حضرت بلال رضي الله تعالى عنه
چمک اٹھا جو ستارہ ترے مقدّر کا
حبش سے تجھ کو اٹھا کر حجازمیں لایا
ہوئی اسی سے ترےغم کدے کی آبادی
تری غلامی کے صدقے ھزارها آزادی
وہ آستاں نہ چھٹا تجھ سے ایک دم کے لیے
کسی کے شوق میں تونے مزے ستم کے لیے
جفا جو عشق میں ہوتی ہے وہ جفا ہی نہیں
ستم نہ ہو تو محبت میں کچھ مزا ہی نہیں
نظر تھی صورت سلماںؓ ادا شناس تری
شرابِ دید سے بڑھتی تھی اور پیاس تری
تجھے نظارے کا مثِل کلیمؑ سودا تھا
اویسؓ طاقتِ دیدار کو ترستا تھا
مدینہ تیری نگاہوں کا نور تھا گویا
ترے لیے تو یہ صحرا ہی طور تھا گویا
تری نظر کو رہی دید میں بھی حسرتِ دید
خنک دلے کہ تپید و دمے نیا سائید
گری وہ برق تری جانِ نا شکیبا پر
کہ خندہ زن تری ظلمت تھی دستِ موسٰیؑ پر
تپش شعلہ گرفتند و بردل تو زدند
!چہ برقِ جلوہ بخاشاک حاصلِ تو زدند
ادائے دید سراپا نیاز تھی تیری
کسی کو دیکھتے رہنا نماز تھی تیری
اذاں ازل سے ترے عشق کا ترانہ بنی
نماز اس کے نظارے کا اک بہانہ بنی
!خوشا وہ وقت کہ یثرب مقام تھا اس کا
!خوشا وہ دَور کہ دیدار عام تھا اس کا
------------(علامه محمد أقبال رحمة الله عليه)
چمک اٹھا جو ستارہ ترے مقدّر کا
حبش سے تجھ کو اٹھا کر حجازمیں لایا
ہوئی اسی سے ترےغم کدے کی آبادی
تری غلامی کے صدقے ھزارها آزادی
وہ آستاں نہ چھٹا تجھ سے ایک دم کے لیے
کسی کے شوق میں تونے مزے ستم کے لیے
جفا جو عشق میں ہوتی ہے وہ جفا ہی نہیں
ستم نہ ہو تو محبت میں کچھ مزا ہی نہیں
نظر تھی صورت سلماںؓ ادا شناس تری
شرابِ دید سے بڑھتی تھی اور پیاس تری
تجھے نظارے کا مثِل کلیمؑ سودا تھا
اویسؓ طاقتِ دیدار کو ترستا تھا
مدینہ تیری نگاہوں کا نور تھا گویا
ترے لیے تو یہ صحرا ہی طور تھا گویا
تری نظر کو رہی دید میں بھی حسرتِ دید
خنک دلے کہ تپید و دمے نیا سائید
گری وہ برق تری جانِ نا شکیبا پر
کہ خندہ زن تری ظلمت تھی دستِ موسٰیؑ پر
تپش شعلہ گرفتند و بردل تو زدند
!چہ برقِ جلوہ بخاشاک حاصلِ تو زدند
ادائے دید سراپا نیاز تھی تیری
کسی کو دیکھتے رہنا نماز تھی تیری
اذاں ازل سے ترے عشق کا ترانہ بنی
نماز اس کے نظارے کا اک بہانہ بنی
!خوشا وہ وقت کہ یثرب مقام تھا اس کا
!خوشا وہ دَور کہ دیدار عام تھا اس کا
------------(علامه محمد أقبال رحمة الله عليه)