سن 1343 ہجری میں ملک عبدالعزیز آل سعود رحمة الله عليه نے حجاز مقدس کی سرزمین کو سعودی مملکت میں شامل کر لیا اس وقت اس تمام علاقے میں قبر پرستی عروج پر تھی ملک عبالعزیز رحمة الله عليه خود بھی ایک عالم دین تھے اور انتہائی نیک سیرت اور پکے توحید پرست حکمران تھے انھوں نے اپنے ملک سے قبر پرستی کی بیج کنی کا بیڑا اٹھایا اس سلسلے میں مقامی علماء سے بھی مشورے کا اھتمام کیا گیا مشورے کے بعد ملک عبدالعزیز رحمة الله عليه نے ملک بھر میں تمام قبور سے ھر قسم کی عمارتوں یعنی قباؤں وغیرہ کو ھٹانے کے لئے ایک فرمان جاری کیا اس فرمان پر پورے ملک میں عمل کروایا گیا اور تمام قبور پر بنی ھوئی ھر قسم کی تعمیر کو ھٹا کر قبروں کو کچی رکھنے کا اھتمام کیا گیا اور اس فرمان کے مطابق حرمین شریفین کے جنت المعلیٰ اور جنت البقیع کے صحابہ کرام کے مزاروں کے قبے بھی گرا دیئے گئے جس کی وجہ سے عام طور پر عالم اسلام کے مسلمانوں کی طرف سے سخت ناراضگی کا اظہار کیا گیا تو ملک عبدالعزیز رحمة الله عليه نے سن 1343ہجری کے حج کے موقع پر مکہ مکرمہ میں ایک عالمی مؤتمر منعقد کی جس میں دنیا بھر سے علماء کرام کو مدعو کیا گیا ہندوستان سے حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ، علامہ سید سلیمان ندویؒ، مولانا محمد علی جوہرؒ، مولانا شوکت علی ؒ اور دیگر علماء بھی اس میں شریک ہوئے ھندوستانی وفد کی قیادت علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ کر رھے تھے
ملک عبدالعزیز آل سعود رحمة الله عليه کی تقریر
اس موقعہ پر ملک عبدالعزیز آل سعود رحمة الله عليه نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا:-
(الف) چار اماموں کے فروعی اختلافات میں ہم مداخلت نہیں کرتے لیکن اصل توحید اور قرآن و حدیث کی اتّباع سے کوئی طاقت ہمیں الگ نہیں کر سکتی خواہ دنیا راضی ہو یا ناراض
(ب) یہود و نصاریٰ کو ہم کیوں کافر کہتے ہیں؟ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ غیر اللہ کی پرستش کرتے ہیں، لیکن ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ مَا نَعْبُدُھُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَآ اِلَی اللّٰہِ زُلْفیٰ (یعنی ہم ان کی پوجا و عبادت اللہ تعالیٰ کے تقرب و رضا حاصل کرنے کے لئے کرتے ہیں) تو جو لوگ بزرگان دین کی قبروں کی پرستش اور ان کے سامنے سجدے کرتے ہیں، وہ بت پرستی ہی کی طرح کافر و مشرک کے درجہ میں ہیں
(ج) جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو پتہ چلا کہ کچھ لوگ وادیٔ حدیبیہ میں شجرۃ الرضوان کے پاس جا کر نمازیں پڑھتے ہیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس درخت کو ہی کٹوا دیا کہ آئندہ خدا نخواستہ لوگ اس درخت کی پوجا نہ شروع کر دیں۔"
ملک عبدالعزیز رحمة الله عليه کا مطلب یہ تھا کہ قبے گرانا بھی درختِ رضوان کو کٹوانے کی طرح ہی ہے۔ ہندوستان کے علاوہ باقی ملكوں سے آئے هوئے تمام علماء نے بھی یہ طے کیا کہ ہماری طرف سے شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی دیوبندی رحمة الله عليه ملک عبدالعزیز آل سعود رحمة الله عليه کی تقریر کا جواب دیں گے۔
مولانا شبیر آحمد عثمانی رحمة الله عليه کی ایمان افروز تقریر
مولانا عثمانی رحمة الله عليه نے پہلے تو اپنی شاندار پذیرائی اور مہمان نوازی کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد فرمایا:-
(الف) ہندوستان کے تمام اہل سنت والجماعت علماء پوری بصیرت کے ساتھ تصریح کر کے کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اتباع پر پورا زور صرف کرتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مکمل اتباع میں ہی ہر کامیابی ہے لیکن کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مواقع استعمال کو سمجھنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ اس کے لئے صائب رائے اور صحیح اجتہاد کی اشد ضرورت ہے۔
1۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح فرمایا اور اس بات کا بالکل خیال نہ رکھا کہ دنیا کیا کہے گی۔ دوسری طرف خانہ کعبہ کو گرا کر بنائے ابراہیمی پر تعمیر کرنے سے نئے نئے مسلمانوں کے جذبات کا لحاظ کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رُک گئے تا کہ دنیا والے یہ نہ کہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خانہ کعبہ ڈھا دیا۔ دونوں موقعوں کا فرق حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجتہاد مبارک پر موقوف ہے۔
2۔ اللہ تعالی نے حکم دیا: جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنَافْقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْھِمْ (یعنی کفار و منافقین سے جہاد کرو اور ان پر سختی کرو)
ایک طرف تو اس حکمِ خداوندی کا تقاضا ہے کہ کفار و منافقین کے ساتھ سختی کی جائے اور دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کی نمازِ جنازہ پڑھا دی۔ پھر صحابہؓ نے عرض کیا کہ منافقین کو قتل کر دیا جائے مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بات منظور نہ فرمائی۔ خَشْیَۃً اَنْ یَّقُوْلَ النَّاسُ اَنَّ مُحَمَّداً یَّقْتُلْ اَصْحَابَہٗ (یعنی اس اندیشہ کے پیش نظر کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں، حالانکہ یہ دونوں باتیں” وَاغْلُظْ عَلَیْھِمْ” سے بظاہر مطابقت نہیں رکھتیں۔ تو اس فرق کو سمجھنے کے لئے بھی مجتہدانہ نظر کی ضرورت ہوتی ہے جو ہما و شما کے بس کی بات نہیں اور ایسے مواقع پر فیصلہ کرنے کے بڑے تفقّہ اور مجتہدانہ بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے کہ نَص کے تقاضے پر کہاں عمل کیا جائے گا اور کس طرح عمل کیا جائے گا۔ یہ تفقّہ اور اجتہاد کی بات ہے۔
(ب) سجدۂ عبادت اور سجدۂ تعظیم کا فرق بیان کرتے ہوئے مولانا عثمانی رحمة الله عليه نے فرمایا:
"اگر کوئی شخص کسی قبر کو یا غیر اللہ کو سجدۂ عبادت کرے تو وہ قطعی طور پر کافر ہو جاتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر سجدہ سجدۂ عبادت ہی ہو جو شرکِ حقیقی اور شرکِ جلی ہے، بلکہ وہ سجدہ تحیت بھی ہو سکتا ہے جس کا مقصد دوسرے کی تعظیم کرنا ہوتا ہے اور یہ سجدۂ تعظیمی شرکِ جلی کے حکم میں نہیں ہے۔ ہاں ہماری شریعت میں یہ بھی قطعاً ناجائز ہے اور اس کے مرتکب کو سزا دی جا سکتی ہے، لیکن اس شخص کو مشرک قطعی کہنا اور اس کے قتل اور مال ضبط کرنے کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ خود قرآن پاک میں حضرت آدم علیہ السلام کو فرشتوں نے سجدہ کرنے اور حضرت یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائیوں اور والدین کے سجدہ کرنے کا ذکر موجود ہے اور مفسّرین کی عظیم اکثریت نے اس سجدہ سے معروف سجدہ (زمین پر ماتھا رکھنا) ہی مراد لیا ہے اور پھر اس کو سجدۂ تعظیمی ہی قرار دیا ہے۔ بہرحال اگر کوئی شخص کسی غیر اللہ کو سجدۂ تعظیمی کرے تو وہ ہماری شریعت کے مطابق گناہ گار ہو گا، لیکن اسے مشرک ، کافر اور مباح الدم والمال قرار نہیں دیا جا سکتا اور اس بیان سے میرا مقصد سجدۂ تعظیمی کو جائز سمجھنے والوں کی وکالت کرنا نہیں بلکہ سجدۂ عبادت اور سجدۂ تعظیمی کے فرق کو بیان کرنا ہے۔ رہا مسئلہ قبّوں کے گرانے کا، اگر ان کا بنانا صحیح نہ بھی ہو تو ہم قبّوں کو گرا دینا بھی صحیح نہیں سمجھتے۔ امیر المؤمنین ولید بن عبد الملک عبشمی (اموی) نے حاکمِ مدینہ حضرت عُمر بن عبد العزیز عبشمی رحمة الله عليه کو حکم بھیجا کہ امہات المؤمنین کے حجراتِ مبارکہ کو گرا کر مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توسیع کی جائے، اور حضرت عمر بن عبد العزیز عبشمی رحمة الله عليه نے دوسرے حجرات کو گراتے ہوئے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا حجرہ بھی گرا دیا جس سے حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی قبریں ظاہر ہو گئیں تو اس وقت حضرت عمر بن عبد العزیز رحمة الله عليه اتنے روئے کہ وہ ایسے روتے کبھی نہ دیکھے گئے تھے۔ حالانکہ حجرات کو گرانے کا حکم بھی خود ہی دیا تھا ۔ پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے حجرے کو دوبارہ تعمیر کرنے کا حکم دیا اور وہ حجرۂ مبارکہ دوبارہ تعمیر ہوا۔
اس بیان سے میرا مقصد قبروں پر گنبد بنانے کی ترغیب دینا ھرگز نہیں بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ قبوراعاظم کے معاملے کو قلوب الناس میں تاثیر اور دخل ہے جو اس وقت حضرت عمر بن عبد العزیز رحمة الله عليه کے بے تحاشا رونے اور موجودہ وقت کے عالمِ اسلام کی آپ سے ناراضگی سے ظاہر ہے۔
(ج) حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نےدرخت کو اس خطرہ سے کٹوا دیا تھا کہ جاہل لوگ آئندہ چل کر اس درخت کی پوجا نہ شروع کر دیں۔ بیعت رضوان 6 ہجری میں ہوئی تھی اور حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصالِ پُر ملال 11 ہجری میں ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد خلیفہ اول کے عہد خلافت کے اڑھائی سال بھی گزر ے لیکن اس درخت کو کٹوانے کا نہ حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خیال آیا اور اور نہ صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کو۔ ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافتِ راشدہ قائم ہوئی۔ لیکن یہ بھی متعین نہیں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی دس سالہ خلافت کے کون سے سال میں اس درخت کو کٹوانے کا ارادہ کیا۔ گو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی صوابدید بالکل صحیح تھی لیکن یہ گنبد تو صدیوں سے بنتے چلے آ رہے تھے اور اس چودھویں صدی میں بھی کوئی آدمی ان کی پرستش کرتا ہوا نہیں دیکھا گیا۔
د) رہا وہاں نماز پڑھنا، تو حدیث ِ معراج میں آتا ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چار جگہ بُراق سے اُتر کر نماز پڑھوائی۔ پہلے مدینہ میں اور بتایا گیا کہ یہ جگہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت کی ہے، دوسرے جبلِ طور پر کہ یہاں اللہ تعالی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایا۔ پھر مسکن حضرت شعیب علیہ السلام پر اور چوتھے بیت اللحم پر جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی۔
(نسائی شریف، کتاب الصلوٰۃ)
1۔ پس اگر جبلِ طور پر حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نماز پڑھوائی گئی کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کلام کیا تھا تو جبل نُور پر ہم کو نماز سے کیوں روکا جائے کہ جہاں اللہ تعالیٰ کی پہلی وحی حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آئی تھی۔
2۔ مسکنِ شعیب علیہ السلام پر حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نماز پڑھوائی گئی تو کیا غضب ہو جائے گا جو ہم مسکنِ خدیجہ الکبری رضی اللہ تعالی عنھا پر دو نفل ادا کر لیں جہاں حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی مبارک زندگی کے اٹھائیس نورانی سال گزارے تھے۔
3۔ جب بیت اللحم (مولد حضرت عیسیٰ علیہ السلام) پر حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دو رکعت پڑھوائی گئی تو امت محمدیہ کیوں مولدِ نبی آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دو رکعت پڑھنے سے روکی جائے جبکہ طبرانی نے مقام مولد النبی آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اَنْفَسُ الْبَقَاعِ بَعْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامَ فِیْ مَکَّۃِ
مکہ مکرمہ میں مسجد حرام کے بعد مقام مولد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کائناتِ ارضی کا نفیس ترین ٹکڑا قرار دیا ہے۔
4۔ مسکنِ شعیب علیہ السلام پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پناہ لی تھی، تو اس جگہ آپ سے دو نفل پڑھوائے گئے تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑے گی جو ہم لوگ غارِ ثور جہاں حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین دن پناہ لی تھی، دو نفل پڑھ لیں۔
ملک عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ کا جواب
مولانا عثمانی رحمة اللہ علیہ کے اس مفصّل جواب سے شاہی دربار پر سناٹا چھا گیا۔ آخر ملک عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ نے یہ کہہ کر بات ختم کی کہ:
"میں آپ کا بہت ممنون ہوں اور آپ کے بیان اور خیالات میں بہت رفعت اور علمی بلندی ہے، لہٰذا میں ان باتوں کا جواب نہیں دے سکتا۔ ان تفاصیل کا بہتر جواب ہمارے علماء ہی دے سکیں گے۔ ان سے ہی یہ مسائل حل ہو سکتے ہیں۔"
علمائے نجد سے مناظره
پس ملک عبد العزیز رحمة اللہ علیہ کے سامنے ھی علمائے نجد سے مناظرہ ہوا۔ علمائے نجد نے اپنے دلائل پیش کئے۔ اس كے متعلق تمام حدیثیں پيش كيں اور تمام صحیح حدیثیں تھیں۔ مولانا شبیر احمد عثمانی رحمة اللہ علیہ نے ایک حدیث کو بنیاد بنا کر دو گھنٹے تك مناظرہ کیا۔وہ بخاری شریف کی ایک حدیث ہے دینائے کعبہ، اس میں حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے عائشہ (رضی اللہ تعالی عنھا )! یہ تیری قوم ابھی نئی نئی مسلمان ہوئی ہے، اگر تھوڑا زمانہ گزرا ہوتا تو میں بیت اللہ نئے سرے سے بناتا ہے۔ اس کا فرش نیچے لے جاتا، اس کے دو دروازے بناتا ، ایک داخلی اور ایک خارجی، میں حطیم اس میں شامل کر دیتا، لیکن مجھے خطرہ ہے کہ مسلمان بگڑجائیں گے۔اس حدیث کو مولانا شبیر احمد عثمانی رحمة اللہ علیہ نے بنیاد بنایا اور دو گھنٹے تک بات کی۔ علمائے نجد سر جھکا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ ملک عبد العزیز رحمة اللہ علیہ نے علمائے نجد سے کہا کہ اس ھندی کو جواب دو۔ اس وقت علمائے نجد نے کہا کہ ہمارے پاس اس کا کوئی جواب نہیں۔ پھر ملک عبد العزیز رحمة اللہ علیہ نے کہا کہ مولانا شبیر احمد عثمانی (رحمة اللہ علیہ )کے دلائل بالکل صحیح ہیں اسلئے اس سبز گنبد کو باقی رکھا جائے گا۔
سو گنبد خضراء پر حضرت مولانا شبیر آحمد عثمانی رحمة اللہ علیہ کے دلائل کی روشنی میں اس گنبد کو جوں کا توں رھنے دیا گیا جو اب تک موجود ھے
یہاں یہ بات بالکل عیاں ھے کہ مولانا شبیر آحمد عثمانی رحمة اللہ علیہ کے اخلاص اور ان کی علمی بصیرت نے گنبد خضراء کو گرنے سے بچا لیا جو قابل داد ھے لیکن ملک عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ کی ایمانی بصیرت بھی یقینا قابل داد ھے کہ جب ان کے سامنے حق واضح ھو گیا تو انھوں نے اسے اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنایا بلکہ اسے فورا قبول کرلیا یہی مؤمن کی شان ھے
اللہ پاک ان دونوں بزرگوں کو اس کا آجر عظیم عطا فرمائے
آمین یا رب العالمین