يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُـوٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًا بِجَهَالَـةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْـتُـمْ نَادِمِيْنَ (6)
اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہاے پاس کوئی سی خبر لائے تو اس کی تحقیق کیا کرو کہیں کسی قوم پر بے خبری سے نہ جا پڑو پھر اپنے کیے پر پشیمان ہونے لگو۔
مفسرین نے اس آیت کا شانِ نزول یہ بیان کیا ہے کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت ولید بن عقبہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو بنی مُصطلق سے صدقات وصول کرنے کے لئے بھیجا ،زمانۂ جاہلیَّت میں حضرت ولید بن عقبہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے اور بنی مُصطلق اکے درمیان دشمنی تھی، جب حضرت ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اُن کے علاقے کے قریب پہنچے اور اُن لوگوں کوخبر ہوئی تواس خیال سے کہ حضرت ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بھیجے ہوئے ہیں ، بہت سے لوگ ان کی تعظیم کے لئے ان کا استقبال کرنے آئے ، لیکن حضرت ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے گمان کیا کہ یہ پرانی دشمنی کی وجہ سے مجھے قتل کرنے آرہے ہیں ، یہ خیال کرکے حضرت ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ واپس ہوگئے اور سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ سے (اپنے گمان کے مطابق) عرض کردیا کہ حضور! ان لوگوں نے صدقہ دینے سے منع کردیا اور مجھے قتل کرنے کے درپے ہوگئے ہیں ۔ حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو حالات کی تحقیق کے لئے بھیجا،حضرت خالد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے دیکھا کہ وہ لوگ اذانیں کہتے ہیں ، نماز پڑھتے ہیں اور ان لوگوں نے صدقات بھی پیش کردیئے۔ حضرت خالد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ یہ صدقات لے کر خدمت ِاَقدس میں حاضر ہوئے اور واقعہ عرض کیا، اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی۔
حضرت ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ صحابی ہیں اور صحابہ میں کوئی بھی فاسق نہیں تھا:
یہ بھی یاد رہے کہ اس آیت میں بطورِ خاص حضرت ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو فاسق نہیں کہا گیا بلکہ ایک اسلامی قانون بیان کیا گیا ہے لہٰذا اس آیت کی بنا پر انہیں فاسق نہیں کہہ سکتے، جیسا کہ علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اس آیت کے نزول کا سبب اگرچہ حضرت ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا واقعہ ہے لیکن فاسق سے مرادبطورِ خاص حضرت ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نہیں ہیں کیونکہ آپ فاسق نہیں بلکہ عظیم صحابی ہیں
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : (اِس آیت کے پیش ِنظر کسی شخص کا) حضرت ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ پر فاسق کا اطلاق کرنابڑی خطا ہے کیونکہ انہوں نے وہم اور گمان کیا جس میں خطا کر گئے اور خطا کرنے والے کو فاسق نہیں کہا جاتا۔( تفسیرکبیر)
خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت کے نزول کا سبب اگرچہ حضرت ولید بن عقبہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا واقعہ ہی ہو،لیکن یہ نہیں ہے کہ آیت میں بطورِ خاص آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو ہی فاسق کہا گیا ہے ، ا س کی وجہ یہ ہے کہ (اس واقعے میں یا اس سے پہلے ان سے کوئی ایسا کام سرزَد نہیں ہوا جس کی بنا پر انہیں فاسق کہا جا سکے اور اس واقعے میں بھی انہوں نے بنو مصطلق کی طرف جو بات منسوب کی تھی وہ اپنے گمان کے مطابق صحیح سمجھ کر کی تھی اگرچہ حقیقت میں وہ غلط تھی اور یہ ایسی چیز نہیں جس کی بنا پر کسی کو فاسق قرار دیا جا سکے ۔
معاشرے کو امن کاگہوارہ بنانے میں اسلام کا کردار:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ دین ِاسلام ان کاموں سے روکتا ہے جو معاشرتی امن کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں اور وہ کام کرنے کا حکم دیتا ہے جن سے معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بنتا ہے ،جیسے مذکورہ بالا آیت میں بیان کئے گئے اصول کواگرہم آج کل کے دَورمیں پیش ِنظر رکھیں توہمارامعاشرہ امن کاگہوارہ بن سکتاہے کیونکہ ہمارے ہاں لڑائی جھگڑے اورفسادات ہوتے ہی اسی وجہ سے ہیں کہ جب کسی کوکوئی اطلاع دی جاتی ہے تووہ اس کی تصدیق نہیں کرتابلکہ فوراًغصہ میں آجاتاہے اوروہ کام کربیٹھتاہے جس کے بعد ساری زندگی پریشان رہتاہے ۔اسی طرح ہمارے ہاں خاندانی طورپرجوجھگڑے ہوتے ہیں وہ اسی نَوعیَّت کے ہوتے ہیں ۔چاہے وہ ساس بہوکامعاملہ ہویاشوہروبیوی کاکہ تصدیق نہیں کی جاتی اورلڑائیاں شروع کردی جاتی ہیں ۔
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ایک شخص اگر عادل ہو تو اس کی خبر معتبر ہے اورحاکم یک طرفہ بیان پر فیصلہ نہ کرے بلکہ فریقَین کا بیان سن کر ہی کوئی فیصلہ کرے اور غیبت کرنے والے اور چغل خور کی بات ہر گز قبول نہ کی جائے اور کسی کام میں جلدی نہ کی جائے ورنہ بعد میں پچھتانا پڑسکتا ہے۔
قرآن پاک اور آحادیث مبارکہ میں بیشتر مقامات پر سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کیے پھیلانے کی سنگینی کا ذکر کیا گیا ھے چنانچہ فرمان الہی ھے
وَإِذَا جَاء ہُمْ أَمْرٌ مِّنَ الأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُواْ بِہِ وَلَوْ ردُّوہُ إِلَی الرَّسُولِ وَإِلَی أُوْلِیْ الأَمْرِ مِنْہُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنبِطُونَہُ مِنْہُمْ ﴾․ (سورةالنساء:آیت83)
”اور جب ان لوگوں کو کسی امر کی خبر پہنچتی ہے، خواہ امن یا خوف، تو اس کو مشہور کر دیتے ہیں اور اگر یہ لوگ اس کو رسول کے اور جواُن میں ایسے امور کو سمجھتے ہیں ان کے اوپر حوالہ رکھتے تو اس کو وہ حضرات تو پہچان ہی لیتے ہیں جوان میں اس کی تحقیق کر لیا کرتے ہیں۔
وَلاَ تَقْفُ مَا لَیْْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ أُولئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْؤُولا
سورة بنی اسرائیل:آیت36)
”جس بات کا یقینی علم نہ ہو ( اٹکل پچو) اس کے پیچھے نہ ہو لیا کرو، (کیوں کہ) کان، آنکھ اور دل ان سب سے قیامت کے دن پوچھ گچھ ہو گی۔“
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَـرِىْ لَـهْوَ الْحَدِيْثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ بِغَيْـرِ عِلْمٍ وَّيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ اُولٰٓئِكَ لَـهُـمْ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ (6)
اور بعض ایسے آدمی بھی ہیں جو کھیل کی باتوں کے خریدار ہیں تاکہ بن سمجھے اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اس کی ہنسی اڑائیں، ایسے لوگوں کے لیے ذلت کا عذاب ہے
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو آدمی کوئی ایسی بات بیان کرے جس کے بارے میں وہ جانتا ہے کہ یہ جھوٹی ہے تو دو جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا وہ بھی ہے۔“
حضرت عمر فرماتے ہیں کہ مجھے اطلاع ملی کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کو طلاق دے دی ہے، اس وحشت ناک خبر کو سن کر میں اپنے گھر سے چل کر مسجد میں گیا، کچھ دیر وہاں توقف کیا تو کچھ لوگ وہاں بھی یہی باتیں کر رہے تھے یہ دیکھ کرمیں نے سوچا کہ اس خبر کی تحقیق کرنی چاہیے، میں اجازت لے کر حضور صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور دریافت کیا یا رسول الله ! کیا حضور نے اپنی بیبیوں کو طلاق دے دی؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ میں نے تعجب سے کہا: الله اکبر اور پھر مسجد کے دروازے پر آکر بلند آواز سے ندا کر دی کہ یہ خبر غلط ہے اور حضور صلی الله علیہ وسلم نے اپنی بیبیوں کو طلاق نہیں دی۔
حدود شرعیہ کے اندر رہ کر اخبار کی اشاعت مفید ہے
شمائل ترمذی میں (ایک لمبی حدیث میں)روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کی تلاش رکھتے تھے اور(خاص)لوگوں سے پوچھتے رہتے کہ (عام)لوگوں میں کیا واقعات ہورہے ہیں؟جواخبار حدود شرعیہ کے اندر ہوں ،سواس کا مفید ہونا اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ (بوادرالنوادر:694)
تحریر بھی تقریر کی طرح ہے
شرع میں تحریر کا حکم بمنزلہ تقریرکے اور مطالعہ کا حکم مثل استماع کے ہے، جس چیز کا تلفظ وتکلم اور استماع گناہ ہے ،ا س کا لکھنا اور چھاپنااور مطالعہ کرنا بھی گناہ ہے ۔تحریر کا حکم زبان کی طرح ہے، کیوں کہ قلم سے جو گناہ سرزد ہوگا وہ زبان کے اعتبار سے زیادہ سنگین ہوگا، کیوں کہ تحریری بات محفوظ ہوتی ہے ۔
کسی بات کا قلم سے لکھنا بعینہ وہی حکم رکھتاہے جو زبان سے کہنے کاہے،جس بات کا زبان سے ادا کرنا ثواب ہے اس کا قلم سے لکھنا بھی ثواب ہے اور جس کا بولنا گناہ ہے اس کا قلم سے لکھنا بھی گناہ ہے،بلکہ لکھنے کی صورت میں ثواب اورگناہ دونوں میں ایک زیادتی ہو جا تی ہے، کیوں کہ تحریر ایک قائم رہنے والی چیز ہے،مدتوں تک لوگوں کی نظر سے گزرتی رہتی ہے، اس لیے جب تک وہ دنیا میں موجود رہے گی اور لوگ اس کے اچھے یابرے اثر سے متاثر ہوتے رہیں گے اس وقت تک کاتب کے لیے اس کا ثواب یا عذاب جاری رہے گا۔(الطرائف والظرائف:9)
گناہ کی پردہ پوشی کرنا اشاعت سے افضل ہے
1.…حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کے ایک محرر نے ایک روزان سے بیان کیا کہ ہمارے بعض پڑوسی شراب پیتے ہیں،میرا خیال ہے کہ میں محکمہ احتساب(پولیس)میں ان کی اطلاع کردوں۔حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایسامت کرو، بلکہ ان کو سمجھاؤ اورڈراؤ۔ محرر نے عرض کیا کہ میں یہ سب کچھ کر چکاہوں،وہ باز نہیں آتے،اس لیے میں تو اب پولیس میں اطلاع کروں گا۔حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو،کیوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے:
من ستر عورة فکأنما أحیا موؤدة فی قبرھا․ (ابو داود، الترغیب والترھیب:4/103)
”جو شخص کسی کا عیب چھپاتا ہے وہ اتنا ثوا ب پاتا ہے جیسے کوئی زندہ درگور لڑکی کو دوبارہ زندہ کر دے“۔
2.…حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں:
”جو شخص اپنے بھائی کا عیب چھپائے،اللہ تعالیٰ اس کے عیوب قیامت کے دن چھپائیں گے اور جو شخص اپنے بھائی کے عیب کھولتا ہے،اللہ تعالیٰ اس کے عیب کھول دیتے ہیں،یہاں تک کہ اس کو گھر کے اندر بیٹھے ہوئے رسواکر دیتے ہیں۔“ (الترغیب والتر ہیب ص:104)
3.…رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بیہودہ بات کو چھوڑ نا ان چیزوں میں سے ہے،جو انسان کے اسلام کو آراستہ کر نے والی ہیں۔(مشکوٰة)
نیز ارشاد فرمایا:کسی انسان کے جھوٹے ہونے کے لیے اتنی ہی بات کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات بغیر تحقیق کے کر دے۔
4.…رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اپنے بھائی مسلمان کی مصیبت کے وقت خوشی ظاہر نہ کر،(ایسانہ ہو)کہ خداوند کریم اس پر رحم فرمائے اور تجھ کو اس میں گرفتار کرے۔(مشکوٰة)
5.…رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ چار باتیں مومن کی شان نہیں:1.طعن کرنا 2. لعنت کرنا 3. فحش بکنا 4. بدخو ہونا۔(مشکوٰة)
کسی مسلمان کا کوئی عیب یاگناہ مشاہدہ یا حجت شرعیہ سے بھی ثابت ہو جائے،تب بھی پردہ پوشی سے کام لے اور تنہائی میں اس کو سمجھائے،کیوں کہ یہی طرززندگی موثر ہے،لیکن یہ اس عیب کی بات ہے،جس میں کسی دوسرے کا ضررنہ ہو،لیکن اگر وہ عیب کسی کی حق تلفی اور اضرار کا سبب بنتا ہو تو اس کے تدارک کے لیے امکانی کوشش کرنا ضروری ہے،اس وقت پردہ پوشی کرنا درست نہیں۔
مضمون نگاری اور اخبار نویسی میں شرعی گرفت سے بچنے کا ایک زریں اصول
مضمون نگاری اور اخبار نویسی میں مذہبی جرائم اور شرعی گرفت سے بچنے کا سب سے بہتر ذریعہ اور جامع مانع اصول یہ ہے کہ جس وقت کسی چیز کے لکھنے کا ارادہ کرے،پہلے اپنے ذہن میں استحضار کرے کہ اس کا لکھنا میرے لیے جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز ثابت ہو تو قدم آگے بڑھائے،ورنہ محض لوگوں کو خوش کرنے کے لیے گناہ میں ہاتھ رنگ کر اپنی ناک نہ کاٹے،اگر خوداحکام شرعیہ میں پابند نہ ہو تو کسی ماہر سے استفتا کرنا ضروری ہے،ایک شرعی اجمالی قانون ہے،جو فقط اخبار نویسی میں نہیں،بلکہ ہر قسم کی تحریر میں،مسلمان کا مطمح نظر ہو نا چاہیے۔ (الطرئف والظرئف)
مسلمان پر کافروں کے ظلم کی خبر شائع کرنے کا شرعی طریقہ
اگر مسلمان پر کافروں کے ظلم کی خبر شائع کرنا ہوں جب تک اس ظلم کی نسبت کافروں کی طرف حجت شرعیہ سے ثابت نہ ہو،اس طرح شائع کی جائے کہ فلاں مقام کے مسلمانوں پر مظالم ہو رہے ہیں،مسلمان ان مظالم کا انسداد کریں اور جائز طریقہ پر ان کی جانی ومالی امداد کریں،کیوں کہ بعض اوقات کفار کے مظالم کو اخباروالے بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ (الطرئف والظرائف)
خلاف شرع مضامین کی اشاعت کا ایک زریں اصول
خلاف شرع مضامین اور عقائد باطلہ اول تو شائع نہ کیے جائیں اور اگر کسی ضرورت سے اشاعت کی نوبت آئے تو جس پرچہ میں وہ شائع ہوں، اسی میں ان کی تردید اور شافی جوابات بھی ضرور لکھ دیے جائیں ، آئندہ پرچہ پر اس کو حوالہ نہ کیا جائے ، کیوں کہ بہت سے آدمی وہ ہوتے ہیں ، جن کی نظر سے آئندہ پرچے نہیں گزرتے، خدانخواستہ اگر وہ اس سے کسی شبہ میں گرفتار ہو گئے تو اس کا سبب شائع کرنے والا ہو گا۔ (الطرائف والظرائف)
اگر کسی اخبار میں کوئی قابل تردید غلط مضمون کسی شخص کے نام سے طبع ہوا ہو تو اس کے جواب میں صرف اس پر اکتفا کیا جائے کہ فلاں اخبار نے ایسا لکھا ہے، اس کا جواب یہ ہے ۔ اس شخص کی ذات پر کوئی حملہ نہ کیا جائے ، کیوں کہ ابھی تک کسی حجت شرعیہ سے یہ ثابت نہیں ہوا کہ واقع میں یہ مضمون اسی شخص کا ہے ۔ ( الطرائف والظرائف)
حجت شرعیہ کے ثبوت کے بغیر کسی شخص پر جھوٹا الزام یا عیب جوئی کی خبر چھاپنا حرام ہے
جو خبر کسی شخص کی مذمت او رمصائب پر مشتمل ہو اس کو اس وقت تک ہر گز شائع نہ کیا جائے جب تک حجت شرعیہ سے اس کا کافی ثبوت نہ مل جائے۔ کیوں کہ جھوٹا الزام لگانا یا افترا باندھنا کسی کافر پر بھی جائز نہیں ، حجت شرعیہ کے لیے کسی افواہ کا ہونا یا کسی اخبار کا لکھ دینا ہر گز کافی نہیں ، بلکہ شہادت شرعیہ ضروری ہے۔ ( بوادر النوادر)
دور حاضر کے اخبارات کی خرابیاں
دورحاضر کے موجودہ تمام اخبارات کے صدہا تجربات نے اس بات کو ناقابل انکار کر دیا ہے کہ بہت سے مضامین اور واقعات اخبارات میں شائع ہوتے ہیں ، لیکن جس شخص کی طرف سے شائع کیے جاتے ہیں ،اس غریب کو خبر تک نہیں ہوتی اور یہ صورت کبھی تو قصداً کی جاتی ہے او رکبھی سہواً وخطا ہو جاتی ہے ، اس لیے اگر کسی اخبار میں کسی شخص کے حوالے سے کوئی مضمون یاو اقعہ نقل کر دیا جائے تو شرعا اس کو ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ ( الطرائف والظرائف)
حجت شرعیہ سے کسی کا عیب یا گناہ ثابت ہونے پر اس کی اشاعت جائز نہیں
کسی شخص کے عیب یا گناہ کا واقعہ اگر حجت شرعیہ سے بھی ثابت ہو جائے تب بھی اس کی شاعت اور درج اخبار کرنا جائز نہیں، بلکہ اس وقت بھی اسلامی فر ض یہ ہے کہ خیر خواہی سے تنہائی میں اس کو سمجھایا جائے ،اگر سمجھانے کو نہ مانے اور آپ کو قدرت ہو تو بالجبر ( یعنی ہاتھ سے ) اس کو روک دیں، ورنہ کلمہٴ حق پہنچا کر آپ اپنے فریضہ سے سبک دوش ہو جائیں۔ اس کی اشاعت کرنا اور رسوا کرنا علاوہ نہی شرعی کے تجربہ سے ثابت ہے کہ بجائے مفید ہونے کے ہمیشہ مضر ہوتا ہے ۔ (الطرائف والظرائف)
مظلوم کو ظالم کے عیب یاگناہ جو حجت شرعیہ سے ثابت ہو اس کی برائی علانیہ شائع کرنے کی اجازت
کسی مسلمان کا ایسا عیب یا گناہ جو حجت شرعیہ سے ثابت ہو کہ جس کا نقصان اپنی ذات کو پہنچتا ہے او ریہ اس سے مظلوم ٹھہرتا ہے تو پھر اس کی برائی کو علانیہ شائع کر سکتا ہے ، الله تعالیٰ برائی کے اعلان کو پسند نہیں فرماتے، مگر جس پر ظلم کیا گیا ہو ۔ ( وہ ظالم کے ظلم کا اعلان کرسکتا ہے۔) امام تفسیر مجاہد کہتے ہیں:
”اس آیت کی مراد یہ ہے کہ الله تعالیٰ اس کو پسند نہیں فرماتے کہ کوئی شخص کسی کی مذمت یا شکایت کرے ، لیکن اگر کسی پر ظلم ہو تواس کے لیے جائز ہے کہ ظالم کی شکایت کرے اور اس کے ظلم کو لوگوں پر ظاہر کرے۔“ (بوادر النوادر)
لیکن اس صورت میں بھی بہتر یہ ہے کہ عام اعلان واشاعت کے بجائے صرف ان لوگوں کے سامنے بیان کرے ، جواس کی داد رسی کر سکیں۔
جو واقعہ کسی مضرت یا مذمت وعیب جوئی پرمشتمل نہ ہو اس کی اشاعت جائز ہے
جو واقعہ یاخبر کسی شخص کی مذمت اور ضرر پر مشتمل نہ ہو اس کی اشاعت جائز ہے، مگر اس شرط سے کہ اس کی اشاعت کسی مسلمان کی خاص مصلحت یا عام مصالح کے خلاف نہ ہو اور جس میں ایسا احتمال ضعیف بھی ہو تو بجز ان لوگوں کے جوعقل اور شرع کے موافق اس معاملے کو ہاتھ میں لیے ہوئے ہوں، عام لوگوں پر اس کو ظاہر کرنا نہ چاہیے ، کیوں کہ ممکن ہے کہ اس کے نقصانات کی طرف خبر شائع کرنے والے شخص کی نگاہ تک نہ پہنچی ہو۔
اخبار پڑھنے کا شرعی طریقہ
اخبار میں عورت کی تصویریں کثرت سے شائع کی جاتی ہیں، اخبار پڑھتے وقت اس کا خیال رکھا جائے کہ عورت کی تصویر پر نگاہ نہ پڑے، تصویر پر ہاتھ رکھ کر صرف خبر پڑھ لی جائے، کیوں کہ تصویر سے نفس کو لطف اندوز ہونے کا موقع بہت ملتا ہے ، اجنبیہ عورت کو دیکھنے سے ڈر تو ہوتا ہے کہ وہ کہیں ناراض نہ ہو جائے ،گھورنے پر برا بھلا کہنا نہ شروع کر دے ، برخلاف اجنبیہ کی تصویر کے کہ اس سے التذاذ کی کوئی حد نہیں ہوتی۔
3... اخبارات میں قرآنی آیات یا ان کا ترجمہ بھی ہوتا ہے،بعض دکان دار اس کو ردی کے طور پر گاہکوں کو اس میں سوداڈال کر دیتے ہیں،جوشرعاً درست نہیں۔راستے میں اگر کوئی اخبارکا ٹکڑا، جس پر اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہو، زمین سے اٹھا کر کسی محفوظ جگہ رکھ دینا بہت ثواب ہے۔(جامع)
اخبار بینی میں بے اعتدالی
اخبار بینی کا مذاق اس درجہ پھیل گیا ہے کہ وہ مثل غذا ،بلکہ غذا سے بھی زیادہ ہو گیا ہے کہ کسی وقت بے غذا تو صبر بھی کر سکتے ہیں، مگر بدون اخبار بینی کے صبر نہیں آتا، اکثراس میں ایسا انہماک ہوا کہ کتب دینیہ کے مطالعہ کی طرف اصلاًالتفات یا اس کی ضرورت ذہن میں بھی نہیں رہی،اس شغف میں دین کا بھی نقصان ہے اور مال کا بھی نقصان ہے،آدمی دنیا میں ذخیرئہ آخرت جمع کرنے کے لیے آیا ہے،پس اصل کام اس کا شغلِ دینی ہے ،لیکن بضرورت اسے شغل دینی کی اعانت وتقویت کے لیے دنیوی مشاغل کی بھی اجازت دی گئی،بشرط اعتدال واباحت ۔پس اسی قاعدہ کو پیش نظر رکھ کر جوچیز اس دائرہ سے باہر ہو،اس سے مجتنب رہے اور اسی قاعدہ کی معرفت کے لیے کتب ورسائل کا پڑھنا اور علماء کی صحبت لازم ہے۔(بوادرالنوادر)
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَـرِىْ لَـهْوَ الْحَدِيْثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ بِغَيْـرِ عِلْمٍ وَّيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ اُولٰٓئِكَ لَـهُـمْ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ (6) ↖
اور بعض ایسے آدمی بھی ہیں جو کھیل کی باتوں کے خریدار ہیں تاکہ بن سمجھے اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اس کی ہنسی اڑائیں، ایسے لوگوں کے لیے ذلت کا عذاب ہے
سنی ہوئی بات آگے پھیلانا جھوٹ میں داخل ہے
کسی بھی شخص کے بارے میں کوئی بات بغیر تحقیق کے کہہ دینا یہ اتنی بڑی بیماری ہے جس سے پورے معاشرے میں بگاڑ اور فساد پھیلتا ہے، دشمنیاں جنم لیتی ہیں ، عداوتیں پیدا ہوتی ہیں ۔ اس لئے قرآن کریم یہ کہہ رہا ہے کہ جب بھی تمہیں کوئی خبر ملے تو پہلے اس خبر کی تحقیق کرلو، ایک حدیث شریف میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : کَفٰی بِالْمَرْئِ کَذِبًا اَنْ یُّحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ یعنی انسان کے جھوٹا ہونے کے لئے یہ بات کافی ہے کہ جو بات سنے اس کو آگے بیان کرنا شروع کردے ۔ لہٰذا جو آدمی ہر سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے آگے بیان کرنے لگے تووہ بھی جھوٹا ہے، اس کو جھوٹ بولنے کا گناہ ہوگا ۔ سوجب تک تحقیق نہ کرلو، بات کو آگے بیان نہ کرو۔
افسوس یہ ہے کہ آج ہمارا معاشرہ اس قبيح گناہ کے اندربري طرح ڈوبا ہوا ہے، ایک شخص کی بات آگے نقل کرنے میں کوئی احتیاط نہیں ، بلکہ اپنی طرف سے اس میں نمک مرچ لگا کے اضافہ کرکے اس کو آگے بڑھا دیا جانا ايك عام سي بات بن گئي هے۔ دوسرے شخص نے جب اس بات كو سنا تو اس نے اپنی طرف سے اور اضافہ کرکے آگے چلتا کردیا، بات ذرا سی تھی ، مگر وہ پھیلتے پھیلتے کہاں سے کہاں پہنچ گئی، اس کے نتیجے میں دشمنیاں ، عداوتیں ، لڑائیاں ، قتل و غارت گری اور نفرتیں پھیل رہی ہیں ۔ بہر حال ! قرآن کریم ہمیں یہ سبق دے رہا ہے کہ یہ زبان جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں دی ہے، یہ اس لئے نہیں دی کہ اس کے ذریعہ تم جھوٹی افواہیں پھیلاؤ اس لئے نہیں دی کہ اس کے ذریعہ تم لوگوں پر الزام اور بہتان عائد کیا کرو، بلکہ تمہارا فرض ہے کہ جب تک کسی بات کی مکمل تحقیق نہ ہوجائے، اس کو زبان سے نہ نکالو۔ افسوس ہے کہ آج ہم لوگ باری تعالیٰ کے اس حکم کو فراموش کئے ہوئے ہیں ، اور اس کے نتیجے میں ہم طرح طرح کی مصیبتوں کا شکار ہورہے ہیں ، اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ہمیں اس برائی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین یا رب العالمین