور دیگر گناہوں میں مبتلا ہونے کے ساتھ ساتھ بروں کی صحبت اختیار کرنے اور عقائد کے بگڑنے اور اپنی کمزوریوں کے عام ہونے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے ۔لہٰذا اگر بشری تقاضوں کے تحت کسی سے کوئی غلطی یا کسی کوتاہی کا صدور ہو جائے تو اسے معاف کر دینا چاہئے۔ یقینا کوئی بھی جرم ناقابل معافی نہیں ہوتا، اگر کسی انسان سے معاذاللہ کفرو شرک بھی سرزد ہو جائے تو وہ بھی سچی توبہ سے معاف ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ اسے بھی معاف کر دیتا ہے۔

فریقین کو صلح کے فضائل اور آپس کے اختلافات کے سبب پیدا ہونیوالے لڑائی جھگڑے، بغض و حسد، گالی گلوچ، بے جا غصے اور کینہ وغیرہ کے دینی و دُنیوی نقصانات بیان کئے جائیں۔

فریقین کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کیلئے انہیں آپس میں اس طرح سمجھائیں کہ اگر آپ کو ان سے تکلیف پہنچی ہے تو انہیں بھی آپ سے رَنج پہنچا ہو گا۔ ہم سب اس دُنیا میں ایک دوسرے کو رَنج و غم و تکلیف دینے اور دوریاں و جدائیاں پیدا کرنے کیلئے نہیں آئے ہیں بلکہ ہم تو آپس میں اتحاد واِتفاق ، الفت و محبت ،باہمی تعاون کے ذریعے جوڑ پیدا کرنے کے لئے آئے ہیں ،لہذا ہم جوڑ پیدا کرنے کے لیے کوششیں کریں نہ کہ توڑ پیدا کرنے کے لیے

دشمن کو معاف کرنا یہ ایک مومن کی صفت ہے یہ صرف مسلمانوں کے ساتھ خاص نہیں ،یہ حکم سب کو شامل ہے،اللہ تعالیٰ کا فرمان ھے


“وإِن جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚإِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ "(سورۃ انفال )

اور اگر وہ صلح کے لیے مائل ہوں تو تم بھی مائل ہو جاؤ اور اللہ پر بھروسہ کرو، بے شک وہی سننے والا جاننے والا ہے


تاریخ گواہ ھے کہ  جب بھی دشمنان اسلام صلح کی طرف مائل ہوئے مسلمانوں نے صلح کو قبول کرلیا۔*

*(الرحمۃ فی حیاۃ الرسول)


*سدی اور ابن زید رحمھما اللہ نے آیت بالا کا معنیٰ یہ بیان کیا ھے کہ جب تمہیں صلح کے لیے دعوت دی جائے تو تم اسے قبول کرلو 

(الجامع لأحکام القرآن)


اگر اعداء اسلام صلح کا اظہار کریں اور غدر و بےوفائی ، خیانت و مکاری چھپائے رکھیں تو ان کی نیت فاسدہ سے آپ کو کچھ لینا دینا نہیں آپ ان سے صلح کرلیں ۔

فرمان ربانی ہے:


*” وَإِن يُرِيدُواْ أَن يَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ اللَّهُ هُوَ الَّذِيَ أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ”*

*(سورہ انفال،62)*


*یعنی اگر یہ لوگ( صلح کے بعد)چاہیں کہ تمہیں دھوکہ دیں تو تجھے اللہ کافی ہے، جس نے تمہیں اپنی مدد سے اور مسلمانوں سے قوت بخشی ہے.*

*امام مسلمین اگر اس میں مسلمانوں کی مصلحت دیکھے تو وہ دشمن سے مصالحت کی بات چیت کا آغاز خود بھی کرسکتا ہے،اس کا انتظار نہ کرے کہ صلح کی ابتداء دشمن کی طرف سے کی جائے۔*


*خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حدیبیہ کے مقام پر صلح کی جس کے روشن اور تابناک پہلو سامنے ہیں جو ملت اسلامیہ کی رہنمائی میں ہمیشہ اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔اور اسلام کے سیاسی نظریات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی حکمت عملی اور مدبرانہ سیاست کو سمجھنے میں معاون رہیں گے ۔راجح مصالح کے پیش نظر مشرکین سے بھی بعض ایسی شرطوں پر بھی صلح کرنا جائز ہے جن میں بظاہر مسلمانوں کا نقصان ہو اور یہ دکھائی دے کہ انہوں نے دب کر یہ صلح کی ہے ۔ایک بڑی برائی کا خطرہ ٹالنے کے لیے کمتر نقصان گوارا کیا جاسکتا ہے۔*

*سورۃ الفتح جب نازل ہوئی جس میں مسلمانوں کو یہ بشارت دی گئی کہ حدیبیہ کے مقام پر جس صلح کو تم اپنی شکست اور ذلت سمجھ رہے ہو وہ فتح عظیم ہے ۔”

اِنَّا فَـتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا 

بے شک ہم نے آپ کو کھلم کھلا فتح دی

تفصیل کے لیے سورۃ الفتح کی تفسیر اور سیرت کی کتب کو پڑھیں اور دیکھیں کہ حدیبیہ  کی صلح کو اللہ تعالیٰ نے فتح مبین (کھلی ہوئی فتح )سے تعبیر کیا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو جمع کیا اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور تمام صحابہ کرام جو چودہ سو کی تعداد میں یہاں حدیبیہ کے مقام پر موجود تھے سب کے سامنے یہ سورت پڑھ کر سنائی*


*اسلام جنگ وجدال کے مقابلے میں صلح و آشتی کو ترجیح دیتا ہے اور آخری دم تک جنگ ٹالنے کی کوشش کو مستحسن قرار دیتا ہے،ملت کے وسیع تر مفاد میں معمولی خسارہ برداشت کرنا بھی اس کی ترجیحات میں شامل ہے۔ قیادت کو صبروضبط کا غیر معمولی مظاہرہ کرنا چاہیے،عجلت اور جذبات سے مغلوب ہو کر فیصلے کرنا کوئی اچھی بات نہیں ۔

یہ ایک مسلم قیادت کے لیے سراپۂ عبرت و نصیحت ہے،ان جزئیات کو اپنے ہر قدم پر ملحوظ رکھنا چاہیے۔اور مشورہ بھی لینا چاہیے۔*

*صلح اور معاہدے کی تمام دفعات اور شرائط کا پاس ولحاظ نیک نیتی سے کرنا چاہیے اس تعلق سے کوئی بدعہدی یا فریب اسلامی تعلیمات اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہے۔صلح کے لیے مرد و عورت کی کوئی قید نہیں۔*


*ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کرنا چاہیے ۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم عفو و عافیت ہی کا سوال کرتے تھے۔*

*آپ کہتے: 

” اللھم انی اسئلک العفو والعافیۃ فی الدنیا والآخرۃ”*

*اے اللہ تعالیٰ میں تجھ سے دنیاو آخرت میں عافیت کا طالب ہوں ۔

اسی عافیت کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دشمن کو عفوو درگزر فرما کر دشمن سے صلح و مصالحت کرلیتے،اس لیے حقیقت میں اس صلح کے ذریعے مسلمانوں کو کامیابی ملی ہے۔*


*(سنن ابی داود,,سنن ابن ماجہ،و مسند احمد)


*یقیناً اگر ہم اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں گے تو بہت اچھے طریقے سے زیادہ سے زیادہ دین کا کام کر سکیں گے۔ باہمی محبت و اتحاد سے جو کام ہو سکتا ہے وہ اکیلے رہ کر نہیں ہو سکتا۔ پھر فریقین کو آمنے سامنے بٹھا کر ان کے درمیان صلح میں سبقت لے جانے کا جذبہ پیدا کر کے انہیں آپس میں ملا دیں، حتیٰ الامکان کسی فریق کو دوسرے فریق کےخلاف بولنے نہ دیں کیونکہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے، جب ایک بولے گا تو دوسرا بھی اپنی صفائی کیلئے بول پڑے گا، یوں آپس میں بحث و مباحثہ و تکرار وتقریر ہو کر بسااوقات بات بنتے بنتے بھی بگڑ جاتی ہے اور پھر فریقین کے درمیان صلح کروانا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ آپس کی دشمنیوں و ناراضیوں و نااتفاقیوں اور ناچاقیوں سے بچتے رہنا چاہئے کہ ان کی وجہ سے نیکی کے عظیم مشن و کام کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔*


*اللہ عزوجل ہمیں نرمی اپنانے، ایک دوسرے کو منانے اور لڑائی جھگڑے سے خود کو بچانے کی توفیق عطا فرمائے۔

آمین یا رب العالمین

Share: