"حجرِ اسود" - تاریخ اور فضيلت
حجر اسود عربی زبان کے دو الفاظ کا مجموعہ ہے۔ حجر عربی میں پتھر کو کہتے ہیں اور اسود سیاہ اور کالے رنگ کے لیے بولا جاتا ہے۔ حجرِ اسود وہ سیاہ پتھر ہے جو کعبہ کے جنوب مشرقی دیوار میں نصب ہے۔ اس وقت یہ تین بڑے اور مختلف شکلوں کے کئی چھوٹے ٹکڑوں پرمشتمل ہے۔ یہ ٹکڑے اندازاً ڈھائی فٹ قطر کے دائرے میں جڑے ہوئے ہیں جن کے گرد چاندی کا گول چکر بنا ہوا ہے۔ جو مسلمان حج یاعمرہ کرنےجاتے ہیں ان کے لیے لازم ہے کہ طواف کرتے ہوئے ہر بار حجراسود کو بوسہ دیں۔ اگر ہجوم زیادہ ہو تو ہاتھ کے اشارے سے بھی بوسہ دیا جاسکتا ہے۔ جس کو استلام کہتے ہیں۔
حجرِ اسود جنت کے یاقوتوں میں سے ایک ہے جسے سیدنا آدم علیہ السلام اپنے ساتھ جنت سے لائے تھے, اور تعمیر بیت اللہ کے وقت ایک گوشہ میں نصب فرمایا تھا۔
طوفانِ نوح علیہ السلام میں آدم علیہ السلام کا تعمیر کردہ بیت اللہ آسمانوں پر اُٹھائے جاتے وقت اس متبرک پتھر کو شکمِ جبلِ ابی قبیس میں امانت رکھ دیا گیا تھا، پھر تعمیر ابراہیمی کے وقت جبرئیل علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی خدمتِ عالیہ میں پیش کردیا تھا، اس طرح اُسے پھر اسی جگہ کی زینت بنادیا گیا جہاں پہلے رونق افروز تھا۔(تفسیر قرطبی)
تاریخ میں کم ازکم چھ واقعات إيسے ملتے ہیں جب حجرِ اسود کو چوری کیا گیا یا اس کو توڑنے کی کوشش کی گئی۔ ہوسکتا ہے اس کے حوادث کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہو ۔
اسلامی روایات کے مطابق جب حضرت ابراہیم عليه السلام اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل عليه السلام خانہ کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے۔ تو حضرت جبرائیل عليه السلام نے یہ پتھر جنت سے لا کر دیا جسے حضرت ابراہیم عليه السلام نے اپنے ہاتھوں سے دیوار کعبہ میں نصب کیا۔
أ- حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد سب سے پہلے قبیلہ بنی جرہم کے متعلق ملتا ہے کہ ان لوگوں نے حجر اسود کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی تھی۔ تاریخ میں ہے کہ جب بنو بکر بن عبد مناہ نے قبيلہ جرہم ” کو مکّہ سے نکلنے پر مجبور کیا تو انہوں نے مکّہ سے بے دخل ہوتے ہوئےکعبہ میں رکھے دو سونے کے بنے ہرنوں کے ساتھ ” حجر اسود ” کو کعبہ کی دیوار سے نکال کر زم زم کے کنویں میں دفن کر دیا اور مجبورا” یمن کی جانب کوچ کر گئے– الله تعالی کی حکمت دیکھیے کہ یہ پتھر زیادہ عرصے زم زم کے کنویں میں نہیں رہا – جس وقت بنو جرہم کے لوگ حجر اسود کو زم زم کے کنویں میں چھپا رہے تھے ایک عورت نے انھیں ایسا کرتے دیکھ لیا تھا – اس عورت کی نشان دہی پر حجر اسود کو زم زم کےکنویں سے بازیاب کرا كے نصب كر دیا گیا ۔
ب - سن 696 عيسوي میں جب حضرت عبداللہ بن زبیررضي الله تعالى عنه خانہ کعبہ میں پناہ گزین ہوئے تو حجاج بن یوسف کی فوج نے کعبے پر منجنیقوں سے پتھر برسائے اور پھر آگ لگا دی۔ جس سے حجر اسود کے تین ٹکڑے ہو گئے۔ عباسی خلیفہ الراضی باللہ کے عہد میں ایک قرامطی سردار ابوطاہر حجر اسود اٹھا کر لے گیا اور کافی عرصے بعد اس واپس کیا۔
ج - بو طاہر نامی شخص کی قیادت میں ” قراماتين "نے 317 ہجری میں مکّہ مکرمہ کا محاصرہ کرلیا اور مسجد الحرام جیسے مقدس مقام پر تقریبا” سات سو انسانوں کو قتل کیا اور زم زم کے کنویں کو اور مسجد الحرام کے احاطے کو انسانی لاشوں اور خون سے بھر دیا – اس کے بعد اس نے مکّہ مكرمه کے لوگوں کی قیمتی اشیا کو اور کعبہ مشرفہ میں رکھے جواہرات کو غصب کر لیا اس نے کعبہ کے غلاف کو چیر پھاڑ کر کے اپنے پیروکاروں میں تقسیم کر دیا – کعبہ مشرفہ کے دروازے اور اس کے سنہری پرنالے کو اکھاڑ ڈالا – اور پھر بات صرف یہیں ختم نہیں ہوئی بلكه 7 ذوالحجہ317 ہجری کو ابو طاہر نے حجر اسود کو کعبہ مشرفہ کی دیوار سے الگ کردیا اور اس کی جگہ کو خالی چھوڑ دیا اور اس کو موجودہ دور میں جو علاقہ ” بحرین ” کہلاتا ہے وہاں منتقل کر دیا – یہ حجر اسود کا ایک نہات تکلیف دہ دور تھا – تقریبا 22 سال حجر اسود کعبہ شریف کی دیوار سے جدا رہا – اس دور میں کعبہ مشرفہ کا طواف کرنے والے صرف اس کی خالی جگہ کو چومتے یا اس کا استلام کر تے تھے
پھر الله سبحان و تعالی کی مشیت دیکھیے کہ 22 سال بعد 10 ذوالحجہ 339 ہجری کو” سنبر بن حسن ” جس کا تعلق بھی قراماتین قبیلے سے ہی تھا ، اس نے حجر اسود کو آزاد كرايا اور واپس حجر اسود کے اصل مقام پر پیوست کروا دیا
اس وقت ایک مسئلہ یہ ضرور پیش آیا کہ کیا واقعی یہ اصل حجر اسود ہی ہے یا نہیں تو اس وقت مسلمانوں کے ایک دانشور نے کہا وہ اس کو ٹیسٹ کر کے بتا دے گا کہ یہی اصل حجر اسود ہے یا نہیں کیوں کہ اس نے اس کے بارے میں احادیث کا مطا لعہ کر رکھا ہے .- اس نے حجر اسود پر آگ لگائی تو حجر اسود کو آگ نہیں لگی اور نہ ہی وہ گرم ہوا – پھر اس نے اس کو پانی میں ڈبویا تو یہ پتھر ہونے کے باوجود اپنی خصلت کے بر خلاف پانی میں ڈوبا نہیں بلکہ سطح آب پر ہی تیرتا رہا – اس سے ظاہر ہو گیا کہ یہ اصل جنت کا پتھر ہی ہے کیوں کہ جنت کا پتھر کا آگ سے اور غرق یابی سے بھلا کیا تعلق ہو سکتا ہے
اس وقت ایک مسئلہ یہ ضرور پیش آیا کہ کیا واقعی یہ اصل حجر اسود ہی ہے یا نہیں تو اس وقت مسلمانوں کے ایک دانشور نے کہا وہ اس کو ٹیسٹ کر کے بتا دے گا کہ یہی اصل حجر اسود ہے یا نہیں کیوں کہ اس نے اس کے بارے میں احادیث کا مطا لعہ کر رکھا ہے .- اس نے حجر اسود پر آگ لگائی تو حجر اسود کو آگ نہیں لگی اور نہ ہی وہ گرم ہوا – پھر اس نے اس کو پانی میں ڈبویا تو یہ پتھر ہونے کے باوجود اپنی خصلت کے بر خلاف پانی میں ڈوبا نہیں بلکہ سطح آب پر ہی تیرتا رہا – اس سے ظاہر ہو گیا کہ یہ اصل جنت کا پتھر ہی ہے کیوں کہ جنت کا پتھر کا آگ سے اور غرق یابی سے بھلا کیا تعلق ہو سکتا ہے
د- سن 363 ہجری میں ایک رومی شخص نے اپنے کلہاڑے سے حجر اسود پر کاری ضرب لگائی جس سے اس پر چٹخنے کا ایک واضح نشان پڑ گیا – اس نے دوسری شدید ضرب لگانے کے لیے جیسے ہی اپنے کلہاڑے کو اٹھایا . الله سبحان و تعالی کی مدد آن پہنچی اور قریب ہی موجود ایک یمنی شخص نے جو اس کی یہ گھناونی کاروائی دیکھ رہا تھا ، چشم زدن میں اس نے اسے قتل کر ڈالا اور اس کی حجر اسود پر دوسری ضرب لگانے کی خواہش دل ہی میں رہ گئی
هـ - سن 413 ہجری میں فاطمید نے اپنے 6 پیروکاروں کو مکّہ مكرمه بھیجا جس میں سے ایک الحاکم العبیدی تھا جو ایک مضبوط جسم کا مالک ، سنہرے بالوں والا طویل قد و قامت والا انسان تھا وہ اپنے ساتھ ایک تلوار اور ایک لوہے کی سلاخ لایا تھا – اپنے ساتھیوں کے اکسانے پر اس نے دیوانگی کے عالم میں تابڑ توڑ تین ضربیں ”حجر اسود ” پر لگا ڈالیں جس سے اس کی کرچیاں اڑ گئیں – وہ ہزیانی کیفیت میں اول فول بکتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ ( معاذ الله ) جب تک وہ اسے پورا نہ اکھاڑ پھینکے گا جب تک سکون سے نہ بیٹھے گا – بس اس موقع پر ایک مرتبہ پھر الله سبحان و تعالی کی مدد آن پہنچی اور گھڑ سواروں کے ایک دستے نے ان سب افراد کو گھیر لیا اور ان سب کو پکڑ کر قتل کردیا گیا اور بعد میں ان کی لاشوں کو بھی جلا دیا گیا۔
و- اسی طرح کا ایک واقعہ سن 990 ہجری میں بھی وقوع پذير هوا جب ایک غیر عرب باشندہ اپنے ہتھیار کے ساتھ مطاف میں آیا اور اس نے حجر اسود کو ایک ضرب لگا دی عين اسي وقت اس وقت کا ایک شہزادہ ” شہزادہ نصیر ” مطاف میں موجود تھا جس نے اسے فوری طور سے موت کے گھاٹ اتار دیا
ز - سن 1351 ہجری کے محرم کے مہینے میں میں ایک افغانی باشندہ مطاف میں آیا اور اس نے حجرہ اسود کا ایک ٹکڑا توڑ کر باہر نکال دیا اور کعبہ کے غلاف کا ایک ٹکڑا چوری کر ڈالا س نے کعبہ کی سیڑھیوں کو بھی نقصان پہنچایا – کعبہ مشرفہ کے گرد کھڑے محافظوں نے اسے پکڑ لیا اور پھر اسے مناسب کارروائی کے بعد موت کی سزا دے دی گئی
ح - اس کے بعد 28 ربیع الاول سن 1351 ہجری کو شاہ عبد العزیز نے اس پتھر کو دوبارہ کعبہ مشرفہ کی دیوار میں نصب کیا جو اس فاطر العقل افغانی نے نکال باہر کیا تھا – حجر اسود اس وقت ایک مکمل پتھر کی صورت میں نہیں ہے جیسا کہ یہ جنت سے اتارا گیا تھا بلکہ حوادث ِ زمانہ نے اس متبرک پتھر کو جس کو بوسہ دینے کے لیے اہل ایمان کے دل ہر وقت بےچین رہتے ہیں آٹھ ٹکڑوں میں تبدیل کردیا ہے ۔
روايات كے مطابق سن 606 عيسوي میں جب رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم کی عمر مبارك پينتيس سال تھی ، سیلاب نے کعبے کی عمارت کو سخت نقصان پہنچایا اور قریش نے اس کی دوبارہ تعمیر کی لیکن جب حجر اسود رکھنے کا مسئلہ آیا تو قبائل میں جھگڑا ہوگیا۔ ہر قبیلے کی یہ خواہش تھی کہ یہ سعادت اسے ہی نصیب ہو۔ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے اس جھگڑے کو طے کرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا کہ حجر اسود کو ایک چادر میں رکھا اور تمام سردارانِ قبائل سے کہا کہ وہ چادر کے کونے پکڑ کر اٹھائیں۔ چنانچہ سب نے مل کر چادر کو اٹھایا اور جب چادر اس مقام پر پہنچی جہاں اس کو رکھا جانا تھا تو آپ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے اس کو دیوارِ کعبہ میں نصب کر دیا۔
سب پہلے حضرت عبداللہ بن زبیر رضي الله تعالى عنه نے حجر اسود پر چاندی چڑھوائی 1268ء میں سلطان عبدالحمید نے حجراسود کو سونے میں مڑھوایا ۔ 1281ء میں سلطان عبدالعزیز نے اسے چاندی سے مڑھوایا۔
فضائلِ حجرِ اسود
آحاديث كي روشني ميں
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا
بلاشبہ حجر اسود اورمقام ابراھیم عليه السلام جنت کے یاقوتوں میں سے یاقوت ہيں اللہ تعالٰی نے ان کے نور اور روشنی کوختم کردیا ہے اگراللہ تعالٰی اس روشنی کوختم نہ کرتا تو مشرق ومغرب کا درمیانی حصہ روشن ہوجاتا ۔ ( سنن ترمذی ) ۔
ابن عباس رضي اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا
حجراسود جنت سے نازل ہوا ۔
سنن ترمذي - سنن نسائي
ابن عباس رضي اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا
حجراسود جنت سے آیا تو دودھ سے بھی زیادہ سفید تھا اوراسے بنو آدم کے گناہوں نے سیاہ کردیا ہے ۔
سنن ترمذي
ابن عباس رضي اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے حجراسود کے بارے میں فرمایا
اللہ کی قسم اللہ تعالٰی اسے قیامت کولاۓ گا تواس کی دوآنکھیں ہوں گی جن سے یہ دیکھے گا اورزبان ہوگی ۔جس سے بولے اور ہراس شخص کی گواہی دے گا جس نے اس کا حقیقی استلام کیا
سنن ترمذي - سنن ابن ماجہ
حضرت جابر بن عبداللہ رضي اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم جب مکہ مکرمہ تشریف لاۓ توحجر اسود کا استلام کیا اورپھراس کے دائيں جانب چل پڑے اورتین چکروں میں رمل کیا اورباقی چار میں آرام سے چلے ( صحیح مسلم ) ۔
حجر اسود کا استلام یہ ہے کہ اسے ہاتھ سے چھوا جاۓ ۔ اگر بھیڑ زیادہ ہوتو ہاتھ کے اشارہ بھی کفایت کرے گا۔
صحیح بخاری
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے ارشاد فرمایا
’’أَشْهِدُوْا هذا الْحَجَرَ خَیَراً؛ فَإِنَّه یَوْمَ الْقِیَامَة شَافِعٌ یَشْفَعُ، لَه لِسَانٌ وَشَفَتَانِ یَشْهد لِمَنْ اِسْتَلَمَه‘‘
(رواہ الطبرانی فی الاوسط )
ترجمہ: اس حجرِ اسود کو اپنے عملِ خیر کا گواہ بنالو؛ کیوں کہ قیامت کے دن یہ سفارشی بن کر (اللہ کے دربار میں) اپنے استلام کرنے والوں کے لیے سفارش کرے گا، اس کی ایک زبان اور دو ہونٹ ہوں گے۔
رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم سےحجرِ اسود کا بوسہ دیتے وقت رقت وزاری بھی ثابت ہے، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تقبیل واستلام کو گویاکہ اللہ تعالیٰ سے مصافحہ کرنا قرار دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے
’’مَنْ فَاوَضَه؛ فَاِنَّمَا یُفَاوِضُ یَدَ الرَّحْمٰنِ‘‘
(رواہ ابن ماجہ ، الترغیب والترہیب )
ترجمہ: جو شخص حجرِ اسود کو ہاتھ لگائے تو گویا وہ اللہ تعالیٰ سے مصافحہ کررہا ہے
اس كے علاوه اور بهت سي آحاديث ميں بهي حجر أسود كے فضائل آئے هيں