نمازوں كو إطميناں سے ادا كرنا

نمازوں كو إطميناں سے ادا كرنا
إيك مسلمان كيلئے كلمه شهادت كے بعد سب سے إهم فرض عبادت نماز هے ليكن بدقسمتي سے أمت كي إيك بڑي تعداد تو نماز كي ادائيگي هي سے محروم هے اور جو لوگ نماز كا إهتمام كرتے هيں اور اپنے آپ كو نمازي بهي كهتے اور سمجهتے هيں وه بهي نمازوں کی ادائیگی کے سلسلہ میں کئی طرح کی خرابیوں میں مبتلا ہيں لیکن ایک عام کوتاہی جو مشاہدہ میں آرہی ہے وہ یہ ہے کہ نمازوں کو بڑی جلدبازی کے ساتھ بہت ہی بری طرح ادا کیا جاتا ہے؛ قرأت میں ترتیل کا اور رکوع ، سجود ، قومہ اور جلسہ میں اطمینان و سکون اور اعتدال کا بالکل خیال نہیں رکھا جاتا چہ جائیکہ خشوع و خضوع کا اہتمام کیا جائے۔  

نماز کے متعلق رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم نے خصوصاً یہ ارشاد فرمایا:
’’ نماز پڑھو جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو‘‘۔( بخاری )
اس لئے یہ ضروری ہے کہ ہماری نمازیں اسی ہیئت اور کیفیت کے ساتھ ہوں جیسے رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم کی نمازیں ہوا کرتی تھیں۔ رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم نماز کے تمام ارکان کو اعتدال و اطمینان کے ساتھ ادا فرماتے تھے۔چنانچہ حضرت انس بن مالک رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ میں نے کسی کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جو رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم سے زیادہ مختصر اور مکمل نماز پڑھتا ہو۔
رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم جب( ركوع سے أٹهتے هوئے) "سَمِعَ اللّٰہُ لِمَن حَمِدَہُ  " کہتے تو کھڑے رہتے یہا ں تک کہ ہم یہ خیال کرتے کہ آپ صلى الله عليه وآله وسلم بھول گئے ہیں (یعنی سجدے میں جانا بھول گئے)۔اس کے بعد آپ صلى الله عليه وآله وسلم تکبیر کہتے اور سجدہ کرتے اور دو سجدوں کے درمیان اتنی دیر تک بیٹھتے کہ ہمیں خیال ہوتا کہ آپؐ بھول گئے ہیں۔(سنن ابوداؤد ، کتاب الصلوٰۃ)۔ 
براء بن عازب رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ نبی كريم صلى الله عليه وآله وسلم کا رکوع اور آپ صلى الله عليه وآله وسلم کے سجدے، اور دونوں سجدوں کے درمیان کی نشست اور(وہ حالت) جب کہ آپ صلى الله عليه وآله وسلم رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تھے (یعنی قومہ) تقریباً برابر ہوتے تھے، سوائے قیام اور قعود (یعنی تشہد کی حالت) کے۔(بخاری۔ کتاب الاذان))۔
نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم صحابہ کرام رضوان الله عليهم کو ایسی ہی نماز پڑھنے کا طریقہ سکھاتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ رضي الله تعالى عنه روایت کرتے ہیں (کہ ایک مرتبہ) نبی صلى الله عليه وآله وسلم مسجد میں تشریف لے گئے، اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے نماز پڑھی اس کے بعد نبی كريم صلى الله عليه وآله وسلم ؐکی خدمت میں حاضر ہوکر اس نے سلام عرض کیا تو نبی كريم صلى الله عليه وآله وسلم نے اسے سلام کا جواب دے کر فرمایا کہ جا پھر نماز پڑھ اس لئے کہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔اس نے پھر نماز پڑھی اس کے بعد آیا اور نبی كريم صلى الله عليه وآله وسلم کو سلام کیا، آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا کہ جا پھر نماز پڑھ اس لئے کہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔اس طرح تین بار ہوا ۔تب اس نے کہا کہ جس نے آپ صلى الله عليه وآله وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اس ذات کی قسم! میں تو اس سے اچھی نماز نہیں پڑھ سکتا، لہٰذا آپ صلى الله عليه وآله وسلم مجھے تعلیم فرما دیجئے تو آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا کہ جب تو نماز کے لئے کھڑا ہو تو تکبیر کہہ پھر جس قدر قرآن آسانی کے ساتھ پڑھ سکے وہ پڑھ، اس کے بعد رکوع کر یہاں تک کہ جب اطمینان سے رکوع کرلے تو اس کے بعد سر اٹھا یہاں تک کہ سیدھا کھڑا ہوجا اس کے بعد سجدہ کر پھر جب اطمینان سے سجدہ کرچکے تو اس کے بعد سر اٹھا کر اطمینان سے بیٹھ جا اس کے بعد دوسرا سجدہ کر یہاں تک سجدہ اطمینان سے ادا ہو، پھر اپنی پوری نماز میں اسی طرح کر( یعنی پوری نماز اس طرح ادا کر)۔ (بخاری، کتاب الاذان)۔
یہ صحابی خلادؓ بن رافع رضي الله تعالى عنه تھے جنہوں نے رکوع اورسجدہ پوری طور پر ادا نہیں کیا تھا اسی لئے نبی کریم صلى الله عليه وآله وسلم نے انہیں نماز لو ٹانے کا حکم فرمایا۔ آخری بات یہ ہے کہ کامیابی کی ضمانت اس نماز کے ساتھ ہے جو خشوع وخضوع اور صفت ِاحسان کے ساتھ پڑھی جائے۔اتنی جلد بازی کی نماز جن میں رکوع و سجود بھی صحیح سے ادا نہ ہوں اور جو سنّتوں سے عاری ہو ان میں صفت احسان ( اللہ کے دھیان) کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے جب ہم اپنا قیمتی وقت خرچ کرتے ہی ہیں تو نمازوں کو سنوارنے کی بھی فکر کریں اور ائمہ کو تو اور بھی محتاط ہونا چاہیے کیوں کہ وہ خود کے علاوہ مقتدیوں کی نماز کے بھی ضامن ہیں اور ان پر مقتدیوں کے اصلاح کی ذمہ د اری بھی ہے۔
اللہ پا ک ہم سب کو عمل کی توفیق عنایت فرمائے ۔ آمین يا رب العلمين
----------
Share: