مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )اور روضۂ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)



 مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زمین

مسجد الحرام کے بعد دنیا کی سب سے اہم مسجد ”مسجد نبوی“ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعمیر کا آغاز 18 ربیع الاول سنہ 1ھ کو ہوا۔ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینے ہجرت کے فوراً بعد اس مسجد کی تعمیر کا حکم دیا اور خود بھی اس کی تعمیر میں بھر پور شرکت کی۔

مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس جگہ قائم کی گئی وہ دراصل دو یتیم بچوں  کی زمین تھی۔ ورثاء اور سرپرست اسے ہدیہ کرنے پر بضد تھے اور اس بات کو اپنے لیے بڑا اعزاز سمجھتے تھے کہ ان کی زمین شرف قبولیت پا کر مدینہ منورہ کی پہلی مسجد بنانے کے لیے استعمال ہو جائے مگر  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلا معاوضہ وہ زمین قبول  کرنے سے انکار فرما دیا دس دینار قیمت طے پائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہم کو اس کی ادائیگی کا حکم دیا اور اس جگہ پر مسجد اور مدرسہ کی تعمیر کا فیصلہ ہوا۔ پتھروں کو گارے کے ساتھ چن دیا گیا۔ کھجور کی ٹہنیاں اور تنے چھت کے لیے استعمال ہوئے اور اس طرح سادگی اور وقار کے ساتھ مسجد کا کام مکمل ہوا۔ مسجد سے متصل ایک چبوترا بنایا گیا جو ایسے افراد کے لیے دار الاقامہ تھا جو دوردراز سے آئے تھے اور مدینہ منورہ میں ان کا اپنا گھر نہ تھا۔

سب سی پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد نبوی   صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توسیع فرمائی  اور مسجد کا رقبہ 1050 مربع میٹر سے بڑھا کر 2500 مربع میٹر کر دیا گیا

جبکہ بعد میں کئی مسلم حکمرانوں نے اس میں توسیع اور تزئین و آرائش کا کام کیا۔ 

حضرت عمر فاروق   رضی اللہ کے دور خلافت میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توسیع کا کام کیا گیا اور اس مقصد کے لئے قریبی گھروں کو خرید لیا گیا انہی گھروں میں ایک گھر حضرت عباس    رضی اللہ عنہ کا مکان بھی تھا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب ان سے مسجد کی توسیع کے لئے گھر مانگا تو تو انھوں نے صاف انکار کردیا جس کے نتیجہ میں مندرجہ زیل مشھور واقعہ رونما ھوا



مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توسیع اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا مکان

حضرت فاروق اعظم عمر بن خطاب رضی اللہ نے جب مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توسیع کا ارادہ فرمایا تو آس پاس کے بعض مکانات خرید لئے، جنوبی طرف حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا مکان مسجد سے متصل تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ سے کہا : اے ابو الفضل    رضی اللہ عنہ! مسلمانوں کی مسجد تنگ ہوگئی ہے توسیع کے لئے میں نے آس پاس کے مکانات خرید لئے ہیں ، آپ بھی اپنا مکان فروخت کردیں تاکہ اسے مسجد میں شامل کیا جاسکے، اور جتنا معاوضہ آپ کہیں میں بیت المال سے ادا کروں گا، حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا میں یہ کام نہیں کرسکتا، دوبارہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے  حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے کہا: کہ میری تین باتوں میں سے ایک بات مان لیں ، یا تواسے فروخت کردیں اور معاوضہ جتنا چاہیں لے لیں، یا مدینہ میں جہاں آپ چاھیں وہاں آپ کے لئے مکان بنوا دوں، یا پھر مسلمانوں کی نفع رسانی اور مسجد کی توسیع کے لئے وقف کردیں، حضرت عباس رضی اللہ عنہ کہا: مجھے ان تینوں میں سے کوئی بات بھی منظور نہیں ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا مسئلہ حل ہونے والا نہیں ، تو  انھوں نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا آپ جسے چاہیں فیصل مقرر کردیں، تاکہ وہ ہمارے اس معاملہ کا تصفیہ کردے، حضرت عباس   رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو فیصل بناتا ہوں، دونوں حضرات اٹھے اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے مکان پر پہنچے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو ان کے اعزاز میں تکیہ وغیرہ لگوایا اور دونوں بزرگوں کو بٹھا لیا،۔

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے کہا : ابو الفضل! آپ اپنی بات کہیئے ، حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ زمین جس پر میرا مکان ہے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطا کردہ ہے ، یہ مکان میں نے بنایا اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنفس نفیس اس کی تعمیر میں شریک رہے واللہ  یہ پرنالہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک کا لگایا ہوا ہے اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بات کی، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا، آپ دونوں اجازت دیں تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث سناؤں، دونوں بزرگوں نے عرض کیا بیشک سنایئے۔

حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ اسلام کو حکم دیا کہ میرے لئے ایک گھر تعمیر کروجس میں مجھے یاد کیا جائے ، اور میری عبادت کی جائے ، چنانچہ جہاں پر مسجد اقصی واقع ہے وہاں من جانب اللہ زمین نشان زدکردی گئی ، ایک گوشہ پر ایک اسرائیلی بڑھیا کا مکان تھا حضرت داؤد علیہ اسلام نے اس سے بات کی اور کہا: اس مکان کو فروخت کردوتاکہ اللہ کا گھر بنایا جاسکے ، اس نے انکار کردیا، داؤد علیہ اسلام نے اپنے جی میں سوچا: یہ گوشہ زبرستی لے لیا جائے  اس پر اللہ تعالیٰ کا عتاب نازل ہوا ، اے داؤد (علیہ اسلام)! میں نے آپ کو اپنی عبادت گاہ بنانے کے لئے کہا تھا ، اور آپ اس میں زورو زبردستی کو شامل کرنا چاہتے ہیں، یہ میری شان کے خلاف ہے ، اب آپ کی یہ سزا ہے کہ میرا گھر بنانے کا ارادہ ترک کردیں

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں جس ارادے سے آیا تھا آپ نے اس سے بھی سخت بات کہہ دی 

حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کو مسجد نبوی شریف ﷺ میں لے آئے ، وہاں کچھ صحابہ حلقہ بنائے ہوئے بیٹھے تھے ، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں، اگر کسی نے رسول اللہ ﷺ سے حضرت داؤد علیہ اسلام کے بیت المقدس کی تعمیر کرنے والی حدیث کو سنا ہے ، ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے سنا ہے ،

اب حضرت ابی  بن کعب رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا عمر(رضی اللہ عنہ )! آپ نے مجھ کو رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے بارے میں تہمت دی ھے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: واللہ، اے ابو المنذر! میں نے آپ پر کوئی تہمت نہیں لگائی ، میں چاہتا تھا رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث بالکل واضح ہوجائے ، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہوئے اور کہا: جائیے! میں اب آپ سے آپ کے مکان کے بارے میں کچھ نہ کہوں گا، حضرت عباس رضی اللہ عنہ کہا: جب آپ نے اب ایسی بات کہہ دی ھے تو اب میں اپنا مکان توسیع مسجد کے لئے بلامعاوضہ پیش کرتا ہوں، لیکن اگر آپ حکما لینا چاہیں گے تو  پھر ھرگز نہیں دوں گا، اس کےبعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مدینہ میں کسی دوسری جگہ پر بیت المال کے خرچ سے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے لئے، مکان بنوا دیا،

اسی گھر کے بارے میں ایک اور روایت کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہ پرنالہ اکھاڑنے کا حکم دیا تھا تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کہا یہ پرنالہ خود رسول اللہ ﷺ اپنے ہاتھوں سے لگایا تھا  یہ بات سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہا تو آپ میری پیٹھ پر سوار ہوکر یہ پرنالہ وہیں لگادیجیئے جہاں آپ سرکاردوعالم ﷺ نے لگایا تھا  ممکن ھے وہ واقعہ اس سے پہلے کا ھو

عثمانیہ دور کے بعد بھی پرنالہ کی جگہ کی نشانی کو قائم رکھا گیا اس مقام پر سورۃ البقرہ کی آیات کریمہ تحریر کی گئی ہے ، جو اس واقعہ کی یاددہانی بھی کرواتی ہے اور درس بھی دیتی ہے

o وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَيْـرٍ يَّعْلَمْهُ اللّـٰهُ ۗ وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَيْـرَ الزَّادِ التَّقْوٰى ۚ وَاتَّقُوْنِ يَآ اُولِى الْاَلْبَابِ  

اور تم جو نیکی کرتے ہو اللہ اس کو جانتا ہے، اور زادِ راہ لے لیا کرو اور بہترین زادِ راہ پرہیزگاری ہے، اور اے عقل مندو!  مجھ سے ڈرو۔

جیسا کہ اوپر بیان ہوا مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی توسیع خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہوئی اور مسجد کی جگہ 2500 مربع میٹر کردی گئی تھی۔ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پہلی توسیع ساتویں صدی عیسوی میں ہوئی۔

سنہ 17 ھ کو دوسرے خلیفہ راشد عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں 1100 مربع میٹر کی مزید توسیع کرائی جس کے بعد مسجد کا کل رقبہ 3600 مربع میٹر تک پھیل گیا۔

سنہ 29 اور 30 ھ کے دوران تیسرے خلیفہ راشد حضرت عثمان بن عفان نے مسجد نبوی میں 496 مربع میٹر کی توسیع کرائی جس کے بعد مسجد نبوی 4096 مربع میٹر ہوگئی آپ نے ازواج مطہرات کے  تمام حجرے مسجد میں شامل کر لئےاموی دور حکومت میں خلیفہ ولید بن عبدالملک نے 88 تا 91ھ میں مسجد نبوی میں 2369 مربع میٹر کی جگہ مسجد نبوی میں شامل کرائی جس کے بعد مسجد کا احاطہ 6465 مربع میٹر ہوگیا۔

سنہ 161ھ میں عباسی خلیفہ مہدی نے 2450 مربع میٹر کا مزید رقبہ مسجد نبوی کا حصہ بنایا جس کے بعد مسجد 8 ہزار 915 مربع میٹر پر پھیل گئی۔

سن 888ھ کو سلطان اشرف قاتیبائی نے 120 مربع میٹر کی جگہ مسجد نبوی میں شامل کی اور مسجد 9053 مربع میٹر پر پھیل گئی۔ عثمانی خلیفہ سلطان عبدالمجید نے 1293 میٹر مسجد نبوی میں توسیع کرائی جس کے بعد مسجد کا رقبہ 10328 مربع میٹر تک جا پہنچا۔ یہ توسیع 1265ھ میں کرائی گئی تھی۔

گذشتہ چودہ صدیوں کے دوران مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم 1050 میٹر کی جگہ سے پھیل کر آج پانچ لاکھ مربع میٹرتک پہنچ گئی ہے  اس میں بہت  ذیادہ کام سعودی دور میں ھوا ھے 

صحابہ کرام کے زمانہ کا تمام مدینہ منورہ  اب مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور چاروں اطراف کے صحنوں میں آچکا ھے اور توسیع کا کام اب بھی جاری ھے اور ان شاء اللہ  قیامت تک جاری   رھے 



مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آٹھ  مبارک اور متبرک ستون 

یوں تو مسجد نبوی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چپہ چپہ نور فشاں ہے مگر ریاض الجنہ کے وہ آٹھ ستون جنھیں سنگ مرمر کے کام اور سنہری مینا کاری سے نمایاں کر دیا گیا ہے خاص طور پر قابل ذکر ہیں یہ آٹھ ستون روضہ انور  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مغربی دیوار کے ساتھ سفید رنگ کے ذریعہ ممتاز کیے گئے ہیں ۔

یعنی مسجد نبوی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ حصہ جو ریاض الجنہ کہلاتا ھے آٹھ مزین ستونوں پر مشتمل ہے جنہیں عربی زبان میں 'اساطین' کہا جاتا ہے۔ ان میں سے ہرستون کے جلی سنہرے حروف میں نام درج ہیں جن کے پس منظر میں ہرے رنگ کے سنہرے فریم بنائے گئے ہیں۔

ان ستونوں کے درمیان ھی " ریاض الجنۃ " ہے جس کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ "میرے گھر اور منبر کے درمیان مقام 'ریاض الجنۃ' ہے۔ یہاں آنے والے زائرین نماز اور نوافل کی ادائیگی کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ مسجد نبوی    صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے آٹھ ستون پرانے ناموں پر مشتمل ہیں۔ ان ستونوں کے ساتھ عہد نبوت  صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے کئی تاریخی واقعات وابستہ ہیں۔

ان ستونوں نے روضہ رسول صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم کے گنبدکو تھام رکھا ہے۔ عہد نبوت  صلی اللہ علیہ آلہ وسلم میں یہ ستون کھجور کے تنے پر مشتمل تھے جو بعد میں باقاعدہ تعمیراتی مواد سے بنائے گئے۔ 1440 سال کے دوران کھجور کے تنے سے بنائے گئے ستون پتھروں میں تبدیل ہوگئے۔

مسجد نبوی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے اساطین کے وہ نام جنہیں دور نبوت  صلی اللہ علیہ آلہ وسلم میں لیا جاتا تھا، آج بھی موجود ہیں۔ ان میں سے ہرایک ستون کے ساتھ کوئی واقعہ یا قصہ وابستہ ہے۔ ان کے نام سبز رنگ کی پلیٹ کے درمیان سنہری رنگ میں لکھے گئے ہیں۔


اسطوانہ المخلقہ /اسطوانہ الحنانہ

یہ ستون نبی پاک  صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے مصلیٰ شریف کی ایک علامت ہے جسے 'المطیبہ المعطرہ' بھی کہا جاتا ہے۔اس ستون کے پاس صحابہ کرام کی نماز تواتر کے ساتھ ملتی ہے۔ سلمہ بن اکوع کی روایت کے مطابق المخلقہ ستون محراب نبوی  (صلی اللہ علیہ آلہ وسلم ) شریف میں واقع ہے۔ اس پرجلی الفاظ میں 'اسطوانہ المخلقۃ' کے الفاظ درج ہیں۔ روایات کے مطابق یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم نوافل ادا فرمایا کرتے تھے۔

اسے استوانہ حنانہ بھی کہتے ھیں

صحیح بخاری میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ

نبی صلی اللہ علیہ والہ  وسلم جمعہ کے دن خطبہ کے وقت ایک درخت یا کھجور کے تنے کے پاس کھڑے ہوتے تھے۔ ایک انصاریہ نے پیش کش کی : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم   !کیاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک منبر نہ بنادیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جیسے آپ کی مرضی۔انصاری عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک منبر بنوا دیا۔ جمعہ کا دن آیاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرماہوئے تو وہ تنا بچے کی طرح چیخ چیخ کررونے لگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اترے اوراس تنے کو آغوش میں لے لیاتووہ اس بچے کی طرح ہچکیاں لینے لگاجسے بہلا کر چپ کرایاجارہاہو۔ تنے کارونا ، فراق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورذکر اللہ سے محرومی کی بناپر تھاجسے وہ پہلے قریب سے سنا کرتاتھا۔

(صحیح بخاری )

یہ ستون رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے جدائی کے غم میں اس طرح رویا جیسے اونٹ کا بچہ اپنی ماں کے کھو جانے پر روتا ہے - اونٹ کے بچے کے اس طرح رونے کو عربی میں ' حنانہ ' کہتے ہیں - اس رونے کی آواز صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی سنی مگر وہ حیران تھے کہ یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے - رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے جب اس کھجور کے تنے پر شفقت سے ہاتھ رکھا اور وعدہ فرمایا کہ وہ جنت میں ان کے ساتھ ہو گا تو اسے قرار آیا –

اس ستون کو ' استوانہ مخلقۂ ' اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس مبارک مقام پر ایک مرتبہ کسی شخص نے لا علمی میں تھوک دیا تھا اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس عمل کو ناپسند فرمایا تھا اس کے بعداس تنے کو صاف کر کے بے انتہا خوشبو لگائی گئی جس کی وجہ سے اسے ' استوانہ مخلقۂ ' بھی کہا جاتا ہے - عربی میں ' مخلقۂ ' خوشبو کو کہتے ہیں - یہ ستون مسجد نبوی  صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے ' ریاض الجنۃ ' میں محراب رسول صلی الله علیہ وسلم سے لگا ہوا ہے۔

یہ ستون آج بھی مسجد نبوی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم میں اسی نام سے موجود ہے جو محبت رسول  صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی یاد دلاتا ہے۔ کجھور کی ایک لکڑی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر محبت تھی لیکن ہم ان کے امتی کہلانے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر کتنا عمل پیرا ہیں۔

ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ صبح وشام غلامی رسول  صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کا نعرہ لگانا بھی ہمارا ایمان ہے لیکن اس سے پہلے غلامی کی حقیقت کو بھی سمجھنا ضروری ہے۔ غلام اپنی مرضی ، خواہشات کو آقا کے حکم پر قربان کردیتا ہے۔ سوچنے کا مقام ہے کہ کیا ہماری بھی یہی کیفیت ہے ؟؟

اگر یہی کیفیت ہے تو اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے ورنہ فکر پیدا کرنی چاہیے اور پختہ عزم کے ساتھ اپنی زندگی کو صحیح معنوں میں غلامی رسول  صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے قالب میں ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کیونکہ مسلمان کے لیے دنیا و آخرت کی ہر قسم کی کامیابیاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک تعلیمات ، آپ کی مبارک سنتوں پر چلنے میں ہے۔ اللہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی غلامی نصیب فرمائے۔ آمین یا رب العالمین


اسطوانہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا

یہ ستون منبر رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ، قبررسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور قبلہ کی طرف تیسرا ستون ھے یہ ستون مہاجرین کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مہاجرین یہاں پر جمع ہوتے تھے ۔

اسطوانہ عائشہ ؓ ریاض الجنہ کے وسط میں ہے۔یہی وہ ستون ہے جہاں آپ نے تحویل قبلہ کے چند دنوں بعد تک نماز پڑھائی ۔

سیرت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ تحویل قبلہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم یہاں پر نماز ادا فرماتےتھے۔اس کے بعد اپ  صلی اللہ علیہ والہ وسلم محراب کی طرف متوجہ ہوئے۔حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور ابن زبیر رضوان اللہ علیھم بھی وہاں پر نوافل ادا کرتے تھے۔

ایک مرتبہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری مسجد میں ایک ایسی جگہ ہے کہ اگر لوگوں کو وہاں نماز پڑھنے کی فضلیت کا علم ہو جائے تو وہ قرعہ اندازی کرنے لگیں (طبرانی)  

اس جگہ کی نشاندہی حضرت عائشہ صدیقہؓ نے فرمائی تھی اسی مناسبت سے اسے اسطوانہ عائشہ (رضی اللہ تعالی عنہا ) کہا جاتا  ہے



اسطوانہ ابی لبابہ/ اسطوانہ توبہ

یہ منبر کی طرف سے چوتھا، قبر  رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی  طرف سے دوسرا اور قبلہ کا تیسرا ستون ہے۔ اسے  ستون ابو لبابہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔بنی قریظہ کی جنگ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کی خلاف ورزی کے بعد ابو لبابہ نے خود کو اس ستون کے ساتھ باندھ دیا تھا۔ 

یہ انصاری صحابی تھے‘ بنو قریظہ کے علاقہ میں ان کے باغات تھے۔ آل اولاد بھی وہیں تھی‘ اسلام سے پہلے یہ بنو قریظہ کے حلیف تھے۔ اسلام لانے کے بعد بھی ان کے سابقہ تعلقات اور لین دین باقی رہا‘ یہودیوں نے غزوۂ خندق میں مسلمانوں کے ساتھ جو بد عہدی اور غداری کی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ غزوۂ خندق میں مسلمانوں کی فتح کا تصور بھی مشکل تھا‘ دس ہزار کا لشکر جرار جس نے یہودیوں کے ایماء پر مدینہ کا محاصرہ کر لیا تھا۔ مدینہ کی چھوٹی سی بستی جس کے بچوں‘ بوڑھوں‘ جوانوں‘ عورتوں کی کل تعداد پانچ ہزار سے زائد نہ تھی‘ اُسے صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے کفر کی ساری طاقتیں اتحادی بن کر جمع ہو گئی تھیں۔ یہ ایک معجزہ اور اللہ تعالیٰ کی خاص مدد تھی کہ مسلمان فتح سے ہمکنار ہوئے۔

دوران جنگ مسلمانوں کے ساتھ بد عہدی کرنا‘ حملہ آوروں کا ساتھ دینا‘ مسلمان عورتوں کے قلعے پر حملہ کا ارادہ کرنا‘ جنگ کی آگ بھڑکانا اور کافروں کو حملے پر اُکسانا معمولی جرائم نہ تھے کہ ان پر خاموشی اختیار کر لی جاتی۔ اللہ کے رسولؐ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خندق سے واپس آئے تو جبریل ؑ حاضر خدمت ہوئے‘ عرض کیا آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو ہتھیار رکھ دیئے ہیں مگر فرشتوں نے ابھی ہتھیار نہیں رکھے۔ اٹھیے اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ بنو قریظہ کا رخ کیجیے۔ آپؐ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فوراً اعلان کرایا کہ جو شخص ہمارا مطیع اور فرمانبردار ہے وہ عصر کی نماز بنو قریظہ میں پڑھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمؐ نے مدینہ کے انتظامی امور ابن ام مکتومt کو سونپے اور بنو قریظہ کے دیار میں ’’انا‘‘ نامی کنویں کے قریب قیام فرمایا۔ یہودیوں کے قلعوں کا محاصرہ شروع ہوا تو ان کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے سوا کوئی راستہ باقی نہ بچا‘ انہوں نے سوچا کہ ہتھیار ڈالنے سے پہلے کیوں نہ اپنے حلیفوں سے مشورہ کر لیں ممکن ہے معلوم ہو جائے کہ ہتھیار ڈالنے کا نتیجہ کیا ہو گا۔ انہوں نے مشورہ کے لیے اپنے پرانے حلیف ابو لبابہؓ کا انتخاب کیا‘ پھر اللہ کے رسولؐ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کی کہ انہیں ان کے پاس بھیج دیں تا کہ ان سے مشورہ کر سکیں۔ جب وہ وہاں پہنچے تو بنی قریظہ کے مرد ان کی طرف دوڑ پڑے اور عورتیں اور بچے ان کے سامنے دھاڑیں مار کر رونے لگے۔ ابو لبابہ نے ان کی حالت دیکھی تو  ان پر رقت طاری ہو گئی۔ یہود نے ان سے مشورہ کیا کہ کیا ہم ہتھیار ڈال دیں؟ انہوں نے کہا: ہاں‘ مگر ساتھ ہی حلق کی طرف اشارہ بھی کر دیا‘ مراد یہ تھی کہ ذبح کر دیئے جاؤ گے۔ وہ غیر ارادی طور پر ذبح کا اشارہ تو کر بیٹھے مگر فوراً ہی احساس ہوا کہ یہ اشارہ تو اللہ اور اس کے رسولؐ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ خیانت ہے۔ چنانچہ وہ بجائے اللہ کے رسولؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آنے کے سیدھے مسجد نبوی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہنچے اور اپنے آپ کو اس ستون کے ساتھ باندھ لیا جس کا ذکر مضمون کے شروع میں کیا ہے۔ انہوں نے کہا اب مجھے اللہ کے رسولؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کھولیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ جب میری توبہ قبول ہو گی تبھی میں اپنے آپ کو آزاد کروں گا‘ وہ مسلسل چھ دن اور چھ راتیں اسی ستون کے ساتھ بندھے رہے۔ ان کی بیوی نمازوں کے ا وقات میں انہیں کھول دیتیں اور نماز ادا کرنے کے بعد پھر باندھ دیتی تھیں

