خانہ کعبہ کے بارے میں کچھ دلچسپ حقائق ۔
اس دنیا میں کوئی ایسی جگہ نہیں جو خانہ کعبہ کی طرح مقدس اور مرکزی حیثیت رکھتی ہو۔ یہ مقام سعودی عرب میں وادیِ حجاز میں واقع ہے- روزانہ ہزاروں افراد چوبیس گھنٹے خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہیں ۔ خانہ کعبہ کی مقدس تصاویر لاکھوں گھروں کی زینت ہیں اور کروڑوں مسلمان اس مقام کو اپنا قبلہ تسلیم کرتے ہوئے اس کی جانب رخ کر کے پانچ وقت کی نماز ادا کرتے ہیں۔ خانہ کعبہ مکعب کی شکل میں تعمیر ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخ کے آئینہ میں ایک انتہائی خاص مقام کا حامل بھی ہے۔ یہاں ہم خانہ کعبہ کے متعلق چند ایسے حقائق پیش کریں گے جن سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔
اس دنیا میں کوئی ایسی جگہ نہیں جو خانہ کعبہ کی طرح مقدس اور مرکزی حیثیت رکھتی ہو۔ یہ مقام سعودی عرب میں وادیِ حجاز میں واقع ہے- روزانہ ہزاروں افراد چوبیس گھنٹے خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہیں ۔ خانہ کعبہ کی مقدس تصاویر لاکھوں گھروں کی زینت ہیں اور کروڑوں مسلمان اس مقام کو اپنا قبلہ تسلیم کرتے ہوئے اس کی جانب رخ کر کے پانچ وقت کی نماز ادا کرتے ہیں۔ خانہ کعبہ مکعب کی شکل میں تعمیر ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخ کے آئینہ میں ایک انتہائی خاص مقام کا حامل بھی ہے۔ یہاں ہم خانہ کعبہ کے متعلق چند ایسے حقائق پیش کریں گے جن سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔
خانہ کعبہ کئی مرتبہ تعمیر ہو چکا ہے
خانہ کعبہ جس طرح آج ہمیں نظر آتا ہے یہ ویسا نہیں ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے دور میں دوبارہ تعمیر ہوا تھا۔ وقت کے ساتھ پیش آنے والی قدرتی آفات اور حادثات کی وجہ سے اس کو دوبارہ تعمیر کرنے کی ضرورت پڑتی رہی ہے۔ بیشک ہم سب جانتے ہیں کہ خانہ کعبہ کی دوبارہ تعمیر کا ایک بڑا حصہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی میں نبوت ملنے سے قبل ممکن ہو چکا تھا، یہ وہ وقت تھا جب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک بڑی خون ریزی کو اپنی دور اندیشی سے روکا تھا۔ ایک بڑے کپڑے میں ہجرِ اسود کو رکھ کر ہر قبیلے کے سردار سے اُٹھوایا تھا۔ اس کے بعد آنے والے وقت میں کئی مرتبہ خانہ کعبہ کی تعمیر ہوتی رہی ہے۔ آخر میں خانہ کعبہ کی تفصیل سے آرائش 1996 میں ہوئی تھی، جس کے نتیجے میں بہت سارے پتھروں کو ہٹا دیا گیا تھا اور بنیاد کو مضبوط کر کے نئی چھت ڈالی گئی تھی۔ یہ اب تک کی آخری بڑی تعمیر ہے اور اب خانہ کعبہ کی عمارت کو پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط تصور کیا جاتا ہے۔
