تعويذ كي شرعي حيثيت
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سوال: تعويذ كي شرعي حيثيت واضح فرماديں - شكريه
---------الجواب حامداًومصلیاً ---------
وعلیکم السلام
وعلیکم السلام
تعویذ کرنا اور باندھنا درجِ ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے
أ- تعویذ قرآنی آیات ، احادیثِ مبارکہ کی دعاؤں یا ایسے کلمات پر مشتمل ہوں جن کے معانی سمجھ میں آسکتے ہوں اور ان کا مفہوم شریعت کے مطابق ہو ۔
ب - ان میں غیر اللہ سے مدد نہ مانگی گئی ہو ، یعنی شرکیہ یا مُوہمِ شرک کلمات ان میں نہ ہوں، نیز ان کلمات کا مفہوم مبہم اور غیر واضح نہ ہو ۔
ج - یہ عقید ہ نہ ہو کہ یہ بذاتِ خود مؤثر ہیں ، بلکہ عقیدہ یہ ہو کہ اصل مؤثر اللہ تعالیٰ کی ذات ہے
لہٰذا جس تعویذ میں مندرجہ بالا شرائط پائی جائیں ،جائز کام کے لئے ان کا اُن کا بنانا اور باندھنا جائز ہے، اور یہی جمہور فقہاء امت کا مذہب ہے،اور اس کو شرک قرار دینا غلط ہےاور اس سلسلہ میں جس حدیث شریف سے استدلال کیا جاتا ہے وہ ترمذی شریف وغیرہ میں مذکور ہے جس کے پورے الفاظ درج ذیل ہیں
عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن رسول الله صلى الله عليه وآله و سلم قال إذا فرغ أحدكم في النوم فليقل أعوذ بكلمات الله التامات من غضبه وعقابه وشر عباده ومن همزات الشيطان وأن يحضرون فإنها لن تضره قال وكان عبد الله بن عمرو يعلمها من بلغ من ولده ومن لم يبلغ منهم كتبها في صك ثم علقها في عنقه قال أبو عيسى هذا حديث حسن غريب
عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن رسول الله صلى الله عليه وآله و سلم قال إذا فرغ أحدكم في النوم فليقل أعوذ بكلمات الله التامات من غضبه وعقابه وشر عباده ومن همزات الشيطان وأن يحضرون فإنها لن تضره قال وكان عبد الله بن عمرو يعلمها من بلغ من ولده ومن لم يبلغ منهم كتبها في صك ثم علقها في عنقه قال أبو عيسى هذا حديث حسن غريب
(سنن الترمذي )
امام ترمذی ؒ نے اس حدیث کو حسن غریب فرمایا ہے جس کو مطلب یہ ہے کہ اگرچہ یہ حدیث مختلف طرق سے مروی نہیں لیکن اس کی سند میں کوئی ایسا راوی نہیں جو متہم بالکذب ہو یا اس کی عدالت میں کلام ہو لہذا یہ حدیث شریف حسن ہے اس کو سندا ضعیف یا جھوٹا کہنا درست نہیں
اور جن احادیث سے ممانعت معلوم ہوتی ہے جن میں مشہور حدیث وہ ہے جو ابوداؤد شریف میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضي الله تعالى عنه سے مروی ہے کہ
’’ان الرقیٰ والتمائم والتولة شرک‘‘
امام ترمذی ؒ نے اس حدیث کو حسن غریب فرمایا ہے جس کو مطلب یہ ہے کہ اگرچہ یہ حدیث مختلف طرق سے مروی نہیں لیکن اس کی سند میں کوئی ایسا راوی نہیں جو متہم بالکذب ہو یا اس کی عدالت میں کلام ہو لہذا یہ حدیث شریف حسن ہے اس کو سندا ضعیف یا جھوٹا کہنا درست نہیں
اور جن احادیث سے ممانعت معلوم ہوتی ہے جن میں مشہور حدیث وہ ہے جو ابوداؤد شریف میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضي الله تعالى عنه سے مروی ہے کہ
’’ان الرقیٰ والتمائم والتولة شرک‘‘
(سنن ابی داؤد)
اسی طرح ایک اور روایت میں آتا ہے کہ
من علّق تمیمة ً فقد اشرک
اسی طرح ایک اور روایت میں آتا ہے کہ
من علّق تمیمة ً فقد اشرک
(مسند احمد ومستدرک علی الصحیحین)
ان روایات میں ’’ تمیمۃ ‘‘ سے زمانۂ جاہلیت کے وہ تعویذات مراد ہیں جن میں یا تو شرکیہ کلمات ہوتے تھے یا جن کے بارے میں اہلِ جاہلیت کا یہ اعتقاد ہوتا تھا کہ وہ مؤثر بالذات ہیں یعنی خود نافع یا دافع ضرر ہیں ، اس طرح کا ہر تعویذ ناجائز ہے اور احادیثِ مبارکہ میں ایسے ’’تمائم‘‘ کو شرک قرار دے کر اہلِ جاہلیت کے اس اعتقاد کو باطل قرار دیا گیا ہے ۔
لیکن جو تعویذات آیاتِ قرآنیہ یا ادعیۂ ماثورہ وغیرہ پر مشتمل ہوں اور اُن کو مؤثر بالذات نہ مانا جائے بلکہ مؤثر بالذات اللہ جلّ شانہٗ کی ذات ہی کو مانا جائے اور ان کو محض اسباب کے درجہ میں رکھا جائے تو جس طرح سبب کے درجہ میں دوا استعمال کرنا جائز ہے اسی طرح ان تعویذات کو لکھنا اور باندھنا بھی جائز ہے ۔ اور جن احادیث میں ممانعت آئی ہے اُن کا ان تعویذات سے کوئی تعلق نہیں ، اور ایسے تعویذ شروع ہی سے ان روایات کے تحت داخل نہیں بلکہ ان روایات سے وہی ’’تمائم‘‘ مراد ہیں جو زمانۂ جاہلیت میں رائج تھے ، اس کا ایک قوی قرینہ یہ ہے کہ بعض روایات میں تمائم (تعویذات) کے ساتھ ’’رُقیٰ‘‘ کو بھی شرک قرار دیا گیا ہے ، حالانکہ ’’رُقیٰ‘‘ کے جواز پر چند شرطوں کے ساتھ اجماع ہے ، جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رُقیٰ یا تعویذات کو جو شرک قرار دیا گیا ہے اس سے وہ تعویذات مراد ہی نہیں جن کو جمہور فقہاء و مشائخ جائز قرار دیتے ہیں بلکہ وہ مراد ہیں جو زمانۂ جاہلیت میں رائج تھے
اسی معنی و مراد کو حضراتِ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ، حضراتِ تابعین ؒ اور بعد کے علماء و مشائخ نے سمجھا اور عمل کیا ، چنانچہ حضرت عائشہ ، حضرت عبد اللہ بن عمر ، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص ، حضرت سعید بن مسیب ، حضرت ابن سیرین ، حضرت مجاہد اور حضرت ضحاک رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ وتابعین اور جمہور فقہاء رحمہم اللہ تعالیٰ مذکورہ شرائط کے ساتھ تعویذات کے جواز کے قائل ہیں ۔ و اللہ اعلم بالصواب
ان روایات میں ’’ تمیمۃ ‘‘ سے زمانۂ جاہلیت کے وہ تعویذات مراد ہیں جن میں یا تو شرکیہ کلمات ہوتے تھے یا جن کے بارے میں اہلِ جاہلیت کا یہ اعتقاد ہوتا تھا کہ وہ مؤثر بالذات ہیں یعنی خود نافع یا دافع ضرر ہیں ، اس طرح کا ہر تعویذ ناجائز ہے اور احادیثِ مبارکہ میں ایسے ’’تمائم‘‘ کو شرک قرار دے کر اہلِ جاہلیت کے اس اعتقاد کو باطل قرار دیا گیا ہے ۔
لیکن جو تعویذات آیاتِ قرآنیہ یا ادعیۂ ماثورہ وغیرہ پر مشتمل ہوں اور اُن کو مؤثر بالذات نہ مانا جائے بلکہ مؤثر بالذات اللہ جلّ شانہٗ کی ذات ہی کو مانا جائے اور ان کو محض اسباب کے درجہ میں رکھا جائے تو جس طرح سبب کے درجہ میں دوا استعمال کرنا جائز ہے اسی طرح ان تعویذات کو لکھنا اور باندھنا بھی جائز ہے ۔ اور جن احادیث میں ممانعت آئی ہے اُن کا ان تعویذات سے کوئی تعلق نہیں ، اور ایسے تعویذ شروع ہی سے ان روایات کے تحت داخل نہیں بلکہ ان روایات سے وہی ’’تمائم‘‘ مراد ہیں جو زمانۂ جاہلیت میں رائج تھے ، اس کا ایک قوی قرینہ یہ ہے کہ بعض روایات میں تمائم (تعویذات) کے ساتھ ’’رُقیٰ‘‘ کو بھی شرک قرار دیا گیا ہے ، حالانکہ ’’رُقیٰ‘‘ کے جواز پر چند شرطوں کے ساتھ اجماع ہے ، جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رُقیٰ یا تعویذات کو جو شرک قرار دیا گیا ہے اس سے وہ تعویذات مراد ہی نہیں جن کو جمہور فقہاء و مشائخ جائز قرار دیتے ہیں بلکہ وہ مراد ہیں جو زمانۂ جاہلیت میں رائج تھے
اسی معنی و مراد کو حضراتِ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ، حضراتِ تابعین ؒ اور بعد کے علماء و مشائخ نے سمجھا اور عمل کیا ، چنانچہ حضرت عائشہ ، حضرت عبد اللہ بن عمر ، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص ، حضرت سعید بن مسیب ، حضرت ابن سیرین ، حضرت مجاہد اور حضرت ضحاک رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ وتابعین اور جمہور فقہاء رحمہم اللہ تعالیٰ مذکورہ شرائط کے ساتھ تعویذات کے جواز کے قائل ہیں ۔ و اللہ اعلم بالصواب