دینِ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات
دینِ اسلام صرف مذہب نہیں بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اسلام کی تعلیمات زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہیں۔ آپ اپنی زندگی کے کسی بھی حصے میں ہوں، آپ نے کوئی بھی کام کرنا ہو یا آپ نے کوئی بھی فیصلہ لینا ہو آپ کو سب سے بہترین رہنمائی اسلام کے بنیادی اصولوں میں ہی ملے گی۔ دینِ اسلام صرف عبادتوں یا ریاضتوں تک محدود نہیں، اللہ تعالیٰ نے عبادتوں کے ساتھ ساتھ مكمل معاشرتی تعلیمات بھی دی ہیں جن پر عمل کرکے ہم معاشرے میں محبت و اتفاق سے رہ سکتے ہیں۔
دینِ اسلام صرف مذہب نہیں بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اسلام کی تعلیمات زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہیں۔ آپ اپنی زندگی کے کسی بھی حصے میں ہوں، آپ نے کوئی بھی کام کرنا ہو یا آپ نے کوئی بھی فیصلہ لینا ہو آپ کو سب سے بہترین رہنمائی اسلام کے بنیادی اصولوں میں ہی ملے گی۔ دینِ اسلام صرف عبادتوں یا ریاضتوں تک محدود نہیں، اللہ تعالیٰ نے عبادتوں کے ساتھ ساتھ مكمل معاشرتی تعلیمات بھی دی ہیں جن پر عمل کرکے ہم معاشرے میں محبت و اتفاق سے رہ سکتے ہیں۔
خالقِ کائنات نے دینِ إسلام کے یہ اصول سمجھانے کے لئے اپنے پیارے محبوب رسول كريم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو رحمت للعالمین بنا کر بھیجا اور رسول كريم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان تمام اصولوں کا عملی نمونہ اپنی زندگی میں بھرپور طریقے سے پیش کیا۔
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اسوہ حسنہ کا بہترین نمونہ ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم تمام جہانوں کے لئے رحمت ہیں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہمیشہ محبت و یگانگت کا درس دیا۔
دینِ اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مسلمان کسی بھی دوسرے مسلمان کو اذیت و تکلیف نہ پہنچائے اور نہ ہی اس کا سبب بنے۔ اس حوالے سے قران کریم کی متعدد آیات اور احادیث مباركه موجود ہیں جن میں کسی بھی مسلمان کو کسی دوسرے انسان بالخصوص مسلمان کو اذیت و تکلیف پہنچانے سےسختی سے منع کیا گیا ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نےارشاد فرمایا
“کامل مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔”
“کامل مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔”
اس حدیث مباركه سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دین اسلام میں انسانوں کے حقوق کا بہت خیال رکھا گیا ہے، چاہے وہ چھوٹے چھوٹے مسائل سے متعلق ہوں یا ان کا تعلق بڑے مسائل سے ہو۔ انہی میں سے ایک مسئلہ راستے کے حقوق کا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم بڑے مسائل کو حل کرنے کؤ لئے سر توڑ کوششیں کرتے ہیں، علمائے کرام سے مشورے کرتے ہیں لیکن چھوٹے چھوٹے معاملات پر ہم نظر ہی نہیں ڈالتے۔
ہمارے ہاں راستے بند کرنا اتنا عام ہوچکا ہے کہ اب یہ ہماری قومی عادت بن چکی ہے۔ کوئی خوشی کا موقع ہو یا غمی کا کسی کی شادی ہو، مہندی ہو یا ولیمہ، کوئی نئی زندگی کا آغاز کرے یا اس کی زندگی کا اختتام ہو ہم سب سے پہلے ٹینٹ لگا کر گلی، محلے، چوک، چوراہے کو بند کرتے ہیں۔ ہمارے اس عمل سے چاہے پورے محلے کو اذیت پہنچے ہمیں اس سے كوئي سروكار نهيں
کسی اسکول نے اپنے نتائج کا اعلان کرنا ہو، کسی مذہبی جماعت نے محفل میلاد منانا ہو سب سے پہلے راستہ بند کیا جاتا ہے۔ کہیں دھرنا دینا ہو یا کہیں احتجاج کرنا ہو لوگ سڑکوں پر بیٹھ کر سب سے پہلے راستہ بند کرتے ہیں۔ حکومت نے خود کبھی عوام کو کسی دھرنے میں شریک ہونے سے روکنا ہو تو وہ سڑکوں پر بڑے بڑے کنٹینرز رکھ کر راستے بند کر دیتی ہے۔
راستے بند کرنے سے متعلق دینِ اسلام میں واضح احکامات موجود ہیں۔ راستے کے حقوق سے متعلق متعدد احادیث مروی ہیں جن میں مختلف احکامات ملتے ہیں۔ حضرت ابو سعید خدری روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا
راستوں پر بیٹھنے سے پرہیز کرو، صحابہ کرام نے عرض کیا کہ ہماری مجبوری ہے کہ ہم محفل جماتے ہیں اور آپس میں گفتگو کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا، اگر اتنی ہی مجبوری ہے تو راستے کا حق ادا کرو”۔ صحابہ نے پوچھا راستے کا حق کیا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے أرشاد فرمایا
نظروں کو جھکا کر رکھو، تکلیف دہ چیز کو دور کرو، سلام کا جواب دو اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرو”۔
نظروں کو جھکا کر رکھو، تکلیف دہ چیز کو دور کرو، سلام کا جواب دو اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرو”۔
دینِ اسلام کے بنیادی رکن میں سے نماز ایک رکن ہے اور نماز پڑھنے سے متعلق قرآن کریم اور احادیث مباركه میں متعدد جگہ ارشادات وارد ہوئے ہیں۔ جہاں نماز پڑھنے سے متعلق ارشادات ہوئے وہیں ایک حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے چلتے راستے میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ جب آپ کسی پاک صاف راستے میں نماز نہیں پڑھ سکتے تو ایسی جگہ پر کوئی دھرنا، شادی، مہندی، قل، ختم، کوئی میلاد وغیرہ کیسے کرا سکتے ہیں؟
اسلام دینِ رحمت ہے۔ اس کی تبلیغ و اشاعت کسی کے لئے زحمت بنا کر نہ کیجئے۔ یہ عمل کسی صورت آپ کے یا عوام کے لئے باعث خیر نہیں ہوگا۔ جب ہم کسی جائز و ناجائز مطالبے کے لئے دھرنا دے کر بیٹھتے ہیں یا کوئی سڑک وغیرہ کو عام ٹریفک کے لئے بند کرتے ہیں تو ہم عام عوام سے اس کا حق چھینتے ہیں۔ بے شک دینِ اسلام میں کسی کا حق چِھیننے کی کوئی گنجائش نہیں۔
انسان کے بنیادی حقوق کا یہ تقاضا ہے کہ اگر آپ حالتِ جنگ میں بھی ہوں تو آپ نہتے عوام کو خوراک، پانی اور صحت سے دور نہیں رکھ سکتے، آپ هسپتال جانے کے راستے بند نہیں کر سکتے اور یہ رواج ساری دنیا میں عام ہے۔ ہمارے ہاں گنگا الٹی بہتی ہے ہم اپنے مطالبات منوانے کے لئے سب سے پہلے راستے بند کرتے ہیں۔ دکانیں، کاروباری مراکز، تعلیمی ادارے اور دفاتر بند کرواتے ہیں۔
اگر آپ کے دھرنے سے غریبوں کے چولہے ٹھنڈے پڑ جائیں، کسی غریب کے بچے بھوکے سوئیں اور بیمار و لاچار لوگ هسپتالوں کو نہ جاسکیں تو آپ کوئی نیکی کا کام نہیں کر رہے نہ ہی خیر بانٹ رہے ہیں۔ آپ اس علاقے یا راستے کے نہیں آپ انسانیت کے گناہ گار ہیں۔ آپ لوگوں سے ان کا بنیادی حق چھین رہے ہیں، آپ غاصب ہیں جس کی اجازت نہ آپ کو آپ کا دین دیتا ہے، نہ حکومت، نہ ریاست اور نہ ہی کوئی قانون۔ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں غاصبین کے لئے سخت عذاب کی وعید سنائی ہے۔ المختصر يه كه آپ کے جس عمل سے راہ چلنے والوں کو تکلیف پہنچ رہی ہوگی، وہ آپ کے لئے آخرت میں وبالِ جان بن جائے گا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم كا يه ارشاد همارے غوروفكر كے لئے كافي هے کہ
جس نے مسلمانوں کو ان کے راستے میں ایذا پہنچائی اس پر مسلمانوں کی لعنت ثابت ہوگی ۔
جس نے مسلمانوں کو ان کے راستے میں ایذا پہنچائی اس پر مسلمانوں کی لعنت ثابت ہوگی ۔
(طبرانی)
الله تعالى هميں سمجهـ عطا فرمائے اور عمل كي توفيق عنايت فرمائے - آمين
الله تعالى هميں سمجهـ عطا فرمائے اور عمل كي توفيق عنايت فرمائے - آمين
====