ابولبابہؓ کے اس واقعہ میں دوسرے بہت سے اسباق کے ساتھ ساتھ یہ سبق بھی موجود ہے کہ ایک شخص سے نادانی میں بلا ارادہ ایک فوجی راز افشا ہو گیا۔ اس غلطی کا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو علم نہ تھا۔ وہ چاہتے تو کسی کو اپنی غلطی کی ہوا بھی نہ لگنے دیتے مگر یہ قوت ایمانی تھی‘ اللہ تعالیٰ کا خوف اور یہ احساس تھا کہ میرا سمیع وبصیر اور دانائے قلوب پروردگار مجھے دیکھ رہا ہے۔ اسی احساس کے زیر اثر انہوں نے نہ صرف اپنی غلطی کا اعتراف کیا بلکہ اپنے لیے از خود سزا بھی تجویز کر لی اور اپنے آپ کو ستون کے ساتھ باندھ لیا۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں گناہ کے معترف اور نادم شخص کے لیے لوگوں کے دلوں میں ہمدردی اور محبت کے جذبات جوش مارنے لگتے ہیں۔ گناہ پر اصرار‘ فخر اور اس پر اڑے رہنا بدبختی کی نشانی ہے۔ سیدنا ابولبابہؓ کا معاملہ اور بھی اہم تھا۔ یہ اپنی قوم کے سرکردہ اور نمایاں افراد میں سے تھے‘ لہٰذا لوگوں کی دلی خواہش تھی کہ ان کی توبہ قبول ہو جائے۔ خود اللہ کے رسولؐ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی یہی چاہتے تھے‘ چنانچہ چھ راتیں گزرنے کے بعد صبح سویرے وحی نازل ہوئی۔

ہماری اماں جان سیدہ ام سلمہؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہنستے دیکھا تو عرض کرنے لگیں:

اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہمیشہ اسی طرح ہنساتا رہے۔

ارشاد ہوا کہ ابولبابہ کی توبہ قبول ہو گئی۔ اس وقت تک پردہ کے احکامات نازل نہیں ہوئے تھے۔ سیدہ ام سلمہؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اگر اجازت ہو تو میں ابولبابہ کو خوشخبری سنا دوں؟ ارشاد ہوا: ہاں اگر چاہو تو (سنادو)۔ وہ اپنے حجرے کے دروازے پر کھڑی ہو گئیں اور فرمانے لگیں: اے ابولبابہ! [ابشر فقد تاب اللہ علیک] ’’تمہیں مبارک ہو اللہ نے تمہاری توبہ قبول کر لی۔

ادھر صحابہ کرامؓ کو یہ خبر ملی تو وہ ابو لبابہ کو کھولنے کے لیے دوڑے چلے آئے۔ اب ذرا دنیائے محبت کی یہ ادا بھی ملاحظہ فرمائیں۔ انہوں نے فوراً صحابہ کو روک دیا۔ کہنے لگے کہ

اللہ کی قسم! اب تو مجھے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی اپنے دست مبارک سے آزاد فرمائیں گے۔

چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فجر کی نماز کے لیے نکلے تو  رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں خود اپنے دست مبارک سے کھولا اور آزاد فرما دیا۔


اسطوانہ السریر

یہ ستون روضہ رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کھڑکی سے متصل ھے۔ اس کے ساتھ ہی مشرق کی طرف  اسطوانہ توبہ ہے۔۔

رسول الله صلی الله علیہ وسلم رمضان المبارک میں اس مقام پر اعتکاف فرمایا کر تے تھے

روضہ اقدس صلی الله علیہ وسلم کے سر مبارک کی جانب موجود جالیوں  سے اندر حجرہ مبارک کی دیوار تھی اس میں ایک کھڑکی مسجد میں کھلتی تھی 

موجودہ جالیاں اصل دیوار سے اگے کی جانب بنائی گیی ہیں - اسلئے یہ کھڑکی  اب نظر نہیں آتی بعض تصاویر میں اس کھڑکی کو تمثیلا'' ان جالیوں میں دکھایا گیا ہے  لیکن اصل کھڑکی یقینا'' ان جالیوں سے اندر تقریبا'' چار فٹ کے فاصلے پر اصل حجرے کی دیوار میں موجود ہوگی جو اب نظروں سے اوجھل ہے - اس میں  ایک ستوں نظر آتا ہے جس پر '' اسطوانہ سریر '' لکھا ھوا ہے -

رسول الله صلی الله علیہ وسلم حالت اعتکاف میں مسجد النبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس مقام پر آرام کے لیے بستر لگا لیا کرتے تھے اور اسی مناسبت سے اس مقام پر ایک یادگاری ستوں بنا دیا گیا ہے جسے “اسطوانہ سریر '' کہتے ہیں -

مرقوم ہے کہ حالت اعتکاف میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم اس کھڑکی سے ٹیک لگ کر آرام فرماتے توام المومنین سیدہ بی بی عائشہ رضی الله تعالی عنہا حجرہ مبارک کے اندر سے آپ صلی الله علیہ وسلم کے سر مبارک میں تیل ڈال دیا کرتی تھیں اور بالوں میں کنگھی کر دیتی تھیں -

اسلئے آپ رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب رمضان مبارک میں اعتکاف کیا کرتے تھے تو سیدہ بی بی عائشہ کا حجرہ مبارک جو مسجد النبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بالکل متصل تھا اسکی دیوار کے ساتھہ آپ لیٹنے یا بیٹھنے کے لیے اپنی چٹائی بچھا لیا کرتے تھے -

الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم دن رات الله سبحان و تعالی کی عبادت میں مصروف رہتے - بوقت ضرورت دنیاوی مسائل بھی حل کرتے مگر زیادہ وقت الله تعالی کی عبادت میں ہی گزرتا - بعض اوقات ایسی صورتحال ہوتی کہ آپ صلی الله علیہ وسلم اس کھڑکی سے ٹیک لگا لیتے اور سیدہ بی بی عائشہ رضی الله تعالی عنہا حجرے مبارک کے اندر سے ہی آپ صلی الله علیہ وسلم کے مبارک بالوں کی آرائش کر دیتی تھیں - آپ صلی الله علیہ وسلم کے سر مبارک میں تیل لگا دیا کرتی تھیں -

اس ستون  کا نصف کرہ حجرے کے اندر اور نصف ریاض الجنہ میں ہے اور اس پر دائرہ بنا کر اسمیں '' '' اسطوانہ سریر '' لکھ دیا گیا ہے جس کے معنی ہیں بستر والا ستوں 


اسطوانہ الحرس

یہ ستون مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شمال میں اسطوانہ توبہ کے عقب میں واقع ہے۔ اس مقام پر صہابہ کرام  حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاسبانی کیا کرتے تھے حضرت علی ؓ اکثر  اس مقام پر نماز پڑھا کرتے تھے اور اسی جگہ بیٹھ کر سرکار دو عالم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاسبانی کیا کرتے تھے  اس لئے اس کو اسطوانہ علیؓ بھی کہتے ہیں -اس کے ساتھ باب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ۔ 


اسطوانہ الوفود

یہ ستون مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شمال  میں اسطوانہ الحرس کے پیچھے واقع ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ  والہ وسلم باھر سے آنے والے وفود سے ملاقات کے لیے یہاں تشریف فرما ہوتے تھے بعد میں یہ جگہ آپ کے صحابہ کرام کی مجلس کی وجہ سے بھی مشہور ہوئی۔


اسطوانہ مقام جبریل

یہ ستون مسجد نبوی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شمال مغربی کونے میں ہے۔ یہ ستون دیوار حجرہ میں بنایا گیا ہے۔ اس کےساتھ ہی باب فاطمہ ہے۔


اسطوانہ تہجد

یہ ستون مسجد کے شمال سےحجرہ حضرت فاطمہ کے عقب میں واقع ہے۔ اسی  حجرہ میں ایک محراب  بھی واقع ہے۔ اس کی بائیں جانب باب عثمان جسے 'باب جبریل' کا نام بھی دیا جاتا ہے موجود ہے۔ یہاں سے آنحضور  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک چھوٹی چٹائی لے کرنکلتے اور بیت علی کے عقب میں بچھا کرنماز ادا کرتے۔ زیادہ تر تہجد کی نماز یہاں پر ادا فرماتے۔ کسی صحابی نے اپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہاں تہجد ادا کرتے  ھوئے دیکھا تو انہوں نے بھی یہاں نماز  تہجد ادا کرنا شروع کردی دیکھا دیکھی یہاں اور کافی صحابہ جمع ھونے شروع ھو گئے تو ان کے بیٹھنے کے لئے ایک چٹائی منگوا لی گئی تاکہ صہابہ اطمینان سے نماز ادا کر سکیں لیکن  آھستہ آھستہ جب صحابہ  کافی زیادہ  جمع ھونے لگے اور  بیٹھنے کی گنجائش باقی نہ رھی تو پھر اس چٹائی کو لپیٹ دیا گیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صہابہ کے ھمراہ مسجد میں داخل ھو گئے



ریاض الجنة

مَا بَیْنَ بَیْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَة مِّنْ رِیَاضِ الْجَنَّة''

(رواه البخاري والمسلم)

"میرے منبر اور میرے گھر کے درمیان والی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے''۔

مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم میں جب آپ باب جبریلؑ سے داخل ہوں گے تو آپ کے بائیں ہاتھ  پر ایک حجرہ نظر آئے گا۔ یہ حضرت بی بی فاطمہؓ  کا گھر تھا۔ جب آپ اس کے سامنے سے گزر جائیں تو فوراً بعد بائیں ہاتھ پر مسجد نبوی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کا جو حصہ ہے یہ ریاض الجنۃ ہے، یعنی منبر ِ رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم اور حجرہ مبارک کے درمیان کا حصہ ریاض الجنہ کہلاتا ہے۔اسی مقام کی نسبت حدیث میں  یہ آیا ہے: 

‘‘ جو جگہ میرے گھر اور منبر کے درمیان ہے، وہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔’’


اس مقام کا یہ نام اس لئے پڑا کہ اس حدیث شریف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے  اس مقام کو جنت کا باغیچہ ارشاد فرمایا:

یعنی یہ جگہ حقیقت میں جنت کا ایک ٹکڑا ہے جو اس دنیا میں منتقل کیا گیا ہے اور قیامت کے دن یہ ٹکڑا جنت میں چلا جائے گا۔اسی ریاض الجنہ میں حضورِ پاک صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کا مصلیٰ مبارک بھی ہے ، جہاں آپ  صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کھڑے ہو کر امامت فرمایا کرتے تھے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے وصال کے بعد مُصلیٰ مبارک رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم جیسی متبرک جگہ کی تعظیم کو برقرار رکھنے کی غرض سے حضرت ابو بکر صدیق  ؓ نے حضور  صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی نماز پڑھنے کی جگہ پر، سوائے آپ  صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے قدم مبارک کی جگہ چھوڑ کر باقی جگہ پر دیوار بنوا دی تھی تاکہ آپ  صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے سجدہ کی جگہ لوگوں کے قدموں سے محفوظ رہے۔ اس جگہ آج ایک خوبصورت محراب بنی ہوئی ہے، جو محراب نبوی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کہلاتی ہے۔ ولید بن عبدالملک کے دور میں ولید کے حکم سے عمر بن عبدالعزیز نے جب مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی توسیع کی تو اس جگہ یہ محراب بھی بنوا دی۔چنانچہ اب اگر کوئی حاجی مُصلیٰ رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے سامنے کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو اس کا سجدہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے قدم مبارک صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی جگہ پڑتا ہے۔

اس وقت جو مقدس محراب بنی ہوئی ہے وہ 9فٹ سنگِ مرمرکے ایک ہی ٹکڑے کی ہے جس پر سونے کے پانی سے خوبصورت مینا کاری کی گئی ہے، دونوں جانب سرخ سنگِ مرمر کے بے مثال ستون بنے ہوئے ہیں۔ محراب کے اوپر سورہ  الاحزاب کی  56ویں  آیت لکھی ہوئی ہے جس میں درود شریف پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔

oاِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا

بے شک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ھیں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر.

اے ایمان والو تم بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجو.

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيد ، 

اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آل مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيد.🍃


خانہ کعبہ کے بعد مسجد نبوی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کو تمام زمین پر فضیلت حاصل ھے مگر اسکا وہ حصہ جسے '' ریاض الجنہ '' کہتے ہیں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے باقی حصوں سے بھی افضل ھے اسکی فضیلت کی وجہ یہ ھے کہ نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نماز پڑھانے کے لیے دن میں کم سے کم پانچ بار حجرہ مبارکہ سے نکل کر محراب تک تشریف لاتے تھے کیونکہ وہاں آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کا آنا جانا کثرت کے ساتھ تھا اسلئے وہ مقام جہاں آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے  مبارک قدم کثرت کے ساتھ لگے '' ریاض الجنہ '' کہلایا ، اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم فرماتے تھے میرے گھر اور منبر کے درمیان جو جگہ ھے وہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ھے 



مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محرابیں


محراب

محراب وہ جگہ ہے جہاں کھڑے ہو کر امام باجماعت نماز کی قیادت کرواتے ہیں۔

تیرہ سو سال سے زیادہ مدت کے اس سفر میں اسلامی حکمرانوں کی جانب سے مسجد نبوی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محرابوں کی تزئین و آرائش کا کام جاری رہا۔ ہر حکمراں کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ اس کا نام تاریخ میں کسی طور مسجد نبوی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خادم کی حیثیت سے باقی رہے

مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کئی محراب تھے اور ہیں جن میں چند مشہور محرابیں یہ ہیں:


محراب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

شروع میں رسول اکرمؐ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کوئی محراب نہیں تھی لیکن بعد میں جہاں آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھا کرتے تھے اسی جگہ ایک محراب تعمیر کی گئی جو مسلمانوں کے یہاں خاص احترام کی حامل ہے اور دیگر محرابوں کا تقدس بھی حقیقت میں اسی محراب کی وجہ سے ھےیہ محراب اصلی عمارت میں وہ ہے جہاں سے رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو کر نماز پڑھایا کرتے تھے۔ یہ محراب منبر کے نزدیک ہے جو اب روضہ مبارک اور مکبریہ ساتھ ہے جہاں سے اذان دی جاتی ہے۔

محراب نبوی ریاض الجنہ میں ، اذان کے مقام (مکبریۃ) کے قریب ترین واقع ہے۔ نماز کی پُکار کے لیے مکبریۃ کا وجود ، فرماں رواؤں کے دور سے لے کر آج تک قائم ہے۔

نبوی محراب اب اس پورے حصے پر محیط ہے جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو کر نماز پڑھایا کرتے تھے، صرف ان کے پاؤں مبارک کی جگہ محراب سے باہر ہے۔' 

سعودی محقق کے مطابق " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس جگہ قیام فرما کر نماز پڑھاتے تھے یا پڑھتے تھے وہاں محراب میں خلاء (پیٹ) نہیں ہوتا تھا۔ یہ جگہ معروف تھی جس پر عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے 88 ہجری کے بعد اس مقام پر محراب کے اندر خلاء (پیٹ) بنوا دیا"۔


محراب عثمانی

دوسری محراب عثمانی محراب ہے جسے ماضی قریب تک مسجد کے امام استعمال کرتے  رھے ہیں۔ یہ عثمانیہ دور میں مسجد کی توسیع کے دوران بنائی گئی تھی۔ یہ آخری مرتبہ تھی جب مسجد کو شمالی جانب سے وسیع کیا گیا تھا۔اس سلسلے میں تاریخ کے سعودی محقق کا کہنا ہے کہ " موجودہ محراب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی نسبت سے محرابِ عثمانی کہلاتی ہے۔ انہوں نے یہ محراب مسجد کی جنوبی سمت (قبلے کی جانب) تجدید کے دوران بنائی۔ اس سے قبل حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی جنوبی سمت تجدید کروائی تھی۔ مسجد نبوی کی جنوبی سمت صرف دو مرتبہ تجدید ہوئی ہے جو کہ خیلفہ دوم اور خلیفہ سوم کے دور خلافت میں ہوئی۔ محرابِ عثمانی وہ واحد محراب ہے جس میں مسجد نبوی شریف کے آئمہ کرام حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور سے لے کر ماضی قریب تک نماز پڑھاتے رہے ہیں"۔ کہا جاتا ھے کہ سعودی حکومت کے قیام کے وقت  مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں چھ محرابیں تھیں جس کے بعد اس نے تمام نمازیوں کو ایک محراب  یعنی محراب عثمانی پر متحد کرنے کا فیصلہ کیا تھا یہ محراب مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تیسری توسیع 29 ہجری میں محراب النبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاں  آپ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے دور مبارک میں امامت کروایا کرتے تھے )کی بالکل سیدھ میں بنایا گیا تھا ۔  

جہاں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ امامت کروایا کرتے تھے انہی کے نام مبارک کی نسبت یہ محراب، محراب عثمانی کہلاتی ہے ۔


محراب سلیمانی

تیسری محراب سلیمانی یا احناف محراب کہلاتی ہے اور اسے سلطان سلیمان نے حنفی امام کے نماز پڑھانے کے لیے بنوایا تھا  

محرابِ سلیمانی مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محرابوں میں سے ایک قدیمی محراب ہے۔ جسے عثمانی سلطان سلیمان عالیشان کی نسبت سے محرابِ سلیمانی کہا جاتا ہے۔

یہ محراب مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قدیمی محرابوں میں سے ایک ہے جو 908ھ مطابق 1502ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ اِس سے پہلے یہاں ایک سادہ سی قدیمی محراب تھی جسے طوغان شیخ نے 680ھ مطابق 1280ء میں تعمیر کروایا تھا۔ موجودہ محراب کو عثمانی سلطان سلیمان عالیشان نے 938ھ مطابق 1531ء میں تعمیر کروایا تھا۔ اِس کی تصدیق محراب کی پشت پر موجود کتابت سے بھی ہوتی ہے۔ عثمانی سلطان سلیمان عالیشان کی نسبت سے ہی اِس محراب کو محرابِ سلیمانی کہا جاتا ہے۔ سلطان سلیمان عالیشان کی تعمیر کے بعد اُس کے فرزند سلطان سلیم ثانی نے اِس محراب کی تزئین و آرائش کا کام کروایا۔ 1336ھ مطابق 1918ء میں عثمانی جرنیل فخری پاشا نے پہلی جنگ عظیم کے دوران دوبارہ اِس محراب کی مرمت کروائی تھی۔ 

سلطنت عثمانیہ کے زمانے میں چونکہ مذاہبِ اربعہ کے ائمہ کو اپنے اپنے فقہ کے مطابق مسجد نبوی میں باری باری نماز اداء کروانے کی اِجازت تھی اور فقہ حنفی کے امام اِس مقام پر امامت کرواتے تھے اور یہیں درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھتے تھے جس کی وجہ سے اِسے محراب الحنفی یا محراب الاحناف بھی کہا جاتا تھا۔ 

یہ محراب سفید سنگِ مرمر سے تعمیر کی گئی ہے جس میں جگہ جگہ سیاہ پتھروں کی ٹکڑیاں لگائی گئی ہیں جو اِس محراب کے حسن میں اِضافہ کرتی ہیں۔ علاوہ ازیں محراب پر خوبصورت خطاطی کے فن پارے بھی موجود ہیں جو کہ خالصتاً مسلم ترک فنِ خطاطی کی عکاسی کرتے ہیں۔

یہ محراب محراب نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مغربی جانب میں واقع ہے۔ موجودہ زمانہ میں اِس محراب میں سبز رنگ کے قالین بچھے رہتے ہیں۔

سعودی محقق کا کہنا ہے کہ " محراب ِ نبوی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا ریاض الجنہ کے دائیں جانب جو محراب ہے اس کا نام محرابِ سلیمانی ہے۔ یہ نویں صدی ہجری میں بنائی گئی جس کو بعض عثمانی خلفاء نے اہمیت دی۔ ابتدائی تین صدیوں میں اس کا کوئی وجود نہ تھا


محراب تہجّد

ستون تہجد کے ساتھ وہ مقام جہاں رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تہجد، عبادت اور شب بیداری فرماتے تھے، کی جگہ بعد میں رسول اکرمؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احترام اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد میں ایک محراب بنائی گئی جو محراب تہجد کے نام سے مشہور ہو گئی

محرابِ تہجد مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاریخی محرابوں میں سے ایک محراب ہے۔ یہ محراب موجود زمانے میں زائرین کی توجہ سے پوشیدہ رہتی ہے۔

یہ خوبصورت محراب مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں واقع دِیگر محاریب (محرابوں) کی نسبت چھوٹی ہے اور حجرہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا کی شمالی جانب کی دیوار کے وسط میں بنائی گئی ہے۔ موجودہ زمانے میں یہ محراب زائرین اور عام عوام کی نظر سے اوجھل ہے کیونکہ پیتل کی بنی ہوئی الماریاں شمالی جانب پوری دیوار کے ساتھ ساتھ رکھی ہوئی ہیں جن میں قران کریم کے نسخے موجود رہتے ہیں، اِسی لیے یہ محراب نظر نہیں آتی۔

یہ محراب اسطوانہ تہجد کے بدیل کے طور پر تعمیر کی گئی تھی  جو کہ مقصورہ کے اندر آ جانے کی وجہ سے عوام کی رسائی سے باہر ہوگیا تھا۔ اِس کے عین سیدھ میں سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے حجرہ کا اسطوانہ تہجد موجود ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ تہجد کے لیے مصلیٰ بچھایا کرتے تھے۔ جب صحابہ کرام کا ہجوم بڑھنے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا مصلیٰٔ تہجد یہاں سے اُٹھا لیا

اِس محراب کو اِس اصل مقام پر پہلی بار مصر کے سلطان سیف الدین قایتبائی نے تعمیر کروایا تھا۔ اِس پر یہ عبارت کندہ تھی: ’’ ھذہ متہجد النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘۔ سلطان عبد المجید اول کے عہدِ حکومت میں اِس محراب کی تزئین و آرائش اور مرمت کی گئی تھی


محراب  فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا

یہ محراب، محراب تہجّد کے جنوب حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا کے دولت سرا میں واقع تھی حضرت حسن فرماتے ہیں: "میری والدہ گرامی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا  کو ایک دفعہ شب جمعہ کو صبح تک محراب میں کھڑی ہو کر مومن مردوں اور عورتوں کیلئے نام لے کر دعا کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا 

اسی مناسبت سے یہ محراب فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا کہلاتی ھے موجودہ زمانے میں یہ محراب  

بھی زائرین اور عام عوام کی نظر سے اوجھل ہے


نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روضہ مبارک

رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا وصال ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ مبارک میں ہوا تھا اور وہیں آپ کی تدفین ہوئی۔ اس کے بعد پھر حضرت ابوبکر اور  حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہما بھی وہاں مدفون ہوئے۔ اس طرح روضہ شریف کے اندر اس وقت تین قبریں ہیں۔

یقینا روضۂ رسول  صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم وہ  مقام ہے، جو پوری دنیا کے مسلمانوں کے دلوں میں بستا ہے۔ کوئی مسلمان ایسا نہیں جس کے دل میں اس کی زیارت کی خواہش انگڑائی نہ لیتی ہو۔ 