خانہ کعبہ جس طرح آج ہمیں نظر آتا ہے یہ ویسا نہیں ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے دور میں دوبارہ تعمیر ہوا تھا۔ وقت کے ساتھ پیش آنے والی قدرتی آفات اور حادثات کی وجہ سے اس کو دوبارہ تعمیر کرنے کی ضرورت پڑتی رہی ہے۔ بیشک ہم سب جانتے ہیں کہ خانہ کعبہ کی دوبارہ تعمیر کا ایک بڑا حصہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی میں نبوت ملنے سے قبل ممکن ہو چکا تھا، یہ وہ وقت تھا جب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک بڑی خون ریزی کو اپنی دور اندیشی سے روکا تھا۔ ایک بڑے کپڑے میں ہجرِ اسود کو رکھ کر ہر قبیلے کے سردار سے اُٹھوایا تھا۔ اس کے بعد آنے والے وقت میں کئی مرتبہ خانہ کعبہ کی تعمیر ہوتی رہی ہے۔ آخر میں خانہ کعبہ کی تفصیل سے آرائش 1996 میں ہوئی تھی، جس کے نتیجے میں بہت سارے پتھروں کو ہٹا دیا گیا تھا اور بنیاد کو مضبوط کر کے نئی چھت ڈالی گئی تھی۔ یہ اب تک کی آخری بڑی تعمیر ہے اور اب خانہ کعبہ کی عمارت کو پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط تصور کیا جاتا ہے۔
اس کے دو دروازے اور ایک کھڑکی ہوا کرتی تھی
دوبارہ تعمیر کئے جانے سے قبل خانہ کعبہ کا ایک دروازہ اندر داخل ہونے کے لئے اور ایک باہر جانے کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ ایک زمانہ تک خانہ کعبہ میں ایک کھڑکی ہوا کرتے تھی۔ خانہ کعبہ کی جو شکل آج موجود ہے اُس میں صرف ايك دروازہ ہے کھڑکی نہیں۔
دوبارہ تعمیر کئے جانے سے قبل خانہ کعبہ کا ایک دروازہ اندر داخل ہونے کے لئے اور ایک باہر جانے کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ ایک زمانہ تک خانہ کعبہ میں ایک کھڑکی ہوا کرتے تھی۔ خانہ کعبہ کی جو شکل آج موجود ہے اُس میں صرف ايك دروازہ ہے کھڑکی نہیں۔
خانہ کعبہ کے مختلف رنگ
ہم لوگوں نے خانہ کعبہ کو ہمیشہ کالے رنگ کی کسواہ اور سونے کے دھاگوں میں دیکھنے کی ایسی عادت ہو چکی ہے کہ ہم اس کو کسی اور رنگ میں تصور بھی نہیں کر سکتے، یہ روایت عباسد (جن کے گھر کا رنگ کالا تھا) کے دور سے چلی آ رہی ہے اور لیکن اس سے قبل خانہ کعبہ مختلف رنگ کے غلاف سے ڈھکا رہتا تھا ان رنگوں میں ہرا ، لال اور سفید رنگ شامل ہیں۔
ہم لوگوں نے خانہ کعبہ کو ہمیشہ کالے رنگ کی کسواہ اور سونے کے دھاگوں میں دیکھنے کی ایسی عادت ہو چکی ہے کہ ہم اس کو کسی اور رنگ میں تصور بھی نہیں کر سکتے، یہ روایت عباسد (جن کے گھر کا رنگ کالا تھا) کے دور سے چلی آ رہی ہے اور لیکن اس سے قبل خانہ کعبہ مختلف رنگ کے غلاف سے ڈھکا رہتا تھا ان رنگوں میں ہرا ، لال اور سفید رنگ شامل ہیں۔
خانہ کعبہ کی چابیاں ایک خاندان کی تحویل میں ہیں
فتح مکہ کے وقت، نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو خانہ کعبہ کی چابیاں دی گئی تھیں لیکن بجائے اس کے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم یہ چابیاں اپنے پاس رکھتے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ چابیاں بنی شائبہ خاندان کے عثمان بن طلحہٰ کو واپس کر دیں۔ اُس وقت سے آج تک وہ ان چابیوں کے روایتی رکھوالے ہیں اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے نادر الفاظ کی روشنی میں یہ چابیاں ہمیشہ اُن کے پاس ہی محفوظ رہیں گی۔ ’’ اے بنی طلحہٰ، یہ چابیاں روزِ قیامت تک تیری تحویل میں رہیں گی، سوائے اس کے کہ زور زبردستی تجھ سے غیر اخلاقی طریقے سے چھین لی جائیں۔
فتح مکہ کے وقت، نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو خانہ کعبہ کی چابیاں دی گئی تھیں لیکن بجائے اس کے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم یہ چابیاں اپنے پاس رکھتے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ چابیاں بنی شائبہ خاندان کے عثمان بن طلحہٰ کو واپس کر دیں۔ اُس وقت سے آج تک وہ ان چابیوں کے روایتی رکھوالے ہیں اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے نادر الفاظ کی روشنی میں یہ چابیاں ہمیشہ اُن کے پاس ہی محفوظ رہیں گی۔ ’’ اے بنی طلحہٰ، یہ چابیاں روزِ قیامت تک تیری تحویل میں رہیں گی، سوائے اس کے کہ زور زبردستی تجھ سے غیر اخلاقی طریقے سے چھین لی جائیں۔
پہلے خانہ کعبہ عوام کے لئے کُھلا رہتا تھا
پہلے خانہ کعبہ ہفتہ میں دو مرتبہ عوام کے لئے کُھلا ہوتا تھا اور کوئی بھی خانہ کعبہ کے اندر داخل ہو کر عبادت کر سکتا تھا لیکن موجودہ زمانے میں زائرین کی تعداد زیادہ ہونے اور دوسری وجوہات کی بنأ پر خانہ کعبہ کو اب سال میں صرف دو مرتبہ کھولا جاتا ہے اور اس میں صرف اعلیٰ شخصیات اور خاص مہمان ہی صرف داخل ہوسکتے ہیں۔
پہلے خانہ کعبہ ہفتہ میں دو مرتبہ عوام کے لئے کُھلا ہوتا تھا اور کوئی بھی خانہ کعبہ کے اندر داخل ہو کر عبادت کر سکتا تھا لیکن موجودہ زمانے میں زائرین کی تعداد زیادہ ہونے اور دوسری وجوہات کی بنأ پر خانہ کعبہ کو اب سال میں صرف دو مرتبہ کھولا جاتا ہے اور اس میں صرف اعلیٰ شخصیات اور خاص مہمان ہی صرف داخل ہوسکتے ہیں۔
خانہ کعبہ کے آس پاس تیراکی کی جا سکتی تھی
خانہ کعبہ کے وادی کے نچلے حصہ میں ہونے کی وجہ سے دیگر مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ تھا کہ جب بارش ہوا کرتی تھی تو وادی میں سیلاب آ جاتا تھا- یہ مکہ جیسے شہر کے لئے کوئی انوکھی بات نہیں تھی لیکن یہ بات دوسرے مسائل کی وجہ بنتی تھی- اس وقت یہاں سیلاب کی روک تھام اور نکاسی آب کا نظام موجود نہیں تھا۔ بارش کے آخری دنوں میں خانہ کعبہ پانی میں آدھا ڈوبا رہتا تھا۔ کیا اس وجہ سے طوافِ کعبہ رُکا؟ ہرگز نہیں۔ مسلمان کعبہ کے ارد گرد تیراکی کرکے خانہ کعبہ کا طواف جاری رکھتے تھے۔
خانہ کعبہ کے وادی کے نچلے حصہ میں ہونے کی وجہ سے دیگر مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ تھا کہ جب بارش ہوا کرتی تھی تو وادی میں سیلاب آ جاتا تھا- یہ مکہ جیسے شہر کے لئے کوئی انوکھی بات نہیں تھی لیکن یہ بات دوسرے مسائل کی وجہ بنتی تھی- اس وقت یہاں سیلاب کی روک تھام اور نکاسی آب کا نظام موجود نہیں تھا۔ بارش کے آخری دنوں میں خانہ کعبہ پانی میں آدھا ڈوبا رہتا تھا۔ کیا اس وجہ سے طوافِ کعبہ رُکا؟ ہرگز نہیں۔ مسلمان کعبہ کے ارد گرد تیراکی کرکے خانہ کعبہ کا طواف جاری رکھتے تھے۔
تزئین و آرائش کروانے والے حکمرانوں کے نام کی تختی
کئی سال تک بہت لوگ اندازہ لگاتے رہے کہ خانہ کعبہ اندر سے کیسا نظر آتا ہے؟ دوسری اور تیسری معلومات کے ذریعے کے مطابق وہ لوگ خوش نصیب ہیں جن کو خانہ کعبہ کے اندر داخل ہونے کی سعادت ملی اور ایک خوش نصیب وہ ہے جس کو تصویر بنانے کا موقع ملا اور لاکھوں لوگوں نے یہ تصویر انٹرنیٹ پر آن لائن دیکھی۔ خانہ کعبہ کا اندر کا حصہ سنگِ مرمر اور ہرے رنگ کے کپڑے سے ڈھکا ہوا ہے۔ جس دور کے حکمران نے خانہ کعبہ کی دوبارہ آرائش کروائی اس نے خانہ کعبہ کے اندر اپنے نام کی تختی بھی لگوائی
کئی سال تک بہت لوگ اندازہ لگاتے رہے کہ خانہ کعبہ اندر سے کیسا نظر آتا ہے؟ دوسری اور تیسری معلومات کے ذریعے کے مطابق وہ لوگ خوش نصیب ہیں جن کو خانہ کعبہ کے اندر داخل ہونے کی سعادت ملی اور ایک خوش نصیب وہ ہے جس کو تصویر بنانے کا موقع ملا اور لاکھوں لوگوں نے یہ تصویر انٹرنیٹ پر آن لائن دیکھی۔ خانہ کعبہ کا اندر کا حصہ سنگِ مرمر اور ہرے رنگ کے کپڑے سے ڈھکا ہوا ہے۔ جس دور کے حکمران نے خانہ کعبہ کی دوبارہ آرائش کروائی اس نے خانہ کعبہ کے اندر اپنے نام کی تختی بھی لگوائی
خانہ کعبہ کی تعداد دو ہے
خانہ کعبہ کے بالکل اوپر ساتويں آسمان میں ایک اور خانہ کعبہ بھی موجود ہے۔ جس کو بیت المعمور کہتے ہیں۔ اس کا اشارہ قرآن پاک میں بھی موجود ہے اور نبی پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی اس بات کی نشان دہی کی ہے ۔ اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے معراج کا واقعہ سناتے ہوئے فرمایا: ــــ’’جب مجھے بیت المعمور (اﷲ کا گھر) دکھایا گیا تو میں نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا انہوں نے جواب دیا کہ یہ بیت المعمور ہے جہاں ستر ہزار فرشتے روزانہ اﷲ کی عبادت کرتے ہیں اور جب وہ یہاں سے جاتے ہیں تو واپس نہیں آتے (ہمیشہ نیا دستہ آتا ہے)۔یعنی ایک فرشتے کو صرف اس کے طواف کی ایک بار سعادت ملتی ہے
خانہ کعبہ کے بالکل اوپر ساتويں آسمان میں ایک اور خانہ کعبہ بھی موجود ہے۔ جس کو بیت المعمور کہتے ہیں۔ اس کا اشارہ قرآن پاک میں بھی موجود ہے اور نبی پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی اس بات کی نشان دہی کی ہے ۔ اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے معراج کا واقعہ سناتے ہوئے فرمایا: ــــ’’جب مجھے بیت المعمور (اﷲ کا گھر) دکھایا گیا تو میں نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا انہوں نے جواب دیا کہ یہ بیت المعمور ہے جہاں ستر ہزار فرشتے روزانہ اﷲ کی عبادت کرتے ہیں اور جب وہ یہاں سے جاتے ہیں تو واپس نہیں آتے (ہمیشہ نیا دستہ آتا ہے)۔یعنی ایک فرشتے کو صرف اس کے طواف کی ایک بار سعادت ملتی ہے
حجرِ اسود
کیا آپ نے کبھی اس بات پر غور کیا ہے حجرِ اسود چاندی کے سانچے میں کیوں گھرا رہتا ہے؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حجرِ اسود "حجاج بن یوسف " کی فوج کے ہاتھوں مارے گئے پتھر لگنے کی وجہ سے وقت ٹوٹ گیا تھا جب اس نے حضر ت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ پر لشکر کشی کی تھی۔ کچھ ذرائع کے مطابق حجرِ اسود بحرین سے تعلق رکھنے والے اسماعیلی گروپ ــکے ہاتھوں ٹوٹ گیا تھا۔ ان لوگوں کا یہ خیال تھا کہ حج ِ مبارک ایک توہم پرستی کا عمل ہے اپنی بات کو سچ ثابت کرنے کے لئے ان لوگوں نے دس ہزار حجاج کو مار کر ان کی باقیات کو آبِ زم زم کے کنواں میں پھینک دیا تھا۔ یہ غیر انسانی عمل کافی نہیں ہے، یہ شیطان حجرِ اسود کو عرب کے مشرق میں لے گئے اور پھر عراق کے شہر کفا لے گئے جہاں اس کے عوض تاوان وصول کیا جب ان کو مجبور کیا گیا تو ان لوگوں نے اسے خلیفہ عباسد کو واپس کر دیا ، لیکن جب اسے واپس کیا گیا تو یہ ٹکڑوں میں تھا اور اس کو یکجان کرنے کا صرف ایک طریقہ سمجھ آیا تھا کہ اس کو چاندی کے سانچے میں رکھا جائے، کچھ تاریخ دانوں کے مطابق اس مقدس پتھر کے کچھ حصے آج بھی کہیں گم ہیں۔
کیا آپ نے کبھی اس بات پر غور کیا ہے حجرِ اسود چاندی کے سانچے میں کیوں گھرا رہتا ہے؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حجرِ اسود "حجاج بن یوسف " کی فوج کے ہاتھوں مارے گئے پتھر لگنے کی وجہ سے وقت ٹوٹ گیا تھا جب اس نے حضر ت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ پر لشکر کشی کی تھی۔ کچھ ذرائع کے مطابق حجرِ اسود بحرین سے تعلق رکھنے والے اسماعیلی گروپ ــکے ہاتھوں ٹوٹ گیا تھا۔ ان لوگوں کا یہ خیال تھا کہ حج ِ مبارک ایک توہم پرستی کا عمل ہے اپنی بات کو سچ ثابت کرنے کے لئے ان لوگوں نے دس ہزار حجاج کو مار کر ان کی باقیات کو آبِ زم زم کے کنواں میں پھینک دیا تھا۔ یہ غیر انسانی عمل کافی نہیں ہے، یہ شیطان حجرِ اسود کو عرب کے مشرق میں لے گئے اور پھر عراق کے شہر کفا لے گئے جہاں اس کے عوض تاوان وصول کیا جب ان کو مجبور کیا گیا تو ان لوگوں نے اسے خلیفہ عباسد کو واپس کر دیا ، لیکن جب اسے واپس کیا گیا تو یہ ٹکڑوں میں تھا اور اس کو یکجان کرنے کا صرف ایک طریقہ سمجھ آیا تھا کہ اس کو چاندی کے سانچے میں رکھا جائے، کچھ تاریخ دانوں کے مطابق اس مقدس پتھر کے کچھ حصے آج بھی کہیں گم ہیں۔
خانہ کعبہ مکعب کی شکل کا نہیں
مکعب کی شکل سے مشہور خانہ کعبہ دراصل مستطیل کی شکل کا ہے۔خانہ کعبہ کبھی بھی مکعب کی شکل کا نہیں تھا اس کی اصل زاوئے کے مطابق ایک یہ ایک آدھا گول حصہ ہے جس کو حجر اسماعیل کہا جاتا ہے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو نبوت ملنے سے پہلے جب خانہ کعبہ کی دوبارہ تعمیر ہوئی تھی تب قریش نے اس بات کی حامی بھری تھی کہ وہ حلال کمائی سے ہی اس کی تعمیر مکمل کریں گے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جوئے، لوٹ مار، جسم فروشی اور سود جیسے حرام کاموں سے کمایا ہوا پیسہ استعمال نہیں ہوگا قریش اتنے امیر تجارتی شہر میں ہونے کے باوجود اتنی رقم جمع کرنے میں ناکام ہو چکے تھے جو خانہ کعبہ کی تعمیر اُس کے اصل سائز اور رقبہ کے حساب سے کر سکیں۔ انہوں نے خانہ کعبہ کی چھوٹی عمارت تعمیر کی اور اس کی دیواریں مٹی کی اینٹوں سے بنائی (جس کو حجرِ اسماعیل کہا جاتا ہے حالانکہ اس کا حضرت اسماعیل علیہ السلام سے کوئی تعلق نہیں) جو کہ خانہ کعبہ کے حقیقی قطر کی جانب اشارہ کرتی تھیں۔ خلیفہ عبد اﷲ بن زبیر کے دورِ حکومت کے چند سال کے مختصر وقفہ میں خانہ کعبہ اپنی اُسی شکل میں موجود تھا جس میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے دیکھا تھا۔
مکعب کی شکل سے مشہور خانہ کعبہ دراصل مستطیل کی شکل کا ہے۔خانہ کعبہ کبھی بھی مکعب کی شکل کا نہیں تھا اس کی اصل زاوئے کے مطابق ایک یہ ایک آدھا گول حصہ ہے جس کو حجر اسماعیل کہا جاتا ہے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو نبوت ملنے سے پہلے جب خانہ کعبہ کی دوبارہ تعمیر ہوئی تھی تب قریش نے اس بات کی حامی بھری تھی کہ وہ حلال کمائی سے ہی اس کی تعمیر مکمل کریں گے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جوئے، لوٹ مار، جسم فروشی اور سود جیسے حرام کاموں سے کمایا ہوا پیسہ استعمال نہیں ہوگا قریش اتنے امیر تجارتی شہر میں ہونے کے باوجود اتنی رقم جمع کرنے میں ناکام ہو چکے تھے جو خانہ کعبہ کی تعمیر اُس کے اصل سائز اور رقبہ کے حساب سے کر سکیں۔ انہوں نے خانہ کعبہ کی چھوٹی عمارت تعمیر کی اور اس کی دیواریں مٹی کی اینٹوں سے بنائی (جس کو حجرِ اسماعیل کہا جاتا ہے حالانکہ اس کا حضرت اسماعیل علیہ السلام سے کوئی تعلق نہیں) جو کہ خانہ کعبہ کے حقیقی قطر کی جانب اشارہ کرتی تھیں۔ خلیفہ عبد اﷲ بن زبیر کے دورِ حکومت کے چند سال کے مختصر وقفہ میں خانہ کعبہ اپنی اُسی شکل میں موجود تھا جس میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے دیکھا تھا۔
حطیم خانہ کعبہ میں کیوں شامل نہیں کیا گیا۔
اور خانه کعبہ کا دروازہ اونچا کیوں
اس کا جواب اس حدیث شریف میں موجود ہے۔
امام مسلم رحمہ اللہ تعالٰی نے عائشہ رضي اللہ تعالٰی عنہا سے حدیث بیان فرمائی ہے کہ
"عائشہ رضي اللہ تعالٰی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حطیم کے بارے میں سوال کیا کہ کیا یہ بیت اللہ کا ہی حصہ ہے ؟
تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا جی ہاں!، عائشہ رضي اللہ تعالٰی عنہا بیان کرتی ہیں میں نے پوچھا کہ اسے پھر بیت اللہ میں داخل کیوں نہیں کيا گيا ؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب تھا کہ تیری قوم کے پاس خرچہ کے لیے رقم کم پڑگئی تھی ۔
میں نے کہا کہ بیت اللہ کا دروازہ اونچا کیوں ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا تیری قوم نے اسے اونچا اس لئے کیا تا کہ وہ جسے چاہیں بیت اللہ میں داخل کریں اورجسے چاہیں داخل نہ ہونے دیں ۔
اور اگرتیری قوم نئی نئی مسلمان نہ ہوتی اوران کے دل اس بات کوتسلیم سے انکارنہ کرتے تو میں اسے ( حطیم ) کوبیت اللہ میں شامل کردیتا اوردروازہ زمین کے برابرکردیتا"۔
اس کا جواب اس حدیث شریف میں موجود ہے۔
امام مسلم رحمہ اللہ تعالٰی نے عائشہ رضي اللہ تعالٰی عنہا سے حدیث بیان فرمائی ہے کہ
"عائشہ رضي اللہ تعالٰی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حطیم کے بارے میں سوال کیا کہ کیا یہ بیت اللہ کا ہی حصہ ہے ؟
تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا جی ہاں!، عائشہ رضي اللہ تعالٰی عنہا بیان کرتی ہیں میں نے پوچھا کہ اسے پھر بیت اللہ میں داخل کیوں نہیں کيا گيا ؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب تھا کہ تیری قوم کے پاس خرچہ کے لیے رقم کم پڑگئی تھی ۔
میں نے کہا کہ بیت اللہ کا دروازہ اونچا کیوں ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا تیری قوم نے اسے اونچا اس لئے کیا تا کہ وہ جسے چاہیں بیت اللہ میں داخل کریں اورجسے چاہیں داخل نہ ہونے دیں ۔
اور اگرتیری قوم نئی نئی مسلمان نہ ہوتی اوران کے دل اس بات کوتسلیم سے انکارنہ کرتے تو میں اسے ( حطیم ) کوبیت اللہ میں شامل کردیتا اوردروازہ زمین کے برابرکردیتا"۔