مهرِ فاطمي
مہر کی زیادہ سے زیادہ شرعاً کوئی مقدار متعین نہیں ہے۔ زوجین کی باہمی رضامندی سے کچھ بھی مقرر کیا جاسکتا ہے، البتہ بہت زیادہ مہر رکھنے کو شریعت نے پسند نہیں کیا۔ "مہرِ فاطمی" اُس مہر کو کہا جاتا ہے جو نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے خاتونِ جنت سیدتنا حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور دیگر صاحب زادیوں اور اکثر ازواجِ مطہرات کا مقرر فرمایا ، اُس کی مقدار۵۰۰ درہم ہے، وہ اس طرح کہ ازواج مطہرات کے بارے میں روایات میں بارہ اوقیہ اورایک نش کی صراحت آئی ہے۔چنانچہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی روایت ہے
ما علمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکح شیئا من نسائہ ولا أنکح شیئا من بناتہ علی أکثر من اثنتي عشرة أوقیةً رواہ أحمد وغیرہ (مشکاة: ۲۷۷)،
مہرِ فاطمی کی مقدار احادیث میں ساڑھے بارہ اوقیہ منقول ہے اور ایک اوقیہ چالیس درھم کا ہوتا ہے تو اس حساب سے مہرِ فاطمی پانچ سو درھم بنتے ہیں۔ موجودہ دور کے حساب سے اس کی مقدار ایک سو اکتیس تولہ تین ماشہ چاندی ہے۔ اور گرام کے حساب سے 1.5309 کلو گرام چاندی ہے۔"
صحیح مسلم" میں مروی ہے:
"عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمْ كَانَ صَدَاقُ رَسُولِ اللّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: كَانَ صَدَاقُهُ لِأَزْوَاجِهِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً وَنَشًّا، قَالَتْ: أَتَدْرِي مَا النَّشُّ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَتْ: نِصْفُ أُوقِيَّةٍ، فَتِلْكَ خَمْسُ مِائَةِ دِرْهَمٍ، فَهَذَا صَدَاقُ رَسُولِ اللّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَزْوَاجِهِ"۔ (صحیح مسلم، باب الصداق)
’’حضرت ابوسلمہ سے مروی ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم کی ازواج مطہرات کا مہر کتنا تھا؟ فرمایا: آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے بارہ اوقیہ اورنش مہر دیا تھا، پھر حضرت عائشہؓ نے فرمایا: تم کو معلوم ہے نش کیا ہوتا ہے؟ میں نے کہا : نہیں، حضرت عائشہؓ نے جواب دیا: آدھا اوقیہ (یعنی بیس درہم) اس طرح کل مہر پانچ سو درہم ہوا؛ یہی ازواج مطہرات کا مہر تھا‘‘۔
آنحضرت صلى الله عليه وآله وسلم نے اپنی صاحبزادیوں کا مہر پانچ سو درہم ﴿ یا اس کے قریب﴾ مقرر فرمایا اور آپ صلى الله عليه وآله وسلم کی اکثر ازواجِ مطہرات کا مہر بھی یہی تھا۔ پانچ سو درہم کی ایک سو اکتیس تولے تین ماشے﴿131 ¼ ﴾ چاندی بنتی ہے ﴿بھاؤ کی کمی بیشی کے مطابق اس مقدار میں کمی بیشی ہو سکتی ہے بہر حال 131 ¼ تولے چاندی کا حساب رکھنا چاہیئے﴾ اسی کو مہرِ فاطمی کہا جاتا ہے۔ حضورأكرم صلى الله عليه وآله وسلم کے زمانہ میں اور آپ صلى الله عليه وآله وسلم کے سامنے اس سے بہت کم اور بہت زیادہ بھی مہربهي باندھے جاتے تھے۔ حضور اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کی صاحبزادیوں اور ازواجِ مطہرات والے مہر کی پابندی ضروری نہیں سمجھی جاتی تھی۔ البتہ بعض اکابر برکت کے لئے ’’مہر فاطمی‘‘ رکھا کرتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے اپنی ازواجِ مطہرات اور بنات طاہرات کا جو مہر مقرر فرمایا وه يهي هے يعني موجودہ وزن سے ایک کلو پانچ سو تیس گرام سات سو آٹھ ملی گرام(1.531kg) چاندی ہے، اسی مقدار کو سنت مقدار کہتے ہیں اور یہی مقدار مہرِ فاطمی کی ہے۔
حضور صلی اللہ عیلہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کا مہر وہی ادا فرمایا ہے جس کی تعداد اوپر لکھی گئی، جسے مہرِ فاطمی کہتے ہیں،
البتہ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مہر چار ہزار درہم تھا چونکہ ام حبیبہ کا نکاح حبشہ میں نجاشی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے وکالةً پڑھایا تھا، اس لیے نجاشی بادشاہ نے اتنی رقم مہر میں مقرر کردی تھی مگر اس کی ادائیگی بھی خود ہی بادشاہ نے کردی تھی اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ادا کیا جانے والا مہر جو اپنی بیویوں کو آپ نے ادا کیا اس کی مقدار وہی ہے جو اوپر لکھی گئی۔ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا مہر چار ہزار درہم تھا جس کی مقدار موجودہ وزن سے تقریباً بارہ کلو دو سو پچاس گرام (12.250 kg)چاندی ہوتے ہیں۔
بهرحال مہر فاطمی کی مقدار ڈیڑھ کلو 30 گرام 900 ملی گرام چاندی ہے، بوقتِ ادائيگي مہر اتنی مقدار چاندی کی جو قیمت بنتی ہو اسے دے دیا جائے ، تاہم اگر مہر میں معجل (فوری ادائیگی) کی شرط ہے تو ادائیگی میں جلدی کرنی چاہیے،
ايك کوتاہی یہ بھی بعض حلقوں میں ہوتی ہے کہ وہ سوا بتیس روپے مہر کو ’’شرعِ محمدی(صلى الله عليه وآله وسلم )‘‘ یا ’’مہرِ فاطمی‘‘ سمجھتے ہیں جبکہ یہ غلط ہے اور یہ مقدار مہر کی کم سے کم مقدار بھی نہیں بنتی جو امام ابو حنیفہ(رحمة الله عليه ) کے نزدیک دس درہم ﴿تقریباً دو تولے ساڑھے چار ماشے چاندی﴾ ہے لهذا اس سے اجتناب كرنا چاهيے - والله عالم