دنیا بھر کے مسلمان مسجد نبوی شریف میں موجود روضہ مبارکہ کو انتہائی عقیدت اور محبت کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ روضہ مبارکہ  کی تاریخ کیا ہے اس میں وقتاً فوقتاً کیا کچھ تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں ؟حرمین شریفین کی انتظامیہ کی جاری کردہ تفصیلات  کے مطابق  روضہ مبارکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم  ،حضرت ابو بکر صدیق ؓاور حضرت عمر بن خطاب ؓ کی قبریں موجود ہیں ۔

روضہ مبارکہ جسے حجرہ نبویہ شریفہ کہا جاتا ہے ۔ اس میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم ام المؤ منین عائشہ صدیقہ ؓ کے ہمراہ رہا کرتے تھے ۔ اس کا دروازہ مسجد نبوی شریف کے اس حصے کی طرف کھلا کرتا تھا جسے جنت کی کیاری ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔ 

نبی کریم  صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم کا انتقال اسی حجرہ مبارکہ میں ہوا ۔صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے مشورہ کیا کہ آپ  صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم کو کہاں دفن کیا جائے ۔اس پر ابوبکر صدیق ؓ نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم کی ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ نبی کا مدفن وہی مقام ہوتا ہے جہاں اس کی روح قبض کی جاتی ہے ۔ ارشاد رسالت کی تعمیل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم کی تدفین اسی حجرہ مبارکہ میں ہوئی جہاں ان کی وفات ہوئی تھی ۔

یہ حجرہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا تھا۔وہ حجرہ مبارکہ کے شمالی حصے میں قیام پذیر رہیں ۔پھر جب ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو انتقال ہوا تو عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی اجازت سے ان کی تدفین بھی حجرہ مبارکہ میں رسول اللہ   صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم کے پہلو ہی میں کی گئی ۔رسول صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم  کی قبر اور ان کی رہائش کے درمیان کوئی دیوار یا رکاوٹ نہیں تھی ۔عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حجرہ مبارکہ میں ایک طرف تو ان کے شوہر اور دوسری جانب ان کے والد تھے لہٰذا حجاب کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔

عائشہ صدیقہ بتاتی ہیں کہ جب عمر فاروقؓ کا انتقال ہوا اور انہیں حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پہلو میں دفنایا گیا تو انہوں نے اپنی رہائش والے حصے اور قبروں کے درمیان پردے کا انتظام کر لیا کیونکہ عمر فاروق محرم نہیں تھے ان کی وفات کے بعد بھی میں نے اس بات کا لحاظ رکھا ۔ 

حرمین شریفین کی انتظامیہ کے مطابق حجرہ نبویہ صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم میں متعدد اصلاحات اور ترامیم ہوتی رہیں ۔ سب سے پہلی ترمیم عمر بن خطاب ؓ نے سن17ہجری میں کرائی ۔ انہوں نے درخت کے تنے کے بجائے حجرے کی دیوار بنوا دی تھی ۔

دوسری ترمیم الولید بن عبدالملک نے 91-88ھ کے دوران کرائی۔وہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم  شریف کی زیارت کیلئے آئے تھے ۔ اس موقع پر عمر بن عبدالعزیز نے حجرہ مبارکہ ازسرِ نو تعمیر کرایا ۔ اس میں سیاہ پتھر استعمال کئے گئے۔ حجرے کا رقبہ وہی رکھا گیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم کے زمانے میں تھا۔پھر حجرہ مبارکہ کے اطراف پنج گوشہ دیوار تعمیر کرائی اس کا مقصد یہ تھا کہ حجرہ مبارکہ اور خانہ کعبہ میں مماثلت نظر نہ آئے ۔ خانہ کعبہ مربع شکل کا ہے ۔ حجرہ مبارکہ کو 5کونوں والا صرف اس لئے بنایا گیا تاکہ اس کی شکل خانہ کعبہ سے مختلف رہے ۔

اللہ کے محبوب نبی آخر الزماں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک کے متعلق کئی کہانیاں مشہور ہیں۔ انٹرنیٹ پر کئی جعلی تصاویر گردش میں رہتی ہیں۔ انواع و اقسام کی قبروں کو قبر رسول صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم کے نام سے سوشل میڈیا پر شیئر کیا جاتا ہے۔ کبھی کسی آدمی کی تصویر اس دعوے کے ساتھ شیئر کی جاتی ہے کہ یہ خادم رسول ہیں اور قبر مبارک کی صفائی کی خدمت پر مامور ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے سب دعوے بے بنیاد اور مصنوعی ہیں۔

حقیقت کیا ہے؟ روضہ شریف کے اندر کیا ہے؟ کیا کوئی قبر مبارک تک رسائی رکھتا ہے؟ ان سب سوالوں کے جوابات  سعودی حکومت باضابطہ طور پر دے چکی ھے  اور اندرونی ہال کی تصاویر بھی شیئر کی گئی ہیں، جن سے سب من گھڑت باتوں کا قلع قمع ہوتا ہے۔

حقیقت یہ ھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی کوئی تصویر دنیا میں موجود نہیں ہے. اس لیے کہ گزشتہ ساڑھے پانچ صدیوں میں کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک تک نہیں جا سکا ہے۔ اور اس سے پہلے کیمرا موجود ہی نہیں تھا کہ اس کی کوئی تصویر ہوتی۔

وہ حجرہ شریف جس میں آپ صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم کے دو اصحاب کے قبریں ہیں، اس کے گرد ایک چار دیواری ہے، اس چار دیواری سے متصل ایک اور دیوار ہے جو پانچ کونوں  پر مشتمل ہے۔ یہ پانچ کونوں والی دیوار حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے بنوائی تھی۔ اور اس کے پانچ کونے رکھنے کا مقصد اسے خانہ کعبہ کی مشابہت سے بچانا تھا۔ اس پنج دیواری کے گرد ایک اور فصیل ہے۔ اس پانچ کونوں والی فصیل پر ایک بڑا سا پردہ یا غلاف ڈالا گیا ہے۔ یہ سب دیواریں بغیر دروازے کے ہیں، لہذا کسی کے ان دیواروں کے اندر جانے کا کوئی امکان موجود ہی نہیں ہے۔ روضہ رسول صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم کی اندر سے زیارت کرنے والے بھی اس پانچ کونوں والی دیوار پر پڑے پردے تک ہی جا پاتے ہیں۔

روضہ رسول صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم پر سلام عرض کرنے والے عام زائرین جب سنہری جالیوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو جالیوں کے سوراخوں سے انہیں بس وہ پردہ ہی نظر آ سکتا ہے، جو حجرہ شریف کی پنج دیواری پر پڑا ہوا ہے۔ اس طرح سلام پیش کرنے والے زائرین اور آنحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی قبر اطہر کے درمیان گو کہ چند گز کا فاصلہ ہوتا ہے لیکن درمیان میں کل چار دیواریں حائل ہوتی ہیں۔ ایک سنہری جالیوں والی دیوار، دوسری پانچ کونوں والی دیوار، تیسری ایک اور پنج دیواری، اور چوتھی وہ چار دیواری جو کہ اصل حجرے کی دیوار تھی۔

گزشتہ تیرہ سو سال سے اس پنج دیواری حجرے کے اندر کوئی نہیں جا سکا ہے سوائے دو مواقع کے۔ ایک بار 91 ہجری میں حضرت عمر بن عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ کے دور میں ان کا غلام اور دوسری بار 881 ہجری میں معروف مورخ علامہ السمہودی کے بیان کے مطابق وہ خود۔

ذہن میں رہے کہ نور الدین زنگی علیہ رحمہ والے واقعہ میں جو سیسہ پلائی دیوار بنائی گئی تھی وہ زمینی تھی اور وہ تقریبا 200 فٹ نیچے اور جو واقعہ میں پاؤں نظر آیا تھا وہ بھی سرنگ کے ذریعے نظر آیا تھا نہ کہ قبر مبارک کی طرف سے۔ بہرحال اس موقع پر بھی قبر کی زیارت ثابت نہیں۔

مسجد نبوی صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم میں قبلہ کا رخ جنوب کی جانب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ مبارک ایک  کمرے میں ہے۔ بڑے ہال کمرے کے اندر جانے کا دروازہ مشرقی جانب ہے یعنی جنت البقیع کی سمت ہے۔ یہ دروازہ صرف خاص شخصیات کے لیے کھولا جاتا ہے۔ اس دروازے سے اندر داخل ہوں تو بائیں جانب حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ تعالی عنہا کی محراب ہے۔ اس کے پیچھے ان کی چارپائی (سریر) ہے۔ محقق محی الدین الہاشمی کے حوالے سے بتایا کہ ہال کمرے میں روضہ مبارک کی طرف جائیں تو سبز غلاف سے ڈھکی ہوئی ایک دیوار نظر آتی ہے۔ 1406 ہجری میں شاہ فہد کے دور میں اس غلاف کو تبدیل کیا گیا۔ اس سے قبل ڈھانپا جانے والا پردہ 1370 ہجری میں شاہ عبد العزیز کے زمانے میں تیار کیا گیا تھا۔ مذکورہ دیوار 881 ہجری میں اُس دیوار کے اطراف تعمیر کی گئی جو 91 ہجری میں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے تعمیر کی تھی۔ اس بند دیوار میں کوئی دروازہ نہیں ہے۔ قبلے کی سمت اس کی لمبائی 8 میٹر، مشرق اور مغرب کی سمت 6.5 میٹر اور شمال کی جانب دونوں دیواروں کی لمبائی ملا کر 14 میٹر ہے۔

کہا جاتا ہے کہ 91 ہجری سے لے کر 881 ہجری تک تقریباً آٹھ صدیاں کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو نہیں دیکھ پایا۔ اس کے بعد 881 ہجری میں حجرہ مبارک کی دیواروں کے بوسیدہ ہو جانے کے باعث ان کی تعمیر نو کرنا پڑی۔ اس وقت نامور مورخ اور فقیہ علّامہ نور الدین ابو الحسن السمہودی علیہ رحمہ مدینہ منورہ میں موجود تھے، جنہیں ان دیواروں کی تعمیر نو کے کام میں حصہ لینے کی سعادت حاصل ہوئی۔

وہ لکھتے ہیں 14 شعبان 881 ھ کو پانچ دیواری مکمل طور پر ڈھا دی گئی۔ دیکھا تو اندرونی چار دیواری میں بھی دراڑیں پڑی ہوئی تھیں، چنانچہ وہ بھی ڈھا دی گئی۔ ہماری آنکھوں کے سامنے اب مقدس حجرہ تھا۔ مجھے داخلے کی سعادت ملی۔ میں شمالی سمت سے داخل ہوا۔ خوشبو کی ایسی لپٹ آئی جو زندگی میں کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم اورآپ  صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم کے دونوں خلفاء کی خدمت میں ادب سے سلام پیش کیا۔ مقدس حجرہ مربع شکل کا تھا۔ اس کی چار دیواری سیاہ رنگ کے پتھروں سے بنی تھی، جیسے خانہٴ کعبہ کی دیواروں میں استعمال ہوئے ہیں۔ چار دیواری میں کوئی دروازہ نہ تھا۔ میری پوری توجہ تین قبروں پر مرکوز تھی۔ تینوں سطح زمین کے تقریباً برابر تھیں۔ صرف ایک جگہ ذرا سا ابھار تھا۔ یہ شاید حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی قبر تھی۔ قبروں پر عام سی مٹی پڑی تھی۔ اس بات کو پانچ صدیاں بیت چکی ہیں، جن کے دوران کوئی انسان ان مہر بند اور مستحکم دیواروں کے اندر داخل نہیں ہوا۔

السمہودی نے اپنی کتاب میں حجرہ نبوی  صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ ”اس کا فرش سرخ رنگ کی ریت پر مبنی ہے۔ حجرہ نبوی صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم کا فرش مسجد نبوی صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم کے فرش سے تقریبا 60 سینٹی میٹر نیچے ہے۔ اس دوران حجرے پر موجود چھت کو ختم کر کے اس کی جگہ ٹیک کی لکڑی کی چھت نصب کی گئی جو دیکھنے میں حجرے پر لگی مربع جالیوں کی طرح ہے۔ اس لکڑی کے اوپر ایک چھوٹا سا گنبد تعمیر کیا گیا جس کی اونچائی 8 میٹر ہے اور یہ گنبد خضراء کے عین نیچے واقع ہے“۔

یہ سب معلومات السمہودی نے اپنی تصنیف  “وفاء الوفاء با اخبار دار المصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم“میں درج کی ہیں۔ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم حجرہ شریف اور قبر مبارک کے حوالے سے یہ کتاب سب سے مستند حوالہ ہے۔ اس کتاب میں مدینہ منورہ کی تاریخ سے متعلق تمام معلومات جمع کی گئی ہیں. علامہ السمہودی کی وفات 911 ہجری میں ہوئی۔ 881 ہجری یا 1477 عیسوی سے لے کر اب تک تقریباً ساڑھے پانچ سو سال کے عرصے میں کوئی انسان آنحضور صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت نہیں کر سکا ہے.


اصحابِ صفہ کا چبوترہ اور اصحاب صفہ

مسجد نبوی  صلی اللہ علیہ آلہ وسلم میں حجرۂ شریفہ کے پیچھے ایک چبوترہ بنا ہوا ہے۔  جسے اصحابِ صفہ کا چبوترہ کہا جاتا ھے یہ وہ جگہ ہے جہاں وہ مسکین وغریب صحابہ کرام قیام فرماتے تھے جن کا نہ گھر تھا نہ در، اور جو دن ورات ذکر وتلاوت کرتے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی صحبت سے مستفیض ہوتے تھے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اسی درسگاہ کے ممتاز شاگردوں میں سے ہیں۔ اصحاب صفہ کی تعداد کم اور زیادہ ہوتی رہتی تھی،کبھی کبھی ان کی تعداد ۸۰ تک پہونچ جاتی تھی۔ سورۃ الکہف کی آیت نمبر (۲۸) انہیں اصحاب صفہ کے حق میں نازل ہوئی، جس میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم  صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کو ان کے ساتھ بیٹھنے کاحکم دیا۔

اس چبوترے پر ساری مسجد نبوی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی طرح کھجور کی پتیوں سے ایک چھپر ڈال دیا گیا تھا۔ اس کو صفۃ المسجد کہا جاتا تھا جو بعد کو مختصر ہو کر ’’الصفّہ‘‘ کہلانے لگا


اصحاب صفہ

یہ حضرات اصحاب صفہ کہلاتے۔  یہ حضرات کم و بیش ہوتے رہتے تھے کبھی 70 اور کبھی200سے زیادہ گویا یہ مدرسہ نبوی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم تھا ان حضرات میں مشہور صحابہ کرام یہ ہیں ابو ذر غفاری،عمار ابن یاسر،سلمان فارسی،صہیب،بلال،ابوہریرہ،

عقبہ ابن عامر ،خباب ابن ارت،حذیفہ ابن یمان،ابو سعیدخدری،بشرابن خصاصہ،ابو موہبہ وغیرہم،انہی حضرات کے متعلق یہ آیت کریمہ نازل ہوئی"وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیۡنَ یَدْعُوۡنَ رَبَّہُمۡ"الخ۔[1]

صحابہ کرام کا ایک گروہ جو محض عبادت الہٰی اور صحبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی زندگی کا ماحصل سمجھتا تھا۔ یہ لوگ زیادہ تر مہاجرین مکہ تھے اور فقر و غنا کی زندگی بسر کرتے تھے۔ اسی چبوترا پر سوتے بیٹھتے تھے اور یہی لوگ اصحاب صفہ کہلاتے ہیں یہ چبوترہ ایک  نبوی درسگاہ تھی

اور جہاں کہیں تبلیغ و دعوت اسلام کی ضرورت ہوتی ان میں سے بعض‌حضرات کو بھیج دیا جاتا۔ قرآن شریف میں بھی ان لوگوں کی تعریف کی گئی ہے اور احادیث میں بھی ان کا ذکر تھا۔

صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ ابوہریرہ نے فرمایا میں نے ستر اصحاب صفہ کو دیکھا جن میں سے کسی ایک کے بدن پر بھی چادر نہ تھی‘ یا لنگی (تہ بند) تھی‘ یا کمبلی‘ جس کو گلے میں انہوں نے باندھ رکھا تھا۔ کسی کے آدھی پنڈلی تک تھی‘ کسی کے ٹخنوں تک۔ اپنے ہاتھ سے وہ اس کو سمیٹے رہتے تھے تاکہ عورت نہ کھل جائے۔

قتادہ کا بیان ہے کہ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ۔۔ سے اصحاب صفہ مراد ہیں جن کی تعداد سات سو تھی یہ سب نادار لوگ تھے اور رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) : کی مسجد میں فروکش تھے نہ کسی کی کھیتی تھی نہ دودھ کے جانور نہ کوئی تجارت‘ نمازیں پڑھتے رہتے تھے ایک وقت کی نماز پڑھ کر دوسری نماز کے انتظار میں رہتے تھے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا ستائش ہے اس اللہ کے لیے جس نے میری امت میں ایسے لوگ پیدا کر دیے جن کی معیت میں مجھے جمے رہنے کا حکم دیا۔

آنحضرت اپنے اہل بیت کے مقابلے میں ان کا حق مقدم سمجھتے تھے اور ان کو اپنے ساتھ کھانے میں شریک فرمایا کرتے تھے۔ ان میں سے بعض لوگ جنگل سے لکڑیاں کاٹ لاتے اور بیچ کر اپنی اور اپنے ساتھیوں کی ضرورت پوری کرتے۔ جولوگ شادی کر لیتے تھے وہ اس زمرے سے نکل جاتے تھے۔ حضرت بلال، ابوذرغفاری، زید بن خطاب اسی گروہ سے تھے اور ہر وقت رسول اللہ کی خدمت میں حاضری کے باعث زیادہ تر احادیث انہی سے مروی ہیں

علامہ سیوطی نے اصحاب صفہ کے ایک سو ایک نام گنائے ہیں (جو ان کو معلوم ہو سکے) اور ایک مستقل رسالہ میں ان حضرات کے اسماء گرامی تحریر فرمائے ہیں، محدث حاکم نے اپنی مشہور کتاب مستدرک میں چونتیس نام تحریر فرمائے ہیں، حافظ ابو نعیم نے حلیۃ الاولیاء میں 43 نام لکھے ہیں، حافظ ابن حجر کی تحریر کے موافق ابن عربی اور سلمی نے بھی ان حضرات کے اسماء گرامی جمع کیے ہیں 

محمد حاکم نے مستدرک میں جن حضرات اصحاب صفہ کے اسمائے گرامی درج کیے ہیں، وہ مندرجہ زیل ہیں :


(1) سلمان فارسی

(2) ابوعبیدہ ابن جراح

(3) عمار بن یاسر

(4) عبد اللہ بن مسعود

(5) مقداد بن الاسود

(6) خباب بن الارت

(7) بلال بن رباح

(8) صہیب بن سنان

(9) زید بن الخطاب(عمر فاروق کے بھائی)

(10) ابو کبشہ

(11) ابو مرثد الغنوی

(12) صفوان بن بیضاء

(13) ابو عبس بن جبر

(14) سالم مولی ابی حذیفہ

(15) مسطح بن اثاثہ

(16) عکاشہ بن محصن

(17) مسعود بن الربیع

(18) عمیر بن عوف

(19) عویم بن ساعدہ

(20) ابولبابہ بن عبد المنذر

(21) سالم بن عمیر

(22) ابو الیسر کعب بن عمرو

(23) خبیب بن یساف

(24) عبد اللہ بن انیس

(25) ابو ذر غفاری

(26) عتبہ بن مسعود

(27) ابو الدرداء

(28) عبد اللہ بن زید الجہنی

(29) حجاج بن عمرو الاسلمی

(30) ابو ہریرہ دوسی

(31) ثوبان مولیٰ محمد

(32) معاذ بن حارث القاری

(33) سائب بن خلاد

(34) ثابت بن ودیعہ

رضی اللہ تعالی عنھم




مسجد نبوی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم میں دور نبوت  صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی  چند یادگاریں

عازمین حج و عمرہ کی دیرینہ خواہش ہوتی ہے کہ مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد روضۂ اقدس  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کے ساتھ دور نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان یادگاروں سے بھی آشنا ہوں جو اب بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں یا  پھر اب موجود نہیں ھیں

   

تحویل قبلہ سے پہلے مصلئ رسول  صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کا مقام

اس مقام کی کوئی واضح نشانی تو موجود نہیں ھے لیکن کچھ صاجب علم لوگ یہ بتاتے ھیں کہ اگر اسطوانہ عائشہ سے صحن کی طرف آئیں تو اسی لائن میں اصحاب صفہ کے چبوترے کے بالمقابل یہ جگہ ھے یہاں ایک ستون ھے جو دوسرے ستونوں سے مختلف  بنا ھوا ھے یہی اس مقام کی نشانی ھے


مقام ایلا

یہ وہ مقام ھے جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے ازواج مطہرات سے ناراض ھو کر ایک ماہ قیام فرمایا تھا آپ  صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے زمانہ میں یہاں ایک بالا خانہ ھوا کرتا تھا جس میں آپ  صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے قیام فرمایا تھا جب آپ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم پر حاضری دینے جائیں تو حضرت عمر کی سلام  پڑھنے والی جگہ سے تھوڑا اگے جو دیوار ھے یہی مقام ایلا ھے


حضرت فاطمہ الزھراء  رضی اللہ عنھا کا گھر

مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں باب جبرائیل کے راستے داخل ہوں تو شمالی سمت  یعنی اصحاب صفہ کے چبوترہ کے بالکل سامنے خاتون جنت حضرت فاطمہؓ کا حجرہ ہے۔ یہ ان کا گھر تھا اسی حجرہ میں محراب فاطمہ اور اسطوانہ تہجد بھی واقع ھیں


حضرت ابوبکر صدیقؓ کا گھر

مسجد نبوی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کا گھر بھی تھا یہ مقام باب السلام کے بائیں طرف والے دروازہ پر ھے جب آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعمیر کرائی تو سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے گھر کی کھڑکی والی جگہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کنارے پر واقع تھی۔ ولید بن عبدالمالک کے دور میں جب مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں توسیع کی گئی تو اس کھڑکی کی یادگار کو قائم رکھنے کے لیے یہاں قرآن پاک رکھنے کی خاطر ایک کمرہ تعمیر کردیا گیا، حضرت ابوبکر صدیقؓ کی یادگار رکھنے کے لیے اس کمرے کو انہی کے  نام سے منسوب کردیا گیا۔ لہذا یہ دریچہ اب بھی موجود ہے، یہاں ”ھذا خوخہ ابوبکر صدیق” رضی اللہ  تعالی عنہ لکھا ھوا ہے۔


منبر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجدکی چھت کھجور کے تنوں پر تھی یعنی کھجور کے تنوں سے ستونوں کا کام لیا گیا تھا۔ نبی کریم   صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ ارشاد فرماتے تو ایک کھجور کے تنے کے سہارے کھڑے ہوجاتے۔ یہ تنا آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مصلیٰ کی دائیں جانب (اس وقت کی مسجد) کی دیوار سے متصل تھا، ایک انصاری صحابیہ  نے آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سہولت کے لیے گزارش کی ”اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا ہم آپ   صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ایک منبر نہ بنا دیں؟“

