حضرت سلمان فارسی رضی اللّہ تعالٰی عنہ

حضرت سلمان فارسی رضی اللّہ تعالٰی عنہ

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مشہور اصحاب میں سے تھے۔ ابتدائی طور پر ان کا تعلق زرتشت مذ ہب سے تھا مگر حق کی تلاش ان کو اسلام کے دامن تک لے آئی۔ آپ کئی زبانیں جانتے تھے اور مختلف مذاہب کا علم رکھتے تھے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں مختلف مذاہب کی پیشینگوئیوں کی وجہ سے وہ اس انتظار میں تھے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ظہور ہو اور وہ حق کو اختیار کر سکیں۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللّہ تعالٰی عنہ کا مجوسی نام مابہ تھا،ان کے والد اصفہان کے ایک گاؤں جی کےرہنےوالےزمیندارتھے-باپ کوبیٹےسےازحد محبّت تھی-چونکہ آتش پرست تھےاس لئےآتشکدہ کی نگرانی انھیں کےسپرد تھی-حضرت سلمان بچپن سے مذہبی شوق رکھتےتھے،جب تک آگ کےپجاری رہےبڑی سختی سےآگ کو پوجا کئےاورکبھی آگ کو بجھنے نہ دیتےتھے
ایک دن باپ کوکسی ضروری کام سےگھرجانا پڑا،اوربیٹےکوکھیتوں کی دیکھ بھال کےلیےبھیج دیا،راستےمیں ایک گِرجا تھاجہاں عیسائی بڑےخشوع خضوع سےعبادت کررہےتھے-سلمان گرجےکےاندرچلےگئےاورلوگوں کوعبادت کرتےدیکھ کربہت متاثرہوئے-ان کی زبان سےنکلا کہ یہ مذہب ہمارے مذہب سے بہترہے کھیتوں کا خیال چھوڑکرعیسائیوں سےچند باتیں دریافت کیں، پھر پوچھا کہ اس مذہب کا سرِچشمہ کہاں ہے؟ جواب ملا ملک  

میں رات واپس گھر آیا تو گھر والوں نے مجھ سے پوچھا کہ تو تمام دن کہاں رہا؟ میں نے سارا قصہ سنایا۔ میرے باپ نے مجھے سمجھایاکہ بیٹا وہ دین اچھا نہیں، اچھا دین مجوسیت ہی ہے مگر میں اپنی رائے پر قائم رہا۔ باپ کو خدشہ ہو گیا کہ میں کہیں چلا نہ جاؤں تو باپ نے میرے پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر مجھے بند کر دیا۔ میں نے عیسائیوں کو پیغام بھیجا کہ جب شام سے سوداگر اور تاجر آئیں تو مجھے مطلع کریں۔ چنانچہ کچھ تاجر آئے تو انہوں نے مجھے مطلع کردیا۔ جب وہ واپس جانے لگے تو میں نے پاؤں کی بیڑیاں کاٹ ڈالیں اور ان کے ساتھ ملک شام چلا گیا۔

وہاں جاکر میں نے تحقیق کی کہ یہاں پر اس مذہبِ عیسائیت کا سب سے بڑا عالم کون ہے؟ تو لوگوں نے بتلایاکہ فلاں گرجے کا فلاں بشپ بڑا ماہر ہے۔ میں اس کے پاس چلا گیا اور بتایا کہ مجھے تمہارے دین میں رغبت ہے اور تمہارے پاس رہ کر تمہاری خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ اسنے منظور کرلیا مگر وہ اچھاآدمی نہ تھا، بہت بخیل اور زر پرست تھا۔ جو مال جمع ہوتا وہ اپنے خزانہ میں جمع کرلیتا اور غریبوں پر خرچ نہ کرتا۔ جب یہ مر گیا تو اسکی جگہ دوسرا راہب بٹھایا گیا۔ یہ اس سے بہتر تھا، دنیا سے بے رغبت تھا۔ میں اسکی خدمت میں رہنے لگا۔ جب اسکے مرنے کا وقت قریب آیا تو میں نےاس سے کہا کہ مجھے کسی کے پاس رہنے کی وصیت کرتے جاؤ! تو اسنے کہا کہ میرے طریقہ پر دنیا میں صرف ایک شخص ہے جو کہ ”موصل“ میں رہتا ہے، تم اس کے پاس چلے جانا۔ اس کے مرنے کے بعد میں موصل چلا گیا اور اس راہب کو سارا قصہ سنایا اور بتایا کہ میں تمہاری خدمت میں رہنا چاہتا ہو ں۔ اس نے منظور کرلیا۔ میں اسکی خدمت میں رہا۔ وہ بہترین آدمی تھا۔ جب اسکی بھی وفات ہونے لگی تو میں نے پوچھا کہ میں اب کہاں جاؤں؟ تو اس نے کہا کہ فلاں شخص ”نصیبین“ میں ہے، اس کے پاس چلے جانا۔

میں اسکے مرنے کے بعد نصیبین چلا گیا اور اس شخص کو اپنا قصہ سنایا، خدمت میں رہنے کی درخواست کی جو کہ منظور ہو گئی۔ وہ بھی اچھا آدمی تھا۔ جب اسکے مرنے کا وقت آیا تو میں نے اس سے پوچھا کہ میں اب کہاں جاؤں؟ اس نے کہا: ”غموریا“ میں فلاں شخص کے پاس چلے جانا۔ میں وہاں چلاگیا۔ وہاں بھی اس طرح قصہ پیش آیا۔ وہاں جاکر میں نے کام شروع کردیا اور میرے پاس چند ایک گائے اور کچھ بکریاں جمع ہو گئیں۔ جب اسکی بھی موت کا وقت قریب آیا تو میں نے اس سے پوچھا کہ اب میں کہاں جاؤں؟ تو اس نے کہا کہ اب زمین پر کوئی شخص ایسا نہیں جو کہ ہمارے طریقہ پر چل رہا ہوالبتہ نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے پیدا ہونے کا زمانہ قریب ہے، وہ دینِ ابراہیمی پر عرب میں پیدا ہوں گے، انکی ہجرت کی جگہ ایسی زمین ہے جہاں کھجوریں کثرت سے پیدا ہوتی ہیں، اس زمین کے دونوں جانب کنکریلی زمین ہے، آپ ہدیہ نوش فرمائیں گے اور صدقہ قبول نہ فرمائیںگے، ان کے دونوں شانوں (کندھوں) کے درمیان مہرِ نبوت ہوگی۔ اگر تجھ سے ہو سکے تو ان کی سر زمین پر پہنچ جا۔

اس کے مرنے کے بعد قبیلہ بنو کلب کے چند تاجر وہاں سے گزرے تو میںنے ان سے کہا کہ اگر تم مجھے اپنے ساتھ عرب لے چلو تو میں بدلہ میں تمہیں گائے اور بکریاں دے دوں گا۔ انہوں نے قبول کر لیا اور مجھے اپنے ساتھ مکہ مکرمہ لے آئے۔ میں نے گائے اور بکریاں ان کو دے دیں مگر انہوں نے مجھ پر یہ ظلم کیا کہ مجھے اپنا غلام ظاہر کیا اور مکہ مکرمہ میں بیچ دیا۔ بنو قریظہ کے ایک یہودی نے مجھے خرید لیا اور اپنے ساتھ مدینہ منورہ لے آیا۔ مدینہ منورہ پہنچتے ہی میں پہچان گیا کہ یہ وہی جگہ ہے جسکی نشاندہی غموریا کے پادری نے کی تھی۔ میں مدینہ میں رہتا رہا کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرما کر مدینہ طیبہ تشریف لے آئے۔

حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم قبا میں تشریف فرما تھے۔ اطلاع ملتے ہی جو کچھ میرے پاس تھا میں لے کر حاضر ہوگیا اور عرض کیا کہ یہ صدقہ کا مال ہے۔ تو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تناول نہ فرمایا اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ تم کھالو! میں خوش ہو گیاکہ ایک علامت تو پوری ہوئی۔ پھر مدینہ آگیا اور کچھ جمع کیا۔ پھر خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وقت حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم بھی مدینہ تشریف لا چکے تھے۔ میں نے کچھ کھجوریں اورکھانا پیش کیا اور عرض کیا کہ یہ ہدیہ ہے۔ تو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے تناول فرمایا۔ میں نے دل میں کہا کہ دوسری علامت بھی پوری ہوگئی۔ اسکے بعدمیں ایک مرتبہ پھر حاضر ہوا۔ اسوقت حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم بقیع میں کسی صحابی کے جنازے کے لیے تشریف فرما تھے۔ میں نے سلام کیا اور پشت کی طرف گھومنے لگا۔ آپ میری منشاء سمجھ گئے اور کمر سے چادر کو ہٹا دیا۔ میں نے مہر نبوت کو دیکھا اور جوش میں اس پر جھک گیا۔ اس کو چومتا رہا اور روتا رہا۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے سامنے آؤ میں سامنے آیا اور سارا قصہ سنایا۔

اس کے بعد اپنی غلامی میں پھنسا رہا۔ ایک مرتبہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے مالک سے مکاتبت کا معاملہ کر لو۔ میں نے اس سے معاملہ طے کیا اور بدلِ کتابت دو چیزیں مقرر ہوئیں۔ ایک یہ کہ چالیس اوقیہ سونا نقد (ایک اوقیہ چالیس درہم کا اور ایک درہم تین یا چار ماشہ کا ہوتا ہے) دوسری یہ کہ تین سو کھجور کے درخت لگاؤں اور انکی پرورش کروں اور پھل لانے تک ان کی خبر گیری کرتا رہوں۔

چنانچہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے کھجوریں لگائیں جو کہ اسی سال پھل لے آئیں اور اتفاق سے کسی جگہ سے سونا بھی آگیا۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (یعنی سلمان فارسی کو) مرحمت فرما دیا کہ جاؤ اور اس کو بدلِ کتابت میں ادا کردو۔ میں نے عرض کیا: حضرت! یہ کافی نہیں ہوگا، یہ تھوڑا ہے اور بدلِ کتابت کی مقدار بہت زیادہ ہے۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ جل شانُہ اسی سے پورا فرما دیں گے۔ چنانچہ میں لےکر گیا اور بدلِ کتابت اس میں سے دے دیا۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ آزاد ہوگئےاور

سرورِکائنات صلی اللّہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہنےلگے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں دس سے زیادہ آقاؤں کے پاس رہا ہوں۔







under completion
Share: