ِنبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کی
ازواج مطہرات
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
ازواج مطہرات (نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کی بیویوں) کے متعلق اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام
ازواج مطہرات (نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کی بیویوں) کے متعلق اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام
میں ارشاد فرماتا ہے۔
يَا نِسَآءَ النَّبِيِّ مَنْ يَّاْتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ يُّضَاعَفْ لَـهَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ ۚ وَكَانَ ذٰلِكَ عَلَى اللّـٰهِ
يَسِيْـرًا (30)
وَمَنْ يَّقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلّـٰهِ وَرَسُوْلِـهٖ وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُّؤْتِهَآ اَجْرَهَا مَرَّتَيْنِۙ وَاَعْتَدْنَا لَـهَا رِزْقًا
كَرِيْمًا (31)
يَا نِسَآءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ ۚ اِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّـذِىْ فِىْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا (32)
اے نبی کی بیویو! تم میں سے جو کوئی کھلی ہوئی بدکاری کرے تو اسے دگنا عذاب دیا جائے گا، اور یہ اللہ پر آسان ہے۔
اور جو تم میں سے اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے گی اور نیک کام کرے گی تو ہم
اسے اس کا دہرا اجر دیں گے، اور ہم نے اس کے لیے عزت کا رزق بھی تیار کر رکھا ہے۔
اے نبی کی بیویو! تم معمولی عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم اللہ سے ڈرتی رہو اور دبی زبان سے بات نہ کہو کیونکہ جس کے دل میں مرض ہے وہ طمع کرے گا اور بات معقول کہو۔
(سورہ احزاب )
ٰ قرآن مجيد میں مذکور ہے۔
وَلَآ اَنْ تَنْكِحُوٓا اَزْوَاجَهٝ مِنْ بَعْدِهٓ ٖ اَبَدًا ۚ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللّـٰهِ عَظِيْمًا
(53)
(53)
اور نہ یہ کہ تم آپ (صلى الله عليه وآله وسلم)کی بیویوں سے آپ کے بعد کبھی بھی نکاح کرو، بے شک یہ اللہ کےنزدیک بڑا گناہ ہے۔ (سورہ احزاب )
نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے جو نکاح فرمائے۔ ان میں سے صرف حضرت عائشہ صديقه
رضي الله تعالى عنها کنواری تھیں، باقی سب بیوہ یا مطلقہ تھیں۔ نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے سب سے پہلا نکاح‘ 25 سال کی عمرمیں حضرت خدیجہ رضي الله تعالى عنها سے کیا۔ حضرت خدیجہ رضي الله تعالى عنها کی عمر نکاح کے وقت 40 سال تھی، یعنی حضرت خدیجہ رضي الله تعالى عنها آپ صلى الله عليه وآله وسلم سے عمر میں 15 سال بڑی تھیں۔ نیز وہ نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کے ساتھ نکاح کرنے سے پہلے دو شادیاں کرچکی تھیں، اور اُن کے پہلے شوہروں سے بچے بھی تھے۔ جب نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کی عمر 50 سال کی ہوئی تو حضرت خدیجہ رضي الله تعالى عنها کا انتقال ہوگیا۔ اس طرح نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے اپنی پوری جوانی (25 سے 50 سال کی عمر) صرف ایک بیوہ عورت حضرت خدیجہ رضي الله تعالى عنها کے ساتھ گزاردی۔
آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے 50 سال کی عمر میں چند نکاح کئے۔ یہ نکاح کسی شہوت کو پوری کرنے کے لئے نہیں کئے کہ شہوت 50 سال کی عمر کے بعد اچانک ظاہر ہوگئی ہو۔ اگر شہوت پوری کرنے کے لئے آپ صلى الله عليه وآله وسلم نکاح فرماتے تو کنواری لڑکیوں سے شادی کرتے۔ نیز حدیث شريف میں آتا ہے کہ آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے کسی عورت سے شادی نہیں کی اور نہ کسی بیٹی کا نکاح کرایا مگر اللہ کی طرف سے حضرت جبرئیل علیہ السلام وحی لے کر آئے۔ بلکہ چند سیاسی ودینی واجتماعی اسباب کو سامنے رکھ کر آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے یہ نکاح کئے۔ اِن سیاسی ودینی واجتماعی اسباب کا بیان مضمون کے آخر میں آرہا ہے۔
آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے 50 سال کی عمر میں چند نکاح کئے۔ یہ نکاح کسی شہوت کو پوری کرنے کے لئے نہیں کئے کہ شہوت 50 سال کی عمر کے بعد اچانک ظاہر ہوگئی ہو۔ اگر شہوت پوری کرنے کے لئے آپ صلى الله عليه وآله وسلم نکاح فرماتے تو کنواری لڑکیوں سے شادی کرتے۔ نیز حدیث شريف میں آتا ہے کہ آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے کسی عورت سے شادی نہیں کی اور نہ کسی بیٹی کا نکاح کرایا مگر اللہ کی طرف سے حضرت جبرئیل علیہ السلام وحی لے کر آئے۔ بلکہ چند سیاسی ودینی واجتماعی اسباب کو سامنے رکھ کر آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے یہ نکاح کئے۔ اِن سیاسی ودینی واجتماعی اسباب کا بیان مضمون کے آخر میں آرہا ہے۔
نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کی ازواج مطہرات کا مختصر تعارف
امّ المؤمنین حضرت خدیجہ رضي الله تعالى عنها
یہ نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کی پہلی بیوی ہیں۔ نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم کی دیانت ، کمال اور برکت کو دیکھ کر انہوں نے خود شادی کی درخواست کی تھی۔ نکاح کے وقت آپ صلى الله عليه وآله وسلم کی عمر 25 سال اور حضرت خدیجہ رضي الله تعالى عنها کی عمر 40 سال تھی۔ آپ صلى الله عليه وآله وسلم کی چاروں بیٹیاں (زینب ، رقیہ ، ام کلثوم اور فاطمہ رضي الله تعالى عنهما ) اور ابراہیم رضي الله تعالى عنها کے علاوہ دونوں بیٹے (قاسم اور عبداللہ رضي الله تعالى عنهم) حضرت خدیجہ رضي الله تعالى عنها ہی سے پیدا ہوئے۔ حضرت فاطمہ رضي الله تعالى عنها کے علاوہ آپ صلى الله عليه وآله وسلم کی ساری اولاد آپ صلى الله عليه وآله وسلم کی زندگی میں ہی انتقال فرما گئی تھی۔ حضرت فاطمہ رضي الله تعالى عنها کا انتقال نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کے انتقال کے چھ ماہ بعد ہوگیا تھا۔ آپ صلى الله عليه وآله وسلم کی پہلی بیوی حضرت خدیجہ رضي الله تعالى عنها کے انتقال کے وقت آپ صلى الله عليه وآله وسلم کی عمر 50 سال تھی۔ حضرت خدیجہ رضي الله تعالى عنها کا انتقال نبوت کے دسویں سال ہوا ، اس وقت حضرت خدیجہ رضي الله تعالى عنها کی عمر 65 سال تھی۔ حضرت خدیجہ رضي الله تعالى عنها کی سچائی اور غمگساری کو نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم ان کی وفات کے بعد بھی ہمیشہ یاد فرماتے تھے۔
امّ المؤمنین حضرت سودہ رضي الله تعالى عنها
یہ اپنے شوہر (سکران بن عمرو) کے سا تھ مسلمان ہوئی تھیں، ان کی ماں بھی مسلمان ہوگئی تھیں، ماں اور شوہر کے ساتھ ہجرت کرکے حبشہ چلی گئیں تھیں۔ وہاں ان کے شوہر کا انتقال ہوگیا۔ جب اُن کا کوئی بظاہر دنیاوی سہارا نہ رہا تو نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے حضرت خدیجہ رضي الله تعالى عنها کی وفات کے بعد نبوت کے دسویں سال اِن سے نکاح کرلیا ۔ اُس وقت آپ صلى الله عليه وآله وسلم کی عمر 50 سال اور حضرت سودہ رضي الله تعالى عنها کی عمر 55 سال تھی۔ اور یہ اسلام میں سب سے پہلی بیوہ عورت تھیں۔ حضرت خدیجہ رضي الله تعالى عنها کے انتقال کے بعد تقریباً تین چار سال تک صرف حضرت سودہ رضي الله تعالى عنها ہی آپ صلى الله عليه وآله وسلم کے ساتھ رہیں، کیونکہ حضرت عائشہ صديقه رضي الله تعالى عنها کی رخصتی‘ نکاح کے تین یا چار سال بعد مدینہ منورہ میں ہوئی۔ غرض تقریباً 55 سال کی عمر تک آپ صلى الله عليه وآله وسلم کے ساتھ صرف ایک ہی عورت رہی اور وہ بھی بیوہ ۔ حضرت سودہ رضي الله تعالى عنها کا انتقال 53 ہجری میں ہوا بعض نے حضرت عمر رضي الله تعالى عنه كے آخري زمانه ميں انتقال هونا بهي لكها هے ۔
امّ المؤمنین حضرت عائشہ صديقه
رضي الله تعالى عنها
یہ خلیفہ اوّل حضرت ابو بکر صدیق رضي الله تعالى عنه کی بیٹی ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق رضي الله تعالى عنه کی آرزو تھی کہ میری بیٹی نبی أكرم صلى الله عليه وآله وسلم کے گھر میں ہو۔ چنانچہ حضرت عائشہ صديقه رضي الله تعالى عنها كا نکاح نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کے ساتھ مکہ ہی میں ہوگیا تھا۔ مگر هجرت ك بعد 2 ہجری کو نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم کے گھر (مدینہ منورہ) میں آئیں۔ یعنی 3 ، 4 سال بعد رخصتی ہوئی۔ اُس وقت نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کی عمر 55 سال تھی۔ جیسے باپ نے اسلام کی بڑی بڑی خدمات انجام دی تھیں، بیٹی بھی ایسی ہی عالمہ وفاضلہ ہوئیں کہ بڑے بڑے صحابہ کرام رضوان الله عليهم اُن سے مسائل دریافت فرمایا کرتے تھے۔ 2210 احادیث کی روایت اُن سے ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضي الله تعالى عنه اور حضرت عبداللہ بن عمر رضي الله تعالى عنه کے بعد سب سے زیادہ احادیث حضرت عائشہ رضي الله تعالى عنها سے ہی مروی ہیں۔ نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کی صرف حضرت عائشہ رضي الله تعالى عنها ہی کنواری بیوی تھیں، باقی سب بیوہ یا مطلقہ تھیں۔ نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم حضرت عائشہ رضي الله تعالى عنها سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے۔ حضرت عائشہ رضي الله تعالى عنها کے حجرہ میں ہی آپ صلى الله عليه وآله وسلم کی وفات ہوئی اور اسی میں آپ صلى الله عليه وآله وسلم مدفون ہیں۔ حضرت عائشہ رضي الله تعالى عنها کا 57 یا 58 ہجری میں انتقال ہوا۔
امّ المؤمنین حضرت حفصہ رضي الله تعالى عنها
یہ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضي الله تعالى عنه کی بیٹی ہیں۔ انہوں نے اپنے پہلے شوہر کے ساتھ حبشہ اور پھر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی۔ ان کے شوہر غزوہ احد میں زخمی ہوگئے تھے اور انہیں زخموں سے تاب نہ لاکر انتقال فرما گئے تھے۔ اس طرح حضرت حفصہؓ بیوہ ہوگئیں، تو نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے ان سے 3 ہجری میں نکاح فرمالیا۔ اُس وقت آپ صلى الله عليه وآله وسلم کی عمر 56 سال کی تھی۔ حضرت حفصہ رضي الله تعالى عنها بہت زیادہ عبادت گزار تھیں۔ حضرت حفصہ رضي الله تعالى عنها كا انتقال 31 یا 35 ہجری میں ہوا۔
امّ المؤمنین حضرت زینب بنت خزيمه
رضي الله تعالى عنها
ان کا پہلا نکاح طفیل بن حارث سے، پھر عبیدہ بن حارث سے ہوا تھا۔ یہ دونوں نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کے حقیقی چچیرے بھائی تھے۔ تیسرا نکاح حضرت عبد اللہ بن جحش رضي الله تعالى عنه سے ہوا تھا، یہ نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کے پھوپھی زاد بھائی تھے، وہ جنگ اُحد میں شہید ہوئے۔ نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے حضرت زینب رضي الله تعالى عنه کے تیسرے شوہر کے انتقال کے بعد اِن سے 3 ہجری میں نکاح کرلیا۔ اُس وقت آپ صلى الله عليه وآله وسلم کی عمر 56 سال کی تھی۔ وہ نکاح کے بعد صرف تین ماہ زندہ رہیں۔ یہ غریبوں کی اتنی مدد اور پرورش کیا کرتی تھیں کہ ان کا لقب امّ المساکین (مسکینوں کی ماں) پڑگیا تھا۔
امّ المؤمنین حضرت ام سلمہ رضي الله تعالى عنها
ان کا پہلا نکاح حضرت ابو سلمہ رضي الله تعالى عنه سے ہوا تھا، جو نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کے پھوپھی زاد بھائی تھے۔ انہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ حبشہ اور پھر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی۔ اِن کے شوہر حضرت ابو سلمہ رضي الله تعالى عنه کی جنگ احد کے زخموں سے وفات ہوگئی تھی۔ چار بچے یتیم چھوڑے۔ جب کوئی بظاہر دنیاوی سہارا نہ رہا تو نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے بے کس بچوں اور ان کی حالت پر رحم کھا کر ان سے 3 ہجری میں نکاح کرلیا۔ نکاح کے وقت آپ ا کی عمر 56 سال اور حضرت ام سلمہ رضي الله تعالى عنها کی عمر 35 سال تھی۔ 58 یا 61 ہجری میں حضرت ام سلمہ رضي الله تعالى عنها کا انتقال ہوگیا۔ امہات المؤمنین میں سب سے آخر میں انہیں کا انتقال ہوا۔
امّ المؤمنین حضرت سودہ رضي الله تعالى عنها
یہ اپنے شوہر (سکران بن عمرو) کے سا تھ مسلمان ہوئی تھیں، ان کی ماں بھی مسلمان ہوگئی تھیں، ماں اور شوہر کے ساتھ ہجرت کرکے حبشہ چلی گئیں تھیں۔ وہاں ان کے شوہر کا انتقال ہوگیا۔ جب اُن کا کوئی بظاہر دنیاوی سہارا نہ رہا تو نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے حضرت خدیجہ رضي الله تعالى عنها کی وفات کے بعد نبوت کے دسویں سال اِن سے نکاح کرلیا ۔ اُس وقت آپ صلى الله عليه وآله وسلم کی عمر 50 سال اور حضرت سودہ رضي الله تعالى عنها کی عمر 55 سال تھی۔ اور یہ اسلام میں سب سے پہلی بیوہ عورت تھیں۔ حضرت خدیجہ رضي الله تعالى عنها کے انتقال کے بعد تقریباً تین چار سال تک صرف حضرت سودہ رضي الله تعالى عنها ہی آپ صلى الله عليه وآله وسلم کے ساتھ رہیں، کیونکہ حضرت عائشہ صديقه رضي الله تعالى عنها کی رخصتی‘ نکاح کے تین یا چار سال بعد مدینہ منورہ میں ہوئی۔ غرض تقریباً 55 سال کی عمر تک آپ صلى الله عليه وآله وسلم کے ساتھ صرف ایک ہی عورت رہی اور وہ بھی بیوہ ۔ حضرت سودہ رضي الله تعالى عنها کا انتقال 53 ہجری میں ہوا بعض نے حضرت عمر رضي الله تعالى عنه كے آخري زمانه ميں انتقال هونا بهي لكها هے ۔
امّ المؤمنین حضرت عائشہ صديقه
رضي الله تعالى عنها
یہ خلیفہ اوّل حضرت ابو بکر صدیق رضي الله تعالى عنه کی بیٹی ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق رضي الله تعالى عنه کی آرزو تھی کہ میری بیٹی نبی أكرم صلى الله عليه وآله وسلم کے گھر میں ہو۔ چنانچہ حضرت عائشہ صديقه رضي الله تعالى عنها كا نکاح نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کے ساتھ مکہ ہی میں ہوگیا تھا۔ مگر هجرت ك بعد 2 ہجری کو نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم کے گھر (مدینہ منورہ) میں آئیں۔ یعنی 3 ، 4 سال بعد رخصتی ہوئی۔ اُس وقت نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کی عمر 55 سال تھی۔ جیسے باپ نے اسلام کی بڑی بڑی خدمات انجام دی تھیں، بیٹی بھی ایسی ہی عالمہ وفاضلہ ہوئیں کہ بڑے بڑے صحابہ کرام رضوان الله عليهم اُن سے مسائل دریافت فرمایا کرتے تھے۔ 2210 احادیث کی روایت اُن سے ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضي الله تعالى عنه اور حضرت عبداللہ بن عمر رضي الله تعالى عنه کے بعد سب سے زیادہ احادیث حضرت عائشہ رضي الله تعالى عنها سے ہی مروی ہیں۔ نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کی صرف حضرت عائشہ رضي الله تعالى عنها ہی کنواری بیوی تھیں، باقی سب بیوہ یا مطلقہ تھیں۔ نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم حضرت عائشہ رضي الله تعالى عنها سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے۔ حضرت عائشہ رضي الله تعالى عنها کے حجرہ میں ہی آپ صلى الله عليه وآله وسلم کی وفات ہوئی اور اسی میں آپ صلى الله عليه وآله وسلم مدفون ہیں۔ حضرت عائشہ رضي الله تعالى عنها کا 57 یا 58 ہجری میں انتقال ہوا۔
امّ المؤمنین حضرت حفصہ رضي الله تعالى عنها
یہ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضي الله تعالى عنه کی بیٹی ہیں۔ انہوں نے اپنے پہلے شوہر کے ساتھ حبشہ اور پھر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی۔ ان کے شوہر غزوہ احد میں زخمی ہوگئے تھے اور انہیں زخموں سے تاب نہ لاکر انتقال فرما گئے تھے۔ اس طرح حضرت حفصہؓ بیوہ ہوگئیں، تو نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے ان سے 3 ہجری میں نکاح فرمالیا۔ اُس وقت آپ صلى الله عليه وآله وسلم کی عمر 56 سال کی تھی۔ حضرت حفصہ رضي الله تعالى عنها بہت زیادہ عبادت گزار تھیں۔ حضرت حفصہ رضي الله تعالى عنها كا انتقال 31 یا 35 ہجری میں ہوا۔
امّ المؤمنین حضرت زینب بنت خزيمه
رضي الله تعالى عنها
ان کا پہلا نکاح طفیل بن حارث سے، پھر عبیدہ بن حارث سے ہوا تھا۔ یہ دونوں نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کے حقیقی چچیرے بھائی تھے۔ تیسرا نکاح حضرت عبد اللہ بن جحش رضي الله تعالى عنه سے ہوا تھا، یہ نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کے پھوپھی زاد بھائی تھے، وہ جنگ اُحد میں شہید ہوئے۔ نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے حضرت زینب رضي الله تعالى عنه کے تیسرے شوہر کے انتقال کے بعد اِن سے 3 ہجری میں نکاح کرلیا۔ اُس وقت آپ صلى الله عليه وآله وسلم کی عمر 56 سال کی تھی۔ وہ نکاح کے بعد صرف تین ماہ زندہ رہیں۔ یہ غریبوں کی اتنی مدد اور پرورش کیا کرتی تھیں کہ ان کا لقب امّ المساکین (مسکینوں کی ماں) پڑگیا تھا۔
امّ المؤمنین حضرت ام سلمہ رضي الله تعالى عنها
ان کا پہلا نکاح حضرت ابو سلمہ رضي الله تعالى عنه سے ہوا تھا، جو نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کے پھوپھی زاد بھائی تھے۔ انہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ حبشہ اور پھر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی۔ اِن کے شوہر حضرت ابو سلمہ رضي الله تعالى عنه کی جنگ احد کے زخموں سے وفات ہوگئی تھی۔ چار بچے یتیم چھوڑے۔ جب کوئی بظاہر دنیاوی سہارا نہ رہا تو نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے بے کس بچوں اور ان کی حالت پر رحم کھا کر ان سے 3 ہجری میں نکاح کرلیا۔ نکاح کے وقت آپ ا کی عمر 56 سال اور حضرت ام سلمہ رضي الله تعالى عنها کی عمر 35 سال تھی۔ 58 یا 61 ہجری میں حضرت ام سلمہ رضي الله تعالى عنها کا انتقال ہوگیا۔ امہات المؤمنین میں سب سے آخر میں انہیں کا انتقال ہوا۔
غرضیکہ حضرت حفصہؓ ، حضرت زینب بنت خزیمہ ؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ کے شوہر غزوہ احد (3 ہجری) میں شہید ہوئے ، یا زخموں کی تاب نہ لاکر انتقال فرماگئے تو آپ ا نے ان بیوہ عورتوں سے ان کے لئے دنیاوی سہارے کے طور پر نکاح فرمالیا۔
امّ المؤمنین حضرت زینب بنت جحش
رضي الله تعالى عنها
یہ نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کی سگی پھوپھی زاد بہن تھیں۔ نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم نے ان کا نکاح کوشش کرکے اپنے منہ بولے بیٹے (آزاد کردہ غلام) حضرت زید رضي الله تعالى عنه سے کرا دیا تھا۔ لیکن شوہر کی حضرت زینب رضي الله تعالى عنها کے ساتھ نہیں بنی اور بیوی کو چھوڑدیا۔ اگرچہ نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے زید رضي الله تعالى عنها کو بہت سمجھایا مگر دونوں کا ملاپ نہیں ہوسکا۔ حضرت زینب رضي الله تعالى عنها کی اس مصیبت کا بدلہ اللہ نے یہ دیا کہ نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم کے ساتھ اُن کا نکاح 5 ھجری میں ہو گیا، یعنی اُس وقت آپ صلى الله عليه وآله وسلم کی عمر 58 سال تھی۔ زمانہ جاہلیت میں منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹے کی طرح سمجھ کراس کی مطلقہ یا بیوہ عورت سے نکاح کرنا جائز نہیں سمجھتے تھے۔ نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے حضرت زید رضي الله تعالى عنه کی مطلقہ عورت سے نکاح کرکے امتِ مسلمہ کو یہ تعلیم دی کہ منہ بولے بیٹے کا حکم حقیقی بیٹے کی طرح نہیں ہے، یعنی منہ بولے بیٹے کی مطلقہ یا بیوہ عورت سے شادی کی جاسکتی ہے۔ یاد رکھیں کہ باپ اپنے حقیقی بیٹے کی مطلقہ یا بیوہ عورت سے کبھی بھی شادی نہیں کرسکتا ۔ حضرت زینب رضي الله تعالى عنها کا انتقال 30 ہجری میں حضرت عمر فاروق رضي الله تعالى عنها کے زمانہ خلافت میں ہوا۔
امّ المؤمنین حضرت جویریہ رضي الله تعالى عنها
يه إيك لڑائی میں قيد هو كر آئی تھیں اور حضرت ثابت بن قیس رضي الله تعالى عنه کے حصہ میں آئیں، حضرت ثابت بن قیس رضي الله تعالى عنه 30 سال کے نوجوان تھے۔ حضرت ثابت بن قیس رضي الله تعالى عنه نے حضرت جویریہ رضي الله تعالى عنها سے اُن کو آزاد کرنے کے لئے کچھ پیسہ مانگا۔ حضرت جویریہ رضي الله تعالى عنها مالی تعاون کے لئے نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور یہ بھی ظاہر کیا کہ میں مسلمان ہوچکی ہوں۔ نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے ساری رقم ادا کرکے اُن کو آزاد کرا دیا۔ پھر نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم کے ساتھ اُن کا نکاح 5 ھجری میں ہو گیا، یعنی اُس وقت آپ صلى الله عليه وآله وسلم کی عمر 58 سال کی تھی۔ جب لشکر نے یہ سنا کہ سارے قیدی نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کے رشتہ دار بن گئے تو صحابہ کرام نے سب قیدیوں کو آزاد کردیا۔ اس طرح نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کی اس چھوٹی سی تدبیر نے 100 سے زیادہ انسانوں کو لونڈی وغلام بنائے جانے سے بچا دیا۔ نیز حضرت جویریہ رضي الله تعالى عنها کے ساتھ نکاح کرنے کی وجہ سے قبیلہ بنو مصطلق کی ایک بڑی جماعت نے اسلام قبول کرلیا۔ (یاد رکھیں کہ اسلام نے ہی عربوں میں زمانہ جاہلیت سے جاری انسانوں کو غلام ولونڈی بنانے کا رواج رفتہ رفتہ ختم کیا ہے)۔ حضرت جویریہ رضي الله تعالى عنها کا انتقال 50 ہجری میں ہوا۔
امّ المؤمنین حضرت صفیہ رضي الله تعالى عنها
ان کا تعلق یہودیوں کے قبیلہ بنو نضیر سے ہے۔ حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ ان کے باپ ، بھائی اور ان کے شوہر کو جنگ میں قتل کردیا گیا تھا۔ یہ قید ہوکر آئیں۔ نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے ان کو اختیار دیا کہ چاہیں اسلام لے آئیں یا اپنے مذہب پر باقی رہیں۔ اگر اسلام لاتی ہیں تو میں نکاح کرنے کے لئے تیار ہوں۔ ورنہ ان کو آزاد کردیا جائے گا تاکہ اپنے خاندان کے ساتھ جا ملیں۔ حضرت صفیہ رضي الله تعالى عنها اپنے خاندان کے لوگوں میں واپسی کے بجائے اسلام قبول کرکے نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم سے نکاح کرنے کے لئے تیار ہوگئیں۔ نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے ان کو آزاد کردیا ، پھر 7 ہجری میں ان سے نکاح کرلیا۔ نکاح کے وقت نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کی عمر مبارك 60 سال تھی۔ حضرت صفیہ رضي الله تعالى عنها کا انتقال 50 ہجری میں ہوا۔
امّ المؤمنین حضرت ام حبیبہ
رضي الله تعالى عنها
حضرت ابو سفیان اموی رضي الله تعالى عنه کی بیٹی ہیں۔ جن دنوں اِن کے والد نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم کے ساتھ لڑائی لڑرہے تھے، یہ مسلمان ہوئی تھیں، اسلام کے لئے بڑی بڑی تکلیفیں اٹھائیں۔ پھر شوہر کو لیکر حبشہ کی طرف ہجرت کی، وہاں جاکر اُن کا شوہر مرتد ہوگیا۔ ایسی سچی اور ایمان میں پکی عورت کے لئے یہ کتنی مصیبت تھی کہ اسلام کے واسطے باپ، بھائی، خاندان، قبیلہ اور اپنا ملک وطن چھوڑا تھا۔ پردیس میں خاوند کا سہارا تھا۔ اس کی بے دینی سے وہ بھی جاتا رہا۔ نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم نے ایسی صابرہ عورت ( حضرت ام حبیبہ
رضي الله تعالى عنها )کے ساتھ حبشہ ہی میں 7 ہجری میں نکاح کیا، یعنی اُس وقت آپ صلى الله عليه وآله وسلم کی عمر60 سال تھی۔ 33 ہجری میں حضرت ام حبیبہ رضي الله تعالى عنها کا انتقال ہوگیا۔
امّ المؤمنین حضرت میمونہ رضي الله تعالى عنها
ان کے دو نکاح ہوچکے تھے ۔ اُن کی ایک بہن حضرت عباس رضي الله تعالى عنه کے، ایک بہن حضرت حمزہ رضي الله تعالى عنها کے ، ایک بہن حضرت جعفر طیاررضي الله تعالى عنها کے گھر میں تھیں۔ ایک بہن حضرت خالد بن ولید رضي الله تعالى عنها کی ماں تھیں۔ نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے اپنے چچا حضرت عباس رضي الله تعالى عنها کے کہنے پر 7 ھجری میں حضرت میمونہ رضي الله تعالى عنها سے نکاح کرلیا۔ اُ س وقت آپ صلى الله عليه وآله وسلم کی عمر 60 سال تھی۔ 51 ہجری میں حضرت میمونہ رضي الله تعالى عنها کی وفات ہوئی۔
ان ازواج مطہرات میں سے حضرت خدیجہ رضي الله تعالى عنها اور حضرت زینب بنت خزیمہ رضي الله تعالى عنها کا انتقال آپ کی زندگی میں ہوگیا تھا ، باقی سب کا انتقال آپ کی وفات کے بعد ہوا۔
یہ سب نکاح اُس آیت مباركه سے پہلے ہوچکے تھے، جس میں ایک مسلمان کے واسطے بیویوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ (بشرطِ عدل) چار تک مقرر کی گئی ہے۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کی بیویوں کو دوسروں کے لئے حرام قرار دیا۔ جیسا کہ مضمون کے شروع میں گزر چکا ہے۔
نیز سورہ احزاب ۵۲ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
لَّا يَحِلُّ لَكَ النِّسَآءُ مِنْ بَعْدُ وَلَآ اَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَّلَوْ اَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ اِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِيْنُكَ ۗ وَكَانَ اللّـٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ رَّقِيْبًا
اس کے بعد آپ کے لیے عورتیں حلال نہیں اور نہ یہ کہ آپ ان سے اور عورتیں تبدیل کریں اگرچہ آپ کو ان کا حسن پسند آئے مگر جو آپ کی مملوکہ ہوں، اور اللہ ہر ایک چیز پر نگران ہے۔
یعنی آپ صلى الله عليه وآله وسلم کو اِن ازواج مطہرات کے علاوہ (جن کی تعداد اس آیت کے نزول کے وقت 9 تھی) دیگر عورتوں سے نکاح کرنے یا ان میں سے کسی کو طلاق دیکر اس کی جگہ کسی اور سے نکاح کرنے سے منع فرما دیا۔ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے کوئی دوسرا نکاح بھی نہیں کیا۔
یاد رکھیں کہ حدیث شريف میں ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم نے تمام نکاح اللہ کے حکم سے ہی کئے۔ نیز عربوں میں ایک سے زیادہ شادی کرنے کا عام رواج تھا۔ نیز صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کو الله تعالى كي طرف سے چالیس مردوں کی طاقت دی گئی تھی۔ غور فرمائیں کہ چالیس مردوں کی طاقت رکھنے کے باوجود نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے پوری جوانی اس بیوہ عورت کے ساتھ گزار دی جو پہلے دو شادیاں کرچکی تھیں، نیز اُن کے پہلے شوہروں سے بچے بھی تھے۔ اس کے بعد تین چار سال ایک دوسری بیوہ حضرت سودہ رضي الله تعالى عنها کے ساتھ گزار ديے۔ اس طرح 55 سال کی عمر تک آپ صلى الله عليه وآله وسلم کے ساتھ صرف ایک ہی بیوہ عورت رہی۔ --- 50 سے 60 سال کی عمر میں آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے چند نکاح کئے جن کے سماجي ودینی واجتماعی چند اسباب یہ ہیں
خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضي الله تعالى عنه کی بیٹی حضرت عائشہ رضي الله تعالى عنها ، خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضي الله تعالى عنه کی بیٹی حضرت حفصہ رضي الله تعالى عنها سے آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے نکاح کئے۔ خلیفہ ثالث حضرت عثمان رضي الله تعالى عنها اور خلیفہ رابع حضرت علی رضي الله تعالى عنها کے ساتھ حضور اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے اپنی صاحبزادیوں کا نکاح کیا۔ غرضیکہ نکاح کے ذریعہ (آپ صلى الله عليه وآله وسلم کی وفات کے بعد آنے والے) چاروں خلفاء کے ساتھ داماد یا سسر کا رشتہ قائم ہوگیا۔ جس سے صحابہ كرام رضوان الله عليهم کے درمیان تعلق مضبوط اور مستحکم ہوا، اور امت میں اتحاد و اتفاق پیدا ہوا۔
جنگوں میں بعض صحابہ کرام رضوان الله عليهم شہید ہوئے یا کفار مکہ نے مسلمان عورتوں کو طلاق دیدی تو نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے اُن بیوہ یا مطلقہ عورتوں پر شفقت وکرم کا معاملہ فرمایا، اور ان سے نکاح کرلیا تاکہ ان بیوہ یا مطلقہ عورتوں کوکسی حد تک دلی تسکین مل سکے۔ نیز انسانیت کو بیوہ اور مطلقہ عورتوں سے نکاح کرنے کی ترغیب دی۔
نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے سارے نکاح بیوہ یا مطلقہ عورتوں سے کئے۔ لیکن صرف ایک نکاح کنواری لڑکی حضرت عائشہ رضي الله تعالى عنها سے کیا، انہوں نے نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کی صحبت میں رہ کر مسائل سے اچھی طرح واقفیت حاصل کی۔ عربی میں محاورہ ہے
اَلْعِلْمُ فِی الصِّغَرِ کَالنَّقشِ عَلَی الْحَجَرِ
چھوٹی عمر میں علم حاصل کرنا پتھرپر نقش کی طرح ہوتا ہے۔
تقریباً 2210 احادیث حضرت عائشہ رضي الله تعالى عنها سے مروی ہیں۔
یہود ونصاریٰ میں سے جو حضرات مسلمان ہوئے ، ان کے ساتھ آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے شفقت ورحمت کا معاملہ فرمایا۔ چنانچہ حضرت صفیہ رضي الله تعالى عنها مسلمان ہوئیں تو آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے ان کو آزاد کیا، اور ان کی رضامندی پر آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے ان سے شادی کی ۔ اسی طرح حضرت ماریہ رضي الله تعالى عنها جو عیسائی تھیں، ایمان لائیں تو آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے ان کو عزت دے كر انہیں اپنے ساتھ رکھا۔ آپ کے بیٹے حضرت ابراہیم رضي الله تعالى عنه حضرت ماریہ رضي الله تعالى عنها سے ہی پیدا ہوئے۔
غرض نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے نبوت سے پهلے (يعني مرد ہونے کی حیثیت سے) صرف ایک هي نکاح کیا، اور وہ حضرت خدیجہ رضي الله تعالى عنها سے کیا۔ اور پوری جوانی انہیں بیوہ عورت کے ساتھ گزاردی۔ البتہ باقی نکاح نبوت كے بعد (رسول ہونے کی حیثیت سے) کئے۔ جس کی تفصیل اوپرگزر چکی ہے۔
امّ المؤمنین حضرت زینب بنت جحش
رضي الله تعالى عنها
یہ نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کی سگی پھوپھی زاد بہن تھیں۔ نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم نے ان کا نکاح کوشش کرکے اپنے منہ بولے بیٹے (آزاد کردہ غلام) حضرت زید رضي الله تعالى عنه سے کرا دیا تھا۔ لیکن شوہر کی حضرت زینب رضي الله تعالى عنها کے ساتھ نہیں بنی اور بیوی کو چھوڑدیا۔ اگرچہ نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے زید رضي الله تعالى عنها کو بہت سمجھایا مگر دونوں کا ملاپ نہیں ہوسکا۔ حضرت زینب رضي الله تعالى عنها کی اس مصیبت کا بدلہ اللہ نے یہ دیا کہ نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم کے ساتھ اُن کا نکاح 5 ھجری میں ہو گیا، یعنی اُس وقت آپ صلى الله عليه وآله وسلم کی عمر 58 سال تھی۔ زمانہ جاہلیت میں منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹے کی طرح سمجھ کراس کی مطلقہ یا بیوہ عورت سے نکاح کرنا جائز نہیں سمجھتے تھے۔ نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے حضرت زید رضي الله تعالى عنه کی مطلقہ عورت سے نکاح کرکے امتِ مسلمہ کو یہ تعلیم دی کہ منہ بولے بیٹے کا حکم حقیقی بیٹے کی طرح نہیں ہے، یعنی منہ بولے بیٹے کی مطلقہ یا بیوہ عورت سے شادی کی جاسکتی ہے۔ یاد رکھیں کہ باپ اپنے حقیقی بیٹے کی مطلقہ یا بیوہ عورت سے کبھی بھی شادی نہیں کرسکتا ۔ حضرت زینب رضي الله تعالى عنها کا انتقال 30 ہجری میں حضرت عمر فاروق رضي الله تعالى عنها کے زمانہ خلافت میں ہوا۔
امّ المؤمنین حضرت جویریہ رضي الله تعالى عنها
يه إيك لڑائی میں قيد هو كر آئی تھیں اور حضرت ثابت بن قیس رضي الله تعالى عنه کے حصہ میں آئیں، حضرت ثابت بن قیس رضي الله تعالى عنه 30 سال کے نوجوان تھے۔ حضرت ثابت بن قیس رضي الله تعالى عنه نے حضرت جویریہ رضي الله تعالى عنها سے اُن کو آزاد کرنے کے لئے کچھ پیسہ مانگا۔ حضرت جویریہ رضي الله تعالى عنها مالی تعاون کے لئے نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور یہ بھی ظاہر کیا کہ میں مسلمان ہوچکی ہوں۔ نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے ساری رقم ادا کرکے اُن کو آزاد کرا دیا۔ پھر نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم کے ساتھ اُن کا نکاح 5 ھجری میں ہو گیا، یعنی اُس وقت آپ صلى الله عليه وآله وسلم کی عمر 58 سال کی تھی۔ جب لشکر نے یہ سنا کہ سارے قیدی نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کے رشتہ دار بن گئے تو صحابہ کرام نے سب قیدیوں کو آزاد کردیا۔ اس طرح نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کی اس چھوٹی سی تدبیر نے 100 سے زیادہ انسانوں کو لونڈی وغلام بنائے جانے سے بچا دیا۔ نیز حضرت جویریہ رضي الله تعالى عنها کے ساتھ نکاح کرنے کی وجہ سے قبیلہ بنو مصطلق کی ایک بڑی جماعت نے اسلام قبول کرلیا۔ (یاد رکھیں کہ اسلام نے ہی عربوں میں زمانہ جاہلیت سے جاری انسانوں کو غلام ولونڈی بنانے کا رواج رفتہ رفتہ ختم کیا ہے)۔ حضرت جویریہ رضي الله تعالى عنها کا انتقال 50 ہجری میں ہوا۔
امّ المؤمنین حضرت صفیہ رضي الله تعالى عنها
ان کا تعلق یہودیوں کے قبیلہ بنو نضیر سے ہے۔ حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ ان کے باپ ، بھائی اور ان کے شوہر کو جنگ میں قتل کردیا گیا تھا۔ یہ قید ہوکر آئیں۔ نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے ان کو اختیار دیا کہ چاہیں اسلام لے آئیں یا اپنے مذہب پر باقی رہیں۔ اگر اسلام لاتی ہیں تو میں نکاح کرنے کے لئے تیار ہوں۔ ورنہ ان کو آزاد کردیا جائے گا تاکہ اپنے خاندان کے ساتھ جا ملیں۔ حضرت صفیہ رضي الله تعالى عنها اپنے خاندان کے لوگوں میں واپسی کے بجائے اسلام قبول کرکے نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم سے نکاح کرنے کے لئے تیار ہوگئیں۔ نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے ان کو آزاد کردیا ، پھر 7 ہجری میں ان سے نکاح کرلیا۔ نکاح کے وقت نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کی عمر مبارك 60 سال تھی۔ حضرت صفیہ رضي الله تعالى عنها کا انتقال 50 ہجری میں ہوا۔
امّ المؤمنین حضرت ام حبیبہ
رضي الله تعالى عنها
حضرت ابو سفیان اموی رضي الله تعالى عنه کی بیٹی ہیں۔ جن دنوں اِن کے والد نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم کے ساتھ لڑائی لڑرہے تھے، یہ مسلمان ہوئی تھیں، اسلام کے لئے بڑی بڑی تکلیفیں اٹھائیں۔ پھر شوہر کو لیکر حبشہ کی طرف ہجرت کی، وہاں جاکر اُن کا شوہر مرتد ہوگیا۔ ایسی سچی اور ایمان میں پکی عورت کے لئے یہ کتنی مصیبت تھی کہ اسلام کے واسطے باپ، بھائی، خاندان، قبیلہ اور اپنا ملک وطن چھوڑا تھا۔ پردیس میں خاوند کا سہارا تھا۔ اس کی بے دینی سے وہ بھی جاتا رہا۔ نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم نے ایسی صابرہ عورت ( حضرت ام حبیبہ
رضي الله تعالى عنها )کے ساتھ حبشہ ہی میں 7 ہجری میں نکاح کیا، یعنی اُس وقت آپ صلى الله عليه وآله وسلم کی عمر60 سال تھی۔ 33 ہجری میں حضرت ام حبیبہ رضي الله تعالى عنها کا انتقال ہوگیا۔
امّ المؤمنین حضرت میمونہ رضي الله تعالى عنها
ان کے دو نکاح ہوچکے تھے ۔ اُن کی ایک بہن حضرت عباس رضي الله تعالى عنه کے، ایک بہن حضرت حمزہ رضي الله تعالى عنها کے ، ایک بہن حضرت جعفر طیاررضي الله تعالى عنها کے گھر میں تھیں۔ ایک بہن حضرت خالد بن ولید رضي الله تعالى عنها کی ماں تھیں۔ نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے اپنے چچا حضرت عباس رضي الله تعالى عنها کے کہنے پر 7 ھجری میں حضرت میمونہ رضي الله تعالى عنها سے نکاح کرلیا۔ اُ س وقت آپ صلى الله عليه وآله وسلم کی عمر 60 سال تھی۔ 51 ہجری میں حضرت میمونہ رضي الله تعالى عنها کی وفات ہوئی۔
ان ازواج مطہرات میں سے حضرت خدیجہ رضي الله تعالى عنها اور حضرت زینب بنت خزیمہ رضي الله تعالى عنها کا انتقال آپ کی زندگی میں ہوگیا تھا ، باقی سب کا انتقال آپ کی وفات کے بعد ہوا۔
یہ سب نکاح اُس آیت مباركه سے پہلے ہوچکے تھے، جس میں ایک مسلمان کے واسطے بیویوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ (بشرطِ عدل) چار تک مقرر کی گئی ہے۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کی بیویوں کو دوسروں کے لئے حرام قرار دیا۔ جیسا کہ مضمون کے شروع میں گزر چکا ہے۔
نیز سورہ احزاب ۵۲ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
لَّا يَحِلُّ لَكَ النِّسَآءُ مِنْ بَعْدُ وَلَآ اَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَّلَوْ اَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ اِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِيْنُكَ ۗ وَكَانَ اللّـٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ رَّقِيْبًا
اس کے بعد آپ کے لیے عورتیں حلال نہیں اور نہ یہ کہ آپ ان سے اور عورتیں تبدیل کریں اگرچہ آپ کو ان کا حسن پسند آئے مگر جو آپ کی مملوکہ ہوں، اور اللہ ہر ایک چیز پر نگران ہے۔
یعنی آپ صلى الله عليه وآله وسلم کو اِن ازواج مطہرات کے علاوہ (جن کی تعداد اس آیت کے نزول کے وقت 9 تھی) دیگر عورتوں سے نکاح کرنے یا ان میں سے کسی کو طلاق دیکر اس کی جگہ کسی اور سے نکاح کرنے سے منع فرما دیا۔ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے کوئی دوسرا نکاح بھی نہیں کیا۔
یاد رکھیں کہ حدیث شريف میں ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم نے تمام نکاح اللہ کے حکم سے ہی کئے۔ نیز عربوں میں ایک سے زیادہ شادی کرنے کا عام رواج تھا۔ نیز صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کو الله تعالى كي طرف سے چالیس مردوں کی طاقت دی گئی تھی۔ غور فرمائیں کہ چالیس مردوں کی طاقت رکھنے کے باوجود نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے پوری جوانی اس بیوہ عورت کے ساتھ گزار دی جو پہلے دو شادیاں کرچکی تھیں، نیز اُن کے پہلے شوہروں سے بچے بھی تھے۔ اس کے بعد تین چار سال ایک دوسری بیوہ حضرت سودہ رضي الله تعالى عنها کے ساتھ گزار ديے۔ اس طرح 55 سال کی عمر تک آپ صلى الله عليه وآله وسلم کے ساتھ صرف ایک ہی بیوہ عورت رہی۔ --- 50 سے 60 سال کی عمر میں آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے چند نکاح کئے جن کے سماجي ودینی واجتماعی چند اسباب یہ ہیں
خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضي الله تعالى عنه کی بیٹی حضرت عائشہ رضي الله تعالى عنها ، خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضي الله تعالى عنه کی بیٹی حضرت حفصہ رضي الله تعالى عنها سے آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے نکاح کئے۔ خلیفہ ثالث حضرت عثمان رضي الله تعالى عنها اور خلیفہ رابع حضرت علی رضي الله تعالى عنها کے ساتھ حضور اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے اپنی صاحبزادیوں کا نکاح کیا۔ غرضیکہ نکاح کے ذریعہ (آپ صلى الله عليه وآله وسلم کی وفات کے بعد آنے والے) چاروں خلفاء کے ساتھ داماد یا سسر کا رشتہ قائم ہوگیا۔ جس سے صحابہ كرام رضوان الله عليهم کے درمیان تعلق مضبوط اور مستحکم ہوا، اور امت میں اتحاد و اتفاق پیدا ہوا۔
جنگوں میں بعض صحابہ کرام رضوان الله عليهم شہید ہوئے یا کفار مکہ نے مسلمان عورتوں کو طلاق دیدی تو نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے اُن بیوہ یا مطلقہ عورتوں پر شفقت وکرم کا معاملہ فرمایا، اور ان سے نکاح کرلیا تاکہ ان بیوہ یا مطلقہ عورتوں کوکسی حد تک دلی تسکین مل سکے۔ نیز انسانیت کو بیوہ اور مطلقہ عورتوں سے نکاح کرنے کی ترغیب دی۔
نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے سارے نکاح بیوہ یا مطلقہ عورتوں سے کئے۔ لیکن صرف ایک نکاح کنواری لڑکی حضرت عائشہ رضي الله تعالى عنها سے کیا، انہوں نے نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کی صحبت میں رہ کر مسائل سے اچھی طرح واقفیت حاصل کی۔ عربی میں محاورہ ہے
اَلْعِلْمُ فِی الصِّغَرِ کَالنَّقشِ عَلَی الْحَجَرِ
چھوٹی عمر میں علم حاصل کرنا پتھرپر نقش کی طرح ہوتا ہے۔
تقریباً 2210 احادیث حضرت عائشہ رضي الله تعالى عنها سے مروی ہیں۔
یہود ونصاریٰ میں سے جو حضرات مسلمان ہوئے ، ان کے ساتھ آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے شفقت ورحمت کا معاملہ فرمایا۔ چنانچہ حضرت صفیہ رضي الله تعالى عنها مسلمان ہوئیں تو آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے ان کو آزاد کیا، اور ان کی رضامندی پر آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے ان سے شادی کی ۔ اسی طرح حضرت ماریہ رضي الله تعالى عنها جو عیسائی تھیں، ایمان لائیں تو آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے ان کو عزت دے كر انہیں اپنے ساتھ رکھا۔ آپ کے بیٹے حضرت ابراہیم رضي الله تعالى عنه حضرت ماریہ رضي الله تعالى عنها سے ہی پیدا ہوئے۔
غرض نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے نبوت سے پهلے (يعني مرد ہونے کی حیثیت سے) صرف ایک هي نکاح کیا، اور وہ حضرت خدیجہ رضي الله تعالى عنها سے کیا۔ اور پوری جوانی انہیں بیوہ عورت کے ساتھ گزاردی۔ البتہ باقی نکاح نبوت كے بعد (رسول ہونے کی حیثیت سے) کئے۔ جس کی تفصیل اوپرگزر چکی ہے۔