إيصالِ ثواب كے لئے مروجه قرآن خواني
اور مروجه مجالس ذكر
سوال: کیا فرماتے هيں علمائے دين اور مفتيان عظيم بيچ إس مسئله كے كه كيا إيصال ثواب كے لئے مروجه قرآن خوانی اور مروجه مجالس ذكر وغيره جائز ہيں ۔۔۔؟یعنی چند لوگوں کو جو قرآن پڑھنا جانتے ہوں ایک جگہ بلا کر ان سے قرآن پڑھوایا جائے۔ إسي طرح لوگوں كو مخصوص طريقه سے ذكر كے لئے جمع كيا جائے اور آخر میں کھانے پینے كا إهتمام بهي كرليا جائے يا كهانے پينے کی چیزیں شركاء كو بانٹ کر اجتماعی دعا کروائی جائے۔۔۔؟؟
------الجواب حامداً و مصلیاً ------
ایصالِ ثواب فی نفسہ جائز اور باعثِ اجر و ثواب ہے،لیکن اس کے لئے کوئی خاص طریقہ یا دن یا وقت یا اجتماعی کیفیت شرعاً مقررنہیں،بلکہ ہرشخص انفرادی طورپرکوئی بھی نفل عبادت کرکےایصالِ ثواب کرسکتا ہے، مثلاً نفل نمازیں،نفل روزے،نفل حج و عمرہ، قرآنِ کریم کی تلاوت، تسبیحات، کلمۂ طیبہ، درود شريف وغيره پڑھ کریا حسبِ توفیق نقد رقم یا کھانا وغیرہ صدقہ خیرات کرکے یا تعمیر مساجد ودینی مدارس یا دینی و مذہبی کتابوں کی فی سبیل اللہ اشاعت کرکے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے کہ اے اللہ میرے اس عمل کا جو کچھ ثواب آپ نے مجھے عطا فرمایا ہے وہ ثواب فلاں شخص کوپہنچا دیجئے بس اس سے مرحوم کو ثواب پہنچ جائے گا،ایصالِ ثواب کی حقیقت شریعت میں فقط اتنی ہی ہے ۔ آج کل ایصالِ ثواب کے لئے جو مختلف رسمیں اور صورتیں مثلاً تیجہ ( سوئم ) ، دسواں ، چالیسواں ، سالانہ عُرس، ميلاد ، جمعرات يا كسي اور مخصوص دن کو جمع ہونا وغیرہ کی شکل میں یا اجتماعی قرآن خوانی کی صورت میں یا مروّجہ ختم کی صورت میں - مروجه ذكر كي صورت ميں رائج ہو گئی ہیں، یہ سب بدعت اور ناجائز ہیں، ان رواجی طریقوں میں شرکت کرنےاورکھانا کھانے سے اجتناب کیا جائے بالخصوص اگر میت کے ترکہ میں سے خیرات کی گئی ہواورورثاء میں بعض نابالغ ہوں یا ورثاء عاقل بالغ ہوں لیکن ان کی دلی رضامندی کے بغیر یہ خیرات کی گئی ہوتواس کا کھانا تو ہرگزجائز نہیں - والله عالم ۔
سوال: کیا فرماتے هيں علمائے دين اور مفتيان عظيم بيچ إس مسئله كے كه كيا إيصال ثواب كے لئے مروجه قرآن خوانی اور مروجه مجالس ذكر وغيره جائز ہيں ۔۔۔؟یعنی چند لوگوں کو جو قرآن پڑھنا جانتے ہوں ایک جگہ بلا کر ان سے قرآن پڑھوایا جائے۔ إسي طرح لوگوں كو مخصوص طريقه سے ذكر كے لئے جمع كيا جائے اور آخر میں کھانے پینے كا إهتمام بهي كرليا جائے يا كهانے پينے کی چیزیں شركاء كو بانٹ کر اجتماعی دعا کروائی جائے۔۔۔؟؟
------الجواب حامداً و مصلیاً ------
ایصالِ ثواب فی نفسہ جائز اور باعثِ اجر و ثواب ہے،لیکن اس کے لئے کوئی خاص طریقہ یا دن یا وقت یا اجتماعی کیفیت شرعاً مقررنہیں،بلکہ ہرشخص انفرادی طورپرکوئی بھی نفل عبادت کرکےایصالِ ثواب کرسکتا ہے، مثلاً نفل نمازیں،نفل روزے،نفل حج و عمرہ، قرآنِ کریم کی تلاوت، تسبیحات، کلمۂ طیبہ، درود شريف وغيره پڑھ کریا حسبِ توفیق نقد رقم یا کھانا وغیرہ صدقہ خیرات کرکے یا تعمیر مساجد ودینی مدارس یا دینی و مذہبی کتابوں کی فی سبیل اللہ اشاعت کرکے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے کہ اے اللہ میرے اس عمل کا جو کچھ ثواب آپ نے مجھے عطا فرمایا ہے وہ ثواب فلاں شخص کوپہنچا دیجئے بس اس سے مرحوم کو ثواب پہنچ جائے گا،ایصالِ ثواب کی حقیقت شریعت میں فقط اتنی ہی ہے ۔ آج کل ایصالِ ثواب کے لئے جو مختلف رسمیں اور صورتیں مثلاً تیجہ ( سوئم ) ، دسواں ، چالیسواں ، سالانہ عُرس، ميلاد ، جمعرات يا كسي اور مخصوص دن کو جمع ہونا وغیرہ کی شکل میں یا اجتماعی قرآن خوانی کی صورت میں یا مروّجہ ختم کی صورت میں - مروجه ذكر كي صورت ميں رائج ہو گئی ہیں، یہ سب بدعت اور ناجائز ہیں، ان رواجی طریقوں میں شرکت کرنےاورکھانا کھانے سے اجتناب کیا جائے بالخصوص اگر میت کے ترکہ میں سے خیرات کی گئی ہواورورثاء میں بعض نابالغ ہوں یا ورثاء عاقل بالغ ہوں لیکن ان کی دلی رضامندی کے بغیر یہ خیرات کی گئی ہوتواس کا کھانا تو ہرگزجائز نہیں - والله عالم ۔