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس تجویز سے اتفاق فرمایا،توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے جھاؤ کے درخت سے تین سیڑھیوں والا منبر تیارکیا گیا۔ جب جمعۃ المبارک کا دن آیا تو آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تنے کی بجائے منبرکی طرف تشریف لے گئے۔ تو وہ تنا‘غم ِفراق میں بچے کی طرح چیخ چیخ کر رونے لگا۔

صحیح بخاری میں سیدنا جابربن عبد للہ ؓ سے روایت ہے کہ:”جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے تو وہ تنا بچے کی طرح چیخ چیخ کر رونے لگا۔ نبی کریم   صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر سے اُتر ے اور اس تنے کو آغوش میں لیاتو وہ اس بچے کی طرح ہچکیاں لینے لگا جسے چپ کرایا جا رہا ہو۔

مصنف ابن عبد الرزاق میں ہے کہ: معمر نے اہل مدینہ سے نقل کیا ہے کہ اس کھجور کے تنے کو مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی میں دفن کر دیا گیا، چنانچہ جس مقام پر دفن کیا گیا ہے وہاں پر ایک ستوں کھڑا کر دیا ہے، جسے   ”۔استوانہ حنانہ“ کہتے ہیں،جو ریاض الجنہ کے ستونوں میں سے ایک ستون ہے۔

شرح ترمذی میں ہے کہ:تین قوی روایتوں سے اس تنے کا دفن ہونا ثابت ہے۔(معارف السنن)


تاریخ منبرِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  

منبر 8ہجری میں بنایا گیا،اس کی لکڑی جھاؤ کی اور تین سیڑھیاں تھیں،یہ مصلیٰ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دائیں جانب تھا،اور اس کی لمبائی تین ہاتھ ایک بالشت تین انگلی تھی۔(عمدۃ القاری،زادالمعاد) 

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیسری سیڑھی پرتشریف فرماتے تھے اور پاؤں مبارک دوسری سیڑھی پر رکھتے تھے، حضرت ابوبکر صدیق  ؓکا جب زمانہ آیا تو حضرت ابوبکرؓ دوسری سیڑھی پر بیٹھتے اور پاؤں پہلی سیڑھی پر رکھتے تھے (ادباً آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام پر نہیں بیٹھتے تھے)حضرت عمر فاروق  ؓ کا جب زمانہ آیا تو حضرت عمر  ؓ پہلی سیڑھی پر بیٹھتے تھے اور پاؤں زمین پر رکھتے،اور خطبہ کے وقت پہلی سیڑھی پر کھڑے ہوتے تھے(دوسری سیڑھی کو ادباًچھوڑ دیتے تھے)۔

پھر حضرت عثمان غنی  ؓ کا زمانہ آیا تو کچھ عرصہ حضرت عثمان  ؓ حضرت عمر  ؓ کی طرح پہلی سیڑھی پر بیٹھتے اور خطبہ کے وقت اسی سیڑھی پر کھڑے ہوتے رہے،پھر انہوں نے منبر کے نیچے ایک سیڑھی کا اضافہ کیا اور اسی پر بیٹھتے تھے اور تینوں سیڑھیوں کو ادباً چھوڑ دیتے تھے۔(کشف الغمہ)

جب حضرت امیر معاویہ  ؓ اپنے زمانہ میں حج کو آئے تو انہوں نے منبر کی سیڑھیوں میں اضافہ کر دیا۔ لیکن اصل منبر نبوی کو اضافہ کے اوپر ہی رکھا گیا اس طرح بیٹھنے والی جگہ سمیت منبر کی نو سیڑھیاں بن گئیں۔

خلفاء ساتویں سیڑھی پر بیٹھتے تھے جو اصل منبر نبوی کی پہلی سیڑھی تھی۔ (جہاں سیدنا عمر ؓ بیٹھتے تھے)پھر منبر اسی حالت میں رہا حتیٰ کہ654ھ(1256ء)میں مسجد نبوی میں آگ لگنے کے واقعہ میں  یہ مبارک منبر جل گیا اور امت اس کی برکات سے محروم ہو گئی۔

اس کی جگہ یمن کے بادشاہ ملک مظفر کا بنوایا ھوا منبر رکھا گیا۔ منبر کی تبدیلی کئی دفعہ ہوئی۔ آخری منبر سلطان مراد ثالث عثمانی 998ھ میں بطور تحفہ بھیجا جو انتہائی خوبصورت  اور کاریگری کا بہترین نمونہ ہے۔ یہ منبر اب بھی مسجد نبوی میں موجود ہے۔(تاریخ مسجد نبوی شریف)،


  منبرکے بارے میں نبی  کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمودات

سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میرے گھر اور منبر کا درمیانی ٹکڑا جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے اور (قیامت کے دن)میرا منبر حوض (کوثر) پر ہوگا۔(بخاری، مسلم)

سیدنا جابر ؓ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان مروی ہے کہ: ”جو شخص میرے اس منبر کے پاس جھوٹی قسم کھائے گا،خواہ وہ قسم ایک تازہ مسواک ہی کے بارے میں ہو،وہ اپنا ٹھکانہ جہنم کی آگ میں بنائے گا (یافرمایا)اس کے لیے جہنم میں جانا لازم ہو جائے گا۔“

((سنن ابو داود))



مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دروازے

مسلم حکمرانوں نے اپنے اپنے عہد حکمرانی میں مسجد نبوی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس کے تاریخی مقامات کی تعمیر، توسیع اور تزئین  میں بھرپور حصہ لیا ہے. انہی میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دروازے بھی آتے ہیں جن کی تعداد آخری توسیع کے بعد 100 سے زیادہ ہوگئی ہے.

 اسلام کے ابتدائی دور میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تین دروازے تھے.

مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جنوب میں ایک دروازہ اس جانب تھا جہاں بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کی جاتی تھی. دوسرا دروازہ باب النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھا جو مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشرق میں تھا. اسے باب عثمان بھی کہا جاتا تھا پھر یہ باب جبریل کے نام سے مشہور ہوا. تیسرا دروازہ باب عاتکۃ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مغرب میں تھا اسے باب عاتکۃ اس وجہ سے کہا جانے لگا تھا کیونکہ یہ حضرت عاتکۃ بنت عبداللہ بن یزید بن معاویہ کے گھر کے قریب واقع تھا۔ ان دنوں یہ دروازہ باب رحمہ کے نام سے مشہور ہے۔

مسجد نبوی  صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم کے مشہور تاریخی دروازوں کا تعارف پیش خدمت ھے


باب جبریل

یہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشرق میں واقع ہے رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے حجرے سے اس دروازے کے راستے مسجد میں داخل ہوا کرتے تھے.

بیقی نے ” دلائل ” میں حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کی روایت سے لکھا ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں سے گزرا تو جبرئیل علیہ اسلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے میں نے سلام عرض کیا اور آگے گزر گیا جب میں واپس لوٹا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس تشریف لائے ، مجھ سے فرمایا : کیا تم نے انہیں دیکھا تھا جو میرے ساتھ تھے؟ میں نے عرض کی ہاں دیکھا تھا فرمایا وہ جبرئیل علیہ اسلام تھے انہوں نے تمہارے سلام کا جواب دیا تھا ، حضرت جبرئیل کی اس طرح تشریف آوری کی نسبت سے اس باب کو باب جبرئیل علیہ اسلام کہا جاتا ہے اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا دار الکبریٰ اسی باب کے سامنے تھا اسی نسبت سے اسے باب عثمان رضی اللہ عنہ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا تھا ، ،


باب النساء 

 یہ دروازہ خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطاب کے عہد میں قائم کیا گیا. اسے مسجد  میں خواتین کی آمد کے لیے مخصوص کیا گیا تھا.  اسے باب ریطہ کہا جاتا تھا

یہ ابو العباس سفاح کی بیٹی کا نام تھا یہ  ان کے گھر کے سامنے تھا اسی نسبت سےیہ باب ” باب ریطہ ” کی نسبت سے جانا جاتا تھا،

ابن زبالہ و یحییٰ کے مطابق حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسجد کی تعمیر فرما رہے تھے تو میں نے حضرت عمر رضی اللہ سے سنا ، فرمایا: یہ باب النساء ہے چنانچہ حضرت بن عمر رضی اللہ عنہ اپنے وصال تک اس میں سے نہیں گزرے یعنی یہ دروازہ عورتوں کے لیئے محصوص کردیا گیا تھا ، آج اسی نسبت سے یہ باب ” باب النساء” کہلاتا ہے ،


باب البقیع

اس باب سے عاشقان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دربار نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضری کے بعد باہر تشریف لاتے ہیں ، اس باب کے سامنے ایک گلی ہوا کرتی تھی جو سیدھا جنت البقیع کی طرف جاتی تھی اس نسبت سے یہ باب ” باب البقیع کہلاتا ہے ،


باب النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

اسے باب النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما کے حجرہ مبارکہ کے سامنے ہے جہاں حضور  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور موجود ہے یہ نام اسی بناء پر رکھا گیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں سے داخل ہوتے تھے جب مشرقی دیوار نئے سرے سے بنی تو اس وقت اس باب کو بند کر کے ایک کھڑکی کھول دی گئی ، باب البقیع سے باہر نکلیئے تو یہ کھڑکی بائیں جانب پڑتی ہے اور جب باہر سے آپ کھڑکی کے پاس کھڑے ہونگے تو سامنے حجرہ شریف ہوگا اس کھڑکی کے اوپر ایک پتھر پر یہ آیت کندہ ہے 

” إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ”۔


باب علی رضٰی اللہ عنہ

یہ دروازہ حضرت علی و حضرت فاطمہ الزہرہ رضی اللہ عنہما کے حجرہ کے مقابل تھا ، مشرقی دیوار کی جب تجدید ہوئی تو یہ دروازہ بھی بند کردیا گیا ، اور اس کی جگہ پر کھڑکی کھول دی گئی جو آج بھی موجود ہے ، باب جبرئیل علیہ اسلام سے باہر آیئں تو دائیں جانب جو پہلی کھڑکی پڑتی ہے وہ یہی کھڑکی ہے جو کبھی ” باب علی ” سے مشہور تھی


باب عبدالمجید

یہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شمال میں صدر دروازے کے برابر میں واقع ہے. سلطان عبدالمجید اول نے اس کا افتتاح کیا تھا اسی لیے ان سے منسوب ہے.


باب السلام

مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مغرب میں واقع ہے. یہ اس جگہ کے بالمقابل واقع ہے جہاں سے کھڑے ہوکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ و سلام پڑھا جاتا ہے.

خلیفہ دوم عمر بن خطاب  کے زمانے میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مزید تین دروازوں کا اضافہ کیا گیا. 

خلیفہ سوم عثمان بن عفان نے دروازوں کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں کیا البتہ عباسی خلیفہ المھدی (161-165 ھ) کے دور میں مسجد نبوی کے دروازوں کی تعداد چوبیس ہوگئی.

  آٹھ  دروازے مغرب کی جانب، آٹھ  مشرق کی جانب، چار شمال اور چار جنوب کی جانب بنائے گئے.

مملوکی سلاطین کے  زمانے میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیشتر دروازے بند کردیے گئے البتہ چار بڑے دروازے باب جبریل، باب النسا، باب السلام اورباب الرحمہ برقرار رکھے گئے.

مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پہلی سعودی توسیع کے موقع پر یہ چاروں دروازے برقرار رکھے گئے البتہ مشرق کی جانب باب الملک عبدالعزیز، مغرب کی جانب باب الملک سعود بنائے گئے.

علاوہ ازیں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شمال میں باب عثمان، باب عمر، مغرب کی جانب باب الصدیق کا اضافہ کیا گیا.


1408 ہجری میں مشرق کی جانب ایک اور دروازے کا اضافہ کیا گیا جسے باب البقیع کا نام دیا گیا –

شاہ فہد نے مسجد نبوی میں توسیع کرائی تو انہوں نے نئی عمارت میں دروازوں کا ا ضافہ کرکے تعداد 85 تک کردی.

1415 ہجری میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قدیم عمارت کے جنوب میں ایک دالان تعمیر کیا گیا جس میں سات دروازے بنائے گئے.

مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے  دروازوں میں اعلی درجے کی لکڑی استعمال کی گئی جو دنیا کے مختلف ممالک سے درآمد کی گئی.

مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی بھی دروازے میں کیلیں یا گلو کا استعمال نہیں کیا گیا. پھول بوٹے فرانس میں تیار کرائے گئے اور انہیں لگانے سے قبل سونے کا رنگ کیا گیا


مسجد نبوی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لائبریری

مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایک شاندار  اور پرکشش لائبریری قائم  ھے یہ لائبریری 1352 ہجری میں مدینہ منورہ کے ڈائریکٹر اوقاف کی تجویز پر قائم کی گئی تھی جس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت سی تبدیلیاں کی گئیں یہاں پر نادر اسلامی کتب کے نسخے رکھے گئے ھیں 

یہاں موجود کچھ کتابیں لائبریری کے قیام سے پہلے بھی مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں موجود تھیں، جیسے کہ 1320 ہجری میں مکتبہ شیخ محمد عزیز الوزیر۔ یہ ان کتابوں میں سے ہے جنھیں لائبریری کے قیام کے بعد یہاں متعارف کروایا گیا۔

مطالعے کے کمرے کے علاوہ لائبریری میں ڈپارٹمنٹ آف آڈیو لائبریری (سیکشن 17) ہے جس میں مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درس، خطبے اور عبادات کو محفوظ کیا جاتا ہے۔ 

ٹیکنیکل سیکشن (دروازہ 22) میں ھے جہاں مسودوں کی صفائی، بحالی اور جلد بندی کا کام کیا جاتا ہے۔

 نایاب کتابوں کو تاریخ اشاعت، آرائش، ساخت اور تصاویر کے اعتبار سے محفوظ کیا جاتا  ہے۔

لائبریری میں مندرجہ زیل دیگر سیکشنز بھی ھیں : 


مسودوں کا سیکشن، 

ڈیجیٹل لائبریری، 

تحقیق و ترجمہ، 

سیکیورٹی، 

گفٹس اینڈ ایکسچینج، 

سرکولیشن سیکشن ۔


مردوں، خواتین اور بچوں کے لیے مطالعے کے کمروں کی حامل لائبریری مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اندر بابِ عثمان رضی اللہ عنہ  کے دوسرے راؤنڈ میں ہے۔  

اسلامی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے یہ لائبریری کسی نعمت سے کم نہیں  اس کی خدمات سے تمام زائرین فائدہ اٹھا سکتے ہیں لہذا اگر مدینہ منورہ میں قیام کے دوران کچھ وقت اس لائبریری کے لئے بھی نکال لیا جائے تو ان شاء اللہ بہت فائدہ ھوگا


گنبد الخضراء

یہ وھی سبز گنبد  ھے  جو دنیا بھر کے مسلمانوں کا مرجع ، آنکھوں کا نور اور دل کا سرور یے ۔جس کے دیدار کے لئے ھر عاشق کا دل بیقرار اور آنکھیں اشکبار ھو جایا کرتی ھیں

 مسجد نبوی کا  یہ عظیم الشان سبز گنبد رسول کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق  رضوان اللہ علیھم کی قبورہائے مبارکہ پر واقع ہے۔ یہ گنبد اپنی خوشنمائی اور اپنے منفرد انداز تعمیر کے سبب اسلامی فن تعمیر کا ایک انوکھا شاہکار ہے۔ گنبد خضریٰ  دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے باعث عقیدت و احترام ہے۔

قبور  مبارکہ پر  قائم اس گنبد کی تاریخ مملوک سلطان سیف الدین قلاوون کے دور تک پہنچتی ہے جنہوں نے اسے1279ء بمطابق 678ھ میں پہلی مرتبہ تعمیر کروایا۔ یعنی اس سے پہلے اس  گنبد کا وجود نہیں تھا  اس وقت اصل ساخت میں لکڑی استعمال کی گئی تھی۔ہر نئے حکمران کی طرف سے بحالی کے کاموں کے وقت اسے سفید اور نیلا رنگ کیا جاتا رہا۔ 1481ء میں مسجد میں شدید آگ لگنے کے نتیجہ میں گنبد بھی جل گیا۔ گنبد کی دوباہ تعمیر کا کام مملوک سلطان قايتبای نے شروع کیا۔ اس مرتبہ ایسے حادثات سے بچاؤ کے لیے لکڑی کی بجائے اینٹوں کا ڈھانچہ بنایا گیا اور لکڑی کے گنبد کی حفاظت کے لیے سیسہ کا استعمال کیا گیا۔

سولہویں صدی میں عثمانی سلطان سلیمان اعظم نے گنبد کو سیسہ کی چادروں کے ساتھ مڑھوایا پھر 1818ء میں عثمانی سلطان محمود بن عبد الحمید نے اسے سبز رنگ کروایا اس کے بعد سے یہ ایسا ہی ہے۔


 گنبد کی مرحلہ وار تاریخ 

روضہ انور پر سب سے پہلا گنبد 678 ھ ( 1269) میں تعمیر ھوا اور اس پر ذرد رنگ کرایا گیا اور وہ  گنبد ذرقا یعنی پیلا گنبد کہلایا۔ پھر مختلف ادوار میں اس میں تغیر وتبدل ہوتا رہا۔

888 ھ  بمطابق 1483 ء میں کالے پتھر سے نیا گنبد بنایا گیا اور اس پر سفید رنگ کروایا گیا ۔ عشاق اس کو " گنبد بیضاء " یعنی سفید گنبد کہنے لگے ۔

980 ھ 1572 ء میں انتہائی حسین گنبد بنایا گیا اور اس کو رنگ برنگے پتھروں سے سجایا گیا ۔ اب اس کا ایک رنگ نہ رہا ۔ غالبا میناکاری کے دلکش وجاذب نظر منظر کے باعث وہ رنگ برنگا گنبد کہلایا ۔

1233 ھ 1818ء میں ازسرنو اس کی تعمیر کی گئی اور اس وقت اس پر سبز رنگ کیا گیا ۔ جو " القبتہ الخضراء " یعنی * سبز گنبد * کے نام سے مشہور ھوا ۔ اس کے بعد اب تک کسی نے اس میں ردوبدل نہیں کیا

سعودی عرب کے قیام کے بعد ملک عبدالعزیز رحمہ اللہ نے تمام مملکت میں قبور پر بنائی گئ ھر قسم کی عمارتوں کو ھٹانے کا حکم جاری فرمایا کیونکہ قبروں پر کسی بھی قسم کی تعمیر کرنا خلاف شریعت کام ھے ان کے حکم پر جنت المعلی اور جنت البقیع سمیت تمام مملکت میں تمام قبروں سے قباؤں وغیرہ کو ھٹا دیا گیا اس وقت یہ سوال سامنے آیا کہ گنبد خضراء کو بھی ھٹا دیا جائے یا جوں کا توں رھنے دیا جائے اس کے لئے دنیا بھر میں علماء کرام سے رجوع کیا گیا اس موقعہ پر حضرت مولانا شبیر آحمد عثمانی رحمہ اللہ نے زبردست دلائل دئے ان کے دلائل کی روشنی میں  اس گنبد کو جوں کا توں رھنے دیا گیا جو اب تک موجود ھے



مسجد نبوی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے  بلند وبالا اور دلکش مینار

اس میں کوئی شک نہیں کہ ھر وہ چیز جس کا تعلق کسی طرح بھی مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جڑ گیا ھے  وہ چیز زائرین کے لئے عقیدت اور دلکشی کا باعث ھے اسی طرح مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم /مدینہ منورہ کی زیارت کرنے والوں کے دلوں کو مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میناروں کا منظر  بھی بہت دلکش لگتا  ہے۔ یہ مینار اسلامی طرز تعمیر کا اظہار کرنے والے ایک اہم ترین مقام کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میناروں کو شہر کی ہر سمت سے دیکھا جا سکتا ہے۔

جلیل القدر صحابی حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلى الله عليه  وآلہ وسلم کے مبارک دور میں مدینہ منورہ میں پہلی مرتبہ اذان دی تھی۔ ابتدا میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ترین گھر کی چھت پر جا کر اذان دیا کرتے تھے۔ اس کے بعد بھی یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا یہاں تک کہ اموی خلیفہ الوليد بن عبد الملك کا دور آ گیا انہوں نے مدینہ منورہ کے لیے اپنے گورنر  حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کو ہدایت کی کہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وسیع کرنے کا کام شروع کیا  جائے۔ سو توسیع کا کام شروع ھوا تو  اس اضافے کے دوران ہی چار میناروں کی تعمیر ہوئی، جو مسجد کے ہر ایک کونے میں بنائے گئے تھے۔ یہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے تعمیر ہونے والے پہلے مینار تھے گویا مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میناروں کی تاریخ یہاں سے شروع ھوتی ھے۔ 

اگر اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ھے کہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بہتری کے حوالے سے بہت سے مواقع آتے رھے اور وقت کے حکمران اسے بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کرتے رھے تاھم سعودی عرب کے قیام تک  مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میناروں میں کوئی آضافہ نہیں ھوا  یعنی اس وقت تک مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مینار چار ھی تھے 

 مملکت سعودی عرب کے دور میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توسیع کے حوالے سےبہت کام کیا گیا تا کہ ہر سال زائرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کو قابو کیا جا سکے۔

سعودی  دور میں شاہ عبدالعزیز آل سعود نے 1370 سے 1375هـجری کے درمیان مسجد نبوی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پہلی مرتبہ ترمیم کی۔ اس دوران جنوبی سمت کے دو میناروں کو تو جوں کا توں باقی رکھا گیا جب کہ بقیہ میناروں کو ختم کر دیا گیا۔ شاہ عبدالعزیز نے ان کے بدلے شمالی سمت کے کونے میں 2 نئے مینار بنوائے۔ ان میں ہر ایک کی بلندی 70 میٹر تھی۔ ہر مینار 4 منزلوں پر مشتمل تھا۔

1406 سے 1414 ہجری کے درمیان بھی مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توسیع کا کام جاری رہا۔ اس دوران چھ دیگر مینار بھی تعمیر کیے گئے۔ ان میں ہر ایک کی بلندی 104 میٹر تھی۔ اس طرح مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میناروں کی مجموعی تعداد دس ہو گئی۔ نئے چھ میناروں میں سے چار شمالی سمت، پانچواں مینار جنوب مشرقی سمت اور چھٹا مینار جنوب مغربی سمت تعمیر کیا گیا۔

ہر مینار پانچ منزلوں پر مشتمل ہے۔ سب سے بالائی منزل کی چوٹی پر مخروطی شکل میں ایک تاج نظر آتا ہے۔ کانسی سے بنے اس تاج کی بلندی 6.7 میٹر ہے۔ اس پر  سونے کا پانی بھی چڑھایا گیا  ہے۔ سعودی حکومت کی جانب سے توسیع کا سلسلہ  وقتا فوقتا جاری رہا اور 1434 ہجری کے اواخر میں مسجد نبوی کی تاریخ کی سب سے بڑی توسیع دیکھنے میں آئی اس کا مقصد مسجد میں اور اس کے اطراف نمازیوں کی گنجائش 20 لاکھ تک پہنچانا تھا اس مقام کا حق پورا پورا ادا  ھو جائے یہ تو  ناممکنات میں سے ھے   تاھم اس حوالے سے سعودی حکمرانوں کی کوششیں  انتہائی قابل تعریف ھیں اللہ پاک مسجد نبوی کے لئے ان کاوشوں کو قبول فرمائے  آمین یا رب العالمین

(تمت بالخیر)





Share: