میت کے حقوق اوراُن کی آدائیگی

میت کے حقوق اوراُن کی آدائیگی

روزِ اوّل سے یہ قدرت کا قانون ہے کہ جو اِس دنیا میں آیا ہے اُس نے ایک دن یہاں سے چلے جانا ہے۔ جيسا كه قرآن مجيد ميں الله تعالى كا أرشاد هے 
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۖ ثُمَّ إِلَيْنَا تُرْجَعُونَ 
(العنکبوت)
ہرجاندارموت کا ذائقہ چکھنے واﻻ ہےاورتم سب ہماری ہی طرف لوٹائےجاؤ گے
اس حوالے سے اسلام کی حقانیت ملاحظہ ہو کہ اسلام میں اس دنیا میں آنے والوں، یعنی زندہ لوگوں کے حقوق کے ساتھ ساتھ اس دنیا سے جانے والوں، یعنی مردوں کے حقوق بھی متعین کیے گئے ہیں، جن کو ادا کرنا زندہ لوگوں کے ذمے ہے۔ذیل میں ان حقوق اور ان کی ادائیگی کا طریقہ بیان کیا جا رہا ہے۔

قریب المرگ شخص کو
 لآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحمدُ رَّسُولُ اللہ کی تلقین کرنا 

جس شخص پر موت کے آثار واضح ہونے شروع ہو جائیں اس کے پاس موجود ورثا کو چاہیے کہ وہ اس کے سامنےلآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحمدُ رَّسُولُ اللہ  کا ورد شروع کردیں، تاکہ ان کو دیکھ کر قریب المرگ شخص بھی لآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحمدُ رَّسُولُ اللہ پڑھنا شروع کردے۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وآله وسلم نے قریب المرگ لوگوں کو لآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحمدُ رَّسُولُ اللہ  کی تلقین کرنے کا حکم دیا ہے۔حضرت ابو سعید خدری رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وآله وسلم نے فرمایا
”تم اپنے قریب الموت (بھائیوں)کو لآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحمدُ رَّسُولُ اللہ کی تلقین کیاکرو۔“(ترمذی)
لآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحمدُ رَّسُولُ اللہ  کا انسان کا آخری کلام ہونا بہت فضیلت کا باعث ہے۔حضرت معاذ بن جبل رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے ‘رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
”جس شخص کا آخری کلام لآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحمدُ رَّسُولُ اللہ ہو گا وہ جنت میں جائے گا۔ “
(ابوداوٴد)
تلقین کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ قریب المرگ شخص کو کلمہ طیبہ پڑھنے کا نہیں کہنا چاہیے، ا س لیے کہ اُس وقت وہ اپنے ہوش وحواس میں نہیں ہوتا اور ہوسکتا کہ وہ کلمہ طیبہ پڑھنے سے انکارکر دے یا کوئی ایسی بات کہہ دے جو اس کے ایمان کے حوالے سے نقصان دہ ہو۔البتہ اس کے پاس موجود اشخاص کو خود کلمہ کا ورد کرنا چاہیے، تاکہ اُن کو دیکھ کروہ بھی کلمہ پڑھنا شروع کردے۔

جان کنی کے وقت سورة یٰسین کی تلاوت کرنا
قریب المرگ شخص کا دوسرا حق یہ ہے کہ اُس کے پاس سورہٴ یٰسین کی تلاوت کی جا ئے ،تاکہ اگراُس پر”غَمَرَاتُ الْمَوْت“ یعنی موت کی سختیاں ہیں تو وہ کم ہوجائیں اور اس کی روح اس کے بدن سے آسانی سے نکل کر اپنے خالق حقیقی کے پاس چلی جائے۔حضرت معقل بن یسار رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وآله وسلم نے فرمایا
”تم اپنے مرنے والوں پر سورئہ یٰسٓ پڑھا کرو۔“
(ابوداوٴد)


اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھنا اور اس کی فضیلت
جب کسی کی وفات کا علم ہو تو اس پراِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھنا چاہیے۔یہ ایک طرح سے اللہ کی رضا پر راضی ہونے کی علامت ہے اور دوسری طرف اس حقیقت کااعتراف ہے کہ اس شخص کی طرح ہم سب نے بھی اپنے خالق کے پاس چلے جانا ہے۔
اس حوالے سے ہمارے ہاں یہ مشہور ہو گیا ہے کہ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ صرف کسی کی موت پرهي پڑھنا مسنون ہے‘حالاںکہ واقعہ یہ ہے کہ کسی بھی نقصان کی صورت میں اسے پڑھنا مسنون عمل ہے ۔اس کے علاوہ احادیث میں اس کے فضائل بھی موجود ہیں۔مثلاً حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
جب کسی انسان کا بیٹا فوت ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے کہتے ہیں:تم نے میرے بندے کے بیٹے کی روح قبض کرلی؟فرشتے کہتے ہیں:ہاں۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:کیا اُس کے دل کے میوہ کو بھی قبض کر لیا؟فرشتے کہتے ہیں:ہاں۔اللہ تعالیٰ پوچھتے ہیں :اس پر میرے بندے نے کیا کہا؟فرشتے کہتے ہیں:اُس نے آپ کی حمد بیان کی اوراِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھا۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:”میرے بندے کے لیے جنت میں ایک گھر بناوٴ اور اس کا نام”بیت الحمد “رکھو۔“
(ترمذی)
اس کے علاوہ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کی فضیلت سے اللہ تعالیٰ اس سے بہتر بدل عطا فرما دیتے ہیں۔اس حوالے سے روایات میں حضرت اُم سلمہ رضي الله تعالى عنها کا واقعہ مذکور ہے۔جن کو اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھنے کی بدولت نبی اکرم صلی الله علیہ وآله وسلم کا ساتھ نصیب ہوا۔

میت کو غسل دینا
جب انسان فوت ہوجائے تو سب سے پہلے اُس کی آنکھیں بند کریں‘اس کے ہاتھ سیدھے کریں اور اُس کی ٹانگیں ساتھ جوڑ دیں ۔اس لیے کہ مرنے کے بعد انسان کا جسم ٹھنڈا ہوکر اکڑ جاتا ہے اور پھر وہ جس حالت میں ہو اسی حالت میں رہتا ہے۔اس کے بعد میت کو غسل دینے کا مرحلہ آتا ہے۔

میت کو غسل دینے کا طریقہ
غسل دینے والے كم از كم دوآدمی ہونے چاہئیں‘ ایک غسل دینے والا اور دوسرا اُس کی مدد کرنے والااور اُن کو چاہیے کہ اپنے ہاتھوں پر دستانے پہن کر میت کو غسل دیں۔سب سے پہلے میت کو کسی تختہ‘جو عموماً مساجد میں موجود ہوتا ہے‘پر قبلہ رخ کرکے لٹایا جائے ۔ پھرپانی میں بیری کے پتے ڈال کر گرم کیا جائے۔میت کے کپڑے اتارکر اس کی شرم گاہ پر کسی کپڑے کو رکھ دیا جائے۔پھر میت کے پیٹ کو نرمی سے دبایا جائے ،تا کہ اگر کوئی گندگی پیٹ میں موجود ہے تو وہ نکل جائے۔پھر میت کی شرم گاہ کو اچھی طرح دھو کر صاف کیا جائے۔پھر میت کو وضو کرایا جائے لیکن منہ اور ناک میں پانی نہ ڈالا جائے بلکہ کپڑا یا روئی گیلی کرکے پہلے منہ ‘دانت اور پھر ناک اچھی طرح صاف کی جائے اور پھر باقی وضو کرایا جائے۔اس کے بعد میت کو بائیں پہلو پر کرکے دائیں پہلو پر پانی بہایا جائے، اور پاوٴں تک اچھی طرح دھو دیا جائے،پھر دائیں پہلو پر کرکے بائیں پہلو کو دھویا جائے۔میت کو غسل دیتے وقت صابن کا استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔میت کے بالوں کو بھی اچھی طرح دھویا جائے۔اس کے بعد میت کو خشک کپڑے سے صاف کیا جائے، تاکہ پانی کے اثرات ختم ہو جائیں اور آخر میں میت کو کافور یا کوئی اورخوش بو لگائی جائے۔
یہ ہے میت کو غسل دینے کا طریقہ ۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وآله وسلم کے فرمان کے مطابق میت کو اس طرح تین یا پانچ مرتبہ غسل دینا چاہیے۔حضرت اُم عطیہ رضي الله تعالى عنها سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی الله علیہ وآله وسلم کی بیٹی حضرت زینب رضي الله تعالى عنها فوت ہوئیں تو رسول اللہ صلی الله علیہ وآله وسلم نے فرمایا
”اس کو طاق یعنی تین یا پانچ مرتبہ غسل دینا اور پانچویں مرتبہ کافور یا اور کوئی خوش بو لگا لینا۔“
(مسلم)
کافور لگانا مسنون اور مستحب عمل ہے اور اس کے کئی فوائد ہیں: اس کی تاثیر ٹھنڈ ی ہوتی ہے جو میت کے جسم کے لیے مفید ہوتی ہے۔اس کی خوشبو ایسی ہے جس سے کیڑے مکوڑے میت کے جلدی قریب نہیں آتے۔

میت کو غسل دینے کی فضیلت
میت کو غسل دینے کا طریقہ سیکھنا ایک تو اس لیے ضروری ہے کہ یہ میت کا ورثا کے ذمے حق ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ میت کو غسل دینا فضیلت کا باعث بھی ہے۔احادیث میں میت کو غسل دینے اور کفن پہنانے والے کو گناہوں سے ایسے پاک قرار دیا گیا ہے جیسے نومولود اپنے پیدائش کے دن گناہوں سے پاک صاف ہوتا ہے۔حضرت علی رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی الله علیہ وآله وسلم نے أرشاد فرمایا
”جس نے میت کو غسل دیا‘ اس کو کفن دیا‘ اس کو خوش بو لگائی‘ اس کو کندھا دیا ‘اس پر نماز(جنازہ)پڑھی اور اس کے راز کو ظاہر نہیں کیا جو اس نے دیکھا تو وہ غلطیوں (اور گناہوں) سے ایسے پاک صاف ہوجائے گا جیسے اُس کی ماں نے اُسے آج ہی جنا ہے ۔“
(ابن ماجہ)

میت کو کفن پہنانا
میت کو غسل دینے کے بعد میت کو کفن پہنایا جائے گا۔ کفن کے بارے میں نبی اکرم صلی الله علیہ وآله وسلم کی ایک نصیحت یہ ہے کہ کفن سفید رنگ کا صاف ستھرا کپڑا ہو۔ رسو ل اللہ صلی الله علیہ وآله وسلم نے فرمایا
”تم سفید کپڑے پہنا کرو‘ وہ تمہارے لیے اچھے کپڑے ہیں اور انہی میں اپنے مرنے والوں کو کفن دیا کرو۔“
(ابوداوٴد)
کفن کے بارے میں آپ صلی الله علیہ وآله وسلم کی دوسری نصیحت یہ ہے کہ وہ زیادہ قیمتی نہ ہو،اس لیے کفن کے لیے مہنگا نہیں،بلکہ درمیانہ کپڑا ہونا چاہیے۔ آپ صلی الله علیہ وآله وسلم نے فرمایا
”زیادہ قیمتی کفن استعمال نہ کرو، کیوں کہ وہ جلدی ختم ہو جاتا ہے۔“
(ابوداوٴد)
مستحب ہے کہ مردوں کو تین کپڑوں میں کفن دیا جائے :بڑی چادر(لفافہ) چھوٹی چادر اورقمیص جب کہ عورت کو پانچ کپڑوں میں کفن دینا مستحب ہے: بڑی چادر(لفافہ)چھوٹی چادراورقمیص دوپٹہ (اوڑھنی) اورسینہ بند ۔
کفن کے حوالے سے یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ مجبوری کی حالت میں ایک کپڑے کا کفن بھی ہو سکتا ہے اور پرانے اور سفید رنگ کے علاوہ کسی اور رنگ کے کپڑے کا کفن بھی دیا جا سکتا ہے۔

کفن پر دعائیہ کلمات لکھنا
بعض اوقات یہ دیکھا گیا ہے کہ لوگ کفن پر کلمہٴ طیبہ‘قرآنی آیات، آیت کریمہ اور مختلف دعائیہ کلمات لکھتے ہیں، حالاںکہ ایسا کرنا نبی اکرم صلی الله علیہ وآله وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ثابت نہیں ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ کفن پر آیات اوردوسرے مقدس کلمات کو لکھنے سے ان کی بے حرمتی بھی ہوتی ہے، اس لیے کفن پر کچھ نہیں لکھنا چاہیے۔


میت کو لے جانے میں جلدی کرنا
غسل اور کفن دینے کے بعد میت کو جلد سے جلد نماز جنازہ کے لیے لے جانا بھی میت کا حق ہے  بہت دیر تک رشتہ داروں کو میت کا دیدار کرانے کے لیے انتظار کرنا مناسب نہیں ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضي الله تعالى عنه سے مروی ہے‘رسول اللہ صلی الله علیہ وآله وسلم نے فرمایا
جنازے کو تیز لے جایا کرو ۔اس لیے کہ اگر وہ نیک ہے تو (قبر اس کے لیے) خیر ہے، جہاں تم اس کو جلدی پہنچا دو گے اور اگر اس کے سوا کوئی اور صورت ہے تو ایک برا (بوجھ تمہارے کندھوں پر) ہے تو (تم تیز چل کر جلدی) اس کو اپنے کندھوں سے اتار دو گے۔
(بخاری)

نماز ِجنازہ ادا کرنا
نمازِ جنازہ فرض کفایہ ہے اور چند لوگوں کے ادا کرنے سے یہ سب کی طرف سے کفایت کرجائے گا ‘لیکن اگر کافی تعداد میں لوگ نمازِ جنازہ پڑھیں گے اور اللہ سے اس میت کی بخشش اور بلندیٴ درجات کی دعا اور سفارش کریں گے تو یہ میت کے حق میں بھی بہتر ہوگا اور پڑھنے والے بھی اجر وثواب کے مستحق ہوں گے۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وآله وسلم نے فرمایا
 جس میت پر مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت نماز پڑھے، جن کی تعداد سو تک پہنچ جائے اور وہ سب اللہ کے حضور اس میت کے لیے سفارش کریں تو ان کی یہ سفارش میت کے حق میں ضرور قبول ہو گی۔ 
(مسلم)

نماز جنازہ پڑھانے کا حق دار کون؟
یہاں یہ بھی نوٹ کرلیں کہ نمازجنازہ پڑھانے کے سب سے زياده حق دار میت کے قریبی ورثا ہیں ‘ بالخصوص والدین کی نمازِ جنازہ پڑھانے کا زیادہ حق دار بیٹا ہے …اس حوالے سے یہ نوٹ کریں کہ ہمارے معاشرے میں اکثر لوگوں کو نمازِ جنازہ کا طریقہ اور جنازہ کی دعا یاد نہیں ہے۔ ہمیں چاہیے کہ نمازِ جنازہ اوراس کی دعا کو سیکھیں اور اپنے والدین اور ورثا کی نمازِ جنازہ پڑھانے کی سعادت حاصل کریں۔

جنازے کے ساتھ جانا اور جنازے کوکندھا دینا
نمازِ جنازہ اداکرنے کے بعد میت کو دفنانے کے لیے قبرستان لے جایا جاتا ہے ۔میت کے ساتھ قبرستان جانا اور جنازے کو کندھا دینا ایک طرف میت کا حق ہے تو دوسری طرف بہت اجر وثواب کا باعث بھی۔اس لیے نبی اکرم صلی الله علیہ وآله وسلم نے جنازے کے ساتھ جانے‘نمازِ جنازہ پڑھنے اور دفنانے تک میت کے ساتھ رہنے والے کو اُحد پہاڑ جتنے دو قیراط اجر وثواب کا مستحق قرار دیا ہے۔رسول اللہ صلی الله علیہ وآله وسلم نے فرمایا
جو آدمی ایمان کی صفت اور ثواب کی نیت سے کسی مسلمان کے جنازے کے ساتھ جائے اور اُس وقت تک جنازے کے ساتھ رہے جب تک کہ اُس پر نماز پڑھی جائے اور اس کے دفن سے فراغت ہو تو وہ ثواب کے دو قیراط لے کر واپس ہو گا‘ جس میں سے ہر قیراط گویا اُحد پہاڑ کے برابر ہو گا۔ اور جو آدمی صرف نمازِ جنازہ پڑھ کر واپس آجائے تو وہ ثواب کا ایک قیراط لے کر واپس ہو گا۔ “
(بخاری)

جنازے کو کندھا دینے کا طریقہ اور اس کی فضیلت
چارپائی کے دائیں پائے کو کندھا دیا جائے اور پھر ساتھ ساتھ پیچھے آتے ہوئے پچھلے پائے کو کندھا دیا جائے۔اس کے بعد چارپائی کے آگے والے بائیں پائے کو کندھا دیا جا ئے اور پھر ساتھ ساتھ پیچھے آتے ہوئے پچھلے پائے کو کندھا دیاجائے۔ایک ايك دفعہ چاروں طرف کندھا دینا مسنون عمل ہے۔اس حوالے سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضي الله تعالى عنه کا قول ہے ”جو جنازے کے ساتھ چلے اس کو چاہیے کہ چارپائی کے ہر طرف (پائے)کو کندھا دے، اس لیے کہ یہ مسنون ہے۔پھر اگر چاہے تو مزید کندھا دے اور اگر چاہے تو نہ دے۔“
(ابن ماجہ)
جنازے کو کندھا ایک طرف میت کا حق ہے تو دوسری طرف یہ انسان کے کبیرہ گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔اس حوالے سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا قول مبارک ملاحظہ ہو
جس نے جنازے کے چاروں جانب کندھا دیا تو اللہ تعالیٰ (جنازہ کو کندھا دینے کو)اس کے چالیس کبیرہ گناہوں کا کفارہ بنا دیں گے۔
(مجمع الزوائد)
عورت کی میت کو بھی ہر شخص کندھا دے سکتا ہے اس میں محرم ‘غیر محرم کا کوئی فرق نہیں ہے‘البتہ عورت کی میت کو قبر میں اتارنے کی ذمہ داری محرم ہی پوری کرے۔


جنازے کے احترام میں کھڑا ہونا
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شروع زمانہ میں نبی اکرم صلی الله علیہ وآله وسلم جنازہ کے احترام میں کھڑے ہوا کرتے تھے‘ لیکن ایک بار جنازہ کو دیکھ کر کھڑے ہوئے تو پاس موجود ایک یہودی نے کہا کہ ہم بھی ایسا کرتے ہیں۔اُس وقت سے نبی اکرم صلی الله علیہ وآله وسلم نے یہودیوں کی مخالفت میں جنازہ کے لیے کھڑے ہونے سے منع فرمادیا۔حضرت عبادہ بن صامت رضي الله تعالى عنه فرماتے ہیں
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم جنازہ کو دیکھ کر کھڑے ہوجاتے تھے، یہاں تک کہ میت کو لحد میں اتار دیا جاتا۔ایک مرتبہ ایک یہودی کا گزر ہوا(اور آپ صلی الله علیہ وآله وسلم جنازہ کے احترام میں کھڑے تھے)۔اُس یہودی نے کہا کہ ہم بھی ایسا کرتے ہیں۔پس نبی اکرم صلی الله علیہ وآله وسلم فوراً بیٹھ گئے اور فرمایا:(جنازہ دیکھ کر)اِن کی مخالفت میں بیٹھے رہو(اور کھڑے نہ ہو)۔“
(ابوداوٴو)
آج بھی اگر کوئی جنازہ کو دیکھ کر میت کے احترام کی نیت سے کھڑا ہوجاتا ہے تو ایسا کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے‘لیکن اولیٰ یہی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وآله وسلم کے طرزِعمل کو اپنایا جائے۔

میت کو دفن کرنا اور مٹی ڈالنا
میت کوتیار کی گئی قبر کے پاس رکھا جائے ۔اگر قبر میں کوئی چٹائی یا کپڑا بچھا لیا جائے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ پھر کوئی قریبی رشتہ دار احتیاط کے ساتھ میت کو قبر میں اتارے۔ میت کو قبر میں اتارتے وقت نبی اکرم صلی الله علیہ وآله وسلم کے مبارك فرمان کے مطابق
بِسْمِ اللّٰہِ وَعَلٰی مِلَّةِ رَسُوْلِ اللّٰہِ پڑھنا چاہیے اور اگر کسی کو یہ یاد نہ ہوتو بسم اللہ پڑھ لے۔
میت کو قبر میں اتارنے کے بعد اس پر مٹی ڈالی جاتی ہے۔وہاں موجود لوگوں کو چاہیے کہ وہ نبی اکرم صلی الله علیہ وآله وسلم کے عمل کے مطابق تین بار مٹھی بھر کر سر والی طرف مٹی ڈالیں۔علمائے کرام نے لکھا ہے کہ پہلی دفعہ﴿مِنْھَا خَلَقْنٰکُمْ﴾‘ دوسری دفعہ ﴿وَفِیْھَا نُعِیْدُکُمْ﴾‘اور تیسری دفعہ ﴿وَمِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَةً اُخْرٰی﴾پڑھنا چاہیے۔


دفنانے کے بعد دعا کرنا
جب میت کو مکمل طور پر دفنادیا جائے تو پھر وہاں موجود لوگوں کو چاہیے کہ میت کی بخشش اور اس کی استقامت کے لیے دعاگو ہوں، اس لیے کہ اب اُس کے اصل امتحان کا وقت شروع ہو گیا ہے۔حضرت عثمان غنی رضي الله تعالى عنه اس حوالے سے نبی اکرم صلی الله علیہ وآله وسلم کے معمول کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں
نبی اکرم صلی الله علیہ وآله وسلم جب میت کو دفن کرنے سے فارغ ہوتے تو وہاں کچھ دیر رکتے اور فرماتے اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور اس کے لیے ثابت قدمی کی دعا کرو،اس لیے کہ اِس وقت اُس سے سوال کیا جارہا ہے۔
(ابوداوٴو)
اس کے علاوہ بھی ورثا اور خاص کر اولاد کو چاہیے کہ وہ اپنے والدین کی بخشش کے لیے ہر وقت دعا گو ہوں اور نیک کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، اس لیے کہ اولاد کے نیک اعمال کا ثواب فوت شدہ والدین کے نامہ اعمال میں بھی لکھا جاتا ہے۔


میت کے لواحقین سے تعزیت کرنا
تعزیت کا عام فہم معنی یہ ہے کہ میت کے لواحقین او راس کے اہل خانہ سے ایسے کلمات کہنا جن کو سن کر اُن کا صدمہ کچھ کم ہوجائے ۔ تعزیت کرنا بھی زندہ لوگوں کے ذمے ایک فرض ہے، جس کی بہت فضیلت ہے۔نبی اکرم صلی الله علیہ وآله وسلم نے فرمایا
جو کوئی اپنے موٴمن بھائی کی مصیبت پر تعزیت کرے گا تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ اسے قیامت کے روز عزت کا تاج پہنائے گا۔
(ابن ماجہ)
ہمارے معاشرے میں تعزیت بھی صرف رسماً کی جاتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ تعزیت کومیت کا حق سمجھ کر کریں، تاکہ مذکورہ اجرکے حق دار بن سکیں۔


میت کے ذمے واجب الادا قرض کو ادا کرنا
میت کی تدفین اور باقی معاملات سے فراغت کے بعد ورثا کو چاہیے کہ میت کے ذمے اگرکوئی قرض ہے تو اس کی جلد ادا ئیگی کی فکر کریں۔اس لیے کہ جب تک قرض ادا نہیں ہوجاتا انسان کی روح معلق رہتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے‘رسول اللہ صلی الله علیہ وآله وسلم نے فرمایا
”موٴمن کی روح اس وقت تک معلق رہتی ہے جب تک اس کا قرض ادا نہ کر دیا جائے۔“
(ابن ماجہ)
قرض ادا کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر قرض ادا نہ کیا گیا تو قیامت کے دن اس قرض کے بدلے میں اِس میت کی نیکیاں لے لی جائیں گی اوراس طرح مقروض صرف قرض ادا نہ کرنے کی وجہ سے جنت سے محروم کر دیا جائے گا۔اسی وجہ سے نبی اکرم صلی الله علیہ وآله وسلم نے فرمایا
جس کی روح اُس کے جسم سے اس حال میں جدا ہوئی کہ وہ تین چیزوں تکبر دھوکہ دہی اورقرضہ سے بچا رہا تو وہ جنت میں داخل ہوگیا۔“
(ابن ماجہ)


میت کی طرف سے حج کرنا
اگر کسی نے حج کرنے کی نذر مانی ‘لیکن وہ حج کرنے سے پہلے ہی وفات پا گیاتواب اس کے ورثا پر لازم ہے کہ وہ اُس کی اِس نذر کو پورا کریں۔اس لیے کہ یہ بھی میت کے ذمے قرض ہے، جسے ادا کرنا ورثا پر لازم ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نبی اکرم صلی الله علیہ وآله وسلم کے پاس آئی اور عرض کیا کہ میری ماں نے حج کرنے کی نذر مانی تھی، لیکن وہ حج کرنے سے پہلے ہی وفات پا گئی۔کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
ہاں‘اس کی طرف سے حج کرو۔تیرا کیا خیال ہے کہ اگر تیری ماں پر کوئی قرض ہوتا تو کیا تو اسے ادا نہ کرتی؟(یہ نذر اللہ کا قرض ہے‘لہٰذا) اللہ کا قرض ادا کرو، اس لیے کہ اللہ زیادہ حق دار ہے کہ اس کا قرض ادا کیا جائے۔“
(بخاری)
اس کے علاوہ اگر نذر نہ بھی مانی ہو تب بھی اولاد اپنے والدین یا قریبی رشتہ دار کی طرف سے حج کرسکتے ہیں ‘اس کا اجر و ثواب ان شاء اللہ تعالیٰ میت کو ضرورپہنچے گا۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے انسان اپنا فرض حج ادا کرے اور بعد میں والدین یا رشتہ دارکی طرف سے حج یا عمرہ کرے۔

میت کے قضا روزوں اور نمازوں کا فدیہ ادا کرنا
علمائے کرام نے لکھا ہے کہ اگر کسی شخص نے روزہ رکھنے کی نذر مانی اور روزے رکھنے سے پہلے وفات پا گیا تو اس کے ورثا نذر کے روزوں کو بالفعل رکھ سکتے ہیں‘ لیکن رمضان کے فرض روزوں اور فرض نمازوں کو بالفعل ادا نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اگر ممکن ہو تو حساب کرکے میت کی طرف سے فی روزہ اور فی نماز صدقہ فطر کے برابر فدیہ اداکریں۔اس حوالے سے مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمة الله عليه کا جواب ملاحظہ ہو
”فرض نماز اور روزہ ایک شخص دوسرے کی طرف سے ادا نہیں کر سکتا‘البتہ نماز روزے کا فدیہ مرحوم کی طرف سے اس کے وارث ادا کرسکتے ہیں۔پس اگر آپ اپنی والدہ کی طرف سے نمازیں قضا کرنا چاپتی ہیں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس گنجائش ہو تو ان کی نمازوں کاحساب کرکے ہر نماز کا فدیہ صدقہ فطر کے برابر ادا کریں۔وتر کی نماز سمیت ہر دن کی نمازوں کے چھ فدیے ہوں گے۔ویسے آپ نوافل پڑھ کر اپنی والدہ کو ایصالِ ثواب کر سکتی ہیں۔“(آپ کے مسائل اور ان کا حل)

میت کی طرف سے صدقہ خیرات کرنا
فوت شدہ قریبی رشتہ داروں اور خاص کر فوت شدہ والدین کی طرف سے صدقہ وخیرات کرنا فوت شدگان کے لیے بھی باعث ثواب ہے اور صدقہ خیرات کرنے والے کے حق میں بھی باعث برکت ہے۔
 حضرت سعد بن عبادہ رضي الله تعالى عنه كي والدہ کا ان کی عدم موجودگی میں انتقال ہو گیا۔جب وہ واپس آئے تو رسول اللہ صلی الله علیہ وآله وسلم کی خدمت میں حاضرہو کر گزارش کی كه  یارسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم میری والدہ نے میری غیر حاضری میں وفات پائی‘ اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا انہیں کوئی نفع پہنچے گا ؟تو آپ صلی الله علیہ وآله وسلم نے فرمایا :”ہاں‘ پہنچے گا“ ۔ انہوں نے عرض کیا: آپ صلی الله علیہ وآله وسلم گواہ رہیں ‘میں نے اپنا مخراف نامی باغ ان کی طرف سے صدقہ کردیا۔ “
(بخاری)
اسی طرح اور بھی بہت سی روایات ہیں، جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ صدقہ و خیرات کا اجر و ثواب فوت شدگان کو پہنچتا ہے۔


عورت کا عدت گزارنا
میت کے لیے تین دن سے زیادہ سوگ منانا جائز نہیں ہے‘البتہ عورت کے لیے اپنے خاوند کے مرنے پر عدت گزارنا لازم ہے اور یہ میت کا حق بھی ہے۔عدت کے حوالے سے یہ نوٹ کرلیں کہ عورت اگر حاملہ ہے تو اُ س کی عدت وضع حمل یعنی بچے کی پیدائش ہے اور اگر وہ حاملہ نہیں ہے تو اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔اس مدت میں وہ گھر میں سادگی اختیار کرتے ہوئے رہے اوربغیر کسی مجبوری اور شرعی عذر کے گھر سے باہر نہ نکلے۔اگر مجبوری کے وقت گھر سے باہر جانا بھی پڑے تو سادگی اور پردہ کا خصوصی لحاظ رکھے۔


 حاصلِ کلام
-پیدائش‘ شادی اور وفات انسانی زندگی کے تین اہم مراحل ہیں اور ان مراحل کے حوالے سے کچھ رسومات اور افعال ایسے ہیں جو دین اسلام سے ثابت ہیں جب کہ کچھ رسومات اور افعال ایسے ہیں جنہیں اسلامی معاشروں نے ہندوانہ تہذیب سے مستعار لیا ہے ۔ان کے بارے میں قاعدہ تو یہی ہے کہ جو افعال اسلامی پہلوسے ثابت ہیں اُن کو اپنایا جائے اور جن کا ثبوت نہیں ملتا اُن سے کنارہ کشی کی لي جائے۔
---------------
